خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگ اُحد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قربانیاں اور عشقِ رسو لﷺ کا ایمان افروز تذکرہ: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍ فروری۲۰۲۴ء

٭… ابو سفیان کے نعرہ شرک پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ توحید نے جوش مارا اور صحابہ ؓکو کہا کہ جواب دو اللہ عزو جل اللہ عزو جل

٭… سچائي کا کيسا عملي ثبوت تھا کہ تلواروں کے سائے ميں بھي اُنہوں نے يہي کہا کہ اللہ ہميں بچا سکتا ہے

٭… حضرت سعدؓ نے کہا کہ میری قوم کو کہنا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عذر نہیں ہوگا اگرآپؐ شہید ہو جائیں اور تم لوگوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا

٭… اللہ تعالیٰ ہمارے اندر بھی عشقِ رسولؐ کی روح پیدا فرمائے تاکہ ہم صحیح اسلامی رنگ اپنے اخلاق، اپنی عبادتوں اور اپنی عادات میں پیدا کریں

٭…یمن کے پہلے شہید احمدی ڈاکٹر منصور شبوطی صاحب،صلاح الدین محمد صالح عبدالقادر صاحب آف کبابیر اور ریحانہ فرحت صاحبہ آف ربوہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍فروری۲۰۲۴ء بمطابق ۹؍ تبلیغ ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۹؍فروری ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جنگ اُحد کےحوالے سے ابو سفیان کے نعروں کا ذکر ہو رہا تھا جس میں وہ اپنے بتوں کی بڑائی بیان کر رہا تھا اور اس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدا تعالیٰ کے لیے غیرت کا اظہار تھا۔ حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ احادیث میں آتا ہے کہ غزوۂ اُحد میں ابو سفیان نے بڑے زور سے کہا کہ لَنَا الْعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ۔یعنی ہماری تائید میں ہمارا عزّیٰ بُت ہے مگر تمہاری تائید میں کوئی بُت نہیں تو اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ

تم کہو کہ لَنَامَوْلَا وَلَا مَوْلیٰ لَکُمْ۔ہمارامولا اور ہمارا مددگار ہمارا حیّ وقیوم خدا ہے مگر تمہارا کوئی والی اور مددگار نہیں۔

آپؓ فرماتے ہیں کہ

سچائی کا کیسا عملی ثبوت تھا کہ تلواروں کے سائے میں بھی اُنہوں نے یہی کہا کہ اللہ ہمیں بچا سکتا ہے۔

پھر آپؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جب مسلمانوں کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو جلدی جلدی واپس لوٹے اور اُنہوں نے آپؐ کے اوپر سے لاشوں کو اُٹھایا تو معلوم ہوا کہ آپؐ ابھی زندہ ہیں۔اُس وقت سب سے پہلےایک صحابی نے اپنے دانتوں سے آپؐ کے خود کا ایک کِیل نکالاجس سے اُن کے دو دانت ٹوٹ گئے تھے۔ آپؐ چند صحابہ کا ایک گروہ لے کر پہاڑی کے دامن میں چلے گئے۔

اس موقع پر ابوسفیان نے بلند آواز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا پھر حضرت ابوبکرؓ  کا اور پھر حضرت عمرؓ  کا نام لے کر کہا کہ ہم نے ان کو مار دیا ہے۔صحابہؓ  آپؐ کے ارشاد پر خاموش رہےلیکن جب آپؐ کے کانوں میں ابو سفیان کی یہ آواز پڑی کہ اُعْلُ ھُبَلْ، اُعْلُ ھُبَلْ یعنی ھُبل کی شان بلند ہو ھُبلکی شان بلند ہو تو پھر آپؐ کے جذبہ توحید نے جوش مارا کیونکہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال نہیں تھا۔ابو بکرؓ اور عمر ؓکا سوال نہیں تھا۔ اب اللہ تعالیٰ کی عزت کا سوال تھا۔ آپؐ نے بڑے جوش میں فرمایا:

تم کیوں جواب نہیں دیتے؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم کیا جواب دیں؟ آپؐ نے فرمایا کہوکہ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ھُبلکیا چیز ہے خدا تعالیٰ کی شان بلندہے خدا تعالیٰ کی شان بلند ہے۔یہ کتنا شاندار مظاہرہ آپؐ کے جذبہ توحید کا ہے۔

ایک جگہ حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ

مکہ کےجن ا کابر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنا چاہا کیا آج دنیا میں اُن لوگوں کا کوئی نام لیوا ہے؟

