یادِ رفتگاں

ریجنل قائد خدام الاحمدیہ یارک شائر یوکے مکرم کمال آفتاب صاحب

(صباحت کریم۔ مربی سلسلہ۔ یو کے)

مغربی معاشرے میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے ایک مثالی خادم کا تذکرہ مقصود ہے۔ آزاد معاشرہ ہونے کی وجہ سے مادر پدر آزادی، غیر اسلامی روایات، لااُبالی پن کاعالم وغیرہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو مغربی معاشرے کے اکثر نوجوانوں میں نظر آتی ہیں۔ مذہب سے دوری، مادیت پرستی ہر شخص کو گھیرے ہوئے ہے۔ مگر ان ناخوشگوار حالات کے باوجود خدا کے فضل سے اکثر احمدی نوجوان مغرب میں بھی مثالی اور قابل تقلید کردار رکھتے ہیں۔ آج ایک خادم،ایک مقامی قائد، ایک ریجنل قائد، ایک داعی الی اللہ کمال آفتاب صاحب کی چند یادیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔

کمال آفتاب صاحب ابن مکرم رفیق آفتاب صاحب، حضرت سیٹھ اللہ دتہ صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے پڑپوتے تھے۔ آپ کی پیدائش یوکے کے ایک قصبے ہڈرزفیلڈ میں ہوئی۔ تعلیم و تربیت اسلامی ماحول میں والدین اور جماعت کے زیر سایہ حاصل ہوئی۔ آپ پیشے کے اعتبار سے Optometrist(عینک ساز) تھے۔ماں باپ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ آپ ایک مثالی، منفرد اور نہ بھلائی جانے والی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی وفات ۲۰۱۵ءمیں کینسر کے عارضہ سے ہوئی۔ آپ کی وفات پر دوردراز سے احباب جماعت، عہدے داران اور آپ کے عزیز و اقارب ہڈرزفیلڈ تشریف لائے۔ مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور مکرم امیر صاحب یوکے نے تدفین کے بعد دعا کروائی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس شخص کی نماز جنازہ چالیس مسلمان ادا کریں وہ بخشا جاتا ہے۔کمال آفتاب صاحب کی نماز جنازہ میں ملک بھر سے لگ بھگ چھ سو افراد شامل ہوئے۔ آپ کے جنازہ پر اکثریت خدام کی تھی نیز انگریز دوست اور غیر احمدی احباب کی بھی کثرت تھی۔ ہر آنکھ نم تھی۔ سابق ریجنل قائدیارک شائر ندیم احمد صاحب نے بتایا کہ جب کمال آفتاب صاحب ہسپتال میں سخت بیمار تھے بہت سے خدام کے فون بار بار ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے آتے رہے۔ بعض خدام نے کہا کہ شایدہی ہم نے زندگی میں کسی کام کے لیے اتنی شدت سےدعا کی ہو، جتنی کمال صاحب کی بیماری کا سن کے خدا تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کی ہیں۔

نمازوں میں باقاعدگی

خاکسار نے دو سال تک ہڈرز فیلڈ میں کمال آفتاب صاحب کو قریب سے دیکھا۔ باوجود مسجد سے فاصلے پر رہنے کے آپ فجر کی نماز، چھٹی ہوتی تو ظہر،عصر یا مغرب کی نماز کے لیے مسجد آتے۔ عشاء کی نماز میں تو باقاعدہ تھے۔ آپ اکثر خدام کو عمومی طور پر اور عاملہ ممبران کو خصوصاً نمازوں کی طرف نہ صرف توجہ دلاتے بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات بھی کرتے۔آپ نماز فجر کے لیے بعض خدام کو گھروں سے لے کر آتے۔

