متفرق مضامین

دِلم ہر وقت قربانِ محمدؐ

(ولید احمد۔ مربی سلسلہ)

آنحضرتﷺ کی ابتدائی زندگی میں بیت اللہ خانہ کعبہ کی عمارت سیلاب اور بعض دیگر حوادث کے باعث بہت خراب ہوچکی تھی۔ جب قریش مکہ کو اس کے گرنے کا شدید خدشہ پیداہواتوانہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کعبہ کو از سر نوَ تعمیر کیاجائے۔ مختلف قبائل نے تعمیراتی کام کے لیےاپنے حصے کے کام آپس میں تقسیم کرلیے تاکہ وہ برابری کی بنیاد پر اس بابرکت کام میں شریک ہو سکیں۔ لیکن جب تعمیر کا یہ سلسلہ حجر اسود تک پہنچا تو قریش کے مابین اس امر کے بارے میں سخت اختلاف پیدا ہوگیاکہ کون اسے خانہ کعبہ میں نصب کرے گا۔ یہ بات بڑھی اوراتنی بڑھ گئی کہ لوگوں نے تلواریں کھینچ لیں اور خون ریزی کے لیے آمادہ ہوگئے کیونکہ ہر ایک قبیلے کا یہ خیال تھا کہ یہ سعادت ان کے حصے میں آنی چاہیے۔ قریب تھا کہ یہ فتنہ جنگ کی صورت اختیار کرلیتا، مگر آخرکار وہاں پر موجود ایک عقلمند شخص نے یہ مشورہ دیا کہ جو شخص کل سب سے پہلے خانہ کعبہ میں آئے گا وہ اس بات کا فیصلہ کرے گا۔اس مشورہ پر سب راضی ہوگئے۔اگلے دن کیا دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلے بیت اللہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہورہے ہیں۔ جب مکہ کے سرداروں نے آپ کو آتے دیکھا تو کہا ھٰذَالْاَمِیْن یہ امین ہیں اور ہم ان کے فیصلہ پر راضی ہیں۔قریش نے آپﷺ کو تمام واقعہ سے آگاہ کیا۔آپﷺ نے تمام ماجرا سن کر اپنی چادر زمین پر بچھائی اور اس پر حجر اسود کو رکھ دیا اور فرمایا کہ ہر قبیلے کا ایک ایک نمائندہ چادر کے کناروں کو پکڑ لے۔چنانچہ ان سب نے ایسا ہی کیا اور اسے اٹھا کر کعبہ کے قریب لے آئے پھر آپﷺ نے حجر اسود کو اٹھا یا اوراسے اس کی جگہ پر نصب فرمادیا۔آپﷺ کے اس عظیم الشان فیصلہ پر قریش حیران رہ گئےاور آپ کوداد دینے لگے۔(سیرۃ النبویہؐ لابن ہشام صفحہ ۱۵۵ بیروت لبنان)

بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ واقعہ قبل از نبوت آپﷺ کے بہترین اخلاق پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح آپ سچائی، امانتداری اور دیانتداری کے اعلیٰ معیار پر قائم تھے۔ قوم اور افراد علاقہ کو آپ کی ذات پر کس قدر بھروسہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر آپ کو کیسی ذہانت اور فراست عطا فرما رکھی تھی۔ جس کا اعتراف آپ کی قوم نہ صرف اس موقع پر بلکہ پوری زندگی ہی کرتی چلی آئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:عرب کے عمائد واہل الرائے آپ کے مکارم اخلاق کے مقر تھے۔(تشحیذالاذہان جلد ۷ صفحہ ۲۲۶)

حیا

گوحجر اسود نصب کرنے کا یہ واقعہ آنحضرتﷺ کے دعویٰ نبوت سے ۵ سال پہلے کا ہے لیکن درحقیقت کعبہ کی تعمیر کا کام تو آپﷺ کے بچپن سے ہی شروع ہوچکا تھا۔چنانچہ اگر بچپن سے ہی آپ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو اسی تعمیر کعبہ کے حوالے سے آپ کے بیشمار اخلاق عالیہ کے نمونے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی کام کے دوران ایک مرتبہ جب آپﷺ ابھی عمر میں چھوٹے تھے اور باقی بچوں کے ساتھ تعمیر کے لیے پتھر جمع کر رہے تھے تو باقی بچوں نے پتھروں کی رگڑ سے بچنے کے لیے اپنے تہ بند کندھوں پر رکھ لیے۔آپ کے چچا عباسؓ نے آپﷺ کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیا۔آپﷺ نے اپنے چچا کے حکم کی تعمیل کی مگراس وجہ سے آپ کے جسم کا کچھ حصہ ظاہر ہوگیا۔آپﷺ کی شرم و حیا کا یہ عالم تھا کہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اوروہیں بے حال ہوکر گر گئےاور کہنے لگے أَرِنِي إِزَارِي میرا تہ بند مجھے دے دو، میرا تہ بند مجھے دے دو۔ پھر آخر جلدی سے آپ نے اپنا تہ بندٹھیک کرلیا۔غرض حیا کا مادہ جس کے متعلق خود ہمارے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ یہ اسلام کی خصوصیت میں سے ایک ہے، آپ کے اندر بچپن سے ہی موجود تھا۔(بخاری کتاب الحج باب البنیان الکعبہ)

