متفرق مضامین

تینتیس سال بعد لائبیریا کا وزٹ

۱۹۸۵ء تا ۱۹۹۰ء خاکسار کو لائبیریا مغربی افریقہ میں خدمت کی توفیق ملی۔۱۹۹۰ء میں جب خاکسار وہاں سے پاکستان کے لیے روانہ ہواتو میرے بیٹوں کی عمریں پانچ اور نو سال تھیں۔میرے چھوٹے بیٹے عزیزم لقمان خالد کو لائبیریا دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ منروویا میں مقیم مکرم ڈاکٹرعبدالحلیم صاحب انچارج احمدیہ مسلم کلینک Sinkor اسے کئی سالوں سے وہاں آنے کی دعوت بھی دے رہے تھے۔بالآخر ستمبر ۲۰۲۳ءمیں جب ہمارا لائبیریا جانے کا پروگرام بنا تو اس سفر میں ہم نے گھانابھی ساتھ شامل کرلیا۔حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اجازت حاصل کرنے کے بعد ۱۹؍ستمبر کو اکرا گھانا جانے کےلیے بکنگ کروالی۔وہاں سے ۲۵؍ستمبر کو منروویالائبیریا کے لیے روانگی تھی۔میرا دوسرا بیٹا عزیزم بلال احمد بھی ساتھ جانے کے لیے تیا ر ہوگیا۔چنانچہ ہم تینوں ۱۹؍ستمبر کو براستہ برسلز گھاناکے لیے روانہ ہوئے۔چند ایام گھانا میں گزارنے کے بعد ۲۵؍ستمبر کو وہاں سے لائبیریا پہنچے۔ ایئرپورٹ پر پہلے کی طرح شوروغوغا تھا جو باقی کسی ایئرپورٹ پر سامان لینے کے وقت سننے میں نہیں آیا۔ہمارے استقبال کے لیے مکرم سلیمان احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ لائبیریا ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ ایئرپورٹ سے منروویا شہر ۵۶؍ کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ ایئرپورٹ اور منروویا شہر کو ملانے والی سڑک کا کچھ حصہ زیر تعمیر تھا جس سےیہ فاصلہ طے کرنے میں کچھ زیادہ وقت صرف ہوا۔ ہمارے منروویا پہنچنےتک رات ہوچکی تھی۔ہماری رہائش کا اہتمام مکرم ڈاکٹر عبد الحلیم صاحب کی طرف تھا۔مکرم ڈاکٹرصاحب ۲۰۰۴ء سے لائبیریا میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ کلینک اور ان کی رہائش گاہ سے ملحق ان کے پاس ایک چھوٹا سا گیسٹ روم تھا جسے انہوں نے جالیاں لگاکر مچھروں سے محفوظ کیا ہوا تھا۔اس لیے ہم نے ملیریا کی گولیاں استعمال نہیں کیں۔ہم نے گھانا سے ملیریا بخار میں مبتلا ہونے کی صورت میں جو ٹیسٹ کٹ (Test Kit)اور علاج کا کورس خریدا تھا اسے واپسی پر آتے ہوئے حفظ ماتقدم کے طور پر جرمنی ساتھ لے آئے۔

