حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت ابو بکرؓ ’عتیق‘ و ’صدیق‘ کہلاتے تھے

بعض مؤرخین لقب کے بجائے حضرت ابوبکرؓ کا نام عتیق بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ لقب نہیں بلکہ آپؓ کا نام تھا لیکن یہ درست نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سُیُوطیؒ نے تاریخ الخلفاء میں امام نَوَوِی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا نام عبداللہ تھا اور یہی زیادہ مشہور اور درست ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؓ کا نام عتیق تھا لیکن درست وہی ہے جس پر اکثر علماء متفق ہیں کہ عتیق آپ کا لقب تھا نہ کہ نام۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 27 دارالکتاب العربی بیروت 1999ء)

سیرت ابنِ ہشام میں لقب عتیق کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کے چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے اور آپ کے حسن و جمال کی وجہ سے آپ کو عتیق کہا جاتا تھا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام اسلام ابی بکر و من معہ صفحہ 117۔ دار ابن 2009ء)

سیرت ابن ہشام کی شرح میں عتیق لقب کی درج ذیل وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ عتیق کا مطلب ہے اَلْحَسَنُ یعنی عمدہ صفات والا۔ گویا کہ آپ کو مذمت اور عیوب سے بچایا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؓ کو عتیق اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپؓ کی والدہ کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا۔ انہوں نے نظر مانی کہ اگر ان کے ہاں بچہ ہوا تو وہ اس کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی اور اس کو کعبہ کے لیے وقف کر دیں گی۔ جب آپؓ زندہ رہے اور جوان ہو گئے تو آپؓ کا نام عتیق پڑ گیا گویا کہ آپؓ موت سے نجات دیے گئے۔ (الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد اول صفحہ 430 ’’اسلام ابی بکر‘‘۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت طبع اول)

ان کے علاوہ بھی لقب عتیق کی مختلف وجوہات ملتی ہیں۔ بعض لوگوں کے مطابق آپؓ کو عتیق اس لیے کہا جاتا تھا کہ آپؓ کے نسب میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کی وجہ سے اس پر عیب لگایا جاتا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ 963، عبد اللہ بن ابی قحافۃ، دارالجیل بیروت)

عتیق کا ایک معنی قدیم یا پرانے کے بھی ہیں۔ اس لیے حضرت ابوبکرؓ کو عتیق اس وجہ سے بھی کہا جاتا تھا کہ آپؓ قدیم سے نیکی اور بھلائی کرنے والے تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 4 صفحہ 146، عبد اللہ بن عثمان، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2005ء)اسی طرح اسلام قبول کرنے میں اور بھلائی میں پہل کرنے کی وجہ سے آپ کا لقب عتیق رکھا گیا تھا۔ (عمدۃ القاری کتاب بدء الخلق باب مناقب المھاجرین و فضلھم جلد 16 صفحہ 260، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 2003ء)

اور جو دوسرا لقب ہے صدیق اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ کیوں ’صدیق‘ نام رکھا گیا۔ علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں کہ جہاں تک صدیق کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ لقب آپؓ کو دیا گیا تھا اس سچائی کی وجہ سے جو آپؓ سے ظاہر ہوتی رہی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کو جو خبریں بتایا کرتے تھے ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق میں جلدی کرنے کی وجہ سے آپؓ کا نام صدیق پڑ گیا۔ (تاریخ الخلفاء لجلال الدین السیوطی صفحہ 28-29 دارالکتاب العربی بیروت1999ء)

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍دسمبر ۲۰۲۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍دسمبر ۲۰۲۱ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button