متفرق مضامین

سفر خود سفر کا حاصل ہے

(محمد انیس دیال گڑھی۔جرمنی)

غالب نے کہا تھا کہ

لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی

ہوسِ سیر وتماشا، سو وہ کم ہے ہم کو

لیکن ہم کہ ہمیشہ سے سیروتماشا کے شوقین ودلدادہ ٹھہرے لہٰذا جونہی اخبار احمدیہ جرمنی کی ٹیم کے ساتھ سوئٹزرلینڈ کے دورہ کی پیش کش ہوئی تو فوراً تیارہوگئے اور جب یہ سنا کہ دیرینہ کرم فرما مکرم محمود الرحمٰن انورصاحب نیشنل سیکرٹری امور خارجیہ سوئٹزر لینڈبھی ہم سفر ہوں گے تو مزیدخوشی ہوئی کہ اب تو خوب گزرے گی ؎

عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں

اور یہ نہ سوچا کہ اس میں دوچار سخت مقام آئیں گے۔پروگرام یوں تھا کہ پہلے روز جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کا دورہ کرکے اِنٹرفیتھ ڈائیلاگ کے نویں اجلاس میں شرکت کی جائے اور اگلے روز یورپین تحقیقاتی سنٹر CERNکا دورہ کرکے وہاں ہونے والی تحقیقات سے تعارف حاصل کیا جائے۔انتظار کی گھڑیاں زیادہ لمبی نہ تھیں۔ ۸؍فروری کو چھ بجکر دس منٹ پر ہم لوگ فرینکفرٹ سے Basel جانے کے لیے انٹرسٹی میں عازم سفر تھے۔آٹھ بجکر پچپن منٹ پر ٹرین کی باسل آمد پر مکرم محمودالرحمٰن انورصاحب ہمارے انتظار میں موجود تھے۔

Basel اسٹیشن سے سیدھے مکرم اسجد صاحب کے ہاں پہنچے کہ انہوں نے مکر م مولانا محمد الیاس منیر صاحب کی آمد کا سُن کر خاص طور پر کھانے کی دعوت دی تھی جس سے ہمارا بھی بھلا ہوگیا۔

دیا ہے خلق کو بھی تا اُسے نظر نہ لگے

بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے

پُرتکلف کھانے،چائے اور نمازوں کی ادائیگی کےبعد مکرم انورصاحب کے ہاں پہنچے اور رات بسر کی۔ یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ اس قافلہ میں مکرم مولانا محمد الیاس منیر صاحب مدیر اعلیٰ اخبار احمدیہ جرمنی،مکر م حسنات احمد صاحب نائب امیر جرمنی اور مکرم آفاق احمد زاہد صاحب اور خاکسار شامل تھے۔

اگلے روز ۹؍ فروری کو پُرتکلف ناشتے اور پُر لطف گفتگو کے بعد تقریباً دس بجے مکرم انورصاحب کی نئی اور آرام دہ گاڑی میں باسل سے جنیوا روانہ ہوئے۔سوئٹزرلینڈ کو خدا تعالیٰ نے قدرتی حسن سے وافر حصہ عطا فرمایا ہے۔ خوبصورت اور دلکش نظاروں سے محظوظ ہوتے ہوئے بارہ بجکر پینتیس منٹ پر جنیوا پہنچے۔چیکنگ کے بعد اقوام متحدہ کے دفتر میں داخل ہوئے۔عمارت میں داخلے کے بعد اس کی خستہ حالی پر نظر پڑی اور حیر ت بھی ہوئی پھر اُن بینرز پر نظر پڑی جو جابجا آویزاں تھے کہ اقوام متحدہ آجکل مالی بحران کا شکار ہے کیونکہ بعض ملکوں نے مالی امداد بند کردی ہے جس سے بجٹ پر بُرا اثر پڑا ہے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اَور کوئی نہیں ہوسکتی کہ بعض ممالک اپنی مرضی کے فیصلےکروانے بلکہ ٹھونسنے کے خواہش مند ہیں۔

