متفرق مضامین

امام سِیْبَوَیْہ اور ان کی تصنیف ’’الکتاب‘‘

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

دبستان بصرہ کے ممتاز نحوی،امام سِیْبَوَیْہ کا تذکرہ کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علم النحو کے بارے میں مختصراًکچھ بیان کردیا جائے تاکہ سِیْبَوَیْہکی شخصیت کو بہتر طور پر سمجھا جاسکے۔ نحو کے لغوی معنی راستہ، کنارہ یا ارادہ کرنا کے ہیں جبکہ علم النحو کی تعریف یہ ہے کہ ایسے قَواعد کاعلم جن کے ذریعے اسْم، فعل اور حَرْف کے آخر کے اَحوال اور اُن کو آپس میں ملانے کا طریقہ معلوم ہو۔ اس علم کا یہ فائدہ ہے کہ انسان عربی زبان بولنےاور لکھنے میں غلطیوں سے محفوظ ہوجاتاہے۔علم نَحْو کی اصل غرض یہ ہے کہ قرآن و سنت کا فہم حاصل ہواور عربی زبان میں لفظی غَلَطی سے بچا جاسکے۔ نحو کے ایک معنی مثل بیان ہوئے ہیں چونکہ اس علم کا جاننے والا عربوں کی مثل کلام کرنے پر قادر ہوجاتا ہے اس لیے اسے نحو کا نام دیا گیاہے۔ الھدایۃ فی النحو میں علم النحو کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : وھو علم بأصول تعرف بھا أحوال أواخر الكلم الثلاث من حیث الأعراب و البناء وکیفیّۃ بعضھا مع بعض (الھدایۃ فی النحو، ابوحیان یوسف جلد ۱ صفحہ۱۶) علم نحو ایسے قوانین کے جاننے کا نام ہے جن سے دو چیزوں کی پہچان ہوتی ہے۔تینوں کلموں (یعنی اسم، فعل، حرف)کی آخری حالت معلوم ہوتی ہے۔ کلموں کو آپس میں جوڑ کر جملہ بنانے کی ترکیب معلوم ہوتی ہے۔غرض علم النحو عربی کلام کوزبان دانی کی غلطیوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔

عمرو بن عثمان بن قنبرابو بشر کا لقب سِیْبَوَیْہ ہے۔آپ کا آبائی علاقہ البیضاء فارس ہے جبکہ آپ بصرہ کے رہنے والے تھے۔( معجم الأدباء، الجزء ۵ صفحہ ۲۱۲۲)آپ کو امام البصریین یعنی بصریوں کا امام بھی کہا جاتا ہے۔ (مُفْتَاح السَعَادۃ وَمِصبَاح السِیَادَۃَ المجَلدالأولصفحہ ۱۴۶ )سیبویہ کا مطلب سیب کی سی خوشبو ہے۔ اہل لغت اور ماہرین لسانیات نے اس لقب سے مشہور ہونے کی کئی وجوہ لکھی ہیں، مثلاً یہ کہ سِیْبَوَیْہ کا مطلب سیب کی سی خوشبو ہے، کیونکہ جو بھی ان سے ملتا تھا وہ ان کے پاس سیب جیسی خوشبو پاتا تھا، یا یہ لقب نظافت و صفائی کی وجہ سے پڑا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ حسین تھے اور ان کے رخسار سیب کی طرح تھے، اس لیے سیبویہ مشہور ہوگیا۔ چوتھا قول یہ ہے کہ وہ سیب کی خوشبو کے عادی تھے اس لیے یہ لقب مشہور ہوا۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر لفظ سیبویہ) ابن خلکان لکھتے ہیں کہ سمی سیبویہ لأن وجنتیہ کانتا کأنہما تفاحتان، وکان فی غایۃ الجمال (وَفِیَاتُ الأَعْیَانِ المَجلدالثالِثصفحہ۴۶۵، دارصادر بیروت،۱۹۷۰ء)اس کو سیبویہ اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ اس کے دونوں گال سیب سے مشابہت رکھتے تھے اور وہ بہت خوبصورت تھا۔ وکان شابًا جمیلًا نظیفًا(معجم الأدباء، الجزء ۵ صفحہ۲۱۲۴) وہ ایک صاف ستھرا خوبصورت نوجوان تھا۔

