دادی جان کا آنگن

حضرت صالح علیہ السلام

دادی جان :گڑیا! بیٹا کیسا رہا آپ کا اجلاس ؟

گڑیا : بہت اچھا دادی جان اجلاس میں سیکرٹری صاحبہ ناصرات نے حضرت صالحؑ کی کہانی سنائی۔

محمود : دادی جان! ہمیں بھی سنائیں۔

دادی جان: اچھا تو بچو! آج سے قریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے کا ذکر ہے عرب کے علاقے میں مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان ایک شہر حجر نامی آباد تھا۔ یہ شہر ثمود کا مرکزی شہر تھا۔

احمد : قوم ثمود کا شہر تھا؟

دادی جان: حضرت صالحؑ کی قوم کا نام ‘‘قوم ثمود’’ تھا۔ بے حد خوشحال اور ترقی یافتہ تھی۔ ثمود کے لوگ زیادہ تر کاشت کاری کرتے تھے۔اس علاقے میں کھجوریں کثرت کے ساتھ پیدا ہوتی تھیں اور یہاں کی کھجور عمدہ اور بہترین ہوتی تھی۔ یہ لوگ پتھر کا ٹ کر پہاڑوں میں رہنے کے لیے مضبوط اور محفوظ مکانات بنایا کرتے تھےجس کی وجہ سے دیگر قوموں کو ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی مگر خوشحالی کی وجہ سے یہ لوگ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ کو بھول گئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے اپنے ایک نیک بندے جن کا نام صالحؑ تھا کو بھیجا۔

حضرت صالحؑ اپنی قوم کے ایک عمدہ اور نیک انسان تھے۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے اور جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی بنایا تو آپ لوگوں کو اچھی باتوں کی نصیحت کرنے لگے اور بری باتوں سے منع کرتے تھے۔ لیکن افسوس جیسا کہ اکثر انبیاء کی قومیں ان کے ساتھ سلوک کرتی ہیں ویسا ہی حضرت صالحؑ کی قوم نے بھی کیا۔

محمود: ان کی قوم نے بھی دکھ دیا ان کو؟

دادی جان: جی ہاں! انہوں نے کہا کہ اے صالحؑ! ہم تو تجھے بڑا اچھا انسان سمجھتےتھے لیکن ہم تیرے دعوے کو ہرگز تسلیم نہیں کر سکتے۔ کوئی دشمن تجھے استعمال کر رہا ہے۔ حضرت صالحؑ ان کی ان باتوں سے بالکل نہ گھبرائے سخت مخالفت کے باوجود پہلے سے بڑھ کر انہیں تبلیغ کرنے لگے۔ بعض سمجھ دار اور نیک فطرت لوگ آپ کے ساتھ ہو گئے۔ لیکن قو م کی اکثریت آپ کی مخالف ہی رہی وہ لوگ آپ کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ تم بھی ہماری طرح کے ایک انسان ہو پھر تم نبی یا رسول کیسے ہو سکتے ہو؟ اگر تم واقعی نبی ہو تو پھر ہمارے پاس کوئی نشان لاؤ۔

محمود:پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا نشان دیا ؟

دادی جان: جی بیٹا بتاتی ہوں۔حضرت صالحؑ ان کی ان باتوں پر دھیان دیے بغیر اپنے کام میں لگے رہے۔آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر مختلف علاقوں کی طرف نکل جاتے اور تبلیغ کا کام کرتے رہے یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔آپ کی قوم مختلف طریقوں سے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتی رہتی۔ آپؑ کی تبلیغ روکنے کے لیے انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ اونٹنی جس پر سوار ہو کر آپ تبلیغ کے لیے جاتے ہیں اگر ہم اسے تنگ کرنا شروع کریں تو مجبوراً صالح کو بھی رکنا پڑے گا۔ چنانچہ انہوں نے سازش کر کے حضرت صالحؑ کی اونٹنی کو اپنے اپنے گھاٹوں سے پانی پینے سےروک دیا۔

