متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شاہ کابل کے نام ایک فارسی مکتوب کا اردو ترجمہ

(’ابن الفارس‘)

ذیل میں حضرت مسیح موعود علیه السلام کے ایک فارسی مکتوب کا اردو ترجمه قارئین الفضل کے لیے پیش هے جو آپ علیه السلام نے امیر کابل کو بغرض تبلیغ تحریر فرمایا تھا۔ یه خط الحکم نمبر ۶ جلد ۱۱ کے ۱۷؍فروری ۱۹۰۷ء کے شماره میں شائع شده هے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے الحکم میں شائع شده خط کا عکس بھی پیش هے۔

بسم الله الرحمٰن الرحیم

نحمده و نصلی علی رسوله الکریم

از طرف خاکسار جو خدائے بے نیاز کی پناه کا طلبگار هے غلام احمد عافاه الله و ایده

بنام حضرت امیر ظلّ سبحانی مظهر تفضلات یزدانی شاه ممالک کابل سلمه الله عزّ وجلّ!

سلام اور رحمت و برکت کی دعاؤں کے بعد اس تمام زحمت کے بعد جیسا که فطرت انسانی هے که جب وه کسی ایسے میٹھے پانی کے چشمہ سے اطلاع پاتا ہے جو نوع انسان کے فائدے کا موجب ہو تو اسے اس چشمہ سے ایک اُنس پیدا ہوجاتا ہے اور پھر یہ انس اس کے دل کے ساتھ ساتھ اس کے جسم پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو وہ اس چشمہ کی جانب دوڑ کر پہنچے اور اسے دیکھے اور اس کے شیریں پانی سے سیراب ہو۔ اسی طرح آپ کے اخلاق کریمہ اور اچھی عادات اور اسلام کے متعلق آپ کی دردمندی کی خبریں ہندوستان میں بارہا پہنچی ہیں اور آپ کی سلطنت کے کارناموں کی خبریں بھی جابجا پہنچی ہیں اور یہ دیکھا گیا ہے کہ شریف اور اعلیٰ نسب کے لوگ آپ کی سلطنت اور بادشاہی کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ میں جو اس قحط الرجال کے زمانہ میں جس میں اولوالعزم اور بزرگی والے بادشاہوں کی کمی ہے فکر و اندوہ میں زندگی گزار رہا ہوں مجھے اس سب سے اس قدر خوشی پہنچی کہ الفاظ اس کیفیت کے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات کا ہزار ہزار شکر کہ اس نے اس طرح کامبارک وجود، اس تباہی و بربادی کے زمانہ میں اپنے دین کی حمایت کے لیے پیدا کیا ہے۔ درحقیقت وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جو اس طرح کے نیک نیت اور، منصف مزاج بادشاہ کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور وہ بھی خوش قسمت ہوں گے جو بعد از مرور زمانہ ان سب خوبیوں کو شمار کریں گے۔لیکن سب سے زیادہ خوش قسمت دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔

اول ایسے لوگ جو راستی اور راستبازی کی قوت سے پُر ہوتے ہیں اور روحانی طاقت حاصل کرکے ظلمت اور غفلت میں گرفتار لوگوں کو نور معرفت کی طرف کھینچتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو جن کا باطن نور سے خالی ہو ان کو معارف کے نور سے سرفراز کرتے ہیں اور اپنی قوت قدسیہ سے کمزوروں کو اس دارالابتلا کی وادی سے ایمان کی سلامتی کی جانب لے جاتے ہیں۔

دوم وہ لوگ ہیں جو اتفاقیہ یا قسمت سے نہیں بلکہ اپنی خداداد استعدادوں اور نیک بختی اور بلند ہمتی کے باعث خدائے حکیم و علیم کی طرف سے سلطنت اور حکومت کے مالک بنائے جاتے ہیں اور حکمت و مصلحت الٰہی ان کو اپنی ذات کا قائم مقام بنا کر زمین میں اپنی قضا و قدر کا مظہر بنادیتی ہے۔ اور ہزاروں لوگوں کی جان، مال اورعزت ان کے زیر نگین کردیتی ہے۔ بیشک وہ لوگ اپنی شفقت، رحم اور ضرورتمندوں کی مدد کرنے اور غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھنے اور اسلام کی حمایت کرنے کے باعث، رب العالمین کا ظل ہوتے ہیں۔

