متفرق مضامین

زمانے کی پکار

(میر ثناء اللہ ناصر مرحوم)

ماضی اور حال میں ازل سے جنگ جاری ہے اور اپنے اپنے دلائل سے وہ ایک دوسرے کو زیرکرنے کی کوشش میں ہیں۔ جب مستقبل نے یہ آواز سنی تو معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتا رہا اورآج خودسوچوں میں گم،پریشان اور کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا کہ کس کو بری الذمہ قراردوں؟ ماضی جب اپنی آپ بیتی کے حالات وواقعات اور دیرینہ قصے حال کو سناتا ہے تو معاملہ کچھ یوں بنتا ہے۔

کسی ویران کنویں میں کوئی مینڈک گرگیا جبکہ کنویں میں پہلے سے موجود ایک مینڈک سے ملاقات ہوگئی۔ گرنے والے مینڈک نے پوچھا کہ تم کدھر گمنام زندگی بسر کررہے ہو؟میرا جہان تو بڑا وسیع ودراز ہے۔پہلےنے ایک چوکڑی بھری اورپوچھا اتنا بڑا؟ جواب ملا اس سے کئی گنا بڑا۔اس نے دوبارہ تین چار چھلانگیں لگاکر پوچھا تو جواب ملا اس سے بھی بڑا۔پھر وہ کنویں میں تین چار چکر لگاکر پوچھنے لگا بتاؤ اتنا بڑا؟ جواب ملا اس سے بھی بڑا۔کنویں والے مینڈک نے کہا کہ تم بکواس کرتے ہو۔ اس سے تو بڑا جہان ہی نہیں ہے۔بات اصل میں دونوں کی صحیح اور درست تھی۔شاہیں کا جہاں اَور کرگس کا جہاں اَور۔جیسے سنتے آئےہیں کہ چیونٹی کے لیے کٹورا ہی دربار ہوتا ہے۔چونکہ اس کی دنیا تھی ہی کنواں وہ کیسے یقین کرتا۔

دورِ حال میں یہی حال زمانہ حال کا ہورہا ہے۔جب ماضی اپنے گزرے قصے اور دیرینہ واقعات بیان کرتا ہے کہ رات گئے تک محفلیں لگاکرتیں۔ایک دوسرے کی خوشی غمی کی محسوسات برابر دکھائی دیتیں۔ہرکسی کی غیرت واحترام کو ملحوظ خاطر رکھا جاتاحقوق وفرائض اپنے کمال پر دکھائی دیتے۔خانہ خدا میں سجدہ شکر کے لیے جگہ کا فقدان ہوتا۔اورصبح کاذب سے صبح صادق تک کی رونقیں اور ذکر الٰہی کی پُرکیف اور پرسرور مگر دھیمی دھیمی آوازیں ایک انمٹ منظر اور نظارہ پیش کرتیں۔ حال یہ سب دیرینہ قصے ایک خواب اور جھوٹ کا نام دے کر آن واحد میں کنویں کے مینڈک کی طرح سنی اَن سنی کرکے اپنی رنگ رلیوں میں مصروف ہوجاتا۔اس پر مستقبل کیوں پریشان نہ ہو۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

حال کا بس نہیں چلتا کہ ماضی کا راگ الاپنے والوں کا گلا گھونٹ دے۔بلکہ قلع قمع ہی کردے کہ حال کو نہ صرف بدنام کررہا ہے بلکہ ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔

ماضی نے جب مستقبل سے وجہ پریشانی پوچھی تو وہ یوں گویا ہوا کہ حال کے پاس نہ منفی سوچ کو مثبت بنانےکا طریقہ نہ وقت، نہ دوسرے کی غمی خوشی میں شمولیت کے لمحات میسر۔حقوق وفرائض نام سے بے رغبتی، انسانی اقدار سے عاری، فکر فردا سے بے توجّہی، مساجد سے لاتعلقی، نیک فطرت سے دشمنی اور مخالفت، ناکامی خدا کے ذمہ اور کامیابی اپنی عقل اور شعور کا کمال اور زندگی خواب خرگوش اور پھر اس پہ غرور وتکبر۔