واقعہ بحیرا راہب (شرک سے نفرت)

آپﷺ جب ۱۲؍ سال کے ہوئے تو آپ کے چچا ابوطالب نے تجارت کے لیے شام جانے کا قصد کیا۔آنحضرتﷺ چونکہ اس وقت چھوٹے تھے اس وجہ سے ابوطالب نے آپ کو اس لمبے سفر میں ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا۔مگر روانگی کے وقت آپ اپنے چچا سے لپٹ کر رونے لگے اور ساتھ جانے کا مطالبہ کیا۔ آخر ابو طالب آپ کو ساتھ لے جانے کے لیے راضی ہوگئے۔اس تجارتی سفر کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔جب یہ قافلہ شام کے جنوبی علاقہ بصریٰ پہنچا تو وہاں کے ایک با شعور اور نیک عیسائی راہب بحیرا نے کشفاً یہ دیکھا کہ پتھر اور درخت آپ کی جانب سجدہ کر رہے ہیں۔ اس نےاس کشف سے یہ نتیجہ نکالا کہ ضرور اس قافلہ میں کوئی نبی موجود ہے۔ آخر اس نے اس قافلہ کو بلایا اور ابو طالب کو ان تمام باتوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ تمہارے بھتیجے کو جلد بڑی شان حاصل ہونے والی ہے۔ اس ملاقات کے دوران بحیرا نے آنحضرتﷺ سے بھی ایک سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ مجھ سے لات اور عزیٰ (بتوں)کے بارہ میں نہ پوچھو، خدا کی قسم مجھے ان سے سخت نفرت ہے۔(دلائل النبوۃ للبیھقی جلد ۱ صفحہ ۵۸ مطبوعہ بیروت)

یہ وہ تاریک دور تھا جب عرب میں بت پرستی اپنے عروج پر تھی، اللہ تعالیٰ نے کیسے بچپن سے ہی آپ کو ہر قسم کے شرک سے محفوظ فرمادیا اور اپنی محبت آپﷺ کے دل میں بھر دی۔ اسی محبت الٰہی کے نظارہ کو دیکھ کر قریش بھی آپ کو یہ کہنے پر مجبور تھے کہ عشق محمد ربہ یعنی محمد تو اپنے رب پر عاشق ہوگیا ہے۔ (المنقذمن الضلال الغزالی صفحہ ۱۵۱ عصیٔۃ الاوقاف پنجاب لاہور طبع اول ۱۹۷۱ء)

حلف الفضول (ایفائے عہد)

پھراسلامی تعلیمات کمزور طبقات کی ہمدردی اورعہد کی پاس داری کی بھی نصیحت کرتی ہیں اور یہ وصف بھی ہمیں آپﷺ کی زندگی میں آغاز سے ہی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔آپ عہد اور وعدوں کا بے حد خیال رکھتے۔آپ کی عمر مبارک ۲۰ سال تھی کہ عرب کے ۲ قبائل بنو کنانہ اور قیس عیلان کے درمیان سخت جنگ شروع ہوگئی جو حرب فجار کے نام سے موسوم ہے۔ قریش مکہ نے اس جنگ میں بنو کنانہ کی طرف سے بھرپور حصہ لیا۔ آپﷺ بھی اس میں شریک تھے لیکن خود کوئی قتال نہیں کیا۔قتل و غارت کا یہ سلسلہ جب اپنی حد کو پہنچ گیا تو زبیر بن عبد المطلب نے جو آپﷺ کے چچا تھے صلح کی تجویز پیش کی جس کا مقصد ظلم کو روکنا اور مظلوموں کی مدد کرنا تھا۔آنحضرتﷺ نے بھی اس عہد میں شمولیت اختیار کی۔یہ عہد حلف الفضول کے نام سے مشہور ہے۔نبوت کے بعد آپﷺ نے اسی عہد کاذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آج بھی مجھے کوئی اس عہد کا واسطہ دے کر امداد کے لیے بلائے گا تو میں ضرور اس میں شامل ہوں گا۔(البدایہ والنھایہ حصہ دوم صفحہ ۳۱۴ مطبوعہ بیروت)

حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زمانہ بعثت سے پہلے ایک سودا کیا۔ میرے پاس کچھ رقم تھی جو ادا کرنی رہ گئی تھی۔ تومیں نے کہا کہ آپ اسی جگہ ٹھہریں میں رقم کا بقیہ حصہ لے کر آتا ہوں۔ گھر آنے پر میں وہ وعدہ بھول گیا۔ پھر کہتے ہیں مجھے تین دن کے بعد یاد آیا۔ مَیں فوراً واپس گیا تو دیکھا کہ آپؐ اسی جگہ کھڑے ہیں۔ مجھے دیکھ کرآپؐ نے فرمایا: اے نوجوان! تم نے مجھےسخت مشقت میں ڈال دیا۔ مَیں تین دن سے اس جگہ تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابوداؤد- کتاب الأدب- باب فی العدۃ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس روایت کے حوالہ سے فرماتے ہیں:’’یعنی عہد کا اتنا پاس تھا۔ اس سے کہہ دیا ٹھیک ہے مَیں تمہارے انتظار میں یہاں کھڑا ہوں۔ اور کیونکہ ایک بات منہ سے نکال دی تھی کہ انتظار میں کھڑا ہوں اس لئے تین دن تک مختلف اوقات میں وہاں جاتے رہے، دیکھتے رہے اور خاص طور پر اس وقت جس وقت وہ کہہ کے گیا تھا کہ انتظار کریں آپؐ وہاں جا کے انتظار کرتے رہے۔ تو یہ معیار تھے جو آپؐ نے اپنی بات کے، اپنے وعدوں کے، اپنے عہدوں کے قائم کئے‘‘۔( خطبہ جمعہ ۸؍جولائی ۲۰۰۵ء)

دشمن کی گواہی (امانت و دیانت)

آپؐ کی امانت ودیانت جوانی سے ہی بے حد مشہور تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ قریش مکہ آپ کو ہمیشہ امین کے لقب سے پکارتے۔یہ وہ خلق ہے جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے بار شریعت کی امانت آپ کے کندھوں پر ڈالی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس امر سے آگاہ تھی کہ آپ سے بڑھ کر اس امانت کا حق ادا کرنے والا اور کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو سورۃ المومنون میں یوں بیان کیا ہے وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ یعنی مومنین وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ نبوت سے پہلے ہی آپ کے اخلاق قرآن کریم کے عین مطابق تھے۔

چنانچہ جب آپؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ایک شخص نضر بن حارث نے آپؐ کےبلند اخلاق کے بارے میں گواہی اس طرح دی کہ تمام قریش کو مخاطب کرکے یہ اعلان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں ایک چھوٹا لڑکا تھا، تم میں پلابڑھا،تم جانتے ہو کہ وہ تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت کا مالک ہے، تم میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہے، اور تم میں سے سب سے زیادہ امین ہے۔ لیکن اب جب تم نے اس کی کنپٹیوں میں بڑھا پے کے آثار دیکھے اور وہ تمہارے پاس وہ تعلیم لے کر آیا جس کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے تو تم نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ ساحر ہے۔ اللہ کی قسم وہ ہرگز ساحر نہیں ہے۔ (الشفاء لقاضی عیاض- الباب الثانی الفصل العشرون عدلہ وامانتہﷺ)

یہ امانت و دیانت ہی تھی جس کی گواہی حضرت خدیجہؓ کے خادم میسرہ نے بھی دی جب آپﷺ حضرت خدیجہ کا مال لے کر تجارت کی غرض سے گئے۔ حضرت خدیجہؓ پر آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ایسا اثر ہواکہ انہوں نے آپ سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:آپ جب بڑے ہوئے تو یہ آپ کے استغنا کا ہی نتیجہ تھا کہ سارے ملک نے آپ کا نام امین رکھا ہوا تھا یعنی لالچ آپ میں بالکل نہیں اور یہ کہ آپ پورے طور پر دوسرے کی امانت اس کے سپرد کر دیتے ہیں آپ کا نام صدوق بھی رکھا گیا تھا یعنی آپ راست باز بھی ہیں اور یہ ثبوت ہے آپ کے تزکیہ یافتہ ہونے کا جو آپ کی زندگی میں نظر آتا ہے۔(تفسیر کبیر جلد۱۵ جدید ایڈیشن صفحہ۱۳۴)

