اداریہ

اداریہ: خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

(قریباً ڈیڑھ سو میل دور لالیاں سے پیدل چل کر احمدیت قبول کرنے والے اصحابِ احمد)

ربوہ سے سرگودھا کی جانب کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر ایک قصبہ لالیاں آباد ہے۔ یہ قصبہ قادیان سے قریباً ڈیڑھ سو میل پیدل مسافت پر واقع ہے۔ بعض درویش صحابہ ایسے بھی تھے جو غربت کے باعث یہاں سے پیدل چل کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانے اور آپؑ کی بیعت کرنے قادیان پہنچے۔

حافظ محمد حیات صاحب آف لالیاں ایک مضمون ’’لالیاں میں احمدیت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 1894ء میں سورج اور چاند گرہن کے نشان کے پورا ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کے دلوں میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اور قیامت قریب ہے۔ روایات سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں گھبراہٹ کا عالَم طاری تھا کہ اب کیا ہوگا۔ قیامت آپہنچی ہے۔ اسی زمانے میں ان نشانات کا اکثر تذکرہ تھا۔ چنانچہ حافظ محمد لکھوکے نے اپنی ’احوال الآخرۃ‘ میں امام مہدی کے ظہور کے نشانات کا اپنے پنجابی کلام میں ذکرکیا تھا۔ اسی طرح لالیاں کے ایک سجادہ نشین اور صوفی شاعر میاں محمد صدیق لالی نے بھی انہی نشانات کا اپنے کلام میں ذکر کیا۔ ان نشانیوں کے بارے میں گھر گھر تذکرہ ہوتا تھا اور عام لوگوں میں امامِ وقت کی جستجو تھی۔ ان حالات میں مولانا تاج محمود صاحب اور دیگر چند بزرگوں نے باہمی مشورہ کیا اور ایک وفد تشکیل دیا جو قادیان جا کر مہدی علیہ السلام کو دیکھیں اور تمام نشانات جو مہدی موعود کے متعلق مختلف روایات میں ہیں ان کے پورا ہونے کا بغور جائزہ لیں اور اگر وہ نشانات پورے ہوں تو ان کی بیعت کر لی جائے۔ اس وفد میں جن اشخاص کا انتخاب ہوا اُن میں سر فہرست تین اشخاص تھے۔ شیخ امیر الدین صاحب، میاں صاحب دین صاحب اور میاں محمد یار صاحب۔ یہ وفد پیدل روانہ ہوا۔ زادِ راہ کے طور پر ان دونوں کے پاس اس وقت کی رائج کرنسی کے مطابق صرف ڈیڑھ روپیہ تھا۔ (بعض روایات میں ہے دو آدمیوں کا وفد گیا تھا۔ صرف میاں صاحب دین اور شیخ امیر الدین صاحب) اور مارچ کا مہینہ تھا۔ گندم پکنے کے قریب تھی۔ یہ لوگ پیدل ہی روزانہ دس بارہ میل کا سفر کرتے تھے۔ جب بھوک لگتی تھی تو وہاں زمینداروں کی جو گندم پکی ہوئی ہوتی تھی ان سے سٹّے لے لیے اور سٹّے بھون کے کھاتے تھے اور گزارہ کرتے تھے۔ اگر کوئی آبادی یا ڈیرہ قریب ہوتا تو وہاں رات بسر کرتے۔ بہر حال سینکڑوں کوس کی مسافت طے کرتے ہوئے جب یہ دونوں ساتھی، (بعض روایتوں کے مطابق تینوں ساتھی) بٹالہ کے قریب پہنچے تو وہاں پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے شاگردوں نے آ لیا۔ ان سے قادیان کا راستہ دریافت کیا گیا۔ انہوں نے قادیان جانے کی وجہ پوچھی۔ مقصد معلوم ہونے پر ان کے شاگردوں نے قادیان جانے سے منع کیا اور کہا کہ جس شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہؤا ہے وہ تو نعوذ باللہ جھوٹا ہے کیونکہ اس نے ایک نہیں سات دعوے کیے ہوئے ہیں۔ تم کس کس دعوے پر ایمان لاؤ گے۔ لہٰذا یہیں سے واپس چلے جاؤ۔ یہ سن کر شیخ امیر الدین صاحب نے جواب دیا کہ اگر اس نے سات مختلف دعوے کیے ہیں تو بھی وہ سچا ہے۔ اس نے تو ابھی اور بھی دعوے کرنے ہیں۔ اور دلیل انہوں نے اپنے مطابق یہ دی کہ مثلاً یہاں پر تم سب سات آدمی ہو اور مَیں اکیلا ہوں۔ تم سب میرے ساتھ مقابلہ کرو اور کشتی کرو۔ اگر میں تم سب کو پچھاڑ دوں تو پھر میں ایک ہوا یا سات۔ یعنی سات پر بھاری ہو گیا اور فرمایا کہ امام الزماں نے تو ساری دنیا کے مختلف مذاہب کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس لئے ان کے اور بھی دعوے ہوں گے۔ اس پر وہ سب لاجواب ہو گئے اور کہا میاں تم اپنی راہ لو لیکن راستہ پھر بھی نہیں بتایا۔

کہتے ہیں تھوڑی دور آگے ہم گئے۔ کسی سکھ کا چائے کا کھوکھا تھا۔ اس سکھ نے چائے وغیرہ بنا دی۔ بسکٹ وغیرہ پیش کیے۔ شیخ صاحب نے بٹالوی صاحب کے شاگردوں کا واقعہ اور رویّہ سکھ سے بیان کیا جس پر اس نے افسوس کا اظہار کیا۔ سکھ نے کہا کہ میں تمہیں راستہ بتاتا ہوں۔ آپ ضرور قادیان جائیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے۔ پھر کہنے لگا کہ ہم مرزا صاحب کو جانتے ہیں۔ چنانچہ وہ سکھ دُور تک ساتھ گیا اور راستے پر چھوڑا جو سیدھا قادیان جاتا تھا۔ اس وقت قادیان کا کوئی پختہ راستہ نہیں تھا۔ جب یہ دونوں ساتھی قادیان پہنچے تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مجلس لگی تھی۔ چند غیر از جماعت علماء اور گدی نشین اس مجلس میں بیٹھے تھے جن سے حضرت اقدس مکالمہ مخاطبہ فرمارہے تھے اور ان کے سوالات کے جوابات ارشاد فرما رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ تحریر میں بھی مصروف تھے۔ یہ بھی ایک نشان تھا کہ آپ ایک طرف تحریر فرما رہے تھے اور قلم چل رہا تھا جیسے کوئی غیب سے مضمون دل میں اتر رہا ہے اور دوسری طرف مجلس میں بیٹھے لوگوں سے گفتگو فرما رہے ہیں۔ قلم میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی تھی۔

ان ساتھیوں کا تعارف حضور سے کروایا گیا۔ شیخ صاحب نے عرض کیا کہ حضور ہم لالیاں سے آئے ہیں۔ حضور نے پوچھا کہ لالیاں کہاں ہے؟ اس وقت مجلس میں حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب بیٹھے ہوئے تھے جن کا تعلق بھیرہ سے تھا۔ اس لیے لالیاں کے بارے میں وہ جانتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا حضور! لالیاں کڑانہ اور لک بار کے پاس ہے۔ جس پرحضور نے فرمایا کہ ہاں ہاں وہ لک اور لالی۔ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہ ہمارے پڑوسی ہیں۔ چونکہ شیخ صاحب اور صاحب دین صاحب اَن پڑھ تھے اس لیے وہ بولے ہاں حضور ہم بھی ان کے گوانڈھی ہیں۔ پھر سفر کے تمام حالات اور واقعات حضور کے سامنے عرض کیے۔ جب حضور نے بٹالوی صاحب کے شاگردوں کا واقعہ سنا تو حضور نے فرمایا۔ دیکھو یہ کیسا اَن پڑھ شخص ہے۔ اس نے کیسا جواب دیا۔ لاجواب کر دیا۔ اس کو کس نے سکھایا۔ اس کو خدا نے سکھایا۔ یہ الفاظ حضور نے تین مرتبہ دہرائے۔ حضور نے پھر ان کو ارشاد فرمایا کہ آپ چند دن ہمارے پاس رہیں۔ تین دن تک یہ حضور کی مجلس میں رہے۔ حضور کے ساتھ سیر پر بھی جاتے رہے۔ وہ نشانیاں جو لالیاں کے علماء نے بتائی تھیں ان کا جائزہ بھی لیا۔ اپنی آنکھوں سے ان نشانیوں کو پورا ہوتے دیکھا۔ آخر کار واپسی سے پہلے مسجد میں حاضر ہو کے حضور کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام (جو اپنے مہدی کو پہنچانے کی تاکید فرمائی تھی) عرض کیا اور بیعت کی درخواست کی۔ اس پر حضور نے فرمایا ابھی کچھ دن اور ہمارے پاس رہیں۔ یہ سن کر شیخ صاحب آبدیدہ ہو گئے اور اپنے پاؤں آگے کر کے حضور کو دکھائے اور عرض کی کہ حضور اتنی لمبی مسافت سے ہمارے پاؤں سوج گئے ہیں۔ اتنی تکلیف ہم نے برداشت کی ہے اور ہم نے آپ کو سچا مہدی پایا ہے۔ نہ جانے زندگی ساتھ دے یا نہ دے۔ ہماری بیعت قبول فرمائیں۔ چنانچہ پھر وہاں مسجد مبارک میں ان کی دستی بیعت ہوئی۔ (ماخوذ خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرمودہ ۲۰؍ مارچ ۲۰۱۵ء)

قارئین! سلسلہ احمدیہ کے بزرگان کی عظیم الشان قربانیوں سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہچاننا، آپؑ کی بیعت میں آنا پھر آپؑ کے بعد خلافتِ احمدیہ کی اطاعت کرناکسی قیمتی خزانے سے کم نہیں۔ عظیم قربانیاں کرنے والے ایسے بزرگ خود بھی سرخرو ٹھہرے اور ہمارے لیے بھی قابلِ تقلید نمونے چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مسیح آخرالزماں کی بیعت کا حق ادا کرنے والے، خلافتِ احمدیہ کے سچے اطاعت گزار ہوں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button