مسجد بیت المجیب، لائبیریا

قبل ازیں خاکسار نے ذکر کیا ہے کہ میں ذاتی طور پر لائبیریا کو وزٹ کرنے کی غرض سے گیاتھا لیکن جماعت احمدیہ لائبیریا نے ہمارے لیے ایک نہایت ہی مصروف کن شیڈیول تیار کررکھا تھا جس سے گویا ایک طرح سے یہ جماعتی وزٹ ہی محسوس ہونے لگا۔ پروگرام کے مطابق اگلے دن۲۶؍ستمبرکو علی الصبح ہم Sinkor سے Lynch Street کے لیے روانہ ہوئے۔جہاں مسجد بیت المجیب اور مشن ہاؤس واقع ہیں۔ یہ علاقہ In Town کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔راستہ میں دونوں طرف بلند و بالا عمارتیں جو ہوٹل، سپرسٹور اور دیگر شاپنگ سنٹرز پر مشتمل تھیں نظر آتی ہیں۔یہاں پرزیادہ تر کاروباری مراکز لبنانی اور انڈین لوگوں کی ملکیت ہیں۔ راستہ میں United Nations،لب سمندر واقع صدارتی محل اور اس کے بالمقابل سپریم کورٹ Temple of Justice کی عمارت کی جھلک بھی دیکھنے کو ملی۔ تقریباً دس منٹ کی مسافت کے بعدہم احمدیہ مسلم مشن ہاؤس پہنچ گئے۔ یہاں پر مکرم فرخ شبیرلودھی صاحب مبلغ سلسلہ نے ہمارا استقبال کیا۔مسجد اور مشن ہاؤس کا وزٹ بھی کروایا۔لائبیریا تقریباً ۱۵؍سال خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔خانہ جنگی کی پہلی لہر میں مشن ہاؤس اور مسجد کو نذر آتش کردیا گیا تھا جس سے عمارت کو کافی نقصان پہنچا۔ ازسر نوتعمیر شدہ مسجد کی عمارت اسے ملک بھر کی دوسری مساجد سے ممتاز کرتی ہے۔جس کی نمایاں خصوصیت پاکستانی طرز تعمیر پر بنائے گئے مینار ہیں۔مسجد سے متصل ایک خالی پلاٹ بھی اس وقت جماعت احمدیہ لائبیریا کی ملکیت ہے جو رقبہ میں اس سے تین گنابڑا ہے۔بعض معروضی حالات کی وجہ سےمسجد میں فی الوقت واٹر سپلائی کا پانی میسر نہیں تھا۔مشن ہاؤس کے لیے پانی باہر سے منگوایا جاتا ہے پھر اس کو بیرل میں محفوظ کرکے عندالضرورت استعمال کیا جا تا ہے۔

مشن ہاؤس میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم شاہ تاج احمدیہ ہائی سکول دیکھنے کے لیے دوبارہ عازم سفر ہوئے۔مکرم Muhammad Jones Annan صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ لائبیریا ہمارے ہم سفر تھے۔موصوف جرمن بڑی روانی سے بولتے ہیں۔انہی ایام میں لائبیریا کے صدارتی انتخاب کے لیے امیدواران اپنی اپنی مہم میں مصروف تھے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے گروہ جگہ جگہ ریلیاں نکال رہے تھے۔راستوں کے دونوں جانب امیدواران کے پوسٹرز اور بینرز کی بھرمار تھی۔شہر میں تجاوزات کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی جگہ جگہ موجود تھیں جس سے ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے اور بھیڑ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ہمیں ہدایت تھی کہ گاڑی کے بغیر شہر میں سفر نہیں کرنا ورنہ پیدل چلنے کی صورت میں کم سے کم ہمارا فون چھینا جاسکتا ہے۔ہم نے اس ہدایت پر من و عن عمل کیا اور الحمد للہ سارا سفرکسی بھی ناخوشگوار واقعے سے محفوظ رہا۔تقریباً ساڑھے آٹھ کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد ہم شاہ تاج احمدیہ ہائی سکول پہنچے۔ یہاں پر مکرم ناصر احمد کاہلوں صاحب قائم مقام امیرو مشنری انچارج لائبیریا نے مکرم منصور احمد ناصر صاحب پرنسپل سکول ہٰذا کے ہمراہ ہمارا استقبال کیا۔ مکرم منصور احمد صاحب ۱۹۹۷ءسے بطور پرنسپل اس ادارہ میں خدمت کی توفیق پارہے ہیںاسکول کے احاطہ میں پرنسپل و نائب پرنسپل کی رہائش کے علاوہ Montserrado کاؤنٹی کے مبلغ کی رہائش بھی موجود ہے اور ایک بلند و بالا تین منزلہ مسجد بھی اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔اسکول کے آڈیٹوریم میں طلبہ کے ساتھ ایک نشست کا بھی اہتما م کیا گیا جہاں خاکسار کو ان سے مخاطب ہونے کا موقع بھی دیا گیا۔۱۹۹۶ء میں جب یہ سکول قائم کیا گیا تو اس وقت مکرم محمد اکرم باجوہ صاحب امیر جماعت لائبیریا تھے۔پرنسپل آفس میں ان کی مختلف تقاریب میں شمولیت کی تصاویر بھی آویزاں ہیں۔شاہ تاج احمدیہ سکول سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر جماعت احمدیہ لائبیریا نے بارہ ایکڑاراضی جلسہ گاہ کے لیے خریدی ہوئی ہے۔اس جگہ کا جماعتی نام احمد آباد ہے۔ جلسہ سالانہ کے علاوہ ذیلی تنظیموں کے اجتماعات بھی اسی جگہ منعقد ہوتے ہیں۔ سکول کے پروگرام سے فراغت کے بعد مکرم امیر صاحب ہمیں اس جگہ پر لےگئے۔اس جگہ کو دیکھنے میں خاکسار کی بھی خاصی دلچسپی تھی کیونکہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہونے والی مختلف رپورٹس میں اس جگہ کی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں۔

