متفرق مضامین

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی زبان مبارک سے بیان فرمودہ حضرت مصلح موعود ؓکے غیر مذاہب کے ساتھ تبادلۂ خیال کے چند واقعات

(قمر الزمان مرزا)

’’وہ صاحبِ شکوہ و عظمت اور دولت ہوگا۔وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔وہ سخت ذہن وفہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔‘‘

یہ اس عظیم الشان بیٹے کی چند صفات تھیں جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وعدہ دیا تھا۔ ویسے تو اس پیشگوئی میں تقریباً باون صفات ہیں جو حضرت مصلح موعودؓ کے عرصہ خلافت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔اس میں ایک صفت ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ بھی ہے۔

اس صفت کے الفاظ پر غور کرنے کے لیے ایک مثال سے وضاحت کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک برتن کو جب بھرا جاتا ہے تو لب ریز ہونے پر اگر اس میں مزید ایک قطرہ بھی ڈالا جائے تو اس برتن سے باہر صرف ایک قطرہ نہیں گرے گا بلکہ بہت سا مائع باہر گرے گا۔یہی کیفیت حضرت مصلح موعودؓ کی تھی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو دنیا بھر کے علوم دینی اور دنیوی سکھائے یہاں تک کہ آپ کا وجود علوم ظاہری و باطنی سے پُر ہوگیا تو پُر ہونے کی کیفیت کے لحاظ سے آپ نے اپنے علوم سے دنیا بھر کے احمدیوں کو خاص طور پر اور تمام بنی نوع انسان کو بھی مستفیض کیا۔علوم کو دنیا میں پھیلانے کے لیے ابلاغیات کا باقاعدہ ایک شعبہ اور علم ہے۔عام طور پر ابلاغ کے لیے تقریر و تحریر سے کام لیا جاتا ہے۔اب تو ذرائع ابلاغ میں بہت سے ڈیجیٹل ذرائع بھی اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمادیے ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ۵۲سالہ دورِ خلافت میں ہزاروں تقریریں فرمائیں اور اڑھائی سو سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔جن سے آج تک احباب جماعت اور دیگر لوگ استفادہ کررہے ہیں۔آپ کو اپنی زندگی میں ہزاروں لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور آپ سے بہت سے سوالات کیے گئے اور آپ نے ان کے تسلی بخش جواب عطا فرمائے۔بہت سے دیگر مذاہب والوں سے گفتگو فرمائی اور ان سے بہت سے مسائل پر تبادلہ خیال کیا اور بعض سے باقاعدہ طور پر بحث و مباحثہ بھی کیا۔اپنے خداداد دلائل اورقرآنی دلائل سے ان کے فلسفہ و منطق کا بھرپوراور دندان شکن جواب دے کر ان کا منہ بند کردیا۔اور دوبارہ ان کو سامنے آنے کی جرأت نہ ہوئی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے ببانگ دہل دنیا بھر کے علماء اور فلاسفروں کو چیلنج فرمایا :’’آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اَور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔‘‘(انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ۶۱۴)

اس خداداد علم سے آپ نے دینی علوم کے ماہرین، علماء،پیرو مشائخ، پادری، فلاسفر اور دیگر علوم کے ماہرین، دانشور اور فلاسفروں کو اپنے دلائل اور طرز استدلال سے لاجواب کردیا۔حضورؓ نے اپنی تقاریر اور کتب میں بہت سے واقعات بیان فرمائے ہیں جن میں سے احباب جماعت کے ازدیاد ایمان کے لیے بطور نمونہ چند ایک ذیل میں دیے جارہے ہیں۔

وفات مسیح

’’مجھے یاد ہے میں چھوٹا تھا اور اپنے ایک رشتہ کی نانی کے ہاں دلّی میں ٹھہرا ہوا تھا کہ ان کے ایک بھائی حیدر آباد دکن سے ان کے ملنے کے لئے آئے۔ انہوں نے ایک دن مجھے بلایا اور کہا۔ میاں تمہارا اور دوسرے مسلمانوں کا آپس میں کس بات پر اختلاف ہے۔ میں اس وقت زیادہ علمی باتیں تو جانتا نہیں تھا۔ میں نے کہا۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور دوسرے مسلمان کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔ کہنے لگے۔ تم کسی طرح کہتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔ میں نے اس پر قرآن کریم کی یہ آیت پڑھییٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ (آل عمران:۵۶)۔ میں نے کہا دیکھئے اس میں صاف لکھا ہے کہ اے عیسیٰؑ میں تجھے وفات دوں گا اور پھر تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ پس وفات پہلے ہے اور رفع بعد میں۔ اس پر باوجود اس کے کہ وہ ستر سال کے بڈھے تھے۔ کہنے لگے تمہاری باتیں تو سب معقول ہیں۔ پھر مولوی کیوں مخالفت کرتے ہیں۔ ہماری نانی بڑی متعصب تھیں وہ غصہ سے کہنے لگیں کہ آگے ہی لڑکے کا دماغ خراب ہے اور اب تم اس کو اور خراب کر رہے ہو۔

اب دیکھو وہ حیدر آباد دکن سے اپنی بہن کو ملنے آئے تھے اور میں ایک چھوٹا بچہ تھا۔ مگر محض اس وجہ سے کہ میں ان کی بہن کا نواسہ بلکہ پڑنواسہ تھا انہوں نے مجھ سے بات پوچھ لی۔ ‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد۹ صفحہ ۵۸۷)

پادری فرگوسن سے ڈلہوزی میں تبادلہ خیالات

’’میں ابھی نوجوان تھا قریباً بیس سال کی عمر تھی کہ میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے ڈلہوزی گیا وہاں ایک مشہور پادری آئے ہوئے تھے جن کا نام غالباً فرگوسن تھا۔ انہوں نے سینکڑوں عیسائی بنا لئے تھے اور وہ پہاڑ پر بھی اپنے ٹریکٹ تقسیم کرتے اور عیسائیت کی تعلیم پھیلاتے رہتے تھے۔ کچھ مسلمان جو غیرت مند تھے وہ مولویوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اس فتنہ کا مقابلہ کریں مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے تو مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ آخر وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ آپ چلیں اور ان سے بات کریں ہم لوگ بڑے شرمندہ ہیں۔ میں ابھی چھوٹی عمر کا ہی تھا اور میری دینی تعلیم ایسی نہ تھی لیکن میں ان کے کہنے پر تیار ہو گیا اور ہم چند آدمی مل کر ان کی کوٹھی کی طرف چل پڑے وہاں جا کر میں نے ان سے کہا کہ پادری صاحب! میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت ہم میز پر بیٹھے ہوئے تھے اور میرے سامنے ایک پنسل پڑی ہوئی تھی۔ میں نے کہا فرمائیے اگر یہ پنسل اٹھانے کی ضرورت ہو اور آپ اس وقت مجھے بھی آواز دیں کہ آؤ اور میری مدد کرو۔ اپنے ساتھیوں کو بھی آواز یں دینی شروع کردیں۔ اپنے بیرے کو بھی بلائیں۔ اپنے باورچی کو بھی بلائیں۔ اپنے ارد گرد کے ہمسایوں کو بھی بلائیں اور جب سارا محلہ اکٹھا ہو جائے تو آپ ان سے یہ کہیں کہ یہ پنسل میز پر سے اٹھا کر میرے ہاتھ میں دے دو تو وہ آپ کے متعلق کیا خیال کریں گے؟ کہنے لگا! اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا مطلب خود بخود آ جائے گا آپ صرف یہ بتائیں کہ آیا یہ بات معقول ہوگی اور اگر آپ ایسا کریں تو لوگ آپ کے متعلق کیا سمجھیں گے؟ کہنے لگا پاگل سمجھیں گے۔ میں نے کہا اب یہ بتائیے کہ باپ خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں؟ کہنے لگا تھی میں نے کہا بیٹے خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں؟ کہنے لگا تھی۔ میں نے کہا روح القدس خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں؟ کہنے لگا تھی۔ میں نے کہا پھر یہ وہی پنسل والی بات ہو گئی کہ تینوں میں ایک جیسی طاقت ہے اور اس کام کے کرنے کے قابل ہیں مگر تینوں بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہیں حالانکہ وہ اکیلے اکیلے بھی دنیا کو پیدا کر سکتے تھے۔ میں نے کہا آپ یہ بتائیں کیا دنیا میں کوئی کام ایسا ہے جس کو باپ خدا کر سکتا ہے اور بیٹا خدا نہیں کر سکتا یا بیٹا خدا کر سکتا ہےاور روح القدس خدا نہیں کر سکتا یا روح القدس خدا کر سکتا ہے اور باپ خدا نہیں کر سکتا یا بیٹا خدا کر سکتا ہے اور باپ خدا نہیں کر سکتا ؟ کہنے لگا کوئی نہیں۔ میں نے کہا پھر جھگڑا کیا ہے اگر دو خدا فارغ بیٹھے رہتے ہیں تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ وہ کام تو کر سکتے ہیں مگر فارغ بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہیں اور اگر ایک کام کو تینوں مل کر کرتے ہیں حالانکہ ان تینوں میں سے ہر ایک اکیلا اکیلا بھی وہ کام کر سکتا ہے تو یہ جنون کی علامت ہے اس پر وہ گھبرا کر کہنے لگا کہ عیسائیت کی اصل بنیاد کفارہ کے مسئلہ پر ہے تثلیث کا مسئلہ تو ایمان کے بعد سمجھ میں آتا ہے میں نے کہا کہ جب تک تثلیث سمجھ میں نہ آئے انسان ایمان نہیں لا سکتا اور جب تک ایمان نہ لائے تثلیث سمجھ میں نہیں آسکتی تو یہ تو دور تسلسل ہو گیا جس کو تمام منطقی نا ممکن قرار دیتے ہیں۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ آپ مجھے معاف کریں کفارے پر بات کریں۔‘‘(تفسیر کبیرجدید ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۷ صفحہ۲۸-۲۹)