ہمدردی خلق

ایک واقعہ جو آپ کے بڑے بھائی یوسف آفتاب صاحب نے بتایاکہ ایک دفعہ آپ کی ایک ورک کولیگ اپنے بیٹے کی کسی ضرورت پر پریشان تھی،اسے رقم کی ضرورت تھی۔ اس کے بیٹے نے اپنا ایک قیمتی سوٹ بیچنے کے لیے لگایا ہوا تھا۔ کمال صاحب کو جب ساری بات کا پتا چلا تو آپ اپنی کولیگ کے بیٹے سے ملے اور اس سے وہ سوٹ اس کی اصل قیمت سے زیادہ پر خرید لیا۔ وہ سوٹ نہ آپ کے سائز کا تھا اور نہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، مگر صرف ایک ضرورت مند کی مدد کی خاطر آپ نے بھاری قیمت ادا کرکے اس سوٹ کو خرید لیا۔

آج کے زمانہ میں موبائل فون کی حفاظت کا خاص خیال رکھا جاتا ہےکیونکہ اس میں انسان کی پرسنل چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک خادم نے بتایا کہ کمال آفتاب صاحب ہڈرزفیلڈ کے گرد و نواح کے مختلف شہروںمیں بطور Optometrist کام کرتے تھے اور اس کے لیے کافی سفر بھی کرتے۔ ایک مرتبہ کام سے واپسی پر آپ نے سڑک کے کنارے ایک خاتون کو خراب گاڑی کے پاس پریشان کھڑادیکھا۔ آپ نے اپنی گاڑی اسی وقت روکی۔ اس خاتون کے پاس گئے اور اپنی مدد پیش کی۔ اس خاتون نے بتایا کہ اس کے فون کی بیٹری ختم ہوچکی ہےاور مدد کے لیے رابطہ کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔ کمال صاحب نے اسے اپنا فون استعمال کرنے کے لیے دیا۔ ایک دو جگہ فون کرنے کے بعد خاتون، کمال صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جب فون واپس کرنے لگی تو کمال صاحب نے اس خاتون کو فون اپنے پاس رکھنے کے لیے واپس دے دیا اور کہا وہ یہ فون اپنے پاس رکھ لے اور بعد میں آپ کے پتے پر بھجوادے۔ وہ خاتون کمال صاحب کا شکریہ ادا کرتے نہ تھک رہی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد کمال صاحب کو فون پوسٹ کے ذریعہ واپس آگیا اور ساتھ ایک کارڈ جس میں اس خاتون نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔

اسی طرح ایک دفعہ رات گئے خاکسار لندن سے ہڈرزفیلڈ کمال آفتاب صاحب کے ساتھ گاڑی میں آرہا تھا، ساتھ آپ کی والدہ بھی تھیں۔ رات کوئی ایک ڈیڑھ بجے کا وقت ہوگا جب ہم ہڈرزفیلڈ پہنچے۔ راستے میں مین روڈ پر ایک گاڑی رکی ہوئی تھی، اس کے اندر ایک جوڑا پریشان بیٹھا ہوا تھا۔ کمال صاحب نے اپنی گاڑی ایک سائیڈ پر لگائی اور اتر کر اس گاڑی کے پاس مدد کے لیے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس اپنی گاڑی میں آئے اور مجھے کہا کہ مربی صاحب ان کی گاڑی کی بیٹری خراب ہو گئی ہےاور گاڑی کو دھکا لگانے کی ضرورت ہے، آپ میرے ساتھ ان کی مدد کریںگے؟ خیر کچھ دیر دھکا لگانے کے بعد گاڑی چل پڑی اور وہ جوڑا ہمارا شکریہ ادا کرتے ہوئے چلاگیا۔

آپ اکثرجماعت سے کمزور تعلق رکھنے والے کے گھر یا ان کے کاموں وغیرہ پر ملنے جاتے اور اکثر خاکسارکو ساتھ لے جاتے،تاکہ خدام کے مسائل سن کر ان کی مددکریں اور انہیں جماعت سےمنسلک کرنے کی کوشش کریں۔ بہت سے خدام آپ سے اپنی ذاتی باتیں بھی کر لیتے اور آپ ہمیشہ ان کی مدد میں مصروف رہتے۔آج بھی جب خدام کے ساتھ بات ہو تو ہر مجلس میں آپ کا ذکرخیر ضرور کسی نہ کسی رنگ میں ہوتا ہے۔ ایسے بہت سارے واقعات ہیں جو آپ کی بنی نوع سے بے لوث ہمدردی اور شفقت کا نمونہ ہیں۔