آپﷺ کے مجموعی اخلاق کی شہادت

آنحضرتﷺگھریلو معاملات میں بھی ہر لحاظ سے بہترین وجود تھے۔ بہت ہی نرم مزاج اور بلا تکلف گھر میں رہنے والے تھے۔حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد اِنہی بہترین اخلاق کی وجہ سے آپ کی اہلیہ نے اپنا سارا مال اور سب خدام آپ کو پیش کردیے۔ حضرت خدیجہؓ نبوت سے قبل ۱۵ سال آنحضرتﷺ کے ساتھ رہیں اور اس عرصہ میں آپ کے تمام اخلاق کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا۔چنانچہ پہلی وحی کے نزول کے وقت حضرت خدیجہؓ نے آپ کے مجموعی اخلاق کی شہادت یوں پیش کی :کلا و اللّٰہ ما یخزیک اللّٰہ ابدًا انک لَتَصِلُ الرحم، وتحمل الکَلَّ وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق -(صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی)

حضرت مصلح موعودؓ اس کا ترجمہ اور تشریح یوں بیان کرتے ہیں:’’یعنی سنو جی میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ خدا تجھے کبھی ذلیل نہیں کرے گا کیونکہ تو رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتا ہے اور تمام وہ نیک اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان پر عامل ہے۔ مہمانوں کی خدمت کرتا ہے اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ اس کلام کے باقی حصوں پر تو اپنے وقت پر لکھوں گا سر دست حضرت خدیجہ کی گواہی کو پیش کرتا ہوں جو آپ نے قسم کھا کر دی ہے۔ یعنی تكْسِبُ الْمَعْدُ ومَ کی گواہی گو کافی تھی لیکن اپنے خدا کی قسم کے ساتھ مؤکد کر کے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہﷺمیں تمام اخلاق حسنہ پائے جاتے ہیں حتی کہ وہ اخلاق بھی جو اس وقت ملک میں کسی اور آدمی میں نہیں دیکھے جاتے تھے۔ یہ گواہی کیسی زبردست اور کیسی صاف اور پھر بیوی کی گواہی اس معاملہ میں جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں نہایت ہی معتبر ہے۔ حضرت خدیجہ فرماتی ہیں کہ کل اخلاق حسنہ جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں آپ میں پائے جاتے تھے‘‘۔(سیرت النبی از حضرت مصلح موعودؓ صفحہ ۱۹)

خادموں سے حسن سلوک

حضرت خدیجہؓ نے شادی کے بعد جو خدام آنحضرتﷺ کو پیش کیے،آپﷺ نے ان سب کو آزاد کردیا۔ان خادموں میں ایک ہونہار خادم زید بن حارثہ بھی تھے۔آپﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ اپنے خادموں کا بے حد خیال رکھتے۔چنانچہ زید سے بھی آپﷺ کا محبت کا خاص تعلق تھا۔ایک مرتبہ حضرت زیدؓ کے والد اور چچا انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مکہ آگئے۔ انہوں نے آپﷺ سے درخواست کی کہ زید کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔آپﷺ نے اسی وقت حضرت زیدؓ کو بلایا اور فرمایا کہ زید کیا تم انہیں پہچانتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا، جی ہاں یہ میرے والد اور چچا ہیں۔آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہیں ساتھ لے جانے کے لئے آئے ہیں، اگر تم نے جانا ہے تو میری طرف سے اجازت ہے۔ زید نے یہ سنتے ہی جواب دیا کہ میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔زید کے باپ کو اس پر شدید غصہ آیا اور کہا کہ کیا تم غلامی کو آزادی پر فوقیت دیتے ہو؟حضرت زید نے کہا: جی ہاں!کیونکہ میں نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین خوبیاں دیکھی ہیں، اور میں اب آپ سے کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔جب حضرت زید نے یہ سب باتیں کیں تو آپﷺ نے احسان کے طور مکہ میں یہ عام اعلان فرمادیا کہ آج سے زید میرا بیٹا ہے۔گو بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا کہ منہ بولا بیٹا بنانا جائز نہیں ہےمگر آپﷺ کا حضرت زید سے محبت اور پیار کا سلوک آخری دم تک قائم رہا۔(سیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ ۱۸۸مطبوعہ بیروت)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ اعلان فرمایا کہ میں تمام غلاموں کو آزاد کرتا ہوں تو اس پر اور تو سب غلام چلے گئے۔ صرف زید بن حارثہ جو بعد میں آپ کے بیٹے مشہور ہو گئے تھے وہ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا۔ آپ نے تو مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں آزاد نہیں ہونا چاہتا میں آپ کے پاس ہی رہوں گا۔ آپ نے اصرار کیا کہ وطن جاؤ اور اپنے رشتہ داروں سے ملواب تم آزاد ہو۔ مگر حضرت زید نے عرض کیا جو محبت اور اخلاص میں نے آپ میں دیکھا ہے اس کی وجہ سے آپ مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں۔(تفسیر کبیر جلد ۱۵ جدید ایڈیشن صفحہ ۱۳۷)

