اداریہ

اداریہ: ظلم رہے اور امن بھی ہو …کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

(اسرائیل ، غزہ تنازع، یوکرین جنگ اور پاکستان کے عام انتخابات پر ایک اچٹتی نگاہ)

اسرائیل، غزہ تنازع کی تازہ صورتحال

ایک جانب غزہ میں جنگ بندی کی باتیں ہو رہی ہیں، حماس کی طرف سے مقتدر قوتوں کو ساڑھے چار ماہ تک جنگ بندی اور اس دوران اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، غزہ کی تعمیرِ نو کے آغاز و دیگر شرائط، یا کہنا چاہیے کہ تجاویز پہنچا دی گئی ہیں جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے وزیرِ اعظم ان کو ردّ کرتے ہوئے غزہ آپریشن میں اسرائیل کی ’مکمل فتح‘ پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیلی فوجیوں کے حملوں اور وہاں سے بھی حماس کی بیخ کنی کیے جانے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ کی حکمرانی ان کو دی جانی چاہیے جو دہشت گردی کی تعلیم نہ دیں۔ ان کے اس بیان پر تبصرہ کرنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ بظاہر حماس اور اسرائیل دونوں الگ الگ راگ الاپتے دکھائی دیتے ہیں لیکن دیکھیے آنے والا وقت کیا خبر لاتا ہے۔ ہمیں بس اتنا معلوم ہے کہ اس تنازع میں اب تک انتیس ہزار کے قریب ’انسان‘ کام آ چکے جبکہ سات ہزار کے قریب لاپتا ہیں۔

ایک افسوسناک خبر اسرائیل کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے ادارے UNRWA پر لگائے جانے والے اس الزام پر کہ اس کے بارہ کارکنان ۷؍ اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں میں شامل تھےفلسطین میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے والی اس تنظیم کی فنڈنگ کو روکنے کی بھی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ بعض ماہرین کے مطابق اسرائیل کی جانب سے اس الزام کے ثبوت مہیا کرنا ابھی باقی ہیں لیکن امریکہ سمیت بعض بڑی حکومتیں UNRWA کی فنڈنگ روکتی دکھائی دیتی ہیں۔ تنظیم کے مطابق اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو فروری کے بعد اس کے لیے غزہ سمیت تمام خطے میں امدادی کارروائیاں جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔

اللہ کرے کہ مقتدر قوتیں جنگ بندی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں، نئے محاذ نہ کھولے جائیں اور اس دن کا سورج جلد طلوع ہو جس دن بلا تفریق رنگ، نسل ، مذہب و علاقائی نسبت انسانیت اور انصاف کا بول بالا ہو۔

یوکرین ، روس جنگ

روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ میں امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر Jake Sullivanنے یہ بیان دیا ہے کہ امریکہ یوکرین کو فوجی امداد دیتا رہے گا جبکہ نیٹو کے چیف Jen Stoltenberg نے اس کی تائید کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ یہ امداد بہت ضروری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے کہا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت رشین حملوں میں ایک مرتبہ پھر عام شہریوں کی ہلاکت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گذشتہ مہینے روس کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں ۱۵۸؍ شہری ہلاک اور ۴۸۳ زخمی ہوئے۔ جبکہ اب تک اس جنگ میں دس ہزار سے زائد شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

جی بالکل، اس تعداد کو پڑھتے ہوئے آپ کی توجہ بھی غزہ کی طرف ضرور گئی ہو گی جو رقبے کے لحاظ سے یوکرین سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتا لیکن وہاں چند ماہ میں ہلاک ہونے والے معصوم شہریوں کی تعداد اس سے تین گنا زیادہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے امریکی سینیٹر برنی سانڈرز نے امریکی حکومت پر یوکرین اور غزہ کے حوالے سے دوغلی پالیسی اختیار کرنے کا الزام لگایا ہے۔ برنی سانڈرز نے اسرائیل کے لیے چودہ بلین ڈالر کی فوجی امداد کے بِل کی مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے کہا کہ کیسے ممکن ہے کہ ہم روسی صدر پوٹن کو تو یوکرین میں جنگی جرائم کا ملزم ٹھہرائیں اور ستائیس ہزار فلسطینیوں کے قتلِ عام کو نظرانداز کر دیں!

ایک اور اہم خبر پوٹن اور ان کے چینی ہم منصب شی پنگ کا مشترکہ بیان ہے جس میں انہوں نے امریکہ کی دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی مذمّت کی ہے۔ یاد رہے کہ دونوں سربراہان نے جمعرات ۸؍ فروری کو لگ بھگ ایک گھنٹہ ٹیلی فون پر اہم امور کی بابت تبادلہ خیال کیا۔

پاکستان کے عام انتخابات

اللہ اللہ کر کے ۸؍ فروری کو پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نمائندگان لیے عام انتخابات کا انعقاد ہو ہی گیا۔ پچھلے چند ماہ سے سنتے آئے تھے بلکہ آج بھی بعض خبررساں اداروں پر موجود تجزیہ کار یہ کہتے ہوئےپائے گئے ہیں کہ چند روز قبل تک بھی یقینی طور پر اس الیکشن کے انعقاد کی صورت حال واضح دکھائی نہیں دیتی تھی۔

۸؍ فروری یعنی عام انتخابات کا دن بھی کافی دلچسپ گزرا۔ پہلے ملک بھر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بند رکھی گئیں۔ کہیں بروقت اور کہیں دیر سے پولنگ شروع ہوئی اور پولنگ ختم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP)کا الیکشن مینجمنٹ سسٹم (EMS) ڈاؤن ہو گیا اور ۹؍ فروری کی دوپہر ایک بجے تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ڈیڈ لائن گزر جانے کے باوجود زیادہ تر حلقوں کا حتمی اور مصدقہ نتائج کا اعلان نہ کیا جانا حیرت انگیز بھی ہے، پُر اسرار بھی اور فکر انگیز بھی۔ بہر کیف حتمی نتائج کیا آتے ہیں اس تحریر کے شائع ہونے تک بہت حد تک واضح ہو چکا ہو گا۔ چاہے کسی ایک پارٹی کو اتنا مینڈیٹ مل جائے کہ وہ حکومت بنا لے یا ایک سے زائد پارٹی اور آزاد امیدواروں کا اتحاد دنیا کی پانچویں بڑی جمہوریت کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کرے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں برسرِ اقتدار آنے والے لیڈرز کو اپنے ملک کے نام اور اس کے مطلب کی لاج رکھتے ہوئے اسلام اور پھر بانیٔ پاکستان کے بیان فرمودہ اصولوں کے مطابق اس ملک کے نظم و نسق کو چلانے کی کوشش کرنی ہو گی۔ اگرچہ ماضی میں بعض سیاسی قوتوں نے پاکستان میں ریاستِ مدینہ کے قیام کا نعرہ تو لگایا اور ریاستِ مدینہ کی کامیابی کے پیچھے کارفرما اصولوں کو پاکستان میں لاگو کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں لیکن اس تمام عمل سے ریاستِ مدینہ کے اصولوں کی اہمیت و افادیت میں چنداں کمی واقع نہیں ہوتی۔ آج بھی پاکستان کو ’نازک موڑ‘ سے بخیر و عافیت گزار کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کا ایک ہی مؤثر طریقہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے اصولوں کو قائم کیا جائے جن کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کے قیام سے انسانیت کی بالادستی قائم ہو، بلا تفریق مذہب، فرقہ، رنگ، نسل، لسانی و صوبائی اختلافات ہر ایک کے لیے سستا اور معیاری انصاف مہیا ہو، تعلیم کو عام کیا جائے، ہر بچے، ہر فرد یعنی معاشرے کی بنیادی اکائی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق شعور و آگہی دی جائے تاکہ وہ خود اپنی سوچ رکھتے ہوئے اچھے اور برے کا فیصلہ کر سکےاور قوم کا مزدور بھی بنے اور معمار بھی۔ یاد رہے کہ جس عمارت کی بنیادی اکائی مضبوط ہو گی اس عمارت کو کسی آفت، کسی دشمن سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہو گا۔

ایک اور بڑی اہم بات یہ بھی مدنظر رہے کہ مذہب کو انسان اور اس کے خدا کے درمیان معاملہ ہی رہنے دیا جائے، کسی نام نہاد مذہبی ٹھیکیدار کو اجازت نہ ہو کہ وہ کسی کلمہ گو کے اسلام کا فیصلہ کرکے اسے مسلمان یا کافر قرار دے۔ ایسا کرنے والوں کو حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش نظر رکھنا چاہیے جب نبی اکرمﷺ نے ان سے نیزے کی نوک پر کلمہ پڑھنے والے ایک شخص کو قتل کر دینے پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔

نئی بننے والی حکومت کو اہلاً و سہلاً و مرحبا نیز عاجزانہ گذارش کہ اسے ہر لحاظ سے اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ معاشرے کے کسی طبقے پر ظلم نہ ہو کیونکہ مشہور قول ہے کہ المُلْکُ یَبْقٰی مَعَ الْکُفْرِ وَ لَایَبْقٰی مَعَ الظُّلْمِ کہ مملکت کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button