دادی جان کا آنگن

حضرت کنفیوشس علیہ السلام

احمد: دادی جان میں سوچ رہا تھا کہ حضرت بدھ ؑ چین بھی گئےتھے کیا؟

دادی جان : یہ تو معلوم نہیں لیکن چین میں بھی ایک نبی حضرت کنفیوشس علیہ السلام آئے تھے مگر زیادہ تر لوگ انہیں ایک مفکر اور فلسفی کے طور پر ہی جانتےہیں۔

گڑیا: یہ مفکر اور فلسفی کون ہوتا ہے ؟

دادی جان : بیٹا جی مفکر کہتے ہیں غوروفکر کرنے والے انسان کو۔ جو کسی بھی چیز کے بارے میں بہت سوچ سمجھ کر رائے قائم کرے اور پھراپنے علم کو بڑھا کر ایسی باتوں کی حقیقت جاننےکی کوشش کرے جو عام لوگوں کی عقل اور شعور سے زیادہ ہوں تو وہ فلسفی کہلاتا ہے۔مثلا ً اس کائنات کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ دنیا شروع سے ایسی تھی ؟ خدا تعالیٰ پر ایمان کیوں ضروری ہے۔ فلسفہ ان کو ان باتوں کے بارے میں جاننے کی دعوت دیتا ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپؑ ایک مفکر اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ بزرگ نبی تھے۔آپؑ کی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ آپؑ اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے کے قائل تھے اور اس بات کو مانتے تھے کہ وہی اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے۔

محمود: کنفیوشس نام تھا ان کا؟

دادی جان: حضرت کنفیوشس علیہ السلام کا چینی نام چھیو (Qiu) تھااور لقب Zhong ni تھا۔ لوگ آپؑ کو عزت سے Kong siیعنی کنفیوشس کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپ کا مذہب کنفیوشس ازم کہلاتا ہے۔

تو یہ کہاں رہتےہیں؟ محمود نے پوچھا

دادی جان: آپ کی تعلیمات کی پیروی کرنے والے مختلف ممالک میں موجود ہیں جن میں چین، تائیوان، ہانگ کانگ، مکاؤ، کوریا، جاپان،سنگاپوراورویتنام شامل ہیں۔

گڑیا: دادی جان یہ چین میں کہاں رہتے تھے اور کس زمانہ میں آئے تھے؟

دادی جان: آپؑ چین کے قدیمی ملک لوکوؤ (Luguo) کے رہنے والے تھے۔ آپؑ کا زمانہ 479 تا551قبل مسیح ہے۔ آپؑ کے والد بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے اور آپؑ کی عمر کا زیادہ تر حصہ غربت میں گزرا لیکن آپؑ نے حصول علم کی خاطر بہت محنت کی اور بطور استاد اپنا مقام بنایا۔ 47سال کی عمر میں آپ کو اپنے ملک میں ایک سیاسی عہدہ دیا گیا۔حکومت میں آکر کئی کام کیے۔ اس کے نتائج شاندار نکلے کہ آس پاس کی ریاستیں خوف زدہ ہو گئیں اور آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگیں۔اس وجہ سے آپ کو اپنا ملک چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔ آپؑ نے ایک لمبا عرصہ اردگرد کے قریبی ممالک میں گزارا۔ 68 سال کی عمر میں آپ اپنے ملک میں واپس لَوٹے۔ آپؑ نے پرانے زمانہ کی چھ معروف کتب کو از سر نو مرتب کیا جن میں سے پانچ کتب اب بھی موجود ہیں اور چین کے ادب میں خاص مقام رکھتی ہیں۔

احمد: انہوں نے کیا کام کیا تھا کہ لوگ مخالف ہوگئے؟

دادی جان: حضرت کنفیوشسؑ کے زمانے میں علم کا حصول نہایت مشکل تھا۔اس دور میں صرف امیر لوگوں کے بچے ہی تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ایسے وقت میں آپ نے عام لوگوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ ذاتی سکول کھول کر تعلیم کو عام کیا اور اس کا حصول آسان بنایا۔آپ نے علم کی اہمیت بیان کی اور علم سیکھنے اور سکھانے کے طریقے بتائے۔آپ کے شاگردوں کی تعداد تین ہزار سے زائدبیان کی جاتی ہے جن میں سے 72شاگرد زیادہ مشہور ہوئے۔جن کے نام چینی ادب میں محفوظ ہیں اور ان میں سے بعض کے کلام کے منتخب حصے اب بھی چین کے سکولوں کالجوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔

گڑیا: تو آپؑ نے بھی کوئی کتاب لکھی؟

دادی جان: حضرت کنفیوشسؑ نے خود تو باقاعدہ کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن آپؑ کے اقوال و حالات پر مشتمل ایک کتاب آپؑ کے شاگردوں نے تیارکی تھی جس کا نام لُن یُو (Lun Yu) یعنی کتاب الحوار ہے جو چین کی پرانی چار مقدس کتب میں سے ایک ہے۔ اس کے 20؍ابواب میں پانچ سو آیات اور بارہ ہزار سے زیادہ الفاظ ہیں۔یہ کتاب آپ کے عقائد،تعلیمات اور زندگی کے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالتی ہے۔اس کتاب میں مختلف معاشرتی مسائل اور ان کا حل بھی قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اس طرح ہر طبقے کے لیے نصائح اس کتاب کا اہم حصہ ہیں۔

گڑیا: ہماری جماعت کیا کہتی ہے ان کے متعلق؟

دادی جان: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنی ایک کتاب میں اس بارے میں جو تحقیق کی ہے وہ میں آپ کو پڑھ کرسناتی ہوں۔

چین کی تاریخ میں قدیم زمانہ میں ایک بہت عظیم نبی کی آمد کا ذکر ملتا ہے۔ جس کا نام فوشی (Fushi)نبی (3322ق م)تھا۔ فوشی نبی کو اللہ کی طرف سے الہاماً و کشفاً تعلیمات دی گئیں۔ کنفیوشن ازم گہری حکمت اور دانائی کا خزانہ ہے۔(ماخوذ از الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ135)

احمد: ان کو کیا تعلیم دی گئی تھی؟

دادی جان: کنفیوشس ازم کی بنیادبنی نوع انسان سے ہمدردی اور رحم ہے۔ اسی طرح اچھے اعمال اور حسنِ خلق پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ان کا فلسفہ ہے کہ ہر فرد کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، جو کردار کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں جبکہ کردار معاشرےمیں موجود اعلیٰ قدروں کی پیروی سے مضبوط بن سکتا ہے۔ آپ نے حاکموں پر زور دیا کہ وہ رعایا کے ساتھ شفقت اور رحم کا سلوک کریں اور انہیں رعایا پر ظلم سے روکا۔

گڑیا: دادی جان ان کی کچھ نصائح تو بتائیں۔

دادی جان: ضرور بیٹا۔ انہوں نے اپنے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ صرف کتاب پڑھ لینا مگر دماغ نہ لڑانا اور غور وفکر نہ کرنا دماغ میں الجھن پیدا کرتا ہے اسی طرح کتاب نہ پڑھنا انسان کو سست اور کاہل بنا دیتا ہے‘‘۔ایک دفعہ آپ نے فرمایا :’’آہستہ آواز سے سبق یاد کرنا اور کبھی نہ اکتانا دوسروں کو علم سکھانا اور تھکاوٹ محسوس نہ کرنا یہ باتیں میرے اندر موجود ہیں‘‘۔اور کہا کہ ’’علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دہرائی بہت ضروری ہے۔ پہلا سبق یاد کرو، پھر نیا سبق سیکھو۔ پڑھائی میں سنجیدہ رہو۔ سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالو۔ کسی چیز کا علم ہو تو بیان کرو ورنہ کہہ دو کہ میں نہیں جانتا‘‘۔آپؑ کے شاگردوں میں بعض اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز تھے اور آپ کی بعض نصائح خصوصی طور پر انہی کو سامنے رکھ کر کی گئی ہیں۔

گڑیا: یہ باتیں تو میں پڑھائی کرتے وقت ذہن میں رکھوں گی۔

دادی جان: شاباش گڑیا بیٹا۔ اب سب آرام کریں۔ شب بخیر

(ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، روزنامہ الفضل ربوہ 3؍فروری 1999ء، روز نامہ الفضل انٹرنیشنل 21؍نومبر 2020ء۔ روزنامہ جنگ 13؍ مئی، 2018ء)

(درثمین احمد۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button