حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکین نیشنل مجلس عاملہ و ریجنل ناظمین اطفال مجلس اطفال الاحمدیہ برطانیہ کی ملاقات

مورخہ۴؍فروری۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکین نیشنل مجلس عاملہ اور ریجنل ناظمین اطفال مجلس اطفال الاحمدیہ برطانیہ کے سینتالیس احباب پر مشتمل ایک وفد کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔

ملاقات کے آغاز میں حضور انور نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کہا۔ اس کے بعد صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ یوکے نے حضور انور کی خدمت اقدس میں حاضری کی رپورٹ پیش کی جبکہ ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا۔ بعدازاں حضور انور نے تمام شاملینِ مجلس سے گفتگو فرمائی۔

سب سے پہلے نائب مہتمم اطفال نے اطفال ریلیز (rallies)کے انعقاد کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پر روشنی ڈالی۔ حضور انورکے استفسار پر موصوف نے اس بات کا اعتراف کیا کہ گذشتہ سال اس قسم کی ریلی کا انعقاد نہیں ہو سکا البتہ اس عزم کا اظہار کیا کہ امسال مئی ۲۰۲۴ءمیں نیشنل ریلی مسجد بیت الفتوح کےکمپلیکس میں منعقد کروائی جائے گی۔ ان شاء اللہ

ان کے بعد ایک نائب مہتمم اطفال کو اپنی مفوضہ ذمہ داریوں پر روشنی ڈالنے کا موقع ملا، جن میں Salat Hubویب سائٹ (www.salathub.co.uk)، اطفال کارنراور صنعت و تجارت کی نگرانی شامل ہیں۔ حضور انورکے ویب سائٹ کے مقصد کے بارے میں دریافت کرنے پر موصوف نے عرض کیا کہ یہ پلیٹ فارم نماز سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔

ان کے بعدایک اور نائب مہتمم اطفال نے حضورانور کی خدمت میں اختصار سےعرض کیا کہ ان کی مفوضہ ذمہ داری میں دو شعبہ جات صحت جسمانی اور Atfal Explorers Clubکی نگرانی شامل ہے۔ ان کی خاکستری داڑھی(greying beard) کا مشاہدہ فرما کر حضور انور نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دریافت فرمایا کہ کیا امسال آپ کا مجلس خدام الاحمدیہ کا آخری سال ہے؟ اس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیا۔

پھر مہتمم صاحب مجلس اطفال الاحمدیہ یوکے کو اپنا تعارف پیش کرنے کا موقع ملا۔برطانیہ میں اطفال کی کل تعداد کے بارے میں حضور انور کے استفسار پر موصوف نے عرض کیا کہ یہ تعداد ۲۴۴۷؍اطفال پر مشتمل ہے۔ تجنید کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں دریافت فرمانے پر موصوف نے عرض کیا کہ کافی حد تک اس پر کام ہو چکا ہے مگراعدادو شمار ابھی تک حتمی شکل اختیار نہیں کر سکے اور معیّن نہیں ہیں کیونکہ ڈیٹا میں کسی قدر کمی موجود ہے۔ اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ڈیٹااکٹھا کرنے کے لیے صرف AIMS کے نظام پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ اعداد و شمار کو معین بنانے کے لیے گھر گھر جا کر تصدیق کے طریقۂ کار کو اختیار کیا جائے۔

سیکرٹری عمومی نے حضور انور کی خدمت میں اپنی مفوّضہ ذمہ داریوں کا خاکہ پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ اس میں رپورٹنگ، میٹنگز کا اہتمام اور مختلف انتظامی فرائض کی نگرانی شامل ہے۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ وہ روزانہ ان کاموں کو کتنا وقت دیتے ہیں؟ موصوف نے عرض کیا کہ وہ اپنے کام کے لیے روزانہ ایک سے دو گھنٹے صَرف کرتے ہیں۔ حضور انور کے مزید استفسار پر موصوف نے بتایا کہ وہ آجکل ٹیکسی (cab)چلاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کے لیے بھی وقت میسر آ جاتا ہے۔

اس کے بعد سیکر ٹری تجنیدکو حضور انورسے بات کرنے کا موقع ملا۔حضور انور نے دریافت فرمایا کہ تجنید کس طرح بناتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا ہمیں زیادہ تر معلوماتAIMSسے ملتی ہیں۔