۲۷؍ستمبرہمارے قیام کا تیسرا روز تھا۔آج کے دن جماعت احمدیہ لائبیریا نے ممبران مجلس عاملہ،مرکزی مبلغین اور مقامی معلمین کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔لائبیریا انتظامی لحاظ سے پندرہ کاؤنٹیوں میں منقسم ہے۔خاکسار ۱۹۸۵ء میں یہاں بطورمبلغ سلسلہ آیا اور پھر امیر ومشنری انچارج کی ذمہ داری بھی نبھانے کی توفیق ملی۔ایک لمبے عرصہ تک لائبیریا میں ایک ہی مبلغ تعینات رہے۔ایک کے تبادلہ کے بعد دوسرے آجاتے۔۱۹۹۰ء میں جب خاکسار یہاں سے رخصت ہوا تو چار مبلغ خدمت کی توفیق پارہےتھے۔جوMonrovia Largor ،Sanoyie اورVoinjama میں تعینات تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملک کی ۹ کاؤنٹیوں میں ہمارےمشن ہاؤسزقائم ہوچکے ہیں اور لائبیریا میں ۱۲؍مرکزی مبلغین اور ۱۶؍مقامی مبلغین خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

مبلغین کرام کے ساتھ گفتگو میں ان کی کاؤنٹیوں کے حوالے سے تفصیلی تعارف حاصل ہوا۔ خاکسار کی صحت کی وجہ سے منروویا سے باہرسفر کرنا ذرا مشکل تھا جس کو ملحوظ رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ لائبیریا نے ایک ویڈیو پیکجتیار کیا جس میں تمام کاؤنٹیوں کے مرکزی مشن ہاؤسز،مساجد،کلینکس اور دیگر جماعتی عمارتوں کو یکجا کردیا۔ اس کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گیا۔فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

حال ہی میں جرمنی سے مکرم وجیہ رانا صاحب واقف زندگی کا تقرر بطور پرنسپل مسرور احمدیہ ہائی سکول Tienii،کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی میں ہوا ہے جو منروویا سے تقریباً۱۲۰ کلومیٹر دور ہے۔ان سے بھی اسی پروگرام میں ملاقات ہوئی۔

اجلاس کے اختتام سےقبل مکرم امیر صاحب نے ایک یادگاری شیلڈ اور روایتی مفلر بھی خاکسار کو پیش کیا جس پر Greetings from Liberia پرنٹ کیا گیا تھا۔

نمازوں اور ظہرانہ کے بعدہم شہر کے چند تاریخی مقامات کی سیر کے لیے نکلے جن میں سے قابل ذکر Ducor Hotel ہے۔ ہوٹل تو بند تھا مگر اس ہوٹل کے باہر لائبیریا کے پہلے افریقی صدر مملکت Joseph Roberts کا مجسمہ تھا جو شہر کے سب سے بلند مقام پر نصب تھا۔اس مجسمہ کے نیچے لائبیریا کی آزادی کی جدوجہد،آزادی کے لیے دی جانے والی قربانی،اس کے منشور اور ترقی کے راز کو تصویری زبان میں بیان کیا گیا ہے۔لائبیریا کا ایئرپورٹ Roberts Field بھی انہی کے نام سے موسوم ہے۔

یہ مجسمہ Ducor Hotel کے باہر نصب ہے۔اس بلند و بالا جگہ سے Hotel Africa بھی دکھائی دیتا ہے جس کی جماعت احمدیہ لائبیریا کی تاریخ میں ایک نمایاں حیثیت ہے۔۱۹۸۸ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے دورہ کے دوران اس ہوٹل کو شرفِ قیام بخشا۔ بدقسمتی سے خانہ جنگی کے دوران ان دونوں عمارتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