صلہ رحمی

ایک اور عظیم خلق جس کی شہادت حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کے متعلق بیان فرمائی وہ آپ کا رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے۔بچپن سے ہی آپ نے رشتوں کا بےحد خیال رکھا۔والدین کی وفات کے بعد جب آپ اپنے دادا اور بعد میں چچا کے ہمراہ رہے تو کبھی بھی کسی قسم کی خواہش کا اظہار نہ کیا۔بلکہ الٹا آپ کی نیکی کی وجہ سے رشتہ دار اپنے بچوں سے بھی زیادہ آپ کو عزیز رکھتے۔جوان ہوئے تو اس غرض سے کہ میرے چچا پر میری وجہ سے کوئی بوجھ نہ پڑے کام اور تجارت شروع کردی جس میں آپ کو بہت منافع بھی ہوا۔آپﷺ کا صلہ رحمی کے حوالہ سے ایک واقعہ یوں ملتا ہے کہ نبوت سےقبل جب مکہ میں قحط کی صورت پیدا ہوگئی،تو آپ کے چچا ابو طالب جو پہلے ہی غریب تھےانہیں پہلے سے زیادہ تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تکلیف کو دیکھ کر آپﷺ نے اپنے ایک اور چچا عباس کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ ہم ان کے بیٹوں میں سے ایک ایک بیٹے کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائیں اور انہیں اپنے گھر لے آئیں۔ حضرت عباس نے آپﷺ کی اس بات سے اتفاق کیا اور ابو طالب کے سامنے یہ درخواست پیش کی۔ابو طالب نے کہا کہ عقیل مجھے بہت پیارا ہے،اسے رہنے دو،باقی بچوں میں سے اگر تم کسی کو لے جانا چاہتے ہو تو بیشک لے جاؤ۔چنانچہ حضرت عباس اپنے ساتھ جعفر کو لے گئے اور آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ کی کفالت کا ذمہ اٹھایا جو اس وقت ۷ سال کے تھے اور ان کو اپنے ساتھ گھر لے آئے اور باقی بچوں کے ساتھ ان کی پرورش فرمائی۔ اس واقعہ کے ڈھائی تین سال بعد ہی آپﷺ پر نبوت کی پہلی وحی نازل ہوئی۔(اسد الغابہ جلد ۳ صفحہ ۵۸۸علی ابن ابی طالب، مطبوعہ بیروت)

سراج منیر

مندرجہ بالا چند واقعات قبل از نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کی چند جھلکیاں ہیں اور چند محدود صفحات میں صرف جھلکیاں ہی بیان کی جا سکتی ہیں کیونکہ وہ عظیم الشان وجود تو اپنے اندر بے شمار انوار سموئے ہوئےتھا۔ اور اسی سراپا نور پر جب خدائی جلوہ اور فیضان نازل ہوا تو وہ سراج منیر اور رحمۃ للعالمین کے مقام پر فائز ہوگیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس حوالہ سے سورۃ النور آیت ۳۶ کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:’’حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے سو ان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔ پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نو روحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے۔ تاریکی پر وارد نہیں ہوتا۔ کیونکہ فیضان کے لئے مناسبت شرط ہے۔ اور تاریکی کو نور سے کچھ مناسبت نہیں۔ بلکہ نور کو نور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا۔ ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اس کو اور نور بھی دیا جاتا ہے۔ اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا۔ جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسر انور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے۔ اور انبیاء منجملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے ہیں۔ اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے‘‘۔(بر اہین احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحہ ۱۹۵-۱۹۶ حاشیہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button