اسی عمارت میں واقع ایک کینٹین میں بیٹھ کر دوپہرکا کھانا کھایا جو مچھلی اور چاول پر مشتمل تھا۔کھانے کے بعد اسی عمارت کے ایک کمرے میں جوکہ نمازوں کی ادائیگی کے لیے مختص تھا نمازیں ادا کی گئیں اور پھر بڑے ہال میں براجمان ہوئے جہاں جابجا صوفے اور کرسیاں پڑی تھیں اور لوگ محوِ  گفتگو تھے۔انورصاحب کا تعارف اور حلقۂ احباب بہت وسیع ہے لہٰذا بہت سے احباب وخواتین سے بات چیت ہوئی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن میں فرانس کے نمائندہ (جسے سفیر کا رتبہ حاصل ہوتاہے ) سےکافی لمبی بات ہوئی جو کہ جماعت احمدیہ سے اچھی طرح متعارف تھے۔انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے نویں اجلاس کا وقت تین بجے تھا مگر یہ پندرہ منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تب بھی سارے نمائندے حاضر نہ تھے، اجلاس کے دوران آتے جاتے رہے۔اسی موقع پر حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ یاد آئے جنہوں نے اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بَروقت شروع کرنے کی رسم ڈالی۔ اس سے قبل وہاں بھی وقت کی پابندی ضروری نہ تھی۔ انٹر فیتھ کے اس اجلاس کے آغاز میں انعقاد کی غرض وغایت بتائی گئی اور پھر مذہبی نمائندوں کے ساتھ بعض ممالک کےنمائندوں نے بھی اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ہمارا خیال تھا کہ اجلاس کے آخر پر کوئی قرار داد پیش ہوگی یا رائے شماری ہوگی کہ اگر مذہب رواداری،تحمل اور احترام سکھاتا ہے توپھر اس پر عمل بھی ہونا چاہیے مگر ؎

اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

اجلاس کے اختتام پر تنزانیہ،قطر اور بعض دیگر ممالک کے سفراء سے ملاقات ہوئی۔

شام چھ بجے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے کے ہائی کمشنر کے دفتر میں ان کی نائبہ خاتون محترمہ Imma Guerrasصاحبہ کے ساتھ مکرم انورصاحب کی ملاقات طے تھی۔موصوفہ بچوں اورنوجوانوں کے حقوق کی نگہداشت پرمقرر ہیں اور دنیا بھر میں اس بات کا جائزہ لیتی ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کے حقوق ان کو میسر ہوں۔انورصاحب نے جماعتی نظام اور خاص کر ناصرات الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ کا تعارف کروایا کہ ہمارا تو موٹو ہی یہی ہے کہ نوجوانوں کی اصلاح کےبغیر معاشرے کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ان کی تربیت اور حقوق کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ جماعت کی افریقہ میں خدمات کا ذکر بھی کیا جہاں بچوں کے لیے سکول اور ہسپتال بھی بنائے جاتے ہیں۔

اس ملاقات کے بعد ہم سب مکرم ومحترم ڈاکٹر قاضی شمیم صاحب کے ہاں شام کے کھانے پر مدعو تھے۔ ہماری آمد پر کھانا تیار تھا۔ بھوک بھی تھی لہٰذا کھانے سے پورا انصاف کیا۔انہوں نے نہایت خلوص کے ساتھ محض للّٰہی تعلق کی وجہ سے پُرتکلف کھانا پیش کیا۔ کھانےکےبعد نہایت مزیدار قہوہ بھی پینےکو ملا۔محترم ڈاکٹر قاضی صاحب نے کہا کہ میرا تعلق پشاور سے ہے لہٰذا قہوہ میں نے تیار کیا ہے جبکہ باقی تکلّف اہلیہ نے کیا ہے۔اللہ تعالیٰ اُن کے اس خلوص کی بہترین جزا عطا فرمائے آمین۔

انہوں نے اپنے گھر کے تہ خخانے میں مسجدبھی بنا رکھی ہے۔ وہاں باجماعت نمازیں ادا کیں اور خدا کی حمد وتوصیف کی کہ دنیا کےہر کونے میں احمدی مسلمانوں کو مادی اور روحانی غذاؤں سے نوازا ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔

شب بسری کے لیے فرانس کے ایک قصبہ Ferney Volteire کے ایک ہوٹل میں انتظام تھا جو جنیوا سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔ تھکے ہوئے تو تھےہی اور کھانا بھی کھالیا تھا لہٰذا ایک دوسرے کو شب بخیر کہا اور خوابِ خرگوش کےمزےلیے۔

۱۰؍فروری کو سوئٹزرلینڈ اور فرانس میں واقع سائنسی تحقیقاتی مرکز CERNکا دورہ کرنا تھا لہٰذا ناشتہ کےبعد روانگی ہوئی۔

ہماری زندگی کا خوش کن دن وہ تھا جب سکول سے فارغ ہوکر پڑھنےلکھنے سے جان چھوٹی۔ کیا خبر تھی کہ کئی برسوں بعد قدرت ہمیں یوں کسی ریسرچ سنٹر کے سامنے لاکھڑا کرےگی۔

دس بجکر چالیس منٹ پر ہم لوگ وہاں تھے اور محترمہ ڈاکٹر منصورہ شمیم صاحبہ ہماری پذیرائی کے لیے پہلے سے وہاں موجود تھیں۔موصوفہ ایک مخلص احمدی گھرانے سے تعلق رکھنے والی سائنسدان ہیں جو ۲۰۰۸ء سے اس ریسرچ سنٹر میں کام کررہی ہیں۔

