متفرق مضامین

وسعتِ حوصلہ ایک عظیم خُلق ہے

پانچ بنیادی اخلاق میں سے ایک خلق وسعت حوصلہ ہے۔بچپن ہی سے اپنی اولاد کو سکھانا چاہیے۔ (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

(ع ج حافظ)

تمام اخلاق میں سے ایک خلق وسعت حوصلہ ہے۔یہ ایک ایسا عمدہ اور نیک وصف ہے جس کے ذریعے انسان انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں بھی خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔انسان کی شخصیت کا ایک اہم خلق ہے۔یہ خلق اللہ تعالیٰ کو بہت پسندیدہ ہے۔جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھا ہے۔سب سے پہلے وسعت حوصلہ کا خلق اپنانے والی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی جو معلم اخلاق بن کرآئے۔قرآن کریم نے وسعت حوصلہ اختیار کرنے پر بہت زور دیا ہے اور آجکل یہ معاشرے کی ضرورت ہے۔دنیا کا ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو بنیادی اخلاق کی تعلیم دیتا ہےکیونکہ بنیادی اخلاق کے بغیر انسان زندگی نہیں گزارسکتا۔دنیا کی زندگی مشکل سے ہرگز خالی نہیں ہے۔یہاں زندگی میں ہر شخص کو کسی نہ کسی مشکلات کا سامنا ہے۔فرق بس اتنا ہے کہ جن کا حوصلہ زیادہ ہے ان کے سامنے درپیش مشکلات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔اس کے برعکس کم حوصلہ والے لوگ اکثر مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں۔نتیجتاً ان کی مشکلات بڑھتی چلی جاتی ہیں۔بعض اوقات حوصلہ کی کمی کی وجہ سے ان سےان کی قیمتی جانیں ضائع جاتی ہیں۔یہ خلق باقی تمام اخلاق کو بجا لانے کی توفیق دیتا ہے۔یہ لفظ صبر،عزم،ہمت اور بہادری جیسے خلق کا حامل ہے۔ اور دکھ،تکلیف، مصیبت،مشکل اور اسی طرح اپنے اوپر غصے کی حالت میں قابو پانا اور تحمل عفو سے کام لینا ہی دراصل وسعت حوصلہ ہے۔

وسعت حوصلہ وہ خلق ہے۔جو انسان کو معاشرے میں بہترین بناتا ہے اور دنیاوآخرت کی کامیابیاں وکامرانیاں اورسربلندیاں حاصل کرتا ہے۔اس خلق کو اپنانے سے دشمن کم اور دوست زیادہ ہوتے ہیں۔جو انسان اپنے اندر یہ خلق رکھتا ہے وہ اچھے اخلاق کا مالک کہلاتا ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل طور پر ہماری راہنمائی کرتا ہے۔اور اسلام نے ہی وسعت حوصلہ کے خلق کو اعلیٰ ترین مقام و مرتبہ عطا فرمایا اور کتنی عمدہ فضیلت ہمیں بتائی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں وسعت حوصلہ انتہائی اعلیٰ درجے کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ ظلم و ستم کیے گئے۔ کتنی ہی سختیاں اور تلخیاں آئیں۔لیکن آپؐ وسعت حوصلہ سے کام لیتے تھے اورغصے پر قابو پاتے تھے اور اپنے جانی دشمنوں تک کو معاف کر دیتے تھے۔برائی کے مقابلے میں بھی نیکی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کی بیٹی کواونٹ سے گرانے والے،آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی،وہ سفر طائف کی تکالیف اور زہرکھلا کر مارنے کی کوشش کرنے والی یہودیہ،اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو دکھ اور تکلیفیں پہچانے والے کم و بیش یہ سب فتح مکہ کے موقع پر آپؐ کے سامنے کھڑے تھے، آپؐ چاہتے تو بدلہ لے سکتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےوسعت حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ان سب کو معاف فرما دیا۔

تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وسعت حوصلہ کے بہترین مظہر تھے۔روایات میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا۔(مسلم کتاب الفضائل باب مُبَاعَدَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلآثَامِِ)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر (یمن کے) نجران کی بنی ہوئی موٹے حاشیے کی ایک چادر تھی۔ اتنے میں ایک دیہاتی آ گیا اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو پکڑ کر اتنی زور سے کھینچا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھے پر دیکھا کہ اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے نشان پڑ گیا تھا۔ پھر اس نے کہا: اے محمد! مجھے اس مال میں سے دیے جانے کا حکم کیجیئے جو اللہ کا مال آپ کے پاس ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے اور آپ نے اسے دیے جانے کا حکم فرمایا۔(بخاری كِتَاب اللِّبَاسِ بَابُ الْبُرُودِ وَالْحِبَرَةِ وَالشَّمْلَةِ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں برا بھلا کہنا شروع کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی باتیں سن کرمسکرارہے تھے۔ جب اس شخص نے بہت کچھ کہہ لیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دے دیا۔اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ گالی دے رہا تھا اورتم خاموش تھے۔ خدا کا ایک فرشتہ تمہاری طرح سے جواب دے رہا تھا۔لیکن جب تم نے اس کو جواب دیا تو فرشتہ چلا گیا اور شیطان آ گیا۔ (مشكوة المصابيح كتاب الآداب حدیث نمبر ۵۱۰۲)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک خلق وسعت حوصلہ تھا۔آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام وسعت حوصلہ کےایک بہترین نمونہ تھے۔آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مخالف گالیاں دیتے اور گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے تھے۔ جب پڑھتے تھے تو گالیوں کا طومار ہوتا تھا۔ ایسی فحش گالیاں ہوتیں جو کسی دوسرے کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہوں۔ الغرض ہر موقع پر انتہائی وسعت حوصلہ کا نمونہ دکھایا۔بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کر دیا جاتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دے۔چنانچہ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ ساری رات وہ شخص گالیاں نکالتا رہتا تھا۔جب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دادی صاحبہ کو کہتے کہ آپ اس کو کھانےکےلیےکچھ دو۔یہ ساری رات گالیاں نکال نکال کے تھک گیا ہوگا۔اس کا گلا خشک ہو گیا ہوگا۔وہ کہتیںکہ میں حضرت صاحب کو کہتی کہ ایسے کمبخت کو کچھ نہیں دینا چاہیے۔تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے اور ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔(سیرت المہدی جلد دوم حصّہ چہارم روایت نمبر ۱۱۳۰ صفحہ نمبر ۱۰۲ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ وسعت حوصلہ کے بارے میں فرماتے ہیں: پانچ بنیادی اخلاق میں سے ایک خلق وسعت حوصلہ ہے۔بچپن ہی سے اپنی اولاد کو سکھانا چاہیے۔اگر تمہیں کسی نے تھوڑی سی کوئی بات کہی ہے یا تمہارا کچھ نقصان ہو گیا ہےتو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔اپنا حوصلہ بلند رکھو۔ اور حوصلے کی یہ تعلیم بھی زبان سے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے عمل سے دی جاتی ہے۔بعض بچوں سے نقصان ہو جاتے ہیں۔ گھر کا کوئی برتن ٹوٹ گیا۔سیاہی کی کوئی دوات گر گئی کھانا کھاتے ہوئے پانی کا گلاس الٹ گیا۔اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر میں نے دیکھا ہے کہ بعض ماں باپ برافروختہ ہو کر بچوں کے اوپر برس پڑتے ہیں۔ان کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔چپیڑیں مارتے ہیں۔اور کئی طرح کی سزائیں دیتے ہیں۔اور صرف یہی نہیں بلکہ جن قوموں میں یا جن ملکوں میں ابھی تک ان کا ایک طبقہ یہ توفیق رکھتا ہے کہ وہ نوکر رکھے وہاں نوکروں کے ساتھ تو اس سے بھی بہت بڑھ کر بدسلوکیاں ہوتی ہیں۔تو جن جگہوں میں جہاں نوکروں سے بدسلوکیاں ہو رہی ہوں۔ان گھروں میں جہاں بچوں سے بد سلوکیاں ہو رہی ہوں۔وہاں آئندہ قوم میں بڑا حوصلہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ (خطبہ جمعہ ۲۴؍نومبر۱۹۸۹ء)

آج عصر حاضرمیں ہماری زندگیوں میں خوشیاں کیوں نہیں ہیں۔راحت،سکون اوروسعت حوصلہ کیوں اٹھ چکا ہے۔لڑائی جھگڑوں نے کیوں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔اس لیے کہ ہم میں وسعت حوصلہ نہیں ہے۔وسعت حوصلہ آج معاشرے کی ضرورت ہے اور معاشرے میں وسعت حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے ذرا سی غلطی سرزد ہو جائے تو ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔خاوند بیوی کے جھگڑے،ہمسایوں کے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔مثلا ًکسی ایک سے غلطی ہو جائے تو دوسرا فوراً غصے میں آ جاتا ہے۔کیونکہ دوسرا بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے۔اس قسم کے حالات میں ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بگڑتے ہوئے معاشرے سے بچانے کے لیے وسعت حوصلہ کو اپنانے والے ہوں۔ تاکہ معاشرے میں لڑائی جھگڑا نہ ہو۔آج ہم دوسروں سے وسعت حوصلہ کی توقع رکھتے ہیں۔جبکہ اس ضمن میں ہمیں پہلے اپنے آپ کو وسعت حوصلہ کا نمونہ دکھانا چاہیے۔ بظاہر یہ چھوٹا سا لفظ ہے۔اگر آج ہی ہم وسعت حوصلہ کو اختیار کر لیں تو یقین جانیے ہماری زندگیوں میں راحت اور سکون کے ذریعے دوبارہ ہمارے معاشی و سیاسی حالات بہتر سے بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔اور اس خلق کو اپنا کر انسان دنیاوآخرت کی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے اور پہلے سے زیادہ عزت قائم کر سکتا ہے۔ ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اس خلق کو اپنا شعار بنائیں گے اور ہم اپنی نسلوں کو بھی ان اخلاق سے آراستہ کریں گے۔یہ وہ بنیادی خلق ہے جس کی طرف انسان کو زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button