اس پر حضور انورنے تبصرہ فرمایا کہ AIMSکے اوپر اکتفا کرنا درست نہیں۔اپنی محنت کرو۔یہ کیا ہوا کہ cooked data پر اکتفا کر رہے ہو۔پکا پکایا مل گیا، بس ٹھیک ہے۔ حضور انور نے مزید تلقین فرمائی کہ آپ کا کام ہے کہ door to door جا کے دیکھیں، آپ کے جوrespectiveسیکرٹریانِ تجنید ہیں ان کو کہیں کہ جاؤ ہر محلہ سے grassroot levelپر جا کےاپنی تجنید اکٹھی کرو اور پھر اس کو updateکرو۔

پھر ایک اَور نائب مہتمم اطفال کو حضور انور سے شرف گفتگو حاصل ہوا۔علمی اور پیشہ ورانہ پس منظر کے بارے میں دریافت کیے جانے پر موصوف نے عرض کیا کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل ماسٹرز ڈگری مکمل کی تھی اور اس وقت وہ ایک ملٹی نیشنل فرم (multinational firm)میں بطور فنانشل آڈیٹر(financial auditor) ملازمت کر رہے ہیں۔ مزید برآں موصوف نے عرض کیا کہ تین شعبہ جات مال، اکیڈیمک ایکسیلنس (Academic Excellence) اور مجلس انصار سلطان القلم کی نگرانی ان کی مفوضہ ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

ان کے بعد ایک نائب مہتمم اطفال نے اپنا تعارف پیش کیا تو اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ ایسا لگتا ہے کہ ساری عاملہ ہی بطور نائب مہتمم اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

ایک اَور نائب مہتمم اطفال نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ Northern ریجنز کی نگرانی کے اضافی فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ شعبہ کی بابت استفسار پر موصوف نے امیونولوجی (immunology)میں اپنے تعلیمی پس منظر اور ہسپتال میں کلینکل امیونولوجسٹ(clinical immunologist) کے طور پر اپنے موجودہ کردار کے بارے میں روشنی ڈالی۔

سیکرٹری صحت جسمانی کے تعارف کروانے پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ اچھا ماشاء اللہ! آپ بڑے کمزور قسم کے سیکرٹری صحت جسمانی ہیں۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ وہ کیا کھیلتے ہیں؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ میں خود تو کچھ نہیں کھیلتا۔ حضور انور نے فرمایاکہ لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (الصّف:۳)۔اللہ میاں کہتا ہے وہ کام نہ کہو جو کہ کرتے نہیں ہو۔حضور انور نے مزید استفسار فرمایا کہ کچھ تو exerciseکرتے ہو کہ نہیں؟موصوف نے عرض کیا کہ walkکرتا ہوں۔ اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ اچھا! بغیر exercise کیے اگر صحت ایسی ہے تو exerciseکر کے تو بالکل ہی melt ہو جاؤ گے۔

اس کے بعد سیکرٹری مال کو اپنا تعارف کرانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ موصوف نے عرض کیا کہ وہ Hertfordshire سے ہیں، جس پر حضور انور نے اس امر کوسراہا کہ اراکینِ عاملہ کا تعلق مختلف علاقوں سے ہے۔ اس کے بعد مالی معاملات پر بات کرتے ہوئے حضور انور نے بجٹ کے تناظر میں خاص طور پر اطفال کے سالانہ ممبری چندہ کے بارے میں دریافت فرمایا۔ موصوف کے اعداد و شمار پیش کرنے پر حضور انور نے تبصرہ فرمایا کہ رقم مناسب معلوم ہوتی ہے۔

