یادِ رفتگاں

پروفیسر ڈاکٹر اسحاق داؤدا صاحب آف بینن کا ذکر خیر

(صفدر نذیر جاوید گولیکی)

مکرم اسحاق داؤدا صاحب بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

آپ مکرم عیسیٰ داؤدا صاحب کے بڑے بیٹے تھے، مجھے خیال آیا کہ ان کی وفات پر ان کے سارے خاندان کا ذکر کردوں جو یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ آپ کے تایا جان الحاج مکرم سکیرو داؤدا صاحب جماعت کے اوّلین ممبران میں سے تھے اور ان کی وجہ سے ۱۹۶۷ء میں جماعت احمدیہ کا پودا بینن کے شہر پورتونوو میں لگا۔ اصل میں یہ بینن کے تھے مگر نائیجیریا میں آباد تھےوہیں کاروبار کرتے تھے اور وہیں پر احمدیت کے نور سے منور ہوئے۔ مکرم سیکرو صاحب بھی نہایت عاجز اور سچے اور کھرے انسان تھے نہایت دھیمے مزاج کے تھے جب بھی کوئی کام کہا اسی وقت تیار پایا بڑے لوگوں کے ساتھ ملنے کے لیے جب میں جاتا تو ان کو ساتھ لے جاتا (الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍جولائی تا ۱۰؍اگست ۱۹۹۵ء صفحہ۲۲)

میں جس گھر میں رہتا تھا وہ گھر الحاجی سیکرو داؤداصاحب کا تھا اب وہ بطور ہسپتال استعمال ہورہا ہے۔خدا تعالیٰ نے انکو بہت نوازا تھا ان کی اہلیہ محترمہ صدر لجنہ اماء اللہ بینن کئی سال رہیں۔

آپ کے چچا مکرم یونس داؤدا صاحب تھے جو عرصہ دراز تک جماعت کے سیکرٹری مال رہے،ان کے بارے میں خاکسار نے ان کی وفات کے بعد ایک مضمون لکھا تھا جو الفضل انٹرنیشنل میں شائع شدہ ہے۔

مرحوم کی والدہ ماماقدوس کے نام سے مشہور تھیں جو بینن میں ہمارے قیام کے دوران ہم اہلِ خانہ کے لیے فرشتہ ثابت ہوئیں۔اللہ کروٹ کروٹ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔آمین۔ جب میری اہلیہ اور میری بیٹی میرے ساتھ پورتونوو (بینن) آئیں تو ان کی دیکھ بھال اور خیال رکھنا سب ماما قدوس کیا کرتی تھیں۔پیشہ کے لحاظ سے وہ نرس تھیں۔ ہمارے لیے وہ فیملی ڈاکٹر کی طرح بھی تھیں۔مکرم اسحاق داؤدا کے والد مکرم عیسیٰ داؤدا صاحب ایک پرائیویٹ سکول چلاتے تھے،طبیعت کے کچھ تیز اور اصول پسند تھےمگر بہت پارسا، نیک اور ہمدرد انسان تھے۔جیسا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ اسحاق صاحب موصوف پہلے ایمان لائے پھر باقی افرادتو پھر پکے اور سچے احمدی بنے۔ چندہ جات اور جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ان کا خاص وصف تھا۔مرحوم موصوف کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔آخری عمر تک پڑھتے رہے۔جب میں پورتونوو پہلی مرتبہ پہنچا تو ان دنوں فرانس تعلیم حاصل کرنے گئے ہوئے تھےاور اسی عرصہ قیام میں انہوں نے وہاں وصیت بھی کر لی تھی۔واپس آکر مزید تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوئے ۔یونیورسٹی کی طرف سے اعزازی شیلڈ بھی دی گئی۔جس روز شیلڈ ملنی تھی اپنی والدہ اور والد کے ہمراہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر گئے۔

مرحوم روزانہ نمازیں مسجد آکر ادا کرتے،چندہ بروقت ادا کرتے۔نوافل، ذکر و اذکاراور جماعتی کتب کے مطالعہ میں توجہ دیتے،ہمیشہ مسکرا کر ملتے،غریبوں کے ہمدرد تھے۔

خاکسار نے جب بھی جماعتی کام کے لیے کہا کبھی نہ نہیں کی اور فوراً ساتھ ہو لیتے۔سمجھانے کا بھی خوب ملکہ تھا،نہایت پیار، محبت سے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعہ بات سمجھاتے۔تقریر کرنے کا بھی فن آتا تھا۔بعض اوقات میرے مترجم بھی بن جاتے اور بہت اچھے سے بات کو لوکل زبان میں ترجمہ کر کے سمجھا تے۔

بینن کے ایک سابق مبلغ بیان کرتے ہیں کہ کوتونو میں ریجنل مبلغ کی حیثیت سے قیام کے دوران بارہا اسحاق داؤدا صاحب سے ملاقات رہتی اوروہ مشن ہاؤس آتے جاتے رہتے۔بار ہا مشاہدہ کیا کہ کوئی نہ کوئی طالبعلم جو مالی لحاظ سے کمزور ہوتا وہ بھی ساتھ ہوتا اور آپ ایسےطلبہ کی امداد بھی کرتے رہتے۔ایک بار ایک نابینا طالبعلم بھی ساتھ تھا استفسار پر بتایا کہ اس کو اسپیشل ایجوکیشن میں تعلیم دلوا رہا ہوں اور امتحانات کی تیاری کروا رہا ہوں ۔بوقت ضرورت اگر ادھار لےکر بھی مدد کرنا پڑتی تو کرتے اور پوری ذمہ داری سے بروقت قرضہ واپس بھی کر تے۔

ان کے والد محترم عیسیٰ داؤدا صاحب بھی جماعتی نظام میں خوب اچھی طرح منسلک تھے ،وہ ہر جگہ جماعتی طور پر اپنے مضبوط کردار کی وجہ سے پہچانے جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ان کے سکول میں تقسیمِ انعامات کی ایک تقریب تھی۔میری بیٹی گوہر تسنیم نے بھی جو کہ ان کے سکول کی طالبہ تھی انعام لینا تھا۔ ایک بڑے سینما ہال میں تقریب کا اہتمام تھا۔ میں نے حالات کے مطابق بیٹی کو سمجھایا کہ جب تم انعام لینے لگو تو اگر کوئی صاحب انعام دینے پر مامور ہوں تو تم ہاتھ ملانے کی بجائے سلام کہہ کے سر کو پیار لینے کے لیے جھکا دینا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ یہ بات ہال میں موجود تمام افراد کو اس قدر پسند آئی کہ سب اپنی جگہ کھڑے ہو گئے اور تالیاں بجائیں۔تقریب کے بعد خاکسار نے مکرم عیسیٰ داؤدا صاحب کو کہا کہ بہتر ہے کہ اس قسم کی تقریبات میں بچیوں کو کوئی خاتون انعام تقسیم کرے اور لڑکوں کو کوئی مرد۔عیسیٰ صاحب کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور انہوں نے ہمیشہ پھر اس پر عمل بھی کروایا۔فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ اس خاندان کے ہر فرد پر رحم اورفضل فرمائے جنہوں نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو مان کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی بھرپور کوشش کی اور عملی کردار سے ثابت کیا کہ اسلام کا حقیقی چہرہ احمدیت ہے اللہ تعالیٰ ان کی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت کے ساتھ وابستہ رکھے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں مکرم اسحاق داؤدا صاحب مرحوم کے اوصاف حمیدہ کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا: تیسرا ذکر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق داؤدا صاحب کوتونو بینن کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں میں ساٹھ سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کا تعلق بینن کے داؤدا خاندان سے تھا جس خاندان کے لوگوں نے بینن میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی۔ بینن کے سب سے پہلے احمدی مکرم ذکر اللہ داؤد صاحب مرحوم ان کے تایا تھے۔ ان کے والد عیسیٰ داؤد مرحوم تاحیات بینن کے نیشنل نائب امیر رہے۔ ۱۹۸۰ء میں جب آپ طالب علم تھے تو آپ نے ذکراللہ داؤد صاحب مرحوم کی تبلیغ سے احمدیت قبول کرلی تھی۔ قبول احمدیت کے بعد اپنے تایا کے ساتھ اپنے والدین کو تبلیغ کرتے رہے اور کچھ دیرکے بعد ان کی تبلیغ سے والدہ اور والد بھی احمدی ہو گئے۔ ۲۰۲۲ء میں سینیگال کی یونیورسٹی سے زوآلوجی(Zoology) میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد واپس آ کر بینن میں پاراکو یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے۔ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر بہت ساری ملکی اور غیر ملکی کانفرنسز میں شریک ہوتے تھے۔ لمبا عرصہ بطور صدر خدام الاحمدیہ بینن خدمت کی توفیق ملی۔ زمانہ طالب علمی میں ہی انہوں نے وصیت کر لی تھی اور یوں بینن کے احمدیوں میں سے شروع کے بلکہ لکھا ہے کہ سب سے پہلا موصی ہونے کا اعزاز انہیں حاصل ہوا۔

ان کی اہلیہ ریحانہ داؤدا صاحبہ جو اس وقت لجنہ کی نیشنل سیکرٹری تربیت ہیں کہتی ہیں کہ میں نے شادی کے بعد اپنے خاوند کی تبلیغ سے احمدیت قبول کی۔ انہوں نے مجھے یسرنا القرآن اور پھر قرآن مجید پڑھایا۔ بہت ہی شریف، دیانتدار، انسانیت کا درد رکھنے والے غریب پرور انسان تھے۔ جماعتی کاموں کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ باقاعدہ تہجد پڑھنے والے تھے۔ مجھے تلقین کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے گھر میں قرآن کریم پڑھا کرو تا کہ ہمارے گھر میں خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں۔

کہتی ہیں کہ جب آپ یونیورسٹی میں نائب ڈین کے عہدے پر فائز ہوئے تو ایک دن ایک عورت روتی ہوئی آئی۔ اس نے کہا کہ میری لڑکی فیل ہو رہی ہے اسے پاس کر دیں۔ اگر وہ پاس نہ ہوئی تو میرا خاوند اس کی فیس بھی نہیں دے گا اور مارے گا بھی۔ اور بہت ساری رقم لے کے آئی کہ یہ رقم آپ رکھ لیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر رقمیں دے کے پاس ہونا ہو تو پھر غریب تو کبھی پاس نہیں ہو گا۔ تم یوں کرو یہ جو پیسے تم مجھے رشوت دینے لائی ہو، میں تو احمدی ہوں میں تو ایسے کام نہیں کر سکتا تم یہ اپنے پاس رکھو اور اسی سے فیس دے دینا اور اگر کمی ہو گی تو میں تمہیں مزید فیس کے لیے دے دوں گا۔ لیکن یہ جو سفارش ہے کہ رشوت لے کے پاس کر دوں یہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن بہرحال وہ رقم کا تھیلا وہا ں چھوڑ گئی۔ ان کی بیوی نے دکھایا کہ یہ تھیلا پڑا ہے تو وہ اٹھا کے اکاؤنٹنٹ کے پاس لے گئے۔ اس عورت سے انہوں نے پوچھا کہ میرا گھر تمہیں کس نے بتایا؟ تم تو مجھے جانتی نہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے یونیورسٹی کے اکاؤنٹنٹ نے بتایا ہے۔ بہرحال یہ اکاؤنٹنٹ کے پاس گئے، رقم اس کو دی اور اسے کہا کہ اس کو واپس کرو۔ یونیورسٹی کی میٹنگ بلائی اور وہاں یہ سارا معاملہ پیش کیا اور بتایا تو اس پر وہاں جو سارے پروفیسر اکٹھے ہوئے جو ایگزیکٹو تھے، انہوں نے کہا کہ وہ تو تین لاکھ فرانک لے کےآئی تھی اور یہ ڈیڑھ لاکھ ہیں۔ اس میں سے وہ بھی کسی اکاؤنٹنٹ نے ہی خرد برد کر لیے تھے تو بہرحال ان کے مخالفین یہ چاہتے تھے کہ رشوت کا الزام لگوایا جائے اور ان کو نائب ڈین کے عہدے سے فارغ کروایا جائے، لیکن اس میں کامیاب نہ ہوئے اور یونیورسٹی والے اور دوسرے بھی ان کے ساتھیوں نے بعد میں برملا اظہار بھی کیا کہ بہت ہی ایماندار شخصیت تھے۔ ہمیشہ اپنے محلے کی غریب بیواؤں کا خیال رکھتے تھے۔ کسی کے گھر کی مرمت کروا دی۔ بچوں کی دلداری کرتے۔ ہر ممبر سے پیار کرتے۔ وفات پر تعزیت کے لیے پاراکو یونیورسٹی کے شعبہ ایگریکلچر کے بہت سے پروفیسر ’’کوتونو‘‘آئے۔ شعبہ کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم نے کہا کہ نہایت ہی عاجز اور دیانتدار انسان تھے۔ یونیورسٹی میں پاپابونر (Papa Bonheur) کے نام سے مشہور تھے، یہ فرنچ لفظ ہے جس کا مطلب ہے ہر ایک کو برکت دینے والا۔ ہر ضرورت مند کی مدد کرتے۔ جو بھی جیب میں ہوتا اسے دے دیتے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ پر بہت ہی زیادہ توکّل تھا۔اسحاق داؤدا صاحب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت سے بےپناہ محبت تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا یہ حال تھا کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال ہے تووہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے اس سے زیادہ عمر نہ دینا۔

دل کے مریض ہو گئے تھے۔ ایک مبلغ نے بتایا کہ جب ہارٹ سرجری کے لیے فرانس گئے، تو انہوں نے الیس اللہ کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر اتارنے لگے تو انہوں نے کہا یہ انگوٹھی تو نہیں اتارنی۔ یہ موت تک میرے ساتھ رہے گی کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جن کو میں ہمیشہ یاد رکھتا ہوں۔

یہاں آج کل قائمقام امیر ہیں اور مبلغ انچارج ہیں میاں قمر۔ وہ کہتے ہیں کہ پاراکو کا جب میں ریجنل مبلغ تھا تو جو بھی تنخواہ ملتی تویہ پہلے ہی شروع میں اپنی وصیت اور دیگر چندہ جات ایک لفافے میں ڈال کر مسجد میں لے آتے کہ میری رسید کاٹ دیں۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے اور ہر مصیبت اور پریشانی میں یہی کہتے کہ میں دعا کر رہاہوں اور خلیفہ وقت کو بھی دعا کے لیے لکھ دیا ہے، اللہ تعالیٰ آسانی پیدا فرمائے گا۔

پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ بڑی بیٹی عزیزہ مقسطہ داؤدا ایگریکلچر میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ دونوں بیٹے رقیب داؤدا اور مسرور داؤدا کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی ان کے باپ کے نقش قدم پر چلائے اور مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ نماز کے بعد ان شاء اللہ نماز جنازہ ہوگی۔آمین(خطبہ جمعہ ۱۱؍اگست ۲۰۲۳ء مطبوعہ روز نامہ الفضل انٹرنیشنل یکم ستمبر۲۰۲۳ء)

میری بھی دعا ہے کہ جب وقت رحلت آئے تو انجام بخیر فرمائے اور میرے حق میں میرے پیارے آقا دعائے خیر فرمائیں ،زہے نصیب۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button