CERNجانے سے قبل ہم نے حسنات صاحب سے کچھ جاننے کی کوشش کی کہ وہ بھی فزکس کےماہر ہیں، کئی سوال پوچھے جس کےانہوں نے جواب بھی عطا کیے مگر ہمیں دماغ کہاں تھا کہ یہ سب کچھ سمجھتے اور ویسے بھی اب یہ جاننے کا کیا فائدہ ؟جو باتیں ہم کئی برسوں میں نہ سیکھ سکے وہ چند منٹوں یا گھنٹوں میں کہاں پلّے پڑتیں۔مکرم حسنات صاحب کے بعد محترمہ ڈاکٹر منصورہ شمیم صاحبہ نے بھی بہت کوشش کی کہ کچھ تو سمجھ جائیں اور ہم نے بھی صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے سوالات کی بوچھاڑ کی کہ ہمیں بھی کچھ نہ کچھ تودلچسپی ہے۔ آفرین ہے محترمہ پر کہ ہمارےبار بار کے پوچھنے اور نہ سمجھنےکے باوجود انہوں نے نہایت تحمل اور بُردباری سے جواب دیے اور قطعاً بُرا نہ منایا اور یہ نہیں سوچا کہ یہ جاہل سمجھنے والا نہیں،لہذا ؎

مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

اس مصرعہ سے یاد آیا کہ دورانِ گفتگو خاکسار نے ادبی رعب جھاڑنے اور یہ بتانے کے لیے کہ گو مجھے سائنس سے کوئی تعلق نہیں مگر شعر وشاعری سے تو شغف ہے چند ایک اشعار سنا دیے لیکن یہاں بھی مجھے منہ کی کھانی پڑی جب موصوفہ نے غالب کا ایک شعر غلط پڑھنے پر تصحیح کی۔یقین جانیے اگر اس وقت وہاں کوئی دھماکہ ہوجاتا تو شاید مجھے اس کی خبر نہ ہوتی مگر ان کے اس وصف اور خوبی کو جان کر ایک لمحہ کےلیے تو بھونچکا رہ گیا۔ مولانا الیاس منیر صاحب نے بعد میں بتایا کہ محترمہ ادب اور شعر وشاعری کا عمدہ ذوق رکھتی ہیں۔اب ہمیں مولانا پر غصہ آیا کہ پہلے کیوں نہ بتایا۔جب حیرانی دور ہوئی تو سوچا کہ مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی اردو ادب کا بہت عمدہ بلکہ بلند پایہ ذوق رکھتے تھے اور فیض میموریل سوسائٹی میں ان کا لیکچر تو ایسا ہے گویا کسی عظیم شاعر یا ادیب کا لیکچر ہو۔ پھر خیال آیا کہ شاعری میں تخیل کے ساتھ ساتھ بحور واَوزان کا خیال رکھا جاتا ہے اور ربط اور توازن ہے۔جبکہ کائنات میں بھی یہی توازن،عدل اور ترتیب کارفرما ہے۔

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَ

CERNکا تحقیقاتی مرکز بھی اسی نظام کو سمجھنے بلکہ اس کائنات کے آغاز کو سمجھنےکی کوشش ہے۔یہ مرکز ۱۹۵۴ءمیں معرض وجود میں آیا۔ اسی ریسرچ سنٹر میں ڈاکٹر محمد عبد السلام صاحب مرحوم ومغفور کی تھیوری کے تجرباتی ثبوت دریافت کیے گئے تھے۔ویب سائٹ WWWکا آغاز بھی اسی مرکز سےہوا۔اسی طرح CTسکین مشین کا خیال بھی یہیں دریافت ہوا۔غرض بہت سی تحقیقات یہاں ہوئیں اور نئی دریافتیں بھی۔

اس تحقیقاتی مرکز میں سو میٹر زیر زمین،ستائیس کلومیٹر لمبی سرنگ کے اندر لارج ہیڈرون کولائیڈر (LHC) بہت سے سوالات کے جواب فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ LHC پروٹونز کی دو شعاعوں کو تقریباًروشنی کی رفتار کی حد تک تیز کردیتا ہے۔ دو مخالف اطراف میں حرکت کرنے والی شعاعوں کو انسانی بال کی باریکی سے بھی باریک بنایا جاتا ہےاور LHC رِنگ کے ارد گرد چار مختلف مقامات پر ایک دوسرے سے ٹکرانے کے لیے قریب لایا جاتا ہے جہاں ATLAS، CMS، ALICE اور LHCb موجود ہیں۔ شعاعوں کی رفتاراورتوانائی بڑھانے کے لیےسرنگ میں جگہ جگہ طاقتور مقناطیس لگائے گئے ہیں۔ جب LHC میں ٹکرانے والے ذرات ٹوٹ جاتے ہیں تو نئے ذرات پیدا ہوتے ہیں۔ نئے ذرات کا پتہ لگانے والے انتہائی جدید آ لات، جنہیں ڈیٹیکٹر کہتے ہیں اور جو ہائی ریزولوشن کیمروں کے طور پر کام کرتے ہیں، کی مدد سے نئے ذرات پر مشتمل ڈیٹا کا تجزیہ کرکے ذرات کی خصوصیات اور ان میں موجود قوتوں کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