معاون مہتمم اطفال نے عرض کیا کہ وہ چودہ سے پندرہ سال کے بچوں کی تربیت کے لیے ذمہ دارہیں۔حضور انور کے استفسار پر موصوف نے عرض کیا کہ وہ چوبیس سال کے ہیں۔حضور انور کے پنج وقتہ نماز باقاعدگی سے ادا کرنے کی بابت دریافت کرنے پر موصوف نے اثبات میں جواب دیا۔ اسی طرح نماز تہجد کے بارے میں سوال پر موصوف نے عرض کیا کہ تین دفعہ ہفتے میں پڑھتا ہوں۔حضور انورنے اس پر تبصرہ فرمایا کہ اچھا ماشاء اللہ! پھر تو آپ اپنی مفوضہ ذمہ داری کو ادا کرنے کے اہل ہیں۔ مزید دریافت فرمایا کہ کیاآپ کے اطفال الاحمدیہ سو فیصدی پنج وقتہ نماز ادا کرنے میں باقاعدہ ہیں؟ موصوف نے نفی میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا کہ سوفیصدی نہیں ہیں۔یہ سماعت فرما کر حضورانور نے ہدایت فرمائی کہ پھریہ آپ کا ہدف ہونا چاہیے، یہ ٹارگٹ ہے، اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

سیکرٹری تربیت سے بات کرتے ہوئے حضور انور نے تلقین فرمائی کہ بچپن میں نمازیں پڑھنے کی عادت ڈالو۔ پندرہ سال تک نماز پڑھ لیتے ہیں۔اس عمر میں ٹھیک ہے زیادہ emphasis دینا چاہیے اور اس کے لیے special پروگرام بنانا چاہیے کہ ادھر ادھر نہ جائیں، لیکن بچپن میں نمازیں پڑھنے کی عادت پڑ جائے تو پھر بڑے ہو کے بھی قائم رہتی ہے۔

تربیت میں یہ ہے کہ آج کل کی جو غیر اخلاقی باتیں ہیں ان کو کھل کے ہر ایک کو ایڈریس (address) کرو اور بچوں کو پتالگنا چاہیے کیا کیا برائیاں ہیں؟ کن کن چیزوں سے ہم نے بچنا ہے؟ سکول میں کیا پڑھاتے ہیں؟ اس کا جواب کیا ہے؟ آج کل سکول ضرورت سے زیادہ LGBTوغیرہ کے بارے میں پڑھاتے ہیں۔ کچھ دن ہوئے مجھے ایک بچہ بتا رہا تھا کہ سکول والے ہمیں سیکس(sex)کے بارے میں بتا رہے تھے، مجھے پتا ہی نہیں یہ کیا چیز ہوتی ہے۔مجھے بتانے کی پھر کیا ضرورت ہے؟ تو بچے خود یہ سوال اٹھانے لگ گئے ہیں۔

تو بچپن میں آپ تربیت کریں۔ چار سے چھ سال کے بچے کو کیا پتا یہ کیا چیزیں ہیں۔یہ دجالی چالیں ہیں اور ان دجالی چالوں میں تربیت کی زیادہ ضرورت ہے۔ماں باپ ان کو بھی educateکریں کہ کس طرح انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ ایسے معاملات جو پیش آتے ہیں ان کو dealکرنا ہے، کس طرح ان کو addressکرنا ہے، کس طرح ان کو بچوں کے سامنے پیش کرنا ہے۔ تو یہ چیزیں اب کھل کے کرنی پڑیں گی، نہیں تو تربیت رہ جائے گی، آپ شرماتے رہیں گےاور وہ لوگ بیہودگیاں سکھاتے رہیں گے۔اس لیے بچوں کو بتانا ہے کہ ابھی تمہاری عمر نہیں آئی، جب بڑے ہو گے تو تم آہستہ آہستہ سیکھنا اور اس میں یہ یہ برائیاں ہیں، اللہ میاں نے اس میں برائیاں کیا رکھی ہیں، اچھائیاں کیا رکھی ہیں۔ اللہ کیا کہتا ہے کہ جائز چیز کیا ہے اور ناجائز چیز کیا ہے؟