دعوت الی اللہ

آپ کو تبلیغ کا بے حد شوق تھا، ہر جگہ ہر موقع پر ہر شخص کو آپ تبلیغ کرتے، کبھی سوشل میڈیا پر تو کبھی اپنے غیراحمدی دوستوں کو۔ کام پر اپنے ہر مریض کو جماعت کا تعارف کرواتے۔ ہڈرزفیلڈ میں جب بھی کوئی تبلیغی پروگرام ہوتا تو اکثر شاملین آپ کی تبلیغی کاوشوں سے آتے۔

ہر شخص کو امام الزمان حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا بتاتے اور خلیفۃ المسیح کی دنیا میں امن کے قیام کے لیے کاوشوں کا ہر موقع پر بڑے التزام کے ساتھ تذکرہ کرتے۔ اکثر مجھے رات گئے یا دن کے دوران آپ کے میسیجز آتے رہتے، کبھی اس ریفرنس کے لیے تو کبھی اس دلیل کے لیے۔آپ اکثر اپنے کام پر تبلیغی کاموں کو ترجیح دیتے۔ بارہا تبلیغی پروگراموں کے لیے آپ نے اپنے کام سے چھٹی بھی لی۔

ہسپتال میں اپنے علاج کےدوران بھی ڈاکٹروں اور دیکھ بھال کرنے والے سٹاف کو جماعت کا تعارف کروایابلکہ ایم ٹی اے لگوا کر سب کو ایم ٹی اےدکھاتے۔

خلیفۃ المسیح سے فدائیت کا تعلق

آپ کی ہر بات میں خلیفۃ المسیح کا تذکرہ ضرور ہوتا۔ خدام کو نصیحت کر تے تو یہ کہ خلیفۃ المسیح سے تعلق پیداکرو۔ غیروں سے گفتگو کرتے تو حضور کی امن کے قیام کے لیے عالمی کاوشوں کا بتاتے۔ حضور سے ملاقات کے لیے بڑے شوق سے جاتے اور ہمیشہ ہر کام کے آغاز میں باقاعدگی سے حضور انور کو دعائیہ خط لکھا کرتے۔ خدام کو لے کر لندن جاتے تا کہ وہ خلیفة المسیح کے پیچھے نماز ادا کریں اور امام وقت کے ساتھ جڑ جائیں۔

آپ کی ہمشیرہ بتاتی ہیں کہ آخری دنوں میں جب آپ ہسپتال میںزیر علاج تھے۔ تو ایک دن وہ آپ کے پاس تھیں۔ اس دن خدام الاحمدیہ یوکے کے سالانہ اجتماع کا آخری دن تھا۔ ایم ٹی اے پر حضور انور کا اختتامی خطاب لائیو آنے والا تھا۔ کمال صاحب کافی بیمار تھے، پاؤں کافی متورم تھے۔ بیماری اور تھکاوٹ سےنڈھال بستر پر لیٹے نیم مدہوشی میں ایم ٹی اےدیکھ رہے تھے۔ جب حضور انور تلاوت اور نظم کے بعد خدام سے عہد لینے کے لیے کھڑے ہوئے تو کمال صاحب بڑی پھرتی سے، اپنی تکلیف کا دھیان کیے بغیر متورم پاؤں پر کھڑے ہو گئے اور حضور انور کے پیچھے خدام الاحمدیہ کا عہد دہرانے لگے۔