اس عاجز فقیر کا ماجرا یہ ہے کہ خدائے متعال جو مفاسد و ضلالت کی کثرت کے وقت عام بندوں کے افادہ کی خاطر اپنے ایک بندہ کواپنے بندوں میں سے خاص کرکے اس لیے مبعوث کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ گمراہوں کو ہدایت دے اور اندھوں کو بینائی عطا کرے اور غافلوں کو عمل کی توفیق عطا کرے اور اس کے ہاتھ سے دین کی تجدید فرمائے اور اس کے ذریعہ معارف و براہین کی تعلیم دے۔ اسی خدائے کریم و رحیم نے اس زمانہ کو جب فتن و مفاسد سے پر دیکھا اور جب دیکھا کہ اس زمانہ میں گمراہی اور ضلالت ارتداد بڑھ گیا ہے تو اس نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر اصلاح خلق اور اتمام حجت کے لیے مامور کیا۔ اور چونکہ اس زمانہ کا فتنہ علمائے نصارٰی تھے اس لیے یہ عاجز درگاہ الٰہی سے حضرت مسیح علیہ السلام کے نقش قدم پر بھیجا گیا تاکہ وہ پیشگوئی جو مسیح کے دوبارہ آنے کے بارے میں زبان زد عام ہے وہ بطور بروز ظہور میں آئے کیونکہ قرآن کریم صاف طور پر ہدایت فرماتا ہے کہ جو بھی اس دنیا سے چلا جاتا ہے وہ لوٹ کر نہیں آتا اور اسی طرح اسی مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا ناممکنات میں سے ہے۔ البتہ گذشتگان کی ارواح بطور بروز دنیا میں آتی ہیں۔ یعنی کوئی شخصیت ان کی طبیعت کی مانند پیدا ہوجاتی ہے اور خدا کے نزدیک اس کا ظہور بعینہٖ ویسے ہی ہوتا ہے کہ گویا وہی گذشتہ شخصیت لوٹ کر آئی ہو۔یہی وہ دوبارہ آنے کا طریق ہے جس کو صوفیاء کی اصطلاح میں بروز کا نام دیا گیا ہے۔ وگرنہ اگر گذشتہ انبیاء کے دوبارہ لوٹنے کا راستہ کھلا ہوتا تو ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا میں دوبارہ لوٹ کر آنے کی زیادہ حاجت تھی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی بھی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ میں دوبارہ دنیا میں لوٹ کر آؤں گا۔ یہ فرمایا کہ ایک شخص آئے گا کہ جس کا نام،میرا نام ہوگا یعنی میری طبیعت و فطرت پر آئے گا۔ پس مسیح علیہ السلام کا دوبارہ آنا بھی اسی طرح کا آنا ہے۔نہ کہ اس طرح کا آنا جس کی جب سے دنیا بنی آج تک کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ امام مالک رضی اللہ عنہ اور امام بخاری و دیگر ائمہ کبار بھی اسی خیال کے قائل تھے۔ البتہ عام عوام جو عجوبہ پسند ہوتے ہیں اس نکتہ سے آگاہی نہیں رکھتے۔ اور ان کے خیالات اس طرح کے ہیں کہ نزول مسیح جسمانی رنگ میں ہوگا اور اس دن عجیب تماشہ کا دن ہوگا۔ ایک انسان ایک جلتی ہوئی مشعل کے ساتھ آسمان سے زمین کی طرف آئے گا کچھ اسی طرح کا تصور ان کے ذہنوں میں مسیح کے نزول کے بارےمیں ہے کہ وہ تمام شان و شوکت کے ساتھ نازل ہوگا اور ہر طرف ایک شور بپا ہوگا کہ دیکھو وہ آگیا وہ آگیا۔ لیکن سنت اللہ یہ نہیں ہے۔ اگر اس طرح کا عام روشن نظارہ ہو تو پھر ایمان بالغیب باقی نہیں رہتا۔ وہ لوگ سخت غلطی پر ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک آسمان پر زندہ ہیں۔ حاشا و کلا اس طرح نہیں ہے۔ بلکہ قرآن کریم بارہا وفات مسیح کا ذکر فرماتا ہے۔ اور حدیث معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو کہ صحیح بخاری میں پانچ مقامات پر درج ہے وہ بھی ( عیسیٰ علیہ السلام) کو وفات یافتگان کے زمرہ میں شامل کرتی ہے۔ پس وہ کیونکر زندہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا حیات مسیح کا عقیدہ رکھنا قرآن و حدیث کے فیصلہ سے روگردانی ہے۔ اور اسی طرح آیہ کریمہ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں نے اپنے مذہب کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بگاڑ ا ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے دوران۔ پس اگر بالفرض مان لیا جاوےکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عیسائیوں نے ابھی تک اپنے مذہب کو نہیں بگاڑا اور حقیقی اصلی دین پر قائم ہیں، جبکہ اس طرح کا خیال کفر بیّن ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو نصوص قرآنیہ پر ایمان رکھتا ہے اس پر یہ لازم ہے کہ وہ وفات مسیح پر بھی ایمان لائے اور یہ چھوٹی سی دلیل ان کئی دلائل میں سے ایک ہے جو ہم نے اپنی کتب میں مفصل طور پر لکھ دیے ہیں۔جو بھی اس کی تفصیل کا خواہاں ہے وہاں سے پڑھ لے۔ قصہ مختصر کہ یہ ضروری تھا کہ آخری زمانہ میں اس امت میں سے ایک شخص ظاہر ہو کہ جس کی آمد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا بروز ہو اور حدیث کسر صلیب جو صحیح بخاری میں موجود ہے وہ بآواز بلند کہہ رہی ہے کہ اس شخص کی آمد غلبہ نصاریٰ کے وقت میں ہوگی اور ہر دانشمند شخص جانتا ہے کہ اس زمانہ میں جس طرح کا غلبہ نصاریٰ کو زمین پر حاصل ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اور نصاریٰ کے علماء کا دجل اور ان کی کارستانیاں،ہر قسم کی شیطانیوں میں مرتبہ کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دجال بھی یہی کتب مقدسہ میں تحریف کرنے والے ہیں کہ انہوں نے دوہزار سے زائد تحریف شدہ اناجیل اور تورات ہر زبان میں شائع کی ہیں اور کتب آسمانی کو اپنی خیانتوں سے پُر کردیا ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ ایک انسان کی عبادت کی جائے۔ اب انصاف کی نظر سے غور سے دیکھو کہ ان سے بڑھ کر بھی کوئی دجال ہوگا جو پہلے یا بعد میں آئے گا؟ لیکن چونکہ میں ابتدائے آدم سے لے کر آئندہ انواع تک بھی کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو ان کے مکروہ دجل میں ان کا ہم پلہ ہو۔ اس کے بعد وہ کون سی علامتیں ہیں جو نظر آرہی ہوں تاکہ یقین یا شک بھی ہوسکے کہ ان سے بڑھ کر بھی کوئی بڑا دجال ہے جو کسی غار میں چھپاہوا ہے؟ اور اسی طرح سورج و چاند گرہن ایک ساتھ انہی دنوں میں ہمارے ملک میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ اور یہ مسیح موعود کی آمد کے نشانات میں سے ایک موعود پیشگوئی ہے جو دار قطنی میں حضرت امام باقر رحمہ اللہ سے روایت شدہ حدیث میں لکھی ہوئی ہے۔ عیسائیوں کا فتنہ حد سے بڑھ چکا ہے اور غلیظ ترین دشنام اور سخت ترین توہین ہمارے پیارے نبی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کی بنسبت اپنی زبان اور قلم سے علمائے نصاریٰ اور ان کے فلسفیوں نے کیں۔ اور آسمان پر ایک شور بپا ہوا اور ایک مسکین کو اتمام حجت کے لیے مامور کیا گیا۔ یہ سنت اللہ ہے کہ جس طرح کا فساد روئے زمین پر برپا ہوتا ہے اسی طرح کا مجدد اس زمین پر بھیجا جاتا ہے۔ بس جس کی آنکھیں ہیں اسے چاہیے کہ دیکھے کہ اس زمانہ میں کس طرح کا فساد دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور کونسی قوم ہے جو اسلام پر حملہ آور ہے۔ اے وہ جو اسلام کے لیے غیرت رکھتے ہو! سوچو کہ یہ صحیح ہے یا غلط؟کیا ضروری نہ تھا کہ تیرھویں صدی جو فتنوں کی بنیاد تھی اس کے اختتام پر اور چودھویں صدی کے آغاز پر رحمت الٰہی تجدید دین کے لیے متوجہ ہوتی؟ لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ کیونکر مجھے عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر بھیجا گیا۔ اس لیے کہ اس زمانہ کے فتنے اسی قسم کی روحانیت کے متقاضی تھے۔