آج سے پہلے جب ان کو یہ ساری educationنہیں دیتے تھےتو اس وقت دنیا میں لوگوں کے بچے نہیں پیدا ہوتے تھے؟ پرانے زمانہ کے لوگ بلکہ زیادہ بچے پیدا کر لیتے تھے۔جائز طریقہ ہے، تو جائز طریقے سے جو کام ہیں وہ ہونے چاہئیں تو ناجائز سکھا کے یہ صرف نوجوانوں میںfrustrationاور lustپیدا کرتے ہیں۔اور کچھ بھی نہیں ہوتا ۔جو لڑکے پندرہ سال کی عمر سے اوپر جاتے ہیں تو پھر ان بیچاروں کی تربیت فیل ہو جاتی ہے۔خدام الاحمدیہ کا مہتمم تربیت ویسے ہی ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور پھر بچےبگڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔اس لیے شروع میں ہی ایسی تربیت کریں کہ آخر تک قابو میں رہیں۔اصل چیز یہی ہے۔یہ ہمارا مقصد ہے، تبھی فائدہ ہے، نہیں تو پھر احمدی مسلمان ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ مسلمان تو تبھی انسان ہو سکتا ہے جب اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرے اور اس کی تعمیل کروانے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے۔ اس لیےان کو بچپن سے ہی یہ بتانا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور احمدی مسلمان ہیں اور ہمارے میں فرق کیا ہے، نہیں تو ہمارا احمدی مسلمان کہلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ نہیں تو یہ منافقت ہو گی hypocrisyہو گی جس کا کوئی فائدہ نہیں۔تو تربیت پر بہت زور دیں۔

سیکرٹری تعلیم کو جب شرف گفتگو حاصل ہوا تو حضورانور نےان کو دیکھ کر تبصرہ فرمایا کہ آپ تو بذات خود اطفال الاحمدیہ میں سے لگ رہے ہیں۔ اس پر تمام حاضرینِ مجلس مسکرا دیے۔ موصوف نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ ریاضی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ اسی طرح اپنے شعبہ کے حوالے سے عرض کیا کہ اس سال ہمارا بنیادی فوکس صلوٰة پر ہے۔ تمام اطفال کو ہم صلوٰة زبانی سادہ سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سماعت فرما کر حضور انور نے تلقین فرمائی کہ صلوٰة کی روح بھی پیدا کرو کہ کیوں ادا کرنی ہے؟ اس لیےکہ اللہ سے تعلق پیدا کرنا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میرے قریب آؤ تو میں تمہارے قریب آؤں گا اور تمہیں اَور دوں گا۔

مطلب ہے کہ کسی چیز کا اگر benefit ہو تو اس کو achieveکرنے کے لیے پھر آدمی کوشش کرتا ہے۔ آج کل کے زمانے میں تو ان کو کچھ دینا پڑے گا۔ بچوں کو logically بتانا پڑتا ہے۔وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیوں نماز پڑھیں؟ اللہ میاں کو ہماری نمازوں کی کیا ضرورت ہے ؟ آپ کہتے ہیں نماز پڑھو، بچہ آگے سے سوال کرتا ہے کیوں پڑھیں؟

پھر اس کو بتاؤ کہ اللہ میاں کو ہماری نمازوں کی ضرورت ہے اور کیوں ضرورت ہے؟ یہ بھی سوال جواب ہونے چاہئیں۔ یہ شعبہ تربیت اور والدین کا بھی کام ہے۔ مجھے بھی لوگ خط لکھ دیتے ہیں، اس لیے مجھے پتا ہے۔دنیا میں ہر جگہ ایسے سوال اٹھتے ہیں پھر ان کو جواب دینے پڑتے ہیں کہ کیوں ضرورت ہے۔

اللہ کو کوئی ضرورت نہیں، اللہ میاں تو قرآن شریف میں کہتا ہے کہ مجھے تمہاری دعاؤں اورنمازوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ نمازیں پڑھو! پیدا ہی تمہیں میں نے اس لیے کیا ہے۔ تو آج کل کے بچوں سےبڑی logicallyیہ بات کرنا پڑتی ہے، خاص طور پر تب جب بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں۔اس لیے ایسے comprehensive پروگرام بناؤجو ہر چیز کوcover کرتے ہوں۔

پھر معاون مہتمم اطفال (سیکرٹری اجتماع) کو حضور انور کو اپنی خدمت کے حوالے سے تعارف کروانے کا موقع حاصل ہوا۔

اس کے بعد سیکرٹری وقار عمل نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ امسال انہیں اس ذمہ داری کو سر انجام دینے کی توفیق ملی ہے۔ حضور انور نے فرمایاکہ اچھا ماشاء اللہ!توکتنے وقار عمل اب تک کرائے ہیں ؟ موصوف نے عرض کیا کہ لوکل اور ریجنل لیول میں اوسطا ًاکیس فیصد اطفال وقار عمل میں حصہ لیتے ہیں اور ان سرگرمیوں میں حصہ لینے والے مجموعی اطفال کی تعداد ۵۲۰؍ہے۔ اس پر حضور انورنے ہدایت فرمائی کہ اچھا چلو مزید کام کراؤ۔مسجدوں کی صفائی اطفال سےکرایا کرو، وہ شوق سے کر لیتے ہیں۔

سیکرٹری وقف جدید سے بات کرتے ہوئے حضور انورنے وقف جدید سکیم میں اطفال کی وسیع پیمانہ پر شرکت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ تمام اطفال کو اس تحریک میں حصہ دار بنانا چاہیے۔اسی طرح جماعت کی طرف سے وقف جدید کے لیے کل عطیات کا ایک بڑا حصہ خاص طور پر ایک تہائی خدام اور اطفال سے وصول ہونا چاہیے۔ مزید برآں اطفال میں مالی قربانی کے جذبہ کو اُبھارنے کے حوالے سے تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ بچوں میںقربانی کی روح پیدا کرو۔بچوں کو چندہ دینا چاہیے اور چندہ کا مقصد کیا ہے؟ جب تک آپ یہ نہیں بتائیں گے کہ چندہ کا مقصد کیا ہے تو وہ سمجھیں گے کہ آپ لوگ یوں ہی پیسے اکٹھے کرتے رہتے ہیں۔

سیکرٹری صنعت و تجارت سے بات کرتے ہوئے حضور انور نے ان کے تعلیمی پس منظر کے بارے میں دریافت فرمایا تو موصوف نے عرض کیا کہ وہ الیکٹرانک انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے انہوں نے عرض کیا کہ وہ ایک آن لائن شاپ چلاتے ہیں، جو اطفال کے لیے تیار کی گئی ہے، یہ کتب اور تجارتی سامان کا ایک انتخاب پیش کرتی ہے۔

اس کے بعد سیکرٹری خدمتِ خلق کو حضور انور سے بات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اطفال چیریٹی چیلنج (Atfal Charity Challenge)کی نگرانی کا کام بھی سر انجام دے رہے ہیں۔اپنے تجربات کا اشتراک کرتے ہوئے موصوف نے ایک مستحسن اقدام کی تفصیل سے آگاہ کیا کہ گیمبیا کے ایک گاؤں کے لیے فنڈز اکٹھے کیے گئے تھے اور انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز (IAAAE) نے امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کی تھی۔ حضور انورنے اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ امداد اپنے مطلوبہ مستحقین تک مؤثر طریقہ سے پہنچ جائے follow-up کے بارے میں دریافت فرمایا۔اس پر موصوف نے تصدیق کی کہ ایک نمائندہ نے گاؤں کا دَورہ اور ایک مکمل سروے کیا نیز امداد کے مرتب ہونے والےاثرات کا پتا لگانے کے لیے کمیونٹی کے ساتھ بات چیت بھی کی۔

حضور انور نے خدمتِ خلق کے کاموں میں حصہ لینے کے لیے اطفال کی حوصلہ افزائی کرنے کے بارے میں سیکرٹری خدمتِ خلق کی راہنمائی کرتے ہوئے تلقین فرمائی کہ چیریٹی (charity)کے لیےعادت ڈالو کہ غریبوں کی مدد کرنی چاہیے۔ تم جو برگرکھاتے ہو، ایک برگر قربان کرو تو اس کی مطلوبہ رقم لوگوں کو چیریٹی میں دے دیا کرو۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں، سوڈان میں بھوکے مر رہے ہیں، ایتھوپیا میں بھوکے مر رہے ہیں، فلسطین میں بھوکے مر رہے ہیں اور بچے بےچارےآج کل وہاں بڑے بُرے حال میں ہیں اور اسی طرح دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی۔ تو ذراemotionally ان کو اٹھائیں تو پھر وہ بچے، مستحق بچوں کی خدمت کریں گے۔

اس کے بعد معاون مہتمم اطفال برائے ہاؤس وزٹس پراجیکٹ کواپنی مفوضہ ذمہ داری کے بارے میں حضور انور کی خدمت میں اپنی مساعی کی تفصیل پیش کرنے کا موقع ملا۔

معاون مہتمم اطفال برائے ایکسپلوررز کلب نے اطفال الاحمدیہ کے تعلیمی اور تحقیقی دورہ جات کے انعقادکے حوالے سے اپنے کردار نیز قادیان دارالامان کے حالیہ سفر پر روشنی ڈالی نیز امسال اکتوبر میں اطفال کے گھانا کے آئندہ سفر کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ گھانا کے سفر کی بابت حضور انور نے نصیحت فرمائی کہ اس عرصہ کے دوران فضا میں موجود گردوغبار کے حوالے سے احتیاط برتی جائے نیز اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ دورانِ سفر صحت اور حفاظت کے لیےمناسب احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔

اس کے بعد معاون مہتمم اطفال برائے special educational needs and disabilitiesکو حضور انور کی خدمت میں اپنی ذمہ داری کے حوالے سے بات کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ ایسے اطفال پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہیں جن کی مخصوص تعلیمی ضروریات اور معذوری (SEND) ہے نیز ان کو جماعتی تقریبات میں شامل کرنے کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔ اس تناظر میں حکمت عملی کے اعتبار سے حضور انورکے استفسار پرموصوف نے والدین سے ان کے بچوں کی مخصوص ضروریات کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے عمل کی وضاحت کی تاکہ جماعتی تقریبات کے دوران مناسب تعاون کو یقینی بنایا جاسکے۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا آپ ان کے لیے کسی قسم کےکوئی ورزشی پروگراموں کا بھی اہتمام کرتے ہیں؟ موصوف کے نفی میں جواب دینے پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اجتماع کے دوران ان کے لیے ورزشی پروگراموں کا اہتمام کریں، اس طرح ان کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ انعامات بھی وصول کریں گے۔ سپیشل بچوں کی معذوری کے حوالے سے حضورانور نے فرمایا کہ ان میں سے بعض کی کمی نسبتاً کم ہے اور کچھ کی زیادہ۔ نیز دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے ان کی درجہ بندی کی ہے؟ موصوف نے عرض کیا کہ اس طرح سے ان بچوں کی درجہ بندی نہیں کی۔ اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ان کی درجہ بندی کریں کیونکہ اگر ان کے لیے کسی قسم کے مقابلہ جات کا انعقاد کروایا گیا تو سب کو اکٹھا شامل کرنا انصاف پر مبنی نہ ہو گا۔

اطفال کی academic excellence کے لیے مقرر معاون نے اپنا تعارف کروایا نیز حضورانور کی خدمت میں ایک حالیہ سروےکے نتائج پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ سولہ فیصد اطفال اس وقت اپنے GCSEs شروع کر رہے ہیں اور ستائیس فیصد پرائمری سے سیکنڈری تعلیم کی طرف جا رہے ہیں، اسی طرح مستقبل میں متأثر کن طور پرچوراسی فیصد اطفال یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں جبکہ اکانوے فیصد کا ارادہ (A levels) کا ہے۔ موصوف نے اس سروے کی بابت تبصرہ کیا کہ یہ اطفال کے اندر تعلیمی کامیابیوں کے لیے مضبوط عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

اس کے بعد سیکرٹری اشاعت کو حضور انور کی خدمت میں اپنے شعبہ بالخصوص طاہر میگزین کی اشاعت کے سلسلے میں بروئے کار لائی جانے والی مساعی کی بابت بات کرنے کا موقع ملا۔حضور انور نے اس رسالہ کی اشاعت میں باقاعدگی اختیار کرنے کی جانب توجہ مبذول کروائی۔

اشاعت کتب کے ضمن میں نظر ثانی کے عمل کی گہرائی اور اہمیت کی طرف توجہ مرکوز کرواتے ہوئے حضور انور نے ماضی کا حوالہ دیا جہاں ایک اور ذیلی تنظیم کے ذریعہ تیار کردہ مواد میں غلطیاں تھیں۔ اس پر موصوف نے یقین دلایا کہ معیار اور درستگی کو برقرار رکھنے کے لیے شعبہ کی جانب سے احتیاط سے جانچ پڑتال اور مکمل پروف ریڈنگ کی جاتی ہے۔