سِیْبَوَیْہ کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد اُن کا خاندان بصرہ چلا گیا۔آپ نے مختلف فن کے علماءسے نحو، لغت اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔سیبویہ کی تاریخ ولادت، مقامِ ولادت و وفات کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔ آپ نے بصرہ کے مشہور اساتذہ سے تعلیم پائی جن میں زیادہ ممتاز الخلیل بن احمد ہیں۔ الخلیل نے ۱۷۵ھ میں وفات پائی اور سیبویہ کی وفات کا جملہ مبینہ سنین میں سب سے قدیم سال ۱۷۷ھ بیان کیا جاتا ہے، جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی عمر صرف تینتیس سال تھی۔(اردودائرہ معارف اسلامیہ زیر لفظ سیبویہ جلد۱۱صفحہ ۴۹۰)معجم الادباءکے مطابق سیبویہ نے انتالیس سال کی عمر میں فارس میں وفات پائی۔(معجم الأدباء، الجزء ۵ صفحہ ۲۱۲۲)

اُس زمانے میں عربی لغت کے دو مشہور مکتب تھے، جن میں سے ایک بصرہ میں خلیل بن احمد الفراہیدی کے زیر انتظام چل رہا تھا جبکہ دوسرا کوفہ میں امام کسائیؒ اور ان کے مصاحبین کے زیر سایہ تھا جسے حکومت وقت کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔سیبویہ نے الخلیل بن احمد کے علاوہ جن اساتذہ سے نحو اور ادب کی تعلیم حاصل کی اُن میں یونس بن حبیب، ابی الخطاب الأ خفش اور عیسٰی بن عمر شامل ہیں۔ (مُعْجَمُ المؤلِّفِیْن الجزءالثانی تألیف عمَر رضا کحَالۃ، مؤَسَّسَۃ الرّسَالۃ بیروت،الطبعۃ الأولی۱۹۹۳ء صفحہ ۵۸۳)

مُفتَاح السعَادۃ ومصباح السِیَادۃ کے مؤ لف احمد بن مصطفیٰ نے سیبویہ کے علم نحو سیکھنے کا واقعہ بیان کرتےہوئے لکھا ہے کہ وسبب طلبہ النحو انہ کان یستملی علی حماد بن سلمۃ الحدیث فقال یومًا: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ماأحد من أصحابی الا وقد أخذت علیہ لیس أباالدرداء فقال سیبویہ: لیس أبوالدرداء۔ فقال حماد: لحنت یا سیبویہ۔ فقال: لا جرم۔ لأطلبن علمًا لا تلحننی فیہ أبدا ثم لزم الخلیل (مُفْتَاح السَعَادۃ وَمِصبَاح السِیَادَۃَ المجَلدالأول صفحہ ۱۴۷۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ الطبعَۃ الأولیٰ ۱۹۸۵ء) اور اُس کے نحو سیکھنے کا یہ سبب ہے کہ وہ حماد بن سلمۃ کے لیے املالکھتا تھا۔ ایک دن (حماد ) نے اس سے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے :میرا کوئی صحابی ایسا نہیں جس سے میں نے کچھ نہ لیا ہو سوائے اباالدرداء کے۔ اس پر سیبویہ نے کہا:یہاں اباالدرداء کے بجائے ابوالدرداء ہوگا۔ حماد نے کہا: سیبویہ تم نے غلطی کھائی ہے۔ اس پر سیبویہ نے کہا:میں آئندہ ہر وہ علم اور قاعدہ سیکھوں گا جسے سیکھ کر میں دوبارہ غلطی نہ کروں، اس طرح وہ خلیل کے پاس آگئےاور علم کی تحصیل میں مگن ہوگئے۔