چونکہ مجھے مسیحی قوم کے لیے اتمام حجت کا پیغام دیا گیا تھااسی مصلحت سے میرا نام ابن مریم رکھا گیا۔آسمان سے نشانات کی بارش ہورہی ہے اور زمین بھی کہہ رہی ہے کہ یہی وہ موعود وقت ہے۔

یہ دونوں بطور گواہ میری تصدیق کے لیے کھڑے ہیںیہی وجہ تھی کہ خداوند کریم نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا’’چلو کہ تمہارا وقت نزدیک آچکا ہے اور محمدیوں کا قدم ایک بلند منارے پر مضبوطی سے قائم ہوگیا‘‘یہ خداوند حکیم و علیم کا کام ہے اور لوگوں کی نظر میں عجیب ہے۔ اس شخص کے لیے اجر ہے جو واضح نشان کے ظہور سے قبل مجھے پہچان لے۔ اور ہر وہ شخص جو آسمانی نشانات کے دیکھنے کے بعد بیعت کرے گا اس کو اس قدر اجر نہ ملے گا۔ اور مجھے سلطنت و حکومت سے کچھ سروکار نہیں مَیں غریب ہونے کی حالت میں آیا ہوں اور غریب ہی اس دنیا سے جاؤں گا۔ اور مَیں مامور کیا گیا ہوں تاکہ لطف اور نرمی کے ساتھ اسلام کی حقانیت کے دلائل اس پُرآشوب زمانہ میں، ہر ملک کے لوگوں کے سامنے پیش کروں۔ اسی طرح سلطنت برطانیہ جس کے زیر سایہ میں امن کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہوں مجھے اس سے کوئی تعرض نہیں ہے بلکہ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کی اس نعمت کا شکر بجالاتا ہوں کہ اس طرح کی پُر امن حکومت کے دور میں دین کی خدمت کے لیے مامور کیا۔ اور اس نعمت کا شکر میں کیونکر ادا نہ کروں اس قدر غربت اور بے کسی اور قوم کے سفیہ لوگوں کے شور و غوغا کے باوجود میں اپنا کام حکومت انگلیشیہ کے زیر سایہ اطمینان سے بجالارہا ہوں اور اس قدر سکون میں ہوں کہ اگر اس حکومت کا شکر ادا نہ کروں تو پھر میں خدا کا بھی شکر بجالانے والا نہیں ہوں گا۔ اور اگر اس امر کو میں مخفی رکھوں تب بھی میں ظالم ہوں گا کیونکہ جیسا کہ عیسائی پادریوں کو اپنے مذہب کی اشاعت کی آزادی ہے ویسا ہی ہمیں بھی بغیر کسی مانع کے اسلام کی اشاعت کی آزادی حاصل ہے اور اس آزادی کے زیادہ فوائد ہم مسلمانوں کو ہیں کیونکہ اس آزادی کے جس قدر فوائد ہم مسلمانوں کو حاصل ہوتے ہیں دوسروں کو اس سے کچھ تھوڑا حصہ بھی نہیں ملتا کیونکہ وہ باطل پر ہیں اور ہم حق پر ہیں اور اہل باطل آزادی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتے بلکہ یہ آزادی ان کے عیبوں کو مزید نمایاں کرتی ہے اور اس روشنی میں ان کا دجل خوب کھل کر عیاں ہوجاتا ہے۔ پس یہ ہم پر خدا کا فضل ہے کہ ہمارے لیے ایسا انتظام مہیا کیا اور ہمارے لیے اس نعمت کو مخصوص کیا۔ ہاں البتہ علمائے نصاریٰ کو اپنی قوم کی مدد سے لاکھوں روپیہ اناجیل اور اپنے باطل دلائل کی اشاعت کے لیے پہنچتا رہتا ہے جبکہ ہمیں نہیں ملتا۔ اور ان کی مدد کرنے والے یورپی ممالک میں چیونٹیوں کی مانند بیشمار ہیں جبکہ ہمارے لیے خدا کےعلاوہ اور کوئی مددگار نہیں۔ پس ہمارے کام میں اگر کوئی ہرج ہے تو وہ یہ مفلسی ہے اور اس مانع کا باعث حکومت برطانیہ نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قوم کا قصور ہے کہ وہ دین کے معاملہ میں بہت غافل ہیں اور مدد کرنے کے مواقع کو اپنے فضول ظنوں اور منافقانہ بہانوں سے ٹالتے ہیں۔ ہاں اپنی عزت کے معاملہ میں گھوڑوں کی مانند چاک و چوبند ہیں اور نہیں دیکھتے کہ اس زمانہ میں اسلام سینکڑوں دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اور ہر مذہب میدا ن میں آچکا ہے تاکہ فتحیاب ہو پس یہی وقت ہے کہ ہم اسلام کی خدمت کریں اور فلسفیوں کے اعتراضات کی بیخ کنی کریں اور قرآن کی حقانیت ہر بیگانہ اور جاننے والے پر روشن کردیں اور رب جلیل کے کلام کی عزت کو دلوں میں بٹھا دیں اور کوشش کریں کہ اس میدان میں ہمیں فتح نصیب ہو۔ اور اپنی پوری کوشش کریں تاکہ نصرانیت کے وساوس کے اسیروں کو چاہ ضلالت سے باہر نکالیں اور ایسے لوگوں کو جو فساد اور ارتداد پر آمادہ ہیں ہلاکت سے بچا لیں۔ یہی کام ہے جو ہمارے ذمہ ہے۔ یورپ اور جاپان ہمارے اس تحفہ کے منتظر ہیں اور امریکہ بھی دعوت تبلیغ کے لیے مستعد ہے۔پس اگر ہم بیٹھے رہیں گے تو ہم بہادر کہلانے کے لائق نہیں۔ الغرض یہی کام ہے جو ہمارے سپرد ہے اور میری یہی خواہش ہے جو میں خدا سے مانگتا ہوں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ اے خدا ! میرے انصار پیدا فرما اور اس چیز کا منتظر ہوں کہ کب کس جگہ سے تازہ ہوا کا جھونکا آتا ہے اور کس طرف سے بشارت آتی ہے۔