ایک اور معاون مہتمم اطفال نے عرض کیا کہ وہ اطفال الاحمدیہ کے اندر نئی قائم ہونے والی مجلس انصار سلطان القلم کی نگرانی کررہے ہیں نیز اس سلسلہ میں حضور انور کی خدمت میں اپنے شعبہ کی ابتدائی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم نے ایک سروے کیا تھا جس سے ہمیں یہ پتا چلا کہ اطفال اسلام احمدیت کے خلاف عام اعتراضات کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ پہلے سارے common allegations اکٹھے کرو، پھر اس کے بعد ان کی فہرست بنا کر ان کے جوابات بھی تیار کریں۔ کوئی سپیشل ٹیم اسی کام کے لیے recruitکرو جو جواب بھی دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ہمیں جواب نہیں آتے، جواب ہر چیز پر ہیں، جو ہمارے ا چھے جواب دینے والے ہیں چاہے یہاں ہیں، چاہے کینیڈا یا امریکہ میں، کہیں بھی ہوں ان سے جواب لے کے تو proper comprehensiveقسم کی گائیڈ لائنز بنا لو۔ bookletتو نہیں ہو سکتی، کتاب ہی بن جائے گی تو وہ لڑکوں کے بڑا کام آئے گی۔اگر یہ کام تم کر جاؤ تو پھر لوگ appreciateکریں گے، otherwiseتو کوئی فائدہ نہیں۔

چشمۂ معرفت کا وہ حصہ، جو تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چوہتر، پچھتر صفحات کی تھی، باقی حصہ تو آریوں کے اعتراضات کے جوابات ہیں، جو اصل mainمضمون پڑھا تھا وہ حصہ نکال کے پڑھاؤ۔اس میں بہت سارے جواب اس قسم کے بھی آ جاتے ہیں۔ finality of prophethoodکے بارےخدام کو بھی پتا ہونا چاہیے۔ پھریہ بھی بچوں کا کامن(common) سوال ہے کہ مختلف مذاہب کی کیا ضرورت ہے یا مذہب تو پہلے بھی تھے تو پھر اسلام ہی کیوں؟ اس کا بھی جواب دینا ہے۔

معاون مہتمم اطفال برائے ٹرینی(trainee) سکیم نے اپنے مفوضہ کام پر روشنی ڈالتے ہوئے عرض کیا کہ اس سکیم کے تحت یونیورسٹی کے زمانے کے خدام اساتذہ کو تیار کرکےمؤثر طریقہ سے اطفال کلاسزمنعقد کرنے پر توجہ دینا ہے۔ اسی طرح موصوف نے نوجوان اساتذہ کو ضروری مہارتوں اور علم سے آراستہ کرکے اطفال کو فراہم کی جانے والی تعلیم کے معیار کو بڑھانے کے اقدام کے مقصد کا تفصیلی خاکہ پیش کیا نیز اس سکیم کے آغاز کے لیے ٹائم لائن(timeline) کا تذکرہ کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ یہ سکیم ان شاء اللہ امسال رمضان ۲۰۲۴ء کے اختتام کے فوری بعد شروع ہو جائے گی۔

ان کے بعدمزید دو معاونین مہتمم اطفال کو حضور انور سے بات کرنے کا شرف حاصل ہوا نیز اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے گزارشات پیش کرنے کا موقع بھی ملا، ان میں سے مؤخر الذکر معاون مہتمم اطفال برائے طاہر میگزین تھے جنہوں نے بالخصوص مجلس اطفال الاحمدیہ کی جانب سے کتب کی اشاعت کے حوالے سے اپنے کردار پر روشنی ڈالی۔

اس کے بعد مجلس اطفال الاحمدیہ کے ملک بھر کے انیس ریجنل ناظمین کو مختصر طور پر اپناتعارف پیش کرنے اور حضور انور سے مخاطب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ جن ریجنل ناظمین کو یہ سعادت حاصل ہوئی ان کےریجنز کے نام یہ ہیں۔بیت الاحسان ریجن، بیت الفتوح ریجن، بیت النور ریجن، بیت السبحان ریجن، بشیر ریجن، ایسٹ ریجن، ایسٹ مڈلینڈز ریجن، فضل مسجد ریجن، ہرٹ فورڈ شائر ریجن، مسرور ریجن، مڈل سیکس ریجن، نارتھ ایسٹ ریجن، نارتھ ویسٹ ریجن، سکاٹ لینڈ ریجن، ساؤتھ ریجن، طاہر ریجن، ویسٹ مڈلینڈز ریجن اور یارکشائر ریجن۔