بیماری کے دوران وفات سے قبل ڈاکٹر نے آپ کو بڑی مشکل سے کچھ دن گھر رہنے کی اجازت دی، بشرطیکہ ہر طرح سے احتیاط کی جائے اور مکمل بیڈ ریسٹ ہو۔ کمال صاحب جیسے ہی گھر گئے تو حضور سے لند ن جا کر ملاقات کرنےپر اصرار کرنےلگے۔ سب نے بہت سمجھایا کہ یہ ممکن نہیں ہے اس طرح نہ صرف بیماری میں اضافہ ہوگا بلکہ جان کا بھی خطرہ ہے۔لیکن آپ اپنے ارادے پر مصررہے۔بالآخر آپ کے دوست ڈاکٹر عزیز حفیظ صاحب نے آپ کو ڈاکٹری نقطہ نگاہ سے سمجھایا اور اپنے ارادے کو ٹالنے کا مشورہ دیا۔ مگر کمال صاحب پھر بھی ملاقات پر بضد رہے اور ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ انہیں لندن اپنی گاڑی میں ملاقات کے لیے لے کر جائیں۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ آپ کے اصرار پر میں آپ کو لندن ملاقات کے لیے لے کر گیا۔ ہڈرزفیلڈ سے لندن کا راستہ کم ازکم ۴ گھنٹے کا ہے۔آپ نے سارا راستہ بڑے صبر سے گزارا۔ میں جانتا تھا کہ آپ کس کرب سے گزر رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ ایک مرتبہ بھی ان کے منہ سے اُف تک نکلی ہو۔ بالآخر لندن پہنچے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف پایا۔حضور سے بہت سی باتیں کیں اور اپنے لیے دعا کی درخواست کی۔حضور نے بڑی شفقت سے آپ کو زیادہ وقت دیا۔ ملاقات کے بعد آپ کے چہرے پر ایک سکون تھا، جیسے سخت پیاسا اپنی پیاس بجھا کرجانبر ہوا ہو۔ اسی دن، رات گئے آپ واپس ہڈرز فیلڈ پہنچے۔ آپ اس بات پر پھولے نہ سماتے کہ حضور انور سے مل کر آیا ہوں۔

کمال آفتاب صاحب برطانیہ میں پیدا ہونے والے ایک مثالی نوجوان تھے۔ آپ کو جماعت سے گہری محبت تھی۔جماعتی خدمت کا بہت شوق تھا۔ جماعت کے چھوٹے سے چھوٹے کام کو اپنی دوسری تمام مصروفیات پر فوقیت دیتے۔اللہ تعالیٰ آپ کے نقش قدم پر چلنے والے بےشمار خدام پیدا کرے اور آپ کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے۔ آمین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ۱۴؍اگست ۲۰۱۵ء میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے آپ کا ذکرِخیر فرمایا:’’بیماری کے آخری ایام میں ہسپتال میں اپنے کمرے سے ہی لیکومیا ریسرچ کے لیے پچاس ہزار پاؤنڈاکٹھےکرنے کی مہم چلارہے تھے۔ زندگی کے آخری سانس تک بے نفس ہو کر مختلف پراجیکٹس میں انسانیت کی خدمت اور تبلیغ میں مصروف رہے۔خلافت سے نہایت اخلاص اور وفا کا تعلق تھا۔ بیماری اور کمزوری کے باوجود خدام الاحمدیہ کا جب اجتماع ہوا ہے تو اس موقع پر ہسپتال میں ہی اہتمام کرکے انہوں نے ٹی وی لگوایا اور وہاں سے میرا جو liveایڈریس تھا اس کو سنا…وفات سے چند دن پہلے مجھے ملنے بھی آئےتھے اور باوجود بیماری کی شدت کے بڑے حوصلے سے اور خوش مزاجی سے وقت گزاررہے تھے…ان کا ہمیشہ خلافت سے بڑا وفا کا اظہار اور تعلق تھا…بی بی سی،آئی ٹی وی اور بلفاسٹ ٹیلیگراف وغیرہ نے ان کی وفات پر آرٹیکل شائع کیے۔ معروف شخصیات نے سوشل میڈیا پر کمال صاحب کو خراج تحسین پیش کیا…آئی ٹی وی کی جرنلسٹ Heather کلارک کہتی ہیں کہ بطور صحافی مجھے الفاظ کی کمی نہیں ہونی چاہیے لیکن کمال صاحب کی وفات پر دلی افسوس ہے کہ اچھے لوگ دنیا سے اتنی جلدی رخصت ہو جاتے ہیں…جماعتی خدمت کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ حقیقی طور پر اپنے عہد کا پاس کرنے والے تھے۔ بطور داعی الی اللہ کامیاب مبلغ تھے…غرض کہ بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔‘‘(آمین)

(الفضل انٹر نیشنل ۴ تا ۱۰ ستمبر ۲۰۱۵ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button