کائنات کا آغاز ایک بڑے دھماکے Big Bangسے ہوا جس کے نتیجہ میں کئی تدریجی مراحل سے گزر کر کائنات آج اس صورت میں موجود ہے اس تحقیقا تی مرکز میں شعاؤں کےٹکراؤ کے نتیجہ میں وہی حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو ہماری کائنات کی پیدائش کے وقت ہوئے تھے۔ یہ حالات انسان کے ذہن میں اٹھنے والے اس سوال کا جواب دینے میں مددگار ہو سکتے ہیں کہ میں اور میری کائنات کب اور کیوں کر وجود میں آئے ؟

یارب! یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اٹھا

لہٰذا اس مسئلہ کو آغاز سے اٹھانے کے لیے یہاں ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ اس ابتدائی ٹکراؤ یا دھماکے کے وقت کیا حالات تھے۔؎

سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا

اس ریسرچ سنٹر کی سڑکوں کے نام عظیم سائنسدانوں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔محترم محمد ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے نام پر بھی ایک سڑک ہے جہاں کھڑے ہوکر ہم نے تصویر بنوائی اور فوراً بچوں کو بھیجی تو بڑی بیٹی عزیزہ نعیمہ انیس نے اسی وقت اپنی تصویر مجھے بھیجی جو اُس نے ۲۰۱۲ء میں اسی سڑک پر کھڑے ہوکر بنوائی تھی جسے میں بھول چکا تھا۔الحمدللہ کہ نئی پود کا قدم ہم سے آگے ہے۔اب CERN کے اس تحقیقاتی مرکز میں ایک نیا اور بڑا سرکلر کولائیڈر بنانے کا کام شروع کیا جارہا ہے۔

دوپہر کا کھانا تحقیقاتی مرکز کی کینٹین میں کھایا۔اس دوران بھی محترمہ ڈاکٹر منصورہ شمیم صاحبہ سے سوالات ہوتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ادارے سے کئی دوسرے ادارے اور یونیورسٹیاں منسلک ہیں اور یہاں کی جانے والی تحقیقات ان کو بھیجی جاتی ہیں اور شائع بھی کی جاتی ہیں۔وقت کا پتا ہی نہ چلا اور شام ہونےلگی تو ہم سب نے محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت ہمیں عطاکیا۔اللہ تعالیٰ ان کی استعدادوں کومزید وسعت عطا فرمائے اور مزید کامیابیوں سے نوازے آمین۔

اگلے روز ۱۱؍فروری کو گیارہ بجکر بیس منٹ پر دعا کے ساتھ واپسی کا سفر شروع ہوا پروگرام یوں تھا کہ اب دوسرے راستے سے واپس جایا جائے جو کہ کوہ الپس سےہوکر گزرتا ہے جہاں عروسِ فطرت کےحسن کے دلفریب نظارے ہر قدم پر قدم تھام لیتےہیں۔ہم Berner Oberlandکی سمت گاڑی میں روانہ ہوئے۔قدرتی حسن سے بھرپور کوہ آلپس کی سربفلک اور برف پوش چوٹیوں کے سلسلے کے ساتھ ساتھ جنیوا جھیل کا دلکش نظارہ نرگس کی آنکھ سے دیکھتے اور کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرتے رہے۔غالب کی غزل کا حسنِ خود آرابے حجاب تھا اورشاعر کے محبوب کی زلفوں کی طرح پیچ دار، گیسوئے تابداراور گیسوئے خمدار کی طرح بل کھاتی سڑکیں اپنے خالق کی صناعی کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔

ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا

امام الزمان علیہ السلام کی یہ نظم پورے سفر میں ذہن میں حاضر رہی اور ہر شعر کا کسی نہ کسی رنگ میں ہر نظارے پر اطلاق ہوتارہا

اُس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے

مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا

ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارےہر طرف

جس طرف دیکھیں وہی راہ ہے ترے دیدار کا

کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص

کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا

تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں

کس سے کھل سکتا ہے پیچ اس عقدۂ دشوار کا

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. ماشاء اللہ،مکرم انیس دیال گڑھی صاحب نےمختصر مگر نہایت عمدہ اور دلچسپ سفرنامہ قارئین الفضل کے لئے پیش کیا ہے، جسے پڑھ کرخاکسار بہت محظوظ ہوا اور قارئین یقینا لطف اندوز ہوں گے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button