ریجنل ناظم اطفال فضل مسجد ریجن سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ان کے ریجن میں کل کتنے اطفال ہیں؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ ۱۲۴؍۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے استفسار فرمایا کہ اطفال آپ کو بہت تنگ کرتے ہیں؟ موصوف کے نفی میں جواب دینے پر حضور انور نے مسکراتے ہوئےتبصرہ فرمایا کہ آپ مجھے ویسے بڑے بیزار لگ رہے ہیں۔

تعارف کے سلسلہ کے اختتام پر حضور انور کی خدمت میں ایک ویڈیو پریزنٹیشن پیش کی گئی، جس میں کووڈ کی وبا کے آغاز سے لے کر اب تک حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی جانب سےمجلس اطفال الاحمدیہ کو فراہم کی گئی بیش قدر راہنمائی نیز اس کی روشنی میں ہدایات کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے بروئےکار لائی گئی مساعی کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا۔

اس ویڈیو میں بتایا گیا کہ اپریل اور مئی ۲۰۲۱ء میں حضور انور نے ملک بھرسے تعلق رکھنے والے اطفال کو تین آن لائن ملاقاتوں کا شرف بخشا۔ ان ملاقاتوں کے دوران اطفال کو حضور انور سے سوال پوچھنے نیز درپیش مسائل کے بارے میں راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے از راہِ شفقت ان اطفال کو بذریعہ خط سوال پوچھنے کی اجازت دی جنہیں دورانِ ملاقات سوال پوچھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔اس سلسلہ میں اٹھائیس خوش نصیب اطفال ایسے تھے جن کو سوالات کے جواب میں حضور انور کی جانب سے تفصیلی خطوط موصول ہوئے۔یہ خطوط طاہر میگزین کے خصوصی ایڈیشن کی زینت بنے جس میں علاوہ ازیں تینوں بابرکت ملاقاتوں کی تفاصیل شامل تھیں۔اس خصوصی اشاعت کو اطفال کے گھروں میں بذریعہ پوسٹ بھیجا گیا۔

۲۰۲۱ءمیں حضور انورنے ماریشس کے مہتمم اطفال کو ہدایت فرمائی تھی کہ چودہ سے پندرہ سال کی عمر کے اطفال پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جماعتی سرگرمیوں میں ان کی مصروفیت کم ہو جاتی ہے۔اس ہدایت کی روشنی میں اس مخصوص عمر کے گروپ پر توجہ دینے کی خاطر ایک معاون مہتمم کو مقرر کیا گیا۔جولائی ۲۰۲۲ء میں حضورانور کی راہنمائی کی روشنی میں چودہ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تو اس تقریب میں شرکت کرنے والے پچاس سے زائد اطفال کو اسلام آباد میں حضور انورکے ساتھ بالمشافہ ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔

۲۰۲۱ء میں مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے اجتماع کے موقع پرتاریخی اختتامی خطاب کے دوران حضور انور نے مجلس کو چیلنج (challenge)دیا تھا کہ وہ ہر سطح پر علمی سرگرمیوں میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ مجلس اطفال الاحمدیہ میں اس چیلنج کی خاطر ایک معاون مہتمم کو مقرر کیا گیا۔حضور انورکے خطاب کے بعد لوکل اور نیشنل اجتماعات پر کئی تقریبات منعقد کی گئیں جن میں اطفال کو اس چیلنج کو پورا کرنے کی جانب بھرپور ترغیب دلائی گئی۔

ویڈیو کے آخری حصہ میں بطور اظہار تشکر بیان کیا گیا کہ مجلس اطفال الاحمدیہ کو حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے وقت، توجہ، راہنمائی اور دعاؤں سے بہت نوازا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافت کا سلطانِ نصیر بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!

ملاقات کے اختتام پر خدام کو حضور انورکے ساتھ تصاویر بنوانے کا بھی موقع ملا۔

نشست برخاست ہونے سے قبل حضور انور نے ریجنل ناظمین اطفال کو بچوں کی تربیت کی اہمیت کے بارے میں دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے خصوصی نصیحت فرمائی کہ جوguidanceمیں نے شعبہ تربیت کو دی ہے وہ آپ سب کے لیے بھی ہے۔

حضور انورنے آخر پر سب شاملین کو اللہ حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ کہا اوراس طرح سے یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button