۲۸؍ستمبرکی صبح ناشتہ سے فراغت کے بعد ہمDuper Road پر جماعت کا ایک کمپاؤنڈ دیکھنے پہنچے۔اس کا کل رقبہ ایک ایکڑ ہے۔یہاں پر مستقبل میں جماعت لائبیریا ایک ہارٹ انسٹیٹیوٹ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم دوبارہ Sinkor میں ہیومینٹی فرسٹ احمدیہ ووکیشنل کالج پہنچے۔کالج کے پرنسپل مکرم سلیمان احمد صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔کالج کے مختلف شعبہ جات دیکھنے کے بعد پرنسپل صاحب نے سٹاف کے ساتھ ایک نشست کا بھی اہتمام کیا۔شام کے وقت اسی کالج میں جماعت لائبیریا نے واقفین زندگی ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ ایک ملاقات اور عشائیہ کا بھی اہتمام کیا۔خاکسار کے عرصہ قیام کے دوران صرف ایک ہی کلینک قائم تھا۔اس کے بعد ۱۹۹۴ءمیں مکرم ڈاکٹر سید مشہود احمد صاحب ابن مکرم سید میر مسعود احمد صاحب نے Sinkor کے علاقہ میں کلینک کے لیے تیس سالہ لیز پر ایک جگہ لی جس کی مدت اب مکمل ہورہی ہے۔Sinkor کا علاقہ سہولیات کے اعتبار سے کافی مہنگا علاقہ شمار کیا جاتا ہے۔حال ہی میں جماعت لائبیریا نے اسی علاقہ میں دو پلاٹ خریدے ہیں ایک پر کلینک اور دوسری جگہ ہیومینٹی فرسٹ کالج کی تعمیر کا ارادہ ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت لائبیریا میں چار جماعتی کلینکس کام کررہے ہیں اور ایک تیاری کے مراحل میں سے گزر رہا ہے۔ان میں سے دو تو منروویا شہر میں جبکہ باقی تین دیگر کاؤنٹیوں میں ہیں۔ان میں تین پاکستانی اور دو بنگلہ دیشی ڈاکٹر صاحبان خدمت انسانیت میں مصروف ہیں۔

۲۹؍ستمبر لائبیریا میں ہمارا آخری دن تھا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی ہم نے مسجد بیت المجیب میں کی۔نمازکی ادائیگی کے بعد کچھ دیر احباب سے ملاقات کی جن میں سے تین ایسے دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی جو خاکسار کے قیام کے دوران احمدیت کی آغوش میں آئے اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ جماعت کے ساتھ منسلک رہے۔مکرم ناصراحمد کاہلوں صاحب قائم مقام امیر جماعت لائبیریا ہمیں رخصت کرنے کے لیے ہمارے مہمان خانہ پر تشریف لائے۔کھانے کے بعد دعا سے ہمیں رخصت کیا۔اس موقع پر چند اور بھی جماعت لائبیریا کی شخصیات موجود تھیں۔

دوران قیام پاکستانی روایتی کھانوں کے ساتھ ساتھ مقامی کھانے بھی کھانے کا موقع ملا جن میں Potato Green اور Palm Butter قابل ذکر ہیں۔Palm Butter کے بارہ میں ہمارے دوستوں کا کہنا تھا کہ جسے یہ ڈش پسند آجائے وہ لائبیریا سے نہیں جاتا۔خاکسار اس بات سے متفق ہے کہ یہ فی الواقع اپنا منفرد ذائقہ رکھتا ہے۔کچا ناریل تو ہم سب کو ہی مرغوب ہے لیکن اس کا پانی شکم سیری کے لیے کافی ہے۔جگہ جگہ تازہ ناریل بیچنے والے موجود ہوتے ہیں جو اپنے تیز دھار چھرے سےاسے آپ کے ایک اشارہ پر حاضر کردیتے ہیں۔لائبیریا میں قیام کے دوران اسے بھی متعدد بار پینے کا موقع ملا۔لائبیریا میں گزارے گئے یہ چند ایام بڑی سرعت کے ساتھ گزرگئے جن کے لیے کئی سالوں سے پروگرام بنایا جاتا رہا۔یہ چند ایام اور ان کی سنہری یادیں خاکسار کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں۔اپنی اس تحریر کے ذریعہ خاکسار ایک بار پھر جماعت احمدیہ لائبیریا کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتاہے۔ان کے پیار ومحبت اور مہمان نوازی کا تحفہ گراں قدر ہے۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کو جزائے خیر عطا کرے اور لائبیریا جماعت وسّع مکانک کی تصدیق کے تازہ بتازہ نشانات دیکھتی چلی جائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button