حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

سزا اور معافی کا فلسفہ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍ جنوری ۲۰۱۶ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۃ شوریٰ کی اس 41 ویں آیت کی اپنی کتب اور ارشادات میں کئی جگہ وضاحت فرمائی ہے۔ آپؑ کی تقریباً ۱۳کتب میں اس کے حوالے نظر آتے ہیں یا شاید اس سے بھی زیادہ ہوں۔ اور ان میں اکیس بائیس جگہ پر مختلف جگہوں پر اس حوالے سے آپ نے بات کی ہے۔ اسی طرح اپنی مجالس میں بھی کئی جگہ اس کا ذکر فرمایا۔ ’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘میں آپ نے سزا اور معافی کا فلسفہ اور روح بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ’’بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو۔‘‘(اس آیت کی روشنی میں ) ’’لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو۔ کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہو۔ نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا۔‘‘(یعنی بخشنے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر پائے گا) فرمایا کہ ’’اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے‘‘(بعض جگہ شر کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے) ’’اور شریرو ں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے۔ بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقعہ گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا۔ پس مجرم کے حق میں اور نیز عامّہخلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقعہ بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے‘‘۔ فرمایا کہ ’’بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے توبہ کرتا ہے اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اَور بھی دلیر ہو جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو۔‘‘(یہی نہیں ہے کہ بغیر دیکھے ہم نے گناہ بخشنے ہیں اور صرف یہی ایک کام رہ گیا ہے بلکہ اس حکم پر غور کرو کہ اصلاح تمہارے مدنظر ہو) فرمایا ’’بلکہ غور سے دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں۔ پس جو امر محل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو۔‘‘فرمایا کہ ’’افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں پردادوں کے کینوں کو یاد رکھتے ہیں۔ ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگذر کی عادت کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور بسا اوقات اس عادت کے اِفراط سے دیّوثی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسی قابل شرم حلم اور عفو اور درگذر ان سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیّت اور غیرت اور عفّت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک چلنی پر داغ لگاتے ہیں اور ایسے عفو اور درگذر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ توبہ توبہ کر اٹھتے ہیں۔ انہیں خرابیوں کے لحاظ سے قرآن شریف میں ہر ایک خُلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگا دی گئی ہے اور ایسے خُلق کو منظور نہیں رکھا جو بے محل صادر ہو۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۵۱۔ ۳۵۲)

پس یہ بنیادی بات اسلام کی سزاؤں کے فلسفے میں ہے کہ نیکی کیا ہے۔ یہ تم نے تلاش کرنی ہے اور اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے۔ بعض دفعہ معاف کرنا نیکی بن جاتا ہے جس سے اصلاح ہو گئی لیکن بعض دفعہ معاف کرنا برائی بن جاتا ہے کہ غلطی کرنے والا اپنی غلطیوں پر اَور بھی شیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ سزا دینا نیکی بن جاتا ہے۔ یہ اس شخص پر نیکی کرنا بھی ہے کیونکہ سزا کے ذریعہ سے اسے برائیوں سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ برائیوں سے بچ کر اپنی آئندہ زندگی کو برباد ہونے سے بچائے۔

… اسلام تو ہر قسم کی اِفراط اور تفریط سے روکتا ہے اور سزا کے لئے اگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو پھر اس میں ہر امیر غریب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہے۔ اور فرمایا اتنی ہی سزا دو جتنا اس نے کیا اور سزا کے کچھ اصول و قواعد بناؤ۔ اور اس پر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں حکومت قائم کی اور اس کے بعد خلفاء نے اس پر عمل کر کے دکھایا کہ کس طرح سزا ملنی چاہئے اور سزا کا مقصد کیا ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ صرف یہی نہیں دیکھنا کہ مجرم کے حق میں کیا بہتر ہے۔ صرف مجرم کا ہی خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ بعض دفعہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ عام معاشرے میں کیا بہتر ہے۔ چھوٹی چیز کو بڑی کے لئے قربان کرنا یا معاشرے کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھنا یہ بعض دفعہ ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لئے کسی بھی سزا کے فیصلے کے وقت یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ معاشرے پر مجموعی طور پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ بعض دفعہ معاف کرنا معاشرے میں غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ دیکھو اتنا بڑا مجرم ایک غلط کام کر کے پھر بچ گیا۔ تو شرارتی طبع لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بھی غلط کام کر کے معافی مانگ کر بچ جائیں گے۔ یہ صورتحال پھر مجرموں کو اپنے برے افعال کرنے کے لئے جرأت پیدا کرتی ہے اور تقویت دیتی ہے۔ اسی طرح شرفاء خوفزدہ ہونا شروع ہوتے ہیں یا عمومی طور پر لوگ بے چینی محسوس کرتے ہیں اور اس بے چینی کو دُور کرنے کے لئے پھر اپنی ترکیبیں سوچتے ہیں۔ اکثریت بے شک خود حفاظتی کا انتظام کرتی ہے اگر ایسی لاقانونیت کا دور ہو لیکن کچھ عدم تحفظ کی وجہ سے اگر لاقانونیت نہ بھی ہو اور عدم تحفظ ہو تو پھر خود ہی قانون بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے باوجود ایسی خوبصورت تعلیم کے ہمیں ایسی صورتحال مسلمان ممالک میں اکثر نظر آتی ہے۔ سزا اور معافی کے غیر منصفانہ عمل نے مجرموں کو پیدا کرنے میں ایک کردار ادا کیا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے پھر دوسرے بھی وہی حرکتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ سزا دینے اور معاف کرنے میں یہ ایک بہت بڑی بات پیش نظر ہونی چاہئے کہ سزا یا معافی سے معاشرہ کیا اثر لیتا ہے۔ اگر معافیاں مجرموں کو دلیر کر رہی ہیں تو پھر سزاؤں کی ضرورت ہے نہ کہ معافیوں کی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button