احمد :گھاٹ کیا ہوتا ہے ؟

دادی جان :وہ دریا یا تالاب جہاں پانی جمع ہواور اپنے پینےاور جانوروں کو پلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اسے گھاٹ کہتے ہیں۔

دادی جان: حضرت صالحؑ نے قوم کے لوگوں کو سمجھایا کہ میری اونٹنی میرے کام میں میری مدد کر رہی ہے۔ اس لیے اسے تنگ نہ کرو۔ یہ بظاہر میری اونٹنی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے لیے کام میں آنے کی وجہ سے اب یہ خدا تعالیٰ کی اونٹنی بن چکی ہے۔ اسے ستانا چھوڑ دو اور اسے بھی اپنے گھاٹ سے پانی پینے دیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ ناراض ہو جائے اور تمہیں اس کا عذاب گھیر لے۔

بہر حال جب مخالفین دلائل کے ذریعہ سے حضرت صالحؑ کا مقابلہ نہ کر سکے تو ان میں سے نو سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ہم مل کر کسی روز صالحؑ پر حملہ کر دیں۔ اور انہیں قتل کر ڈالیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی حفاظت کی اور ان مخالف سرداروں کو یہ موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ حضرت صالحؑ کو نقصان پہنچا سکیں۔

احمد: پھر کیا کیا ان کی قوم نے؟

دادی جان: حضرت صالحؑ نے اپنی اونٹنی کو خدا کی اونٹنی قرار دیتے ہوئے یہ چیلنج دیا تھا کہ جو اس اونٹنی کو نقصان پہنچائے گا خدا کا عذاب اسے پکڑ لے گا۔ اس لیے قوم کے مخالف لوگوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم صالحؑ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے اس کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹیں گے جس سے دو فائدے ہوں گے۔ اول:صالحؑ کی بات غلط نکلے گی کہ یہ اونٹنی خدا کی اونٹنی ہے اور ایک نشان ہے۔ دوسرے صالحؑ چونکہ اس اونٹنی پر سفر کر کے تبلیغ کرتے ہیں اس لیے اونٹنی چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے گی اور تبلیغ رک جائے گی۔ سب نے اس تجویز کو پسند کیا۔

اگلے دن ہر طرف یہ شور پڑ گیا کہ صالحؑ کی اونٹنی جسے وہ خدا کی اونٹنی کہتے تھے ایک سردار نے اس کی کونچیں کاٹ دیں۔قوم کے سمجھ دار لوگ جو کسی حد تک حضرت صالحؑ کی باتوں کو سمجھتے تھے اس بات کو سن کر سخت پریشان ہوئے۔ لیکن اب وقت گزر چکاتھا۔ خداتعالیٰ کے عذاب نے قوم ثمود کو پکڑ لیا۔ شدید زلزلوں نے زمین کو تہ و بالا کر دیا۔ ہر طرف اس قدر تباہی پھیلی کہ قوم ثمود کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ صرف حضرت صالحؑ اور ان کے ماننے والے اس شدید عذاب سے بچائے گئے۔ آج اس جگہ جہاں یہ قوم آباد تھی اس قوم کی تباہی کے آثار ملتے ہیں۔

گڑیا :اتنی سخت سزا کیوں ملی؟

دادی جان: آپ کے امی ابو جب بھی ہلکی پھلکی سزا دیتے ہیں اس سے پہلے آپ کو سمجھاتے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالحؑ کے ذریعہ ان کو بہت سمجھایا تھا کہ باز آجاؤ۔ لیکن پھر جب وقت گزر گیا تو ان کو سزا ملی۔ اس لیے ہمیں ہر وقت استغفار کرنا چاہیے۔

کہانی ختم ہوئی اب مجھے نیند آ رہی ہے۔ محمود نے یہ کہہ کر سر پر چادر لے لی اور سب مسکرا دیے۔

(ماخوذ از حق کے پیامبر انبیاء کی کہانیاں صفحہ ۵۶تا ۶۰)

(درثمین احمد۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button