اُحد کے مقام پر ابو سفیان نے جو آواز دی تھی آج جاؤ اور دنیا کے کناروں پر اس آواز دینے والے کے ہمنوا کفار کے سردار ابو جہل کو بلاؤ اور آواز دو کہ کیا تم میں ابوجہل ہے! تو تم دیکھو گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر تو کروڑوں آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی اور ساری دنیا بول اُٹھے گی کہ ہاں !محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود ہیں کیونکہ آپؐ کی نمائندگی کا شرف ہمیں حاصل ہے لیکن ابو جہل کو بلانے پر تمہیں کسی گوشے سے بھی آواز اُٹھتی سُنائی نہیں دے گی۔ابو جہل کی اولاد آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر کسی کو جرأت نہیں کہ کہہ سکے کہ میں ابو جہل کی اولاد میں سے ہوں۔

حضرت حنظلہؓ  کی شہادت کا واقعہ بیان ہوتا ہے۔ان کی بیوی بتاتی ہیں کہ میرے شوہر کو جب پتاچلا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لیے روانہ ہوگئے ہیں تو میرے شوہر پر غسل ِجنابت فرض تھا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کی خبر سُن کر اتنی جلدی اور بے تابی سے گھر سے نکلے ہیں کہ غسل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور تلوار لے کر میدان جنگ کی طرف چل پڑے۔انہیں شداد بن اسود نے شہید کردیا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت پر فرمایا کہ

میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ آسمان اور زمین کے درمیان چاندی کے برتنوں میں صاف شفاف پانی لیے حنظلہؓ  کو غسل دے رہے ہیں۔

ان کی بیوی نے کہا کہ وہ حالتِ جنابت میں میدان جنگ میں چلے گئے تھےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی لیے فرشتے اُن کو غسل دے رہے تھے۔

حضرت سعد بن ربیع ؓکی شہادت کا بھی واقعہ ہے۔غزوۂ اُحد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے پاس سعد بن ربیعؓ  کی خبر کون لائے گا؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ مَیں۔چنانچہ اُس نے حضرت سعد ؓکو تلاش کیا اور کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہاری خبر کے لیے بھیجا ہے تو حضرت سعدؓ نے کہا کہ

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور خبر دینا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم آئے ہیں۔جس نے بھی میرے ساتھ لڑائی کی تو اُس کو میں نے مار دیا۔اورمیری قوم کو یہ کہنا کہ اُن کےلیے اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عذر نہیں ہوگا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو جائیں اور تم لوگوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا۔

بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص ان کے پاس گیا تھا وہ ابی بن کعبؓ تھے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت سعدؓ  کی شہادت کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی میدان میں اُتر آئے ہوئے تھے اورشہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع تھی۔ جو نظارہ اس وقت مسلمانوں کے سامنے تھا وہ خون کے آنسو رُلانے والا تھا۔ستّر مسلمان خاک اور خون میں لُتھڑے ہوئے میدان میں پڑے تھے اور عرب کی وحشیانہ رسم مثلہ کا مہیب نظارہ پیش کر رہے تھے۔ ان مقتولین میں صرف چھ مہاجر تھے اور باقی سب انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ قریش کے مقتولوں کی تعدادتئیس تھی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بن عبدالمطلبؓ  کی نعش کے پاس پہنچے تو بے خود سے ہو کر رہ گئے کیونکہ ظالم ہند زوجہ ابو سفیان نے اُن کی نعش کو بُری طرح بگاڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو آپؐ خاموشی سے کھڑے رہے اور آپؐ کے چہرہ سے غم و غصہ کے آثار نمایاں تھے۔ ایک لمحہ کے لیے آپؐ کی طبیعت اس طرف بھی مائل ہوئی کہ مکہ کے ان وحشی درندوں کے ساتھ جب تک اُنہی جیسا سلوک نہ کیا جائے گا وہ غالباً ہوش میں نہیں آئیں گے مگر آپؐ اس خیال سے رُک گئے اور صبر کیا بلکہ اس کے بعد آپؐ نے مثلہ کی رسم کو اسلام میں ہمیشہ کےلیے ممنوع قرار دے دیا اور فرمایا

دشمن خواہ کچھ کرے تم اس قسم کے وحشیانہ طریق سے بہرحال باز رہو اور نیکی اور احسان کا طریق اختیار کرو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جحشؓ  کی لاش کو بھی بُری طرح بگاڑا گیا تھا۔ جُوں جُوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک لاش سے ہٹ کر دوسری لاش کی طرف جاتے تھے آپؐ کے چہرہ پر غم و اَلَم کے آثار زیادہ ہوتے جاتے تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے ان شہداء اور ان کی قربانیوں اور ان کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور حضرت سعدؓ  کا اپنی قوم کے نام پیغام کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ دیکھو ایسے وقت میں جب انسان سمجھتا ہے کہ میں مر رہا ہوں کیا کیا خیالات اُس کے دل میں آتے ہیں۔وہ سوچتا ہے میری بیوی کا کیا حال ہوگا۔ میرے بچوں کو کون پوچھے گا۔ مگر اس صحابی نے کوئی ایسا پیغام نہیں دیا۔صرف یہی کہا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتے ہیں۔ تم بھی اسی راستے سے ہمارے پیچھے آ جاؤ۔ ان لوگوں کے اندر یہی ایمان کی قوت تھی جس سے اُنہوں نے دنیا کو تہ وبالاکر دیا اور قیصر و کِسریٰ کی سلطنتوں کے تختے اُلٹ دیے۔آپؓ فرماتے ہیں کہ مرنے والے کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ چند منٹ بھی اور مل جائیں تو بیوی بچوں اور بہن بھائیوں سے کوئی بات ہوجائے۔اُن کے لیے کوئی وصیت کر جاؤں لیکن وہ صحابی پتھریلی زمین پر پڑے تھے مگر ایسی حالت میں بھی اُنہوں نے یہ پیغام دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس خدا تعالیٰ کی قیمتی امانت ہیں۔

میں نے جان قربان کر کے بھی اس امانت کی حفاظت کی اور اب اپنے عزیز بھائیوں اور بچوں کو میری آخری وصیت ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے ساتھ اس امانت کی حفاظت کریں اور یہ کہہ کر دم توڑ دیا۔

حضور انور نے فرمایا کہ ایسے ایسے عشقِ رسولؐ کے اظہار ہیں کہ انسان حیران ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر بھی عشقِ رسول ؐکی اس رُوح کو پیدا فرمائے اور جب یہ سوچ پیدا ہوگی تو ہم اللہ تعالیٰ سےتعلق میں بھی بڑھیں گے اور اپنی کمزوریوں کو دُور کرنے کی بھی حقیقت میں کوشش کریں گے تاکہ ہم صحیح اسلامی رنگ اپنی عبادتوں،اپنے اخلاق اور اپنی عادات میں پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

خطبہ کے دوسرےحصے میں حضور انور نے بعض مرحومین کا ذکر خیر فرمایا۔

سب سے پہلے ڈاکٹر منصور شبوطی صاحب آف یمن کی وفات کو شہادت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کو احمدیت کی وجہ سے اسیر کیا گیا تھا اور اسیری میں ہی ان کی وفات ہوئی اس لیے یہ شہید ہی کہلائیں گے۔اور اس لحاظ سے یہ یمن کے پہلے احمدی شہید ہیں۔ان کے دادا عبداللہ محمد عثمان شبوطی یمن کے پہلے یمنی احمدی تھے اور ان کے والد محمود عبداللہ شبوطی یمن کے پہلے شاہد مربی تھے۔ مرحوم یمن کے مشہور ڈاکٹر تھے۔ تمام اخبارات نے ان کی وفات کی خبر شائع کی ہے۔

اس کے بعد مکرم صلاح الدین محمد صالح عبدالقادرعودہ صاحب والد محمد شریف عودہ صاحب امیر جماعت احمدیہ کبابیر کے ذکر خیرمیںفرمایا کہ ان کے دادا فلسطین کے اوّلین احمدیوں میں تھے۔ مرحوم خلافت کے عاشق اور نظام جماعت کا بہت احترام کرتے تھے۔

تیسرا ذکر خیر ریحانہ فرحت صاحبہ اہلیہ کرامت اللہ خادم صاحب ربوہ کا تھا۔ مرحومہ کے ایک بیٹے احسان اللہ صاحب مربی سلسلہ ہیں اورآج کل سپین میں خدمت کی توفیق پار ہے ہیں۔ والدہ کے جنازے اورتدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔مرحومہ چندہ جات اور جماعتی خدمت میں باقاعدہ تھیں۔جب تک صحت رہی جماعتی پروگراموں میں باقاعدگی سے حصہ لیتی رہیں۔ حضور انور نے بعد نماز جمعہ ان مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button