۱۹۱۱ء میں ڈلہوزی میں پادری صاحب سے گفتگو

’’ میں ڈلہوزی گیا وہاں چرچ نے یوروپین پادریوں کے آرام کے لے کچھ کوٹھیاں بنائی ہوئی ہیں۔ پادری ینگس صاحب جن کے ذریعہ سے سیالکوٹ میں عیسائیت مضبوط ہوئی ہے وہ وہاں سے بدل کر جنوبی ہند میں کسی جگہ پر مقرر ہوئے تھے اور گرمیاں گزارنے کے لئے ڈلہوزی آئے ہوئے تھے۔ وہ جواں سال بڈھاروزانہ شام کو اسلام کے خلاف پمفلٹ ہاتھ میں پکڑ کر بازار میں پھرتا تھا اور مسلمانوں میں تقسیم کرتا تھا مسلمان بے عمل تو بہت ہیں مگر جوش میں بھی بہت جلد آ جاتے ہیں خصوصاً ان پڑھ طبقہ۔ چنانچہ ڈلہوزی اور ساتھ کی چھاؤنی بیلون میں بڑا شور پڑ گیا کہ اس پادری کے ساتھ کسی مسلمان عالم کی بحث کرانی چاہیے۔ بیلون جو ڈلہوزی کے پاس چھاؤنی ہے اس کی جامع مسجد کے امام ایک کشمیری مولوی تھے ان کو پتہ تھا کہ میں آیا ہوا ہوں۔ جب لوگ ان کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ مرزا صاحب کا بیٹا آیا ہوا ہے۔ اس کو مباحثہ کے لئے لے جاؤ عیسائیوں سے مباحثہ قادیانی اچھا کرتے ہیں۔

میں تو نا تجربہ کار تھا مگر جب ایک وفد میرے پاس آیا تو مجھے ان کی بات ماننی پڑی اور میں نے مباحثہ کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کر دی۔ ایک برات کی شکل میں ہم آٹھ نو آدمی پادری صاحب کی کوٹھی پہنچے وہاں انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ آپ بتائیں آپ ہیں کس مذہب کے؟ میرے دل میں فوراً خدا تعالیٰ نے ڈال دیا کہ ان کا منشا یہ ہے کہ میرے سوالوں کو ٹلادیں اور اسلام پر اعتراض شروع کر دیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو اس سے کیا غرض ہے کہ میں کس مذہب کا ہوں آپ یہاں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے آئے ہیں۔ آپ مجھے تین خداؤں کی تھیوری سمجھا دیں۔ اگر آپ کامیاب ہو گئے تو خواہ میں کسی مذہب کا پیرو ہوا میں آپ کی بات مان لوں گا پہلے تو وہ ایچ پیچ کرتے رہے لیکن آخر انہیں میری بات ماننی پڑی اور میں نے گفتگو یوں شروع کی کہ بتائیے خدا باپ کامل ہے یا ناقص اگر وہ ناقص ہے تو خدا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح روح القدس کامل ہے یا ناقص اگر وہ ناقص ہے تو وہ بھی خدا نہیں ہو سکتا اسی طرح تیسرا اقنوم بیٹا کامل خدا تھا یا ناقص خدا۔ اگر وہ ناقص تھا تو وہ بھی خدا نہیں ہو سکتا انہوں نے میری ان تینوں باتوں کو مان لیا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا خدا باپ کو اس زمین و آسمان کے پیدا کرنے کی طاقت کلی طور پر حاصل تھی یا وہ کسی کی مدد کا محتاج تھا؟ او پر کی بات سے ظاہر ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ کسی کی مدد کا محتاج تھا پھر میں نے یہ کہا کہ روح القدس اس ساری کائنات کو پیدا کرنے پر کلی طور پر قادر تھا یا کسی کی مدد کا محتاج تھا۔ انہوں نے کہا نہیں کلی طور پر قادر تھا۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا خدا بیٹا اس کا ئنات کے پیدا کرنے پر کلی طور پر قادر تھا یا کسی کی مدد کا محتاج تھا۔ انہوں نے پھر یہی کہا کہ وہ کلی طور پر قادر تھا میں نے کہا پادری صاحب پھر سوال حل ہو گیا۔ کہنے لگے کس طرح؟ میں نے ایک پنسل ان کی میز سے اٹھا کر ان کے قریب رکھ دی اور میں نے کہا پادری صاحب اس پنسل کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھنے پر آپ قادر ہیں ؟ انہوں نے کہاہاں پھر میں نے کہا کیا میں قادر ہوں؟ انہوں نے کہا ہاں پھر میں نے ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ کیا یہ صاحب قادر ہیں؟ پادری صاحب نے کہا ہاں میں نے کہا جب ہم تینوں شخص اپنی ذات میں اس پنسل کو ہلانے پر قادر ہیں لیکن پھر بھی ہم تینوں کھڑے ہو کر شور مچادیں کہ او بیرہ ادھر آؤ او باورچی ادھر آؤ جب وہ کمرے میں داخل ہوں تو ہم ان سے کہیں کہ ہم تینوں سے مل کر یہ پنسل ادھر رکھ دو تو بتائیے وہ ہمیں پاگل سمجھیں گے یا نہیں۔ پادری صاحب نے کہا آپ کا مطلب؟ میں نے کہا صرف جواب دے دیجئے۔ انہوں نے کہا ہاں پاگل کہیں گے۔ میں نے کہا جب خدا باپ اور خدا بیٹا اور خدا روح القدس تینوں کا ئنات کے پیدا کرنے پر بذاتہ قادر ہیں اور اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کو اس کام کے لئے بلاتے ہیں جس کو وہ اکیلے اکیلے کر سکتے ہیں تو بتائیے دوسرے خدا کو بلانے والے خدا کو اور ہم لوگ اس خدا کو پاگل کہیں گے یا نہیں اور پاگل خدا ہو ہی نہیں سکتا۔ یا تو پاگل کہلا کر وہ خدا نہ رہے گا یا ایسے پاگل دنیا میں وہ اودھم مچادیں گے کہ دنیا ہی تباہ ہو جائے گی۔