سِیْبَوَیْہ کے علمی کارناموں میں سب سے اہم کام اُن کی تصنیف ’’الکتاب‘‘ہے۔ آپ کے شاگردوں نے اس کے علاوہ علوم وفوائد کا ایک دفتر آپ سے نقل کیا ہے۔آپ کی تصنیف ’’الکتاب‘‘کو علومِ نحو وصرف اور لغوی قواعد کی سب سے بڑی اور جامع کتاب تصور کیا جاتا ہے اوراسے اس فن پر پہلی تصنیف ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کا نام ’’الکتاب‘‘پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ سیبویہ کو اُن کی زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ اپنے اس اہم علمی سرمائے کو کوئی نام دیتے۔ چنانچہ آپ کے شاگردوں اور بعد کے علماء نے اسے ’’الکتاب‘‘کا نام دے دیا۔ اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں قرآن کریم کے بعد اگر کوئی کتاب پڑھی جاتی تو وہ کتابِ سیبویہ تھی۔

علماءکی نظر میں الکتاب کا مقام

اہلِ علم کے نزدیک امام سِیْبَوَیْہکا نام غیر معروف نہیں۔ آپ عربی لغت کے بڑے امام اور فاضل مانے جاتے ہیں۔اسی وجہ سے سیبویہ کا ایک لقب ’’امام النحاۃ‘‘یعنی نحویوں کا امام ہے۔ سِیْبَوَیْہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے سب سے پہلے علمِ نحو کو وسعت دی اور اُسے بڑی تفصیل کے ساتھ سپردِ قلم کیا۔کہا جاتا ہے کہ سیبویہ کی الکتاب میں لغت اور عربی گرائمر کا سمندر موجزن ہے۔عربی زبان وادب، علومِ لغت اور اشعار کی معرفت میں ان کے بلند مقام کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اہل علم اُن کے اساتذہ کا ذکر اُن کے بعد کرتے ہیں۔ بعض اہل نظر کے نزدیک کسی بھی علم پر صرف تین جامع کتب تالیف ہوئی ہیں جن میں سے ایک یونانی ہیئت دان بطلیموس کی المجسطی، دوسری منطق میں ارسطو کی کتاب اور عربی نحو میں سیبویہ بصری کی ’الکتاب‘۔چنانچہ معجم الأدباء میں لکھا ہے کہ اہل اندلس میں سے صاعد بن احمد الجیانی کی تصنیف’طبقات الأمم‘میں ہے کہ مجھے قدیم اور جدید علوم میں سے کسی ایسی کتاب کا علم نہیں جس میں اُس علم کا پوری طرح احاطہ کیا گیا ہو سوائے تین کتابوں کے جن میں سے ایک بطلیموس کی ہیئت پر لکھی گئی کتاب المجسطی۔ دوسری منطق پر ارسطو کی کتاب اور تیسری سیبویہ البصری کی گرائمر پر لکھی ہوئی کتاب۔ ان (تین کتابوں) میں ہر ایک نے اپنے فن کے بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کیا۔ (معجم الأدباء، الجزء ۵ صفحہ ۲۱۲۴)

اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں لکھا ہے کہ علوم عربیہ میں سیبویہ کی شخصیت بڑی ممتاز ہے۔اس کی فضیلت ِعلمی کے لیے یہی کافی ہے کہ گو اس نے زیادہ عمر نہیں پائی، پھر بھی اس کی الکتاب کو اتنا قبول عام حاصل ہوا۔جبکہ عرب علماء ہمیشہ اُنہی مصنّفین کی کتابوں کو ضرورت سے زیادہ وقعت دیتے ہیں جنہوں نے طویل عمر پائی ہو۔سیبویہ نے علوم عربیہ میں اپنے مطالعے کا نچوڑ ایک ضخیم تصنیف میں پیش کیا ہے (جسے قدیم تذکرہ نویسوں نے ایک ہزار اوراق پر مشتمل بتایا ہے)۔ دبستانِ بصرہ کی جو علمی کتابیں ہم تک پہنچی ہیں ان میں یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی کتاب ہے۔ اسے ہمیشہ سے عربی نحو کے مطالعے میں بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے اور وہ الکتاب کے معزز نام سے معروف ہے۔ اوپر بیان ہوا ہے کہ سیبویہ نے الخلیل سے تعلیم حاصل کی، لیکن اس کے علاوہ اس نے یونس بن حبیب، عیسیٰ بن عمر اور ابوالخطاب الاخفش سے بھی استفادہ کیا۔ ان کے علاوہ ابوزیدالانصاری نحوی بھی اس امر کا مدعