خلاصہ خطبہ جمعہ

پیشگوئی مصلح موعودؓ کا مختصر ذکر، حضرت مصلح موعودؓ کے مقام اور مرتبہ کے بارے میں غیروں کے تاثرات نِیز پاکستان اوریمن کے احمدیوں اور فلسطینیوں کے لیے دعا کی تحریک:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍فروری۲۰۲۴ء

٭… یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو اعلان کرنے کا فرمایا تھا

٭… پیشگوئی مصلح موعود ؓکی دو خصوصیات وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا کے بارے میں غیروں کے تاثرات

٭… مولانا محمد علی جوہر نے کہا کہ مرزا بشیر الدین محمودؓ نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کےلیے وقف کر دی ہیں

٭… علامہ اقبال نے کہا کہ میں اپنی تقریرجاری نہیں رکھ سکتا تا مجھےمرزا صاحب ؓکی تقریر سے جو لذت حاصل ہو رہی ہے وہ زائل نہ ہوجائے

٭…پاکستان اور یمن کے احمدیوں، نیز فلسطینیوں کے لیے دعا کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۳؍فروری۲۰۲۴ء بمطابق ۲۳؍ تبلیغ ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۳؍فروری ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج میں پیشگوئی مصلح موعودؓ کے بعض پہلوؤں کا ذکر کروں گا۔جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے اور ہر سال اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر جلسے بھی منعقدکیے جاتے ہیں۔۲۰؍فروری۱۸۸۶ء کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کہ ایک مختلف صفات کے حامل بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی لیکن اس بارے میں واضح ہو کہ

اس دن حضرت مصلح موعودؓ کی سالگرہ نہیں منائی جاتی بلکہ پیش گوئی کے پورا ہونے پر جلسے کیے جاتے ہیں کیونکہ آپؓ کی پیدائش تو ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کی ہے۔

والدین کو پڑھ کر بچوں کو بتانا بھی اور سمجھانا بھی چاہیے کہ پیشگوئی مصلح موعود ؓکیا ہے۔یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو پہلےنوِشتوں کے مطابق جن کی پہلے انبیاء نے بھی خبر دی اور پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو یہ اعلان کرنے کا فرمایا تھا۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ خدائے رحیم وکریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے(جَلَّ شَانَہ ٗوَعَزَّ اِسْمُہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تضرعات کو سُنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بہ پایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لیے مبارک کردیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے،فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تاانہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰؐ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔سو

تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا، ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا، وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہوگا۔

پھر اس پیشگوئی میں اس لڑکے کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں جن میں سے ایک دو کا میں ذکر کردیتا ہوں۔ فرمایا:وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔وہ اَسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔ یہ اس لمبی پیشگوئی کی چند باتیں ہیں۔پھرہم نے دیکھا کہ بیان کردہ مدّت کے اندر وہ لڑکا پیدا ہوا اور پیشگوئی کے تمام پچاس یا باون حصوں کا مصداق بنا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے دورِ خلافت کا ہر دن اس پیش گوئی کے پورا ہونے کی شان کا اظہار کر رہا ہے اور جماعت احمدیہ کی ترقی کا ہر دن اس کی روشن دلیل ہے۔ اس پیشگوئی کے حوالہ سے مَیں انصاف پسند ایسے لوگوں کی گواہیاں پیش کرتا ہوں جن کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور برصغیرکی جانی پہچانی شخصیات ہیں۔

مولانا غلام رسول صاحب مہر روزنامہ زمیندارسے منسلک ایک محقق، مصنف، ادیب، صحافی اور مؤرخ نے شیخ عبدالماجد صاحب کوبتایا کہ آپ لوگوں کی کسی کتاب میں اس عظیم الشان انسان کے کارناموں کی مکمل آگاہی نہیں ملتی۔ ہم نے انہیں قریب سے دیکھا ہے، کئی ملاقاتیں کی ہیں، مسلم قوم کے لیے ان کا وجود سراپا قربانی تھا۔ فرقہ بازی کا تعصب میں نے اس وجود میں نام کا نہیں دیکھا، وہ بلا کے ذہین تھے۔

افسوس مسلمانوں نے مرزا صاحبؓ کی قدر نہیں کی۔ سخت مخالفت کی آندھیوں کے باوجود میں نے مرزا صاحبؓ  کو کبھی افسردہ اور سرد مہرنہیں دیکھا۔

لالہ بھیم سین کے فرزند جناب لالہ کنور سین صاحب سابق چیف جج کشمیرنے حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر عربی زبان کا مقام السنہ عالم میں کے بارے میں اظہارِخیال کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ جو لیکچر دیا گیا وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر قائم رہے گا۔ حضرت مصلح موعود ؓتودنیاوی تعلیم کے لحاظ سے پرائمری پاس بھی نہیں تھے اس علم سے اللہ تعالیٰ نے اُنہیں پُر کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اور غیر بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے۔حضرت مصلح موعودؓ کے خلیفہ ہونے کے چند دن بعد ایک امریکی پادری قادیان آیا اور چنداہم مذہبی سوالات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج تک مجھے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا عالم اور فاضل ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔ میں اِن سوالوں کو آپ کے خلیفہ صاحبؓ کے سامنے پیش کرنے کےلیے خاص طور پر آیا ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نہایت سکون کے ساتھ ان سب سوالوں کو سُنا اور ایسے تسلی بخش جوابات دیے کہ

پادری کہنے لگا میں نے آج تک ایسی معقول گفتگو اور ایسی مدلل تقریر کسی مسلمان کے منہ سے نہیں سنی۔

معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا خلیفہ بہت بڑا سکالر ہے اور مذاہبِ عالم پر اس کی نظر بڑی گہری ہے۔ یہ کہہ کر اُس نے بڑے ادب سے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور واپس چلا گیا۔پس یہ شان ہے پیشگوئی کے پورے ہونے کی۔

حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح کے متعلق رائے دینے والے نے لکھا کہ حضورؓ کی اس بروقت راہنمائی سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا اور بڑے بڑے مسلم لیڈروں نے تعریفی الفاظ میں سراہا اور شکریہ ادا کیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی نہایت ضرورت کے وقت دستگیری کی ہے۔ چنانچہ کئی اصحاب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ے کہا کہ اصلی اور عملی کام توآپ کی جماعت ہی کر رہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ اور کہیں نہیں دیکھی جاتی۔اخبار سیاست نے لکھا کہ مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو

جناب بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے میدان تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت اور افادہ ہر تعریف کا مستحق ہے۔

مولانا محمد علی جوہر صاحب گول میز کانفرنس لندن کے حوالہ سے اپنے اخبار ہمدرد میں لکھتے ہیں کہ ناشکر گزاری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود ؓ اور ان کی منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کےلیے وقف کر دی ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ کے شروع میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر منتخب ہونےاور بعدازاں اس کی صدارت سے استعفیٰ دینے پر مشہور نڈر اور بے باک مدیرسیّد حبیب صاحب نے اخبار سیاست میں لکھا کہ اگر اختلاف عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتاتو یہ تحریک بالکل ناکام رہتی اور امت مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا۔میری رائے میں مرزا صاحبؓ کی علیحدگی کمیٹی کی موت کے مترادف ہے۔

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے حوالے سے جماعت کے خلاف بہت باتیں ہوتی ہیں لیکن اُن کی یہ باتیں بھی ریکارڈ میں موجود ہیں کہ۲۴؍مارچ ۱۹۲۷ء کو لاہور میں جلسہ ہوا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے وہاں تقریر فرمائی جس کے بعد علامہ صاحب نے کہا کہ ایسی تقریر بہت عرصے کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے۔

خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحبؓ نے استنباط کیا ہے وہ تو نہایت ہی عمدہ ہے۔

میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہو رہی ہے وہ زائل نہ ہو جائے۔سردار شوکت حیات خان صاحب جدوجہد آزادی ہندوستان کے سرکردہ رکن تھے اپنی کتاب گم گشتہ قوم میں لکھا ہے کہ ایک دن مجھے قائد اعظم کی طرف سے پیغام ملا کہ تم قادیان جاؤ اورحضرت صاحب کو میری درخواست پہنچاؤ کہ وہ پاکستان کے حصول کےلیے اپنی نیک دعاؤں اور حمایت سے نوازیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے پیغام پہنچایا تو حضرت صاحب نے کہا کہ وہ شروع ہی سے اُن کے مشن کے لیے دعا گو ہیں اور کوئی احمدی مسلم لیگ کے خلاف انتخاب میں کھڑا نہیں ہوگا اور اگر کوئی غداری کرے گا تو وہ اُن کی جماعت کی حمایت سے محروم ہوگا۔

م ش کے نام سے مشہور صحافی اور سیاست دان جن کا اصل نام میاں محمد شفیع تھا حضرت مصلح موعودؓ کی وفات پر انہوں نے لاہور کی ڈائری میں لکھا کہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے خلافت کی گدی پر متمکن ہونے کے بعد جس طرح اپنی جماعت کی تنظیم کی اور جس طرح صدر انجمن احمدیہ کو ایک فعال اور جاندار ادارہ بنایا اس سے ان کی بے پناہ تنظیمی قوت کا پتا چلتا ہے اگرچہ ان کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی لیکن انہوں نے پرائیویٹ طور پر مطالعہ کر کے اپنے آپ کو واقعی علامہ کہلانے کا مستحق بنا لیا تھا۔

مرزا صاحب ایک نہایت سُلجھے ہوئے مقرر اور منجھے ہوئے نثر نگار تھے اور ہر ایک موقع کو بلا دریغ استعمال کرتے تھے جس سے جماعت کی ترقی کی راہیں کھلتی ہوں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف موضوعات پر جماعت کو ،عمومی طور پر مسلمانوں کو راہنمائی فرمائی۔کتابیں کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہیں۔ کوئی شائع ہو گئی ہیں کوئی شائع ہونے والی ہیں۔خطبات ہیں۔پرانے ریکارڈ میں سے غیر مطبوعہ نوٹس یا خطبات اور تقریروں میں سے قرآن کریم کی تفسیریں مل رہی ہیں ان کی بھی انشاء اللہ تعالیٰ اشاعت ہو جائے گی۔بہت سی کتب کی اشاعت انگریزی زبان میں بھی ہو چکی ہے جن کو اردو نہیں آتی انہیں اس علمی خزانے سے استفادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس علمی خزانے سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

حضور انور نے آخر میں پاکستان اور یمن کے احمدیوں، نیز فلسطینیوں کے لیے بھی دعا کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے۔

https://www.alfazl.com/2024/02/23/90790/

بعدازاں حضور انور نے گھانا میں جماعت کے قیام پر سو سال مکمل ہونے پر منعقد کیے جانے والے صدسالہ جلسہ سالانہ کی کامیابی کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ کل انشاء اللہ یہاں سے جلسے میں میری لائیو تقریر بھی ہوگی۔اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button