آج کا سبق

ویلنٹائن ڈے

سر عثمان: پیارے بچو! السلام علیکم !

تو بچو!جیسا میں نے بتایا تھا کہ ویلنٹائن ڈے آنے والا ہے۔ اس دن عجیب و غریب قسم کے طریق رواج پا گئے ہیں۔ کس کے ذمہ لگا تھا کہ اس بارہ میں ایک مضمون لکھ کر لائے؟

کلاس سیکرٹری بلال: سر! آپ نے یہ ذمہ داری امتثال کے ذمہ لگائی تھی۔

سرعثمان: چلیں امتثال روسٹرم پر آ جائیں۔

امتثال:السلام علیکم۔ آج کا موضوع ہے ویلنٹائن ڈے۔ یہ لفظ دراصل فرانسیسی لفظ ویلنٹیئن سے بنا ہے جس کے معنی قرعہ اندازی کے ذریعہ سے منتخب کیے جانے والا اچھا اور اسپیشل دوست کے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کے متعلق مختلف قسم کی روایات ہیں، لیکن سب سے مشہور یہ ہے کہ رومن بادشاہ کلاؤڈیس چاہتا تھا کہ اس کے پاس ایک بڑی فوج ہو، لیکن زیادہ تر لوگ اپنا گھر بار نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، اس لیے بادشاہ نے سپاہیوں کی شادی پر پابندی لگا دی، لیکن سینٹ ویلنٹائن، مقامی چرچ کے ایک پادری نے خفیہ طور پر شادی کرائی، جب بادشاہ کو معلوم ہواکہ اس نے حکم کی خلاف ورزی کی ہے تو حکم دیا کہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے، چنانچہ سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی لڑکی سے محبت ہوگئی۔تو اسی وجہ سے اسے 14؍فروری کو سزائے موت دی گئی، تب ہی سے 14؍فروری روم میں ’’محبت کرنے والوں کے تہوار ‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح تہوار کے طور پر منایا جا رہا ہے یا ویلنٹائن کارڈ بھیجنے کی جو نئی روایت بھی پڑی ہے، اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق تو رومیوں کے دیوتا لوپر کالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوار سے ہے۔اسی طرح پوپ گیلا سیس نے498 عیسوی کے قریب ہر سال 14 فروری کو سینٹ ویلنٹائن منانے کا اعلان کیااورکارڈ یا خط لکھنے کا آغاز1797ءمیں ہوا۔ پھر زمانے کے ساتھ ساتھ اس کی رسومات میں پھول دینا، پارٹیز کرنا اور دیگر فرسودہ روایات کا اضافہ ہوتا چلا گیا۔

سر عثمان: پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ یہ کوئی اسلامی تہوار تو ہے نہیں اور دوسرا بعد میں دیگر نظریات کی بنا پر عیسائیت نے اس کو اپنا لیا ۔تاریخی اعتبارسے بھی یہ صرف مختلف ملے جلے قصے اور کہانیاں ہیں جوکہ بعد میں بدعت اور بد رسم بن کر معاشرہ میں پھیل گئی ہے۔ امتثال اسلامی تعلیمات کیا کہتی ہیں؟

امتثال:خود خوش رہنا دوسروں کو خوش رکھنا، ایک دوسرے سے ہمدردی و محبت و عقیدت رکھنا یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں اور عبادت کا حصہ بھی ہے۔اور ہمیں زیادہ توجہ دینی تعلیم پر دینی چاہیےاور دینی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ یہ ایک فضول اور بد رسم ہے۔

سر عثمان :بالکل یہ ایک لغو اور بیہودہ رسم ہے جو کہ انسان کو اخلاقیات سے دور اور گمراہ کر دیتی ہے لہذا ہمیں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بچانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔اسلام تو ہمیں ہر روز ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر ہر رشتے کا احترام،محبت اور پیار کرنے کا سبق دیتا ہےاور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے امام حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی ہمیں سمجھاتے رہتے ہیں کہ جس سے بے پناہ محبت کرنی چاہیے وہ صرف اللہ تعالیٰ اور آنحضورﷺکی ذات ہے۔

اسد: سر آج کل ویلنٹائن ڈے کے مقابلہ میں اینٹی ویلنٹائن ویک منایا جاتاہے۔

سر عثمان: امتثال اس بارہ میں آپ کچھ بتائیں۔

امتثال: ویلنٹائن ڈے کے بعد 15؍فروری سے شروع ہونے والے اینٹی ویلنٹائن ویک میں تھپڑ کے دن سے لے کر تعلق ختم ہونے تک تمام دن شامل ہیں، جس کا اختتام 21؍فروری کو ہوتا ہے۔مثلاً 15؍فروری:Slap Day۔ 16؍فروری:Kick Day وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی اس کے مخالفین نے ایک اور انتہا بنا لی ہے۔

سر عثمان: امتثال بتائیں کہ جماعت احمدیہ ان رسوم و رواج کے متعلق کیا کہتی ہے؟

امتثال: حضرت مسیح موعودؑ نے تو چھٹی شرط بیعت میں رسوم و رواج کی اتباع سے منع فرمایا ہے۔ فرمایا کہ اتباعِ رسم اور متابعتِ ہواوہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قَالَ اللّٰہ اور قَالَ الرَّسُوْل کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔یعنی ہمارا اوڑھنا اور بچھونا قرآن اور آپ ﷺ کی تعلیمات ہیں۔ پھرحضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا کہ یاد رکھو کہ مغربی تہذیب و تمدن اور فیشن ہرگز باقی نہیں رہیں گے بلکہ مٹا دیئے جائیں گے اور ان کی جگہ دنیا میں اسلامی تمدن قائم ہو گا۔

( خطبات محمود جلد 3 صفحہ 488)

سر عثمان:ماشاء اللہ امتثال نے اچھی پریزنٹیشن تیار کی تھی۔ اب وقت ختم ہوگیا ہے۔ گھر جا کر کل کے سبق کی دہرائی ضرور کریں۔

(الف فضل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button