یہی جواب [عبید اللہ]سندھی مولوی صاحب کو دینا مناسب تھا۔ مگر اس وقت انہوں نے بحث کرنے سے انکار کر دیا حقیقت یہی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود ہیں یعنی کامل القویٰ ہستیاں موجود ہیں تو دنیا کے کام کو مل کر چلانا جبکہ ان میں سے ہر ایک اس کام کو چلا سکتا ہے ان کو پاگل ثابت کرے گا اور خدائی سے ان کو جواب مل جائے گا اور اگر خدائی سے جواب نہ ملے گا تو ماننا پڑے گا کہ یہ پاگل دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیں گے۔ پس یہ آیت [الانبیاء:۲۱]بڑی سچی ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا محض ادھوری منطق کے ذریعہ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۸ صفحہ ۲۴ تا۲۶)

پادری وُڈ سے گفتگو

’’میری عمر کوئی بیس سا ل کی تھی اور میں ان دنوں لاہور میں تھا کہ میاں محمد شریف صاحب ای۔ اے۔ سی جن سے میرے دوستانہ تعلّقات تھے۔ مجھے ایک پادری مسٹر وُڈ کے پاس لے گئے جو مشنری کالج کا پرنسپل تھا۔ اور کہنے لگاکہ چلو اس سے مذہبی مسائل پر گفتگو کریں مَیں نے کہا چلیں مَیں تیار ہوں۔ اسے اُردو پوری طرح سے نہیں آتی تھی اور مجھے انگریزی پوری طرح نہیں آتی تھی مگر پھر بھی ہم نے آپس میں کچھ گفتگو کر ہی لی۔ کچھ وہ میری مدد کر دیتا اور کچھ مَیں اس کی مدد کر دیتا اور اس طرح باتوں کا سلسلہ جاری رہا مَیں نے اسے یہ سوال کیا کہ تم بتاؤ ابراھیمؑ اور موسیٰ ؑکی نجات کس طرح ہوئی ہے۔ جس ذریعہ سے ان کی نجات ہو گئی ہے اسی ذریعہ سے اب بھی لوگوں کی نجات ہو سکتی ہے اس نے کہا ابراہیمؑ اور موسیٰ ؑ حضر ت مسیح پر ایمان لا چکے تھے مَیں نے کہا وہ ایمان کس طرح لا چکے تھے وہ تو حضرت مسیحؑ سے پہلے ہوئے ہیں۔ قرآن کریم نے بھی اس سوال کو لیا ہے کہ حضرت ابراہیم کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ وہ نصاریٰ میں سے تھے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے وہ تو پہلے گزر چکے تھے ان کو نصاریٰ میں سے کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے پس مَیں نے کہا کہ یہ بات تو بالکل غلط ہے اگر حضرت مسیح پر ان کے ایمان لانے کا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہو تو اسے پیش کریں اس نے کہا داؤد نے پیشگوئی کی تھی کہ اس کی اولاد سے ایک ایسا شخص ہو گا جو خدا کا بیٹا ہو گا مَیں نے کہا حضرت مسیح تو داؤد کی اولاد میں سے تھے ہی نہیں یہ پیشگوئی ان پر کس طرح چسپاں ہو سکتی ہے کیونکہ انجیل میں دو جگہ مسیح کا نسب نامہ درج ہے (۱)متی باب۱ آیت ۱تا۱۸۔ اور پھر لوقا باب ۲ آیت ۲۳ ہر دو میں لکھا ہے کہ یوسف جس نے مریم سے شادی کی وہ داؤد کی اولاد میں سے تھا تو نہ معلوم یسُوع مسیح کس طرح داؤد کی اولاد میں سے بن گیا۔ حالانکہ یوسف اس کا باپ نہ تھا۔ بلکہ وہ تو بے باپ پیدا ہؤا۔ اور ماں کی طرف سے اسرائیلیوں کا نسب نامہ ہو نہیں سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ بے باپ کے پیدا ہونے کا دعویٰ ابن داؤد ہونے کے دعویٰ کے بالکل خلاف ہے اور پھر اس سے ابراہیمؑ کا ایمان کہاں سے ثابت ہؤاپیشگوئی تو کرے داؤد اور ایمان ثابت ہو ابراہیم کا اس نے کہا ابراہیم کی نسبت آتا ہے کہ اُس سے اولاد کی ترقی کا وعدہ تھا مَیں نے کہا مسیحؑ تو ابراہیم کی نسل سے نہ تھے اگر اولاد کی پیشگوئی ہے تو وہ اس کی نسبت سمجھی جائے گی جو یقینًانسل ابراہیم سے ہے یعنے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات بابرکات نہ کہ مسیح کی نسبت جو اگر خدا کا بیٹا تھا۔ تو ابراہیم کا نہ تھا اور اگر ابراہیم کا بیٹا تھا تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے۔ آخر لمبی بحث کے بعد تنگ آکر اُس نے کہا یونانی میں ایک مثل ہے کہ سوال ہر بے وقوف کر سکتا ہے مگر جواب دینے کے لئے عقلمند انسان چاہئے میری طبیعت بھی ان دنوں تیز تھی مَیں نے جھٹ کہا مَیں تو آپ کو عقلمند سمجھ کر ہی آیا تھا اب مجھے معلوم ہؤا ہے کہ یہ میری غلطی تھی۔ اُس نے مجھے بیوقوف بنایا تھا میں نے اس کا حملہ اس پر اُلٹ دیا۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد۱۱ صفحہ۳۸۸-۳۸۹)

ایف سی کالج لاہور کے پرنسپل لیوکس سے ملاقات

’’ایک دفعہ کچھ لوگ مجھے ملنے کے لئے قادیان گئےان میں سے ایک مسٹر لیوکس تھے۔جو اس وقت فورمین کرسچین کالج کے پرنسپل تھےاور بعض ہندوستانی طلباء نے ان کی مخالفت کی کہ ہمیں انگریز پرنسپل نہیں چاہیے۔اس لئے ان کی جگہ مسٹر دتہ کو لگادیا گیا۔ان کے ساتھ مسٹر ہوم بھی تھے جو وائی ایم سی اے کے سیکرٹری تھے اور مسٹر والٹر بھی تھے۔جو ان کے لٹریری سیکرٹری تھے۔میرے سامنے انہوں نےبعض سوالات کئے۔جن کا میں نے جواب دیا اور ان کو ایسا شرمندہ کیا کہ مسٹر لیوکس نے سیلون میں جاکر ایک تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ عیسائیت اور اسلام کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس کا فیصلہ کسی بڑے شہر میں نہیں ہوگا۔بلکہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوگا جس کا نام قادیان ہے۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۱۵ صفحہ ۱۶۹-۱۷۰)

رعایت اسباب

’’میں ایک دفعہ لاہور سے آرہا تھا۔ یہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانے کا واقعہ ہے۔ جس کمرہ میں سوار ہوا اس کمرہ میں ایک مشہور پیر صاحب بھی سوار ہو گئے۔ انہیں مجھ سے کچھ کام تھا۔ اور وہ مجھ سے ایک معاملہ میں مدد لینا چاہتے تھے۔ دوران گفتگو میں انہوں نے مجھے ممنون کرنے کے لئے ایک رومال نکالا جس میں کچھ میوہ بندھا ہوا تھا۔ اور رومال کھول کر میرے سامنے بچھا دیا اور کہا کہ کھائیے۔ وہ مجھ سے کسی احمدی کے پاس ایک معاملہ میں سفارش کرانا چاہتے تھے۔ مگر اس سے پہلے وہ پیر صاحب یہ فتوی بھی شائع کر چکے تھے کہ احمدیوں سے ملنا جلنا اور گفتگو کرنا بالکل حرام ہے اور اگر کوئی ان سے ملے جلے یا گفتگو کرے یا ان کے جلسہ میں شریک ہو تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ جب سیالکوٹ تشریف لے گئے اور وہاں ایک جلسہ ہوا جس میں آپ نے تقریر فرمائی تو راستہ میں بڑے بڑے مولوی ان پیر صاحب کے فتویٰ کے اشتہارات اٹھائے ہوئے لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ جو مرزا صاحب کے لیکچر میں جائے گا اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی۔ جو احمدیوں سے ملے گا اس کی بیوی کو بھی طلاق ہو جائے گی۔ اور جوان کے سلام کا جواب دے گا اس کی بیوی کو بھی طلاق ہو جائے گی مجھے یاد ہے جلسہ میں جب لوگ جاتے تو باہر بڑے بڑے مولوی کھڑے ہو کر لوگوں کو روکتے کہ اندرمت جانا۔ ورنہ تمہارا نکاح فسخ ہو جائے گا۔ اس پر کئی جوش میں آجاتے اور کہتے نکاح کا کیا ہے نکاح تو سوار و پیہ دےکر پھر بھی پڑھا لیا جائے گا۔ مرزا صاحب نے روز روز نہیں آنا۔ اس لئے ان کا لیکچر ضرور سنیں گے۔ اور یہ کہہ کر وہ جلسہ میں شامل ہو جاتے۔ تو انہی پیر صاحب نے جن کا یہ فتویٰ تھا کہ احمدیوں سے ملنے اور باتیں کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ باوجود یہ معلوم ہونے کے کہ میں بانئ سلسلہ احمد یہ کالڑکا ہوں رومال بچھا کر میرے سامنے میوہ رکھ دیا اور کہا کھائیے۔ مجھے اس فتویٰ کی وجہ سے یوں بھی انقباض تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا سامان بھی پیدا کیا ہوا تھا۔ اور وہ یہ کہ اس روز مجھے کھانسی اور نزلہ کی شکایت تھی۔ میوہ میں کشمش بھی تھی جس کا کھانا نزلہ کی حالت میں نزلہ کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اس لئے میں نے معذرت کی کہ آپ مجھے معاف رکھیں۔ مجھے نزلہ کی شکایت ہے میں میوہ نہیں کھا سکتا۔ پیر صاحب فرمانے لگے کہ نہیں کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کھا ئیں تو سہی۔ میں نے پھر انکار کیا کہ مجھے اس حالت میں ذراسی بد پر ہیزی سے بھی بہت تکلیف ہو جاتی ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے۔ یہ تو باتیں ہی ہیں۔ کرنا تو سب اللہ نے ہوتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو اللہ کرتا ہے۔ میں نے کہا۔ پیر صاحب آپ نے یہ بات بہت بعد میں بتائی۔ اگر آپ لاہور میں ہی بتا دیتے تو آپ اور میں ایک نقصان سے بچ جاتے۔ کہنے لگے وہ کیا۔ میں نے کہا غلطی یہ ہوئی کہ آپ نے بھی ریل کا ٹکٹ لے لیا اور میں نے بھی ( وہ امرتسر آ رہے تھے اور میں بٹالہ آرہا تھا ) اگر اس مسئلہ کا پہلے علم ہوتا تو نہ ہم ٹانگے پر کرایہ خرچ کرتے نہ ریل کا ٹکٹ مول لیتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہنچانا ہی تھا تو وہ آپ کو امرتسر پہنچادیتا اور مجھے قادیان پہنچادیتا۔ ہمیں ٹکٹ پر روپیہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ کہنے لگے تد بیر بھی تو ہوتی ہے۔ میں نے کہا۔ بس اسی اسباب کی رعایت کی وجہ سے مجھے بھی میوہ کھانے میں عذر تھا۔ تو جب انسان کا ذاتی سوال ہو تو اس وقت اسے ہزاروں تدبیریں یاد آ جاتی ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کے دین کا معاملہ ہو تو انسان نہایت بے تکلفی سے کہہ دیتا ہے کہ مجھے تدبیر سے کام لینے کی کیا ضرورت ہے اللہ خود کرے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین کا کام اللہ تعالیٰ نے ہی کرنا ہے اور ہمارے کام بھی دراصل وہی کرتا ہے۔ ہم ہزاروں کام جو کرتے اور کامیاب ہو جاتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا ہی نتیجہ ہے۔ ہماری کسی کوشش کا خالصۃً اس میں دخل نہیں ور نہ ہمیں ہر کام میں کامیابی ہو لیکن کامیابی ہر بات میں نہیں ہوتی کسی بات میں ہو جاتی ہے اور کسی میں نہیں ہوتی۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۱۰ صفحہ۱۶۰-۱۶۱)

مسٹر مِترا کو جواب

’’میں ایک دفعہ شملہ گیا۔وہاں درد صاحب مرحوم جو میرے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اُن کی طرف سے ایک دعوتِ عصرانہ میری ملاقات کیلئے گورنمنٹ کے بڑے بڑے افسروں کو دی گئی۔میں وہاں بیٹھا تھا کہ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے رئیس جنہیں سَر کا خطاب بھی ملا ہو اتھا مسٹر مترا کے ساتھ جو لاءممبر تھے کمرہ میں داخل ہوئے تو میرے کانوں میں اُنکی یہ آواز پڑی کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو علم نہیں تھا کہ گائے کے سوال پر ہندوؤں میں اسقدر خفگی پیدا ہو گی ورنہ قرآن میں وہ اس کو ضرور حرام قرار دے دیتے۔جب میرے کانوں میں یہ آواز پڑی تو طبعی طور پر میرے دل میں احساس پیدا ہوا کہ میں ان سے دریافت کروں کہ کیا بات ہو رہی تھی۔چنانچہ جب وہ بیٹھ گئے تو میں نے مسٹر متّر ا سے کہا کہ ابھی میرے کانوں میں اس قسم کی آواز آئی تھی کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ دونوں کی آپس میں کیا گفتگو ہو رہی تھی۔انہوں نے کہا ہاں صاحب! انہوں نے تو کمال کر دیا۔ان صاحب سے آج مجھے ایک ایسا نکتہ معلوم ہوا جس سے اسلام کی عظمت میرے دل میں بہت ہی بڑھ گئی ہے اور میں اسلام کا بہت زیادہ قائل ہو گیا ہوں یہ صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ اسلام غیر اقوام کی دلداری کا اسقدر خیال رکھتا ہے کہ محض یہودیوں کیلئے اُس نے سؤر کو حرام کر دیا۔چونکہ یہودیوں کو سورسے نفرت تھی اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ نے اُن کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے سورممنوع قرار دے دیا۔اگر محمد رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوتا کہ ہندوؤں کے دلوں میں گائے کی کیا عظمت ہے تو یقیناً آپ قرآن میں گائے کھانے سے بھی مسلمانوں کو منع کر دیتے۔کیونکہ اسلام نہایت ہی ملاطفت اور نرمی کی تعلیم دیتا ہے اور وہ دوسروں کے جذبات کا بہت خیال رکھتا ہے مجھے علم نہیں تھا کہ اسلام دوسر ی اقوام کا اسقدر خیال رکھتا ہے۔ان صاحب سے آج پہلی دفعہ مجھے یہ بات معلوم ہو ئی ہے اور اس بات نے اسلام کی عظمت میرے دل میں بہت ہی بٹھا دی ہے۔میں نے کہا مجھے افسوس ہے کہ میں اُ س عظمت کو جو آپ کے دل میں پیدا ہوئی ہے کچھ کم کرنے لگا ہوں۔آپ ذرا اِن صاحب سے پوچھئے کہ قرآن محمد رسول اللہ ﷺ نے بتا یا ہے یا خدا نے بتا یا ہے۔محمد رسول اللہ ﷺ کو تو علم نہیں تھا کہ ہندو اپنے دلوں میں گائے کی کس قدرعظمت رکھتے ہیں۔کیا خدا کو بھی اس بات کا پتہ نہیں تھا ! اس پر وہ مسلمان رئیس گھبرا کر کہنے لگا اوہو مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ ممکن ہے میرے اس جواب سے مسٹر متّرا کے دل میں اسلام کی عزت کچھ کم ہو گئی ہو مگر یہ زیادہ خطرناک بات تھی کہ وہ قرآن کے متعلق یہ سمجھنے لگتے کہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بنائی ہوئی کتاب ہے اور جونیا نکتہ اُن کے ذہن میں آتا تھا وہ اس میں داخل کر دیتے تھے۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۸صفحہ ۳۷۴-۳۷۵)

ایک صوفی کو جواب

’’میں ایک دفعہ جمعہ کی نماز پڑھا کر فارغ ہوا تو ایک صوفی منش آدمی آگے بڑھا اور کہنے لگا میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا فرمائیے؟ کہنے لگا۔ اگر کوئی شخص دریا میں سفر کرتے کرتے کنارہ پر پہنچ جائے تو اس کے بعد وہ کشتی میں ہی بیٹھا ر ہے یا نیچے اتر جائے۔ جب اس نے یہ سوال کیا معاً اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے سوال کا مقصد سمجھا دیا۔ دراصل یہ صوفیاء کا ایک دھوکہ ہے جس میں وہ عام طور پر مبتلا پائے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی حیثیت سواریوں کی ہے۔ یہ سواریاں ہمیں اپنے محبوب کے دروازہ تک پہنچانے کے لئے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے محبوب کے دروازہ تک پہنچ کر سواریوں پر بیٹھا ر ہے اور نیچے نہ اترے تو وہ اول درجہ کا گستاخ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرلے تو اسے نماز روزہ کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ وہ خدا کے دروازہ تک پہنچ گیا۔ غرض جب اس نے یہ سوال کیا معاً اللہ تعالیٰ نے یہ تمام بات مجھ پر کھول دی اور میں نے اسے کہا اگر تو وہ دریا ایسا ہے جو کنارے والا ہے تو بے شک جب کنارہ آئے وہ کشتی سے اتر جائے لیکن اگر وہ دریا غیر محدود ہے اور اس کا کوئی کنارہ ہی نہیں تو وہ یادرکھے کہ جس جگہ وہ نیچے اترے گا۔ اسی جگہ وہ ڈوب جائے گا۔ اب آپ بتائیں کہ جس دریا کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ محدود ہے یا غیر محدود۔ کہنے لگا ہے تو غیر محدود میں نے کہا تو پھر غیر محدود دریا میں انسان جس جگہ بھی نیچے اترے گا اس جگہ ڈوب جائے گا۔ اس کی سلامتی اس میں ہے کہ وہ کشتی پر سوار رہے۔‘‘(تفسیر کبیرجدید ایڈیشن جلد۹صفحہ ۴۶۴)

مولوی ثناء اللہ امرتسری کو جواب

’’ مجھے یاد ہے ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان آئے اور ایک بڑے جلسہ میں نعرہ ہائے تکبیر میں انہوں نے کہا۔ میں ایک نکتہ بیان کرتا ہوں۔ مرزا صاحب اور میرے درمیان آسان طریق فیصلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب میرے ساتھ کلکتہ تک ٹرین میں چلیں۔ کلکتہ تک بیسیوں اسٹیشن ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں انہیں پتھر پڑتے ہیں یا مجھے اور پھول مجھ پر برسائے جاتے ہیں یا ان پر کلکتہ تک جاتے ہوئے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ مسلمان کس کی تائید میں ہیں۔ جماعت کے دوست گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے۔ اور انہوں نے کہا۔ لوگوں پر بہت برا اثر ہوا ہے اور وہ اس وقت سخت جوش میں ہیں۔ شام کو میری تقریر تھی۔ میں نے کہا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ سچا کون ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ انہوں نے نتیجہ از خود نکال لیا ہے ورنہ اگر نتیجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے نکلا ہوا ہے تو پھر ہمارے لئے اچھا ہے۔ میں نے کہا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے کہا ہے کہ مرزا محمود احمد میرے ساتھ کلکتہ تک چلیں ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں پھول کس پر برستے ہیں اور پتھر کس پر پھینکے جاتے ہیں اور اس سے مولوی صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جس پر پھول پڑیں گے وہ سچا ہو گا۔ حالانکہ نتیجہ نکالنا ان کا کام نہیں تھا ہم سے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو جہل گزر چکے ہیں۔ مولوی صاحب خود بتادیں کہ مکہ میں پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے یا ابو جہل کو۔ اور پھول ابوجہل کو پڑا کرتے تھے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ اور اگر پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑا کرتے تھے اور پھول ابو جہل پر برسائے جاتے تھے تو نتیجہ ظاہر ہے کہ جس پر پتھر پڑیں گے وہ سچا ہو گا اور جس پر پھول برسائے جائیں گے وہ جھوٹا ہوگا۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۹صفحہ ۴۱۱-۴۱۲)

دیوبند کے دو طلبہ سے گفتگو

’’میرے پاس ایک دفعہ دیو بند کے دو طالب علم آئے۔ انہوں نے کہیں سے یہ سن لیا تھا کہ میں نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ میرے پاس کچھ اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں طالب علم بھی آکر بیٹھ گئے۔ اور ان میں سے ایک جو زیادہ تیز معلوم ہوتا تھا اس نے کہا۔ آپ کہاں تک پڑھے ہوئے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ وہ گستاخ ہے۔ میں نے کہا میں نے کچھ نہیں پڑھا۔ اس نے کہا پھر بھی آپ کس مدرسے میں پڑھتے ہیں۔ میں نے کہا۔ اگر میں پڑھا ہوتا تو میں پہلے ہی بتا دیتا۔ وہ کہنے لگا۔ کیا آپ ہندوستان یا پنجاب کے کسی سکول کے فارغ التحصیل نہیں ہیں؟ میں نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ واضح کر دیا ہے کہ جس چیز کو آپ پڑھائی خیال کرتے ہیں۔ وہ میں نے کہیں سے بھی حاصل نہیں کی۔ جس وقت میں نے یہ کہا تو اس کے دوسرے ساتھی نے جو ذرا ہوشیار معلوم ہوتا تھا اس کے گھٹنے کو چھو کر چپ کرانے کی کوشش کی لیکن چونکہ وہ جوش میں تھا چپ نہ ہوا۔ اس نے کہا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ بالکل ان پڑھ ہیں۔ میں نے کہا۔ آپ کی گفتگو کی بنیاد اس بات پر تھی کہ میں کسی مدر سے میں پڑھا ہوا ہوں اور کس نصاب کو میں نے پاس کیا ہے۔ سو میں نے کوئی سکول کا نصاب پاس نہیں کیا۔ میں نے اس کتاب سے تعلیم حاصل کی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوملی اور آپ نے اپنے متبعین کو دی اور وہ قرآن کریم ہے۔ اب آپ فیصلہ کر لیں کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( نعوذ باللہ ) ہر قسم کے علوم سے نا واقف تھے یا عالم؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ساری دنیا کو آپ نے عالم بنادیا۔ بے شک جو درجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے وہ بہت بلند ہے۔ مگر ہم دونوں ایک ہی کتاب پڑھنے والے ہیں۔ چنانچہ میرے اس جواب پر وہ خاموش ہو گیا۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد۱۰صفحہ ۴۰۹)

سرتھامس آرنلڈ

’’۲۴ء میں جب میں ولایت گیا تو سر تھامس آرنلڈ جو علی گڑھ میں پروفیسر رہ چکا تھا اور اُس وقت وہ مشرقی افریقہ کا گورنر تھا اور وہیں سے آیا تھا ایک میٹنگ میں شامل ہوا جس میں میں بھی شریک تھا۔ اُس وقت بعض عورتوں نے مجھ سے مصافحہ کرنا چاہا تو میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں۔ میری یہ بات اُس پر طبعًا گراں گذری۔ اور اُس نے بعد میں کہنا شروع کر دیا کہ میں اسلام کا بڑا ماہر ہوں۔ بہت بڑا مصنف ہوں اسلام میں ایسی کہیں تعلیم نہیں۔ اس کے بعد کچھ طالب علم میرے پاس آئے اور انہوں نے ذکر کیا کہ پروفیسر آرنلڈ اس طرح ذکر کرتا تھا۔ کیا اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ میں نے انہیں تفصیل سے اسلام کی تعلیم بتائی اور کہا کہ اسلام عورتوں سے مصافحہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس پر پروفیسر آرنلڈ کے دل میں میرے متعلق اس قدر بغض پیدا ہو گیا کہ جب کوئی میٹنگ ہوتی تو وہ میری موجودگی میں اس میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ ایک دفعہ وہ میٹنگ میں تو آیا مگر مجھ سے دور دور رہا۔ میں نے سیکرٹری سے ذکر کیا کہ پروفیسر آرنلڈ محض میری وجہ سے آگے نہیں آتا۔ اس نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے میں ابھی اُسے بلواتا ہوں میں نے کہا۔ آپ دیکھ لیں وہ میرے سامنے نہیں آئے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اُس نے آواز دی اور کہا پروفیسر آرنلڈ ادھر آؤ۔ اس پر وہ آتو گیا مگر مجھے دیکھتے ہی ایک دوسرے راستہ سے نکل گیا۔ غرض اس قدر بغض ان کے دلوں میں اسلامی تعلیم سے پایا جاتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۸صفحہ۳۷۸-۳۷۹)

حفاظت قرآن کے بارے گفتگو

’’میں جب انگلستان گیا تو کسی شخص نے مجھ سے کہا کہ قرآن پر ایک بڑا زمانہ گذر چکا ہے اور پھر اس وقت تو تحریر کا بھی رواج نہیں تھا اس لئے قرآن کریم کے متعلق یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وہی کتاب ہے جو آج سے تیرہ سو سال پہلے دنیا کے سامنے پیش کی گئی۔ میں ۱۹۲۴ء میں انگلستان گیا تھا اور اس وقت ناصر احمد کی عمر ۱۵ سال کی تھی اور وہ قرآن کریم کو حفظ کر چکا تھا۔ میں نے اسے جواب دیا کہ بے شک تحریر کا اس وقت رواج نہیں تھا مگر حفاظ کا وجود پایا جاتا تھا لوگ اس کتاب کو حفظ کر لیتے تھے اور اس طرح سینہ بہ سینہ نسلاً بعد نسل لوگ اس کو یاد رکھتے چلے جاتے تھے۔ اس نے کہا اتنی بڑی کتاب کو کون حفظ کر سکتا ہے۔ میں نے کہا عربوں کا حافظہ تو دنیا میں مشہور ہے۔ لاکھوں اشعار ایک ایک شخص کو یاد ہوا کرتے تھے۔ ان کے لئے قرآن کریم کو حفظ کر لینا کوئی مشکل امر نہیں تھا۔ مگر تم عربوں کا ذکر جانے دو۔ میرا لڑکا جس کی عمر صرف پندرہ سال ہے اس نے سارا قرآن کریم حفظ کیا ہوا ہے۔ یہ سن کر وہ حیران ہو گیا کہ اتنی بڑی کتاب کو اس نے کس طرح حفظ کر لیا۔ میں نے کہا ہمارے ہاں تو قرآن کریم حفظ کرنے کا عام رواج ہے۔ لوگ اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ اپنے بچوں کو قرآن کریم حفظ کراتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ان کو حاصل ہو گئی۔ یورپین لوگ اس بات کا قیاس بھی نہیں کر سکتے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ نعمت ملی ہی نہیں اور اس وجہ سے وہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ اتنی بڑی کتاب کو کس طرح حفظ کیا جاسکتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۱۲صفحہ ۷۳)

یورپ کے کالج میں گفتگو

’’میں ۵۵ء میں بیماری کے علاج کے لئے یورپ گیا تو ایک کالج کے منتظمین نے مجھے لیکچر کی دعوت دی اور بہت سے گریجوایٹ وغیرہ لیکچر سننے کے لئے آئے۔ انہوں نے مجھے انگریزی میں تقریر کرنے کے لئے کہا۔ جس کی مجھے عادت نہ تھی۔ مگر ان کے اصرار پر میں نے ان کی بات مان لی۔ چونکہ طالبعلم مختلف قوموں کے تھے کچھ جرمن سمجھتے تھے کچھ فرانسیسی کچھ سوئس کچھ آسٹریلین۔ کچھ یہودی۔ اس لئے انہوں نے یواین او کی طرح یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ میری انگریزی تقریر ریڈیو کے ذریعہ مختلف کمروں میں جاتی۔ جہاں مختلف قوموں کے علماء بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ترجمہ کر کے فوراً اس زبان میں اسے ریلے کر دیتے تھے۔ هر زبان کے جاننے والے نے اپنا آلہ اپنے کانوں کو لگایا ہوا تھا جس کے ذریعہ سے وہ ساتھ ساتھ میری انگریزی کی تقریر کو اپنی زبان میں سنتا جاتا تھا۔ میری تقریر کے بعد بہت سے سوالات ہوئے۔ جن میں سے ایک سوال یہ تھا۔ کہ آپ نے جو اسلام کی باتیں بتائی ہیں۔ یہ تو وہی ہیں جو عیسائیت اور یہودیت پیش کرتی ہے۔ پھر یہ کیا جھگڑانظر آتا ہے کہ مسلمان عیسائیوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور عیسائی مسلمانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہودی عیسائیوں اور مسلمانوں کو برا سمجھتے ہیں اور عیسائی اور مسلمان یہودیوں کو برا سمجھتے ہیں۔ گو یا دنیا نہ موسیٰ کے خدا کو مانتی ہے نہ عیسیٰ کے خدا کو مانتی ہے۔ اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کو مانتی ہے ایسی صورت میں ان جھگڑوں کے تصفیہ کے لئے سب مل کر یہ کیوں نہیں طے کر لیتے کہ سب لوگ ایک خدا کو مانیں اس کی سچے دل سے عبادت کریں اور اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ میں نے کہا۔ مجھے یہ سوال سن کر بڑی خوشی ہوئی کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آج سے تیرہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ان جھگڑوں کے تصفیہ کا یہی طریق بتایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔ قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا (اٰل عمران :۶۵) یعنی اے اہل کتاب آؤ میں تمہیں ایک کلمہ پر جمع ہونے کا طریق بتاؤں۔ جو تمہارے نزدیک بھی مسلّمہ ہے اور ہمارے نزدیک بھی مسلمہ ہے۔ وہ طریق یہ ہے کہ ہم سب ایک خدا کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں۔ تیرہ سو سال ہوئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ علاج بتایا تھا۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۱۰صفحہ ۴۳۲-۴۳۳)