یہی وہ جدیدتعلیم اور ترقی ہے جس کی آڑ میں جدیدنسل تباہ ہوتی جارہی ہے اور جب ماضی نے مستقبل سے اس حال کا انجام پوچھا تو جواب ملا کہ صرف خدائی رعب جو سامنے کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ انسان کو انسان کے پاس کھڑا ہونا تو درکنار ہاتھ سے ہاتھ ملانے سے پرہیز۔گھر سے باہر نکلنے کی پابندی۔بات کرنے سے قبل منہ پر چھکا یعنی ماسک۔ذکر خدا پر یعنی باجماعت نماز پر پابندی۔جمعہ کی نماز کی ادائیگی پر پابندی۔ مساجد کے دروازے پر قفل۔حج ختم۔کاروبار ٹھپ۔مزدوری مفقود۔ نسل انسانی کی تربیت گاہوں پر تالے اور چھٹیاں۔ دفاتر سیل۔منہ کا رخ موڑ کر بات کرنا۔یہ مشیت ایزدی کے جوتے ہیں جو حال کے مقدر میں تھے۔صرف اس جرم کی پاداش میں کہ تم نے نہ صرف اسلاف کی باتوں کو مذاق بنایا بلکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءورسل کی تعلیمات پر کان نہ دھرے۔

جب مستقبل نے ماضی سے استفسار کیا کہ حال نے ان باتوں پرعذاب الٰہی سے قبل کان کیوں نہ دھرے؟ کیا انہیں مطلع نہ کیا گیا؟ تو ماضی نے بتایا کہ ایک دفعہ کسی بزرگ نے رب العزت سے خواہش کی کہ اسے موت سے کچھ عرصہ پہلے موت کی اطلاع دے دینا تاکہ میں باقی ایام زندگی میں آخرت کے لیے کچھ زادراہ تیارکرلوں۔اللہ رب العزت نے فرمایا کہ تمہیں اطلاع کردی جائے گی۔ آخر وہ وقت آپہنچا اور اس کا نامہ اعمال اس کے سامنے پیش ہوا تو عرض کیا اے رب العزت تو نے مجھے اصلاح کرنے کا وقت نہیں دیا۔تُو تو وعدہ ایفاء کرنے والا ہے۔بتایا ہی نہیں کہ موت قریب ہے۔

اللہ رب العزت نے فرمایا: میں نے تیرے بال سفید کیے اور اطلاع کردی کہ وقت قریب آرہا ہے۔پھر تیرے دانت غائب کردیے۔ دوبارہ اطلاع دی۔پھر تیسری بار اس وقت اطلاع دی جب تیری کمر ٹیڑھی کردی۔ تو نے ایک بار بھی توجہ نہیں کی۔

ماضی نے مستقبل سے پوچھا کہ زمانہ حال کو بھی اس بزرگ کی طرح پیغام ہاتھ لگا یا نہیں؟ تو مستقبل پکار اٹھا کہ بارشوں کا بے وقت ہونا۔بیماریوں اور وباؤں جیسے ڈینگی، کورونا،شوگر، کینسر۔ اسلاف کے کارہائے نمایاں پر کان نہ دھرنا۔مساجد سے منہ موڑنا۔سیلاب اور جنگ کو دعوت دینا۔

مستقبل نے مزید بتایا کہ مجھے ان کی تباہی وبربادی نے اس حد تک پریشان کررکھا ہے کہ ان کا حال ماضی میں انبیاء کی تکذیب کی وجہ سے تباہ ہونے والی اقوام جیسا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وہ ایک داعی الی اللہ کے اس الہام کو جس میں ان کی بقا ہے، ٹالتے چلے جارہے ہیں کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔

اللہ اس قوم کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button