اے شاہ کابل! اگر آج تُو ہماری بات سن لے اور ہماری مدد اپنے خزانے سے کرنے کا ارادہ کرے تو ہم دعا کرتے ہیں کہ تُو جو بھی مانگے خدا تجھے وہ عطا فرمائے اور تیرے خلاف ہونے والی تدبیروں سے تجھے محفوظ رکھے۔اور تیری عمر میں برکت ڈالے۔ اور اگر کسی کو ہمارے اور ہمارے دعویٰ کے بارےمیں تامل ہے تو اسے دین اسلام کی حقانیت کے بارےمیں بھی تامل ہے۔

پس چونکہ یہ کام اسلام کا کام ہے اور یہ خدمت دین کی خدمت ہے اس وجہ سے میرا وجود اس درمیان میں مانع نہ سمجھا جائے اور خلوص کے ساتھ اسلام کی خدمت کی جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کی تائید کی جائے۔

(عربی حصہ )اے بادشاہ! خدا تجھے برکت دے اور تجھ پر برکات نازل فرمائے اور جان لے کہ یہی وقت مدد کا ہے جس کے بدلہ میں تیرے لیے آخرت کے خزانے ہوں گے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تو صالحین میں سے ہے۔ پس تُو اگر باقیوں پر اس کام میں سبقت لے جائے تو پہلے نیک عمل کرنے والے خدا کے ہاں بھی سابقون ہیں اور اللہ نیک اعمال بجالانے والوں کا اجر ضائع نہیں ہونے دیتا۔ اور خدا کی قسم میں خدا کی طرف سے مامور کیا گیا ہوں اور وہ میرے پوشیدہ اور ظاہری دونوں اعمال سے واقف ہے اور اس نے مجھے صدی کے سر پر احیائے دین کے لیے مبعوث کیا۔ کیونکہ اس نے جب دیکھا کہ دنیا میں فسق و فجور بڑھ گیا ہے اور گمراہی بڑھتی جاتی ہے اور امانتداری اٹھ گئی ہے جبکہ خیانت بڑھ گئی ہے تو اس نے مخلوق میں سے اپنے ایک بندہ کو احیائے دین کے لیے چن لیا اور اسے اپنی عظمت اور کبریائی اور اپنے کلام مبین کا خادم بنادیا۔ اور خلق کرنا اور اس پر حکومت کرنا اسی کو زیبا ہےوہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور جس پر چاہتا ہے یہ نعمت نازل کرتا ہے پس خدا کے حکم کو تعجب کی نظر سے نہ دیکھو اور بدظنیاں کرتے ہوئے منہ نہ پھلاؤ۔اور حق کو قبول کرلو اور سابقین میں شامل ہوجاؤ اور یہ ہم پر اور ہمارے مسلمان بھائیوں پر خدا نے فضل کیا ہے۔ وائے حسرت! ان لوگوں پر جو وقت کو نہیں پہچانتے اور دنیا میں خدا کے نشانات کو نہیں دیکھتے اور غفلت میں پڑے سوتے ہیں۔اور ان کو اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کہ وہ ایک مسلمان کو کافر کہیں اور ایک صادق کی تکذیب کریں۔ اور وہ خدا کے لیے قیام کرتے ہوئے غور و فکر نہیں کرتے اور متقیوں کی راہ کو اختیار نہیں کرتے ۔پس ان لوگوں نے ہمیں کافر کہا اور ہم پر لعنت کی اور نبوت کے دعوئوں کو ہماری طرف منسوب کیا اور کہا کہ ہم معجزات اور ملائکہ کے منکر ہیں۔ حالانکہ وہ اس کا دسواں حصہ بھی نہیں سمجھ سکے جو ہم نے کہا اور نا ہی وہ لوگ غور و فکر کرنے والے ہیں۔ اور انہوں نے تکذیب کی خاطر جلدی سے اپنے منہ کھول لیے اور ہم اس سے جو انہوں نے ہم پر افترا کیے، مبرا ہیں اور میں خدا کے فضل سے مومنوں میں سے ہوں۔

ہم خدا پر اور اس کی کتاب قرآن کریم پر اور اس رسول النبی الامی جو رحمان خدا کا محبوب ہے اور خاتم النبیین ہے ایمان رکھتے ہیں اور ہم ان تمام تعلیمات پر جن کو ہمارے برگزیدہ نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ایمان لاتے ہیں اور ہم تمام انبیاء کو مانتے ہیں اور ہم صدق دل سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول اور سب انبیاء سے برتر ہیں۔

یہ ہمارے عقائد ہیں جن پر ہم خدا سے ملیں گے اور یقیناً ہم صادقین میں سے ہیں۔ یقیناً اللہ نور ہے اس نے جہان پر اپنا فضل کیا اور ایک بندے کو اس کے وقت پر مجدد بنایا پس کیا تم خدا کے حکم سے تعجب میں پڑتے ہو؟ جبکہ وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

یقیناً عیسائی، مسیح کی حیات سے فتنے میں ڈالے گئے اور کفر صریح میں مبتلا کیے گئے۔ تو اللہ نے ارادہ کیا کہ ان کے دلائل کو باطل کردکھلاوے اور ظاہر کردے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ پس جو کوئی بھی قرآن پر ایمان لاتا ہے اور رحمان خدا کے فضل کا طالب ہے۔ پس اسے چاہیے کہ وہ میری تصدیق کرے اور بیعت کرنے والوں میں داخل ہوجائے۔ اور حق یہ ہے کہ وہ اپنی جان اور اپنا ہاتھ میرے تسلط میں دے دے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا دنیا اور آخرت میں انعام کرے گا اور دونوں جہانوں میں انہیں کامران کرے گا۔پس تم میری بات کو یاد رکھو اور میں اپنا معاملہ خدا کے سپرد کرتا ہوں اور میں اپنے حزن کی شکایت خدا کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ وہ میرا رب ہے میں اس پر ہی توکل کرتا ہوں وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا بلکہ میرے درجات بلند کرے گا اور مجھے عزت دے گا۔ اور عنقریب وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا وہ جان لیں گے کہ وہ یقیناً خطا کاروں میں سے تھے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

الملتمس: بندہ خدائے واحد غلام احمد

ماہ شوال۱۳۱۳ھ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button