ایک دہریہ سے گفتگو

’’ مجھے ایک دفعہ انگلستان میں ایک دہر یہ ڈاکٹر ملنے کے لئے آیا اور میں نے دیکھا کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دیتا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یہ طریق درست نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تمہیں حملہ نہیں کرنا چاہیے مگر وہ آریوں کی طرح برابر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے کرتا چلا گیا۔ آخر جب میں نے دیکھا کہ وہ میرے صبر سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرنے میں بڑھ رہا ہے تو میں نے یسوع کی حقیقت اس کے سامنے کھولنی شروع کر دی۔ ابھی میں نے چند ہی باتیں کی تھیں کہ اس کا رنگ سرخ ہو گیا اور کہنے لگا۔ آپ مسیح کا ذکر کیوں کرتے ہیں میں نے کہا میں سمجھ گیا ہوں کہ گوتم دہر یہ ہو مگر تمہارے دل میں عیسائیت باقی ہے اس لئے میں مسیح کا ضرور ذکر کروں گا۔ وہ کہنے لگا میں مسیح کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا۔ میں نے کہا تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا۔ اگر تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ جاری رکھو گے تو تمہیں مسیح کے خلاف بھی میری زبان سے باتیں سننی پڑیں گی اس پر غصہ میں اس نے بات بند کر دی اور چلا گیا تو میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ یورپ میں دہریت پائی جاتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ لوگ عیسائیت سے بیزار ہو چکے ہیں حالانکہ دہر یہ ہونے کے باوجود ان کے دلوں سے مسیح ناصری کی عظمت نہیں گئی۔ یہی رگ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پکڑی اور جس کی وجہ سے مسلمانوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگانے شروع کر دئے آپؑ نے فرمایا جب تک مسیح کو دفن نہیں کیا جائے گا عیسائیت کبھی مرنہیں سکتی۔ (ازاله او ہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۰۲) یہ صرف مسیح کے پرستار ہیں اور عقائد سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۱۱صفحہ ۳۶۶)

ایک پادری سے الوہیت مسیح کے متعلق سوال

’’میں نے ایک مرتبہ ایک عیسائی سے پوچھا کہ دنیا کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مسیحؑ نے میں نے کہاکیا خدا میں بھی طاقت ہے کہ دنیا کو پیدا کر سکے؟ اس نے کہا ہاں۔ میں نے کہا پھر کیا وہ معطل اور بے کار بیٹھا ہے؟ اس نے کہا نہیں وہ بھی پیدا کر رہا ہے اور پھر یہی بات روح القدس کے متعلق کہی۔ تب میں نے ان سے کہا کہ آپ کے سامنے آپ کی میز پر ایک پنسل پڑی ہے اگر آپ اپنے نوکر سے کہیں کہ یہ پنسل مجھے اٹھا دو اور وہ جا کر دو اور آدمیوں کو بھی بلا لائے اور پھر تینوں مل کر اس پنسل کو اٹھا کر آپ کے سامنے لانے کی کوشش کریں تو آپ ان کو کیا سمجھیں گے؟ اس نے کہا پاگل۔ میں نے کہا جب ہر ایک خدا الگ الگ دنیا کو پیدا کر سکتا تھا تو پھر یہ تین مل کر اس کام کو کیوں کر رہے ہیں۔ جسے ایک ہی کر سکتا تھا گھبرا کر بولا اصل میں تثلیث کا مسئلہ ایسا باریک ہے کہ انسان کی عقل میں نہیں آسکتا۔ یہ سَمُّوْھُمْ والی دلیل ہی تھی کہ جسے میں نے استعمال کیا اور پادری بالکل حیران رہ گیا۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد۵صفحہ ۸۰)

مشہور مشنری پادری زویمر کے ساتھ قادیان میں گفتگو

’’قادیان میں ایک دفعہ پادری زویمر آیا جو دنیا کا مشہور ترین پادری اور امریکہ کا رہنے والا تھا۔ وہ وہاں کے ایک بہت بڑے تبلیغی رسالہ کا ایڈیٹر بھی تھا۔ اور یوں بھی ساری دنیا کی عیسائی تبلیغی سوسائیٹیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتا تھا۔ اس نے قادیان کا بھی ذکر سنا ہوا تھا۔ جب وہ ہندوستان میں آیا تو اور مقامات کو دیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا اس کے ساتھ ایک اور پادری گارڈن نامی بھی تھا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت زندہ تھے۔ انہوں نے اسے قادیان کے تمام مقامات دکھائے۔ مگر پادری آخر پادری ہوتا ہے نیش زنی سے باز نہیں رہ سکتا۔ ان دنوں قادیان میں ابھی ٹاؤن کمیٹی نہیں بنی تھی۔ اور گلیوں میں بہت گند پڑا رہتا تھا۔ پادری زویمر باتوں باتوں میں ہنس کر کہنے لگا ہم نے قادیان بھی دیکھ لیا اور نئے صبح کے گاؤں کی صفائی بھی دیکھ لی۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسے ہنس کر کہنے لگے۔ پادری صاحب ابھی پہلے مسیح کی ہی ہندوستان پر حکومت ہے اور یہ اس کی صفائی کا نمونہ ہے۔

نئے مسیح کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی۔ اس پر وہ بہت ہی شرمندہ اور ذلیل ہو گیا۔ پھر اس نے مجھے کہلا بھیجا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں میری طبیعت کچھ خراب تھی۔ میں نے جواب دیا کہ پادری صاحب بتائیں کہ وہ مجھے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔ مگر پہلے نہیں بتا سکتا۔ خیر میں نے ان کو بلا لیا۔ وہ بھی آگئے اور پادری گارڈن صاحب بھی آگئے۔ ایک دو دوست اور بھی موجود تھے۔ پادری زویمر صاحب کہنے لگے میں ایک دوسوال کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگے اسلام کا عقیدہ تناسخ کے متعلق کیا ہے؟ آیا وہ اس مسئلہ کو مانتا ہے یا انکار کرتا ہے۔ جونہی اس نے یہ سوال کیا معا ًاللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال دیا کہ اس کا اس سوال سے منشاء یہ ہے کہ تم جو مسیح موعود کو مسیح ناصری کا بروز اور ان کا مثیل کہتے ہو۔ تو آیا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح ناصری کی روح ان میں آگئی ہے۔ اگر یہی مطلب ہے تو یہ تناسخ ہوا۔ اور تناسخ کا عقیدہ قرآن کریم کے خلاف ہے چنانچہ میں نے انہیں ہنس کر کہا۔ پادری صاحب آپ کو غلطی لگ گئی ہے ہم یہ نہیں سمجھتے کہ مرزا صاحب میں مسیح ناصری کی روح آگئی ہے بلکہ ہم ان معنوں میں آپ کو مسیح ناصری کا مثیل کہتے ہیں کہ آپ مسیح ناصری کے اخلاق اور روحانیت کے رنگ میں رنگین ہو کر آئے ہیں۔ میں نے جب یہ جواب دیا تو اس کا رنگ فق ہو گیا اور کہنے لگا آپ کو کس نے بتایا کہ میں نے یہ سوال کرنا تھا۔ میں نے کہا آپ یہ بتائیں کہ آیا آپ کا اس سوال سے یہی منشاء تھا یا نہیں؟ کہنے لگا۔ ہاں میر امنشاء تو یہی دریافت کرنا تھا۔ میں حیران تھا کہ جب قرآن تناسخ کے خلاف ہے تو احمدی مرزاصاحب کو مسیح موعود کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ پھر میں نے کہا اچھا آپ دوسرا سوال پیش کریں۔ کہنے لگا۔ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی کی بعثت کیسے مقام پر ہونی چاہیے یعنے اس کو اپنا کام سر انجام دینے کے لئے کس قسم کا مقام چاہیے۔ جو نہی اس نے یہ دوسرا سوال کیا۔ معاً دوبارہ خدا نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس سوال سے اس کا منشاء یہ ہے کہ قادیان ایک چھوٹا سا گاؤں ہے یہ دنیا کا مرکز کیسے بن سکتا ہے۔ اور اس چھوٹے سے مقام سے ساری دنیا میں تبلیغ کس طرح کی جاسکتی ہے۔ اگر حضرت مرزا صاحب کی بعثت کا مقصد ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ پہنچانا ہے تو آپ کو ایسی جگہ بھیجنا چاہیے تھا جہاں ساری دنیا میں آواز پہنچ سکتی ہو۔ نہ یہ کہ قادیان جو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اس میں آپ کو بھیج دیا جاتا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اس کے سوال کے معاً بعد یہ بات میرے دل میں ڈال دی اور میں نے پھر اسے مسکرا کر کہا۔ پادری صاحب ناصرہ یا ناصرہ سے بڑا کوئی شہر ہو وہاں نبی آسکتا ہے۔ حضرت مسیح ناصری جس گاؤں میں ظاہر ہوئے تھے اس کا نام ناصرہ تھا اور ناصرہ کی آبادی بمشکل دس بارہ گھروں پر مشتمل تھی۔ میرے اس جواب پر پھر اس کا رنگ فق ہو گیا۔ اور وہ حیران ہوا کہ میں نے اس کی اس بات کا جواب دے دیا جو در حقیقت اس کے سوال کے پس پردہ تھی۔ اس کے بعد اس نے تیسر اسوال کیا جو اس وقت مجھے یاد نہیں رہا۔ بہر حال اس نے تین سوال کئے اور تینوں سوالات کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالی نے القاء کر کے مجھے بتادیا کہ اس کا ان سوالات سے اصل منشاء کیا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ چکر دے کر پہلے اور سوال کرتا تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ اس کا اصل منشاء مجھ پر ظاہر کر دیتا۔ اور وہ بالکل لاجواب ہو گیا۔ تو اللہ تعالیٰ قلوب پر عجیب رنگ میں تصرف کرتا اور اس تصرف کے ماتحت اپنے بندوں کی مدد کیا کرتا ہے۔ اور یہ تصرف صرف خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے بندوں کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ ایک کج بحث ملا مسجد میں مجھے ملا۔ اور کہنے لگا مجھے مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت دیجئے۔ میں نے کہا قرآن موجود ہے سارا قرآن مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت ہے۔ کہنے لگا کون سی آیت۔ میں نے کہا قرآن کی ہر آیت مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت ہے۔ اب یہ تو صحیح ہے کہ قرآن کی ہر آیت ہی کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر چسپاں ہوسکتی ہے۔ مگر بعض آیات ایسی ہیں کہ ان کا سمجھانا اور یہ بتانا کہ کس رنگ میں اس سے نبی کی صداقت کا ثبوت نکلتا ہے بہت مشکل ہوتا ہے۔ فرض کرو کسی آیت میں لڑائی کا واقعہ بیان ہو تو اب گو اس سے بھی نبی کی صداقت ثابت کی جاسکتی ہے مگر وہ ایسا رنگ ہوتا ہے جو عام طبائع کی سمجھ سے بالا ہوتا ہے۔ مگر مجھے اس وقت یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ تصرف فرما کر اس کی زبان سے وہی آیت نکلوائے گا جس سے نہایت وضاحت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جائے گی۔ خیر وہ اصرار کرتا رہا کہ آپ کوئی آیت بتائیں۔ مگر میں یہ کہوں کہ آپ کوئی آیت پڑھ دیں۔ اس سے میں حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت کر دوں گا۔ آخر اس نے یہ آیت پڑھی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَمَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ (البقرۃ : ۹) میں نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی تصرف ہے کہ اس نے اس کی زبان سے یہ آیت نکلوائی ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے۔ مسلمانوں کے متعلق ہے یا غیر مسلمانوں کے متعلق۔ اس کا اصل سوال یہ تھا کہ جب مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں حج کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں تو ان کے لئے کسی نبی کی کیا ضرورت ہے۔ جب اس نے یہ آیت پڑھی تو میں نے اس سے پوچھا کہ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے۔ اس نے کہا۔ مسلمانوں کے متعلق۔ میں نے کہا تو پھر یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض لوگ خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ منہ سے تو کہتے ہیں ہم مومن ہیں مگر در حقیقت وہ مومن نہیں ہوتے۔ اور قرآن یہ بتاتا ہے کہ خالی اپنے آپ کو مومن کہہ دینا کافی نہیں جب تک انسان اپنے عمل سے بھی ایمان کا ثبوت نہ دے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جب مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں تو کیا خدا تعالیٰ ان کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجے گا یا نہیں بھیجے گا ؟ دلوں کو تسلی دینا تو خدا کا کام ہے مگر اس کی زبان بند ہوگئی اور وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکا اور اس بات کا میرے دل میں پہلے ہی یقین تھا کہ جو آیت اس کے منہ سے نکلے گی وہ وہی ہوگی جس سے اس کی زبان بند ہو جائے گی تو علم بھی خدا کے اختیار میں ہے۔ جرأت بھی خدا کے اختیار میں ہے۔ عزت بھی خدا کے اختیار میں ہے اور طاقت بھی خدا کے اختیار میں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ خیال کیا کہ میں فرعون کے دربار میں کہاں بول سکوں گا۔ مگر جب وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی تائید فرمائی کہ فرعون دنگ رہ گیا اور اسے دلائل کے میدان میں موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ اس موقعہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ تو اپنا پیغام ہارون کی طرف بھیج۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ تو مجھے مبعوث نہ کر بلکہ جیسا کہ سورہ طہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ وَاجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ۔ ہٰرُوۡنَ اَخِی۔ اشۡدُدۡ بِہٖۤ اَزۡرِیۡ۔ وَاَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ۔(طه: ۳۰ تا ۳۳) یعنی اے میرے خدا! میرے اہل میں سے ہارون کو جو میرا بھائی ہے میرا نائب تجویز کر اور اس کے ذریعہ سے میری طاقت کو مضبوط فرما اور اسے میرے کام میں شریک کر۔ پس اَرْسِلْ اِلٰى ھٰرُوْنَ کے یہ معنے ہیں کہ میرے علاوہ اس کی طرف بھی کلام بھیج اور اسے بھی میرے ساتھ مبعوث فرما۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی مقدس انسان کو نبوت کا مقام عطا کیا جاتا ہے تو وہ انکسار کی وجہ سے گھبراتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو میں اس عظیم الشان ذمہ داری کو پوری طرح ادا نہ کر سکوں۔ اور اس میں میری طرف سے کوئی خامی اور نقص رہ جائے۔ یہی طریق تمام انبیاء کا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد۹صفحہ۳۴۶تا ۳۴۹)

ایک دہریہ سے گفتگو

’’ ایک دفعہ میں ہوائی جہازوں کے ایک بڑے افسر سے ملا بعض اور افسر بھی اس وقت موجود تھے۔ اُس نے باتوں باتوں میں اسلام پر اعتراض کر دیا۔ میں نے اُس کا جواب دیا اُس نے پھر اعتراض کیا میں نے پھر جواب دیا۔ غرض اسی طرح وہ اعتراض کرتا چلا گیا اور میں جواب دیتا گیا۔ میں جانتا تھا کہ باتوں باتوں میں میں اسے اس طرح پھنساؤں گا کہ اس کے اعتراضات کا خدا تعالیٰ سے ٹکراؤ ہو جائے گا۔ چنانچہ ایک مقام پر آکر وہ پھنس گیا اور میں نے کہا فرمائیے آپ زیادہ عقلمند ہیں یا خدا زیادہ عقلمند ہے؟ اُس میں کچھ تو جوانی کی ترنگ تھی اور کچھ یوں بھی تو تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ کا ادب کچھ کم ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر وہ خاموش رہا۔ مگر پھر کہنے لگا میں سمجھتا ہوں کہ میں زیادہ عقلمند ہوں۔ اس پر اُس کے تمام ساتھی ہنس پڑے کہ بے وقوفی کی وجہ سے یہ پھنس تو گیا ہے مگر بے حیا بن کر اب یہ کہہ رہا ہے کہ میں خدا تعالیٰ سے زیادہ عقلمند ہوں۔‘‘(تفسیر کبیر ایڈیشن ۲۰۲۳ء جلد ۸صفحہ ۳۷۹)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button