حاصل مطالعہ

اونٹوں کی مثال اور اطاعت

(‘نجم الثاقب کاشغری’)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍ جون ۲۰۱۴ء میں سورۃ الغاشیہ کی آیت اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ(آیت:۱۸)(کیا وہ اُونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کئے گئے؟) کی لطیف تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ جہاں بھی اور جس معاملے میں بھی ہمیں رہنمائی کی ضرورت ہو، کسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہو۔ قرآن کریم میں بیان فرمودہ حکمت کے موتیوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہو یا ان کی تلاش ہو تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادے کی کتب اور ارشادات مل جاتے ہیں جو ہمارے مسائل حل کرتے ہیں۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں جمعہ پر اکثر ہم دوسری رکعت میں پڑھتے ہیں۔ سورۃ غاشیہ کی یہ آیات پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں پہلی آیت جو میں نے پڑھی ہے یعنی اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ۔ کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کئے گئے؟ اس کی جو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے وہ اپنی گہرائی اور خوبصورتی اور علم و عرفان اور پھر عملی حالت پر منطبق کرنے کا ایک عجیب اور جدا نقشہ کھینچتی ہے۔ آپ علیہ السلام نے اس آیت سے نبوت اور امامت کی اطاعت کے مسئلہ کو حل فرمایا ہے اور نبوت اور امامت کے ساتھ جڑنے والوں کے لئے جو بنیادی چیز ہے یعنی اطاعت اور کامل اطاعت اس کو آپ نے اِبِل یعنی اونٹ کے لفظ سے یا اونٹوں کے لفظ سے جوڑ کر وضاحت فرمائی ہے۔ بظاہر یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ اونٹوں اور نبوت اور امامت کی اطاعت کا کیا جوڑ ہے لیکن جس طرح کھول کر آپ نے تشریح فرمائی ہے اس سے اس جوڑ کا حیرت انگیز ادراک ہمیں بھی حاصل ہوتا ہے۔ آپ کی تفسیر پہلے پیش کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ’’قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہےاَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ۔ یہ آیت نبوّت اور امامت کے مسئلہ کو حل کرنے کے واسطے بڑی معاون ہے۔ اونٹ کے عربی زبان میں ہزار کے قریب نام ہیں اور پھر ان ناموں میں سے اِبِل کے لفظ کو جو لیا گیا ہے اس میں کیا سرّ ہے؟ کیوں اِلَی الْجَمَل بھی تو ہو سکتا تھا‘‘؟ جَمَل بھی تو اونٹ کو کہتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جَمَل ایک اونٹ کو کہتے ہیں اور اِبِل اسم جمع ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کو چونکہ تمدّنی اور اجمالی حالت کا دکھانا مقصود تھا اور جَمَل میں جو ایک اونٹ پر بولا جاتا ہے یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا تھا اسی لئے اِبِل کے لفظ کو پسند فرمایا۔ اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوّت ہے۔ دیکھو اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیشرَو کے ہوتا ہے وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو۔ پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہے۔ جیسے گھوڑے وغیرہ میں۔ گویا اونٹ کی سرشت میں اِتّباع امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِکہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جارہے ہوں۔ اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدّنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو‘‘۔ یہ پہلی بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے۔ اس سے مطابقت کے لئے تمدنی اور اتحادی حالت قائم رکھنے کے لئے ایک امام ہو۔ ’’پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے۔ پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے‘‘۔ دنیا کا بھی جو زندگی کا سفر ہے اس میں ایک امام ہونا ضروری ہے جو صحیح رہنمائی کرتا رہے۔ ’’پھر اونٹ زیادہ بارکش اور زیادہ چلنے والا ہے۔ اس سے صبر و برداشت کا سبق ملتا ہے۔ پھر اونٹ کا خاصہ ہے کہ وہ لمبے سفروں میں کئی کئی دنوں کا پانی جمع رکھتا ہے۔ غافل نہیں ہوتا۔ پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے سفر کے لئے تیار اور محتاط رہنا چاہئے اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’اُنْظُرکے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھنا بچوں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس سے اتّباع کا سبق ملتا ہے کہ جس طرح پر اونٹ میں تمدّنی اور اتّحادی حالت کو دکھایا گیا ہے اور ان میں اتّباع امام کی قوت ہے۔ اسی طرح پر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتّباع امام کو اپنا شعار بناوے کیونکہ اونٹ جو اس کے خادم ہیں ان میں بھی یہ مادہ موجود ہے۔ کَیْفَ خُلِقَتْ میں ان فوائد جامع کی طرف اشارہ ہے جو اِبِل کی مجموعی حالت سے پہنچتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۹۳-۳۹۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)

پس اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کو بھیجا اور ہمیں پھر انہیں ماننے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور پھر آپ کے بعد خلافت کے جاری نظام سے بھی نوازا۔ ہمیں اس انعام کی قدر کرنی چاہئے اور اس روح کو سمجھناچاہئے جو خلافت کے نظام میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جومَیں مفہوم بیان کر رہا ہوں کہ میرے نام پر افراد جماعت سے بیعت لینے والے افراد آتے رہیں گے۔ (ماخوذ از الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶) یعنی خلافت آپ کی نیابت میں آپ کے نام پر بیعت لے گی۔ جب آپ کے نام پر بیعت لی جا رہی ہے تو پھر خلافت کی بیعت اور اطاعت کی کڑی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا کے ملتی ہے۔ پس یہ جو اقتباس مَیں نے پڑھا ہے اس میں نبوت اور امامت کا جو تعلق آپ نے اِبِل کی خصوصیات کے ساتھ جوڑا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد خلافت کے جاری نظام سے جڑے رہنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے والوں کی روحانی بقا اور ترقی ہے اور یہ ضمانت ہے۔ اس میں جماعت کی ترقی اسی صورت میں ہے جب ہم خلافت کے نظام سے جڑے رہیں گے۔ اسی میں شیطانی حملوں سے بچنے کے سامان بھی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام تمہاری ڈھال ہے۔ (الصحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب یقاتل من وراء الامام ویتقیٰ بہٖ حدیث ۲۹۵۷)

پس اس ڈھال کے پیچھے رہو گے تو بچت کے سامان ہیں اور ڈھال کے پیچھے رہنا یہی ہے کہ کامل اطاعت کرو۔ اپنی لائنوں پر چلو۔ اس قطار میں چلو جو تمہارے لئے مقرر کر دی گئی ہے۔ اس سے ذرا باہر نکلے تو بھٹکنے کا خطرہ ہے گمنے کا خطرہ ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍جون ۲۰۱۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۷؍جون۲۰۱۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button