آج کا سبقبچوں کا الفضل

پہلا خانۂ خدا

سر عثمان نے کلاس میں داخل ہوتے ہی کہا:السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ! ساری کلاس نے کھڑے ہو کر سر کو وعلیکم السلام اور صبح بخیر کہا۔کل کا سبق خانہ کعبہ تھا اور سر عثمان نے ساری کلاس کو ایک صفحہ کا مضمون لکھ کر لانے کو کہا تھا۔سر عثمان نے پوچھا : بچو کیا آپ سب نے مضمون لکھا ہے؟

بچے: جی سر۔

سر عثمان : اپنے مضمون سے ایک ایک اہم بات بتائیں۔ اگر کوئی بات ایک بچہ بتا دے تو دوسرا اسے نہ دہرائے بلکہ نئی بات بتائے۔ چلیں سب سے پہلے غالب!

غالب: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے جنّ و انس کو پیدا کیا اور اسی غرض کے لیے خانہ کعبہ کو تعمیر کیا گیا۔ قرآن کریم کے مطابق یہ دنیا میں پہلا خانۂ خدا ہے۔ خانہ کعبہ سعودی عرب کے شہر مکہ میں ہے۔ رسول اللہﷺ قریباً 52 سال مکہ اور اس کے قریب رہے۔ رسول اللہﷺ مکہ میں خانہ کعبہ میں جا کر عبادت کیا کرتے تھے۔

سر عثمان: بالکل صحیح ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (آل عمران 97) یعنی : یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لیے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لیے۔ اچھا بھئی کامران بتاؤ یہ بَکَّہ کیا ہے؟ پھر فائقہ پڑھے گی۔

کامران : سر یہ مکہ کا پرانا نام ہے۔

فائقہ: خانہ کعبہ کی اونچائی پندرہ میٹر ہے لیکن اس کی چوڑائی ہر جانب مختلف پیمائش رکھتی ہے۔ مغربی جانب اس کی چوڑائی بارہ میٹر اور گیارہ سینٹی میٹر، مشرقی جانب بارہ میٹر اور چوراسی سینٹی میٹر ،جنوبی جانب گیارہ میٹر اور باون سینٹی میٹر اور شمالی جانب گیارہ میٹر اور بیس سینٹی میٹر ہے۔

سر عثمان : ماشاء اللہ بہت خوب فائقہ! حطیم کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو خانہ کعبہ کا ہی حصّہ شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ خانہ کعبہ کی موجودہ شکل وہ نہیں ہے جس میں اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیت اللہ کو پہلی مرتبہ کس نے تعمیر کیا؟ اس کا جواب کل میں نے بتایا تھا۔

بلال نے ہاتھ کھڑا کیا۔ سر کے اجازت دینے پر وہ بولا: عام طور پر کہا جاتاہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ نے اللہ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ لیکن قرآن کریم کے مطابق انہوں نے پہلے سے قائم بنیادوں پر خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ اسی لیے قرآن کریم نے اسے پہلا گھر بھی قرار دیا۔ ہو سکتا ہے کہ ان سے قبل کسی نبی یا حضرت آدمؑ نے اس گھر کی تعمیر کی ہو۔

سر عثمان: بہت خوب بلال۔ اب فاطمہ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے پاس کیا معلومات ہیں۔

فاطمہ : خانہ کعبہ کے غلاف کو کِسوة کہا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اسے مقامِ ابراہیم کہا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کی چھت پر موجود پَرنالے کو میزاب الرحمة کہتے ہیں۔ حجرِ اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنے جاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجر اسود کو بوسہ دیں یعنی چومیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔ خانہ کعبہ کے چار ارکان یعنی کونے یا ستون ہیں:رکنِ یمانی،رکن حجراسود، رکن شامی،رکن عراقی۔

خانہ کعبہ کے دوسرے نام بھی ہیں جیسے: بیت الحرام، بیت العتیق، بیت المعمور، بیت اللّٰہ، الكعبة المشرَّفة۔

جزاکِ اللہ فاطمہ، وقت ختم ہونے والا ہے اب اویس آخری بات بتائے گا۔

اویس:خانہ کعبہ کی حرمت ہر مسلمان پر اس کی اپنی حرمت کی طرح قائم ہے، اسے قبلہ کہا جاتا ہے کیونکہ مسلمان خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تاکہ وحدانیت اور اتحادقائم رہے۔ دنیا بھر سے مسلمان حج و عمر ہ کی ادائیگی کے لیے یہاںآتے ہیں۔ جنہیں حاجی،حجاج، زائر، زائرین، معتمر، معتمرین کہا جاتا ہے۔

سر عثمان: شاباش کلاس، آپ سب نے بہت محنت سے معلومات جمع کی ہیں۔ آپس میں باقی معلومات کا تبادلہ بھی کریں اور اسے ہمیشہ یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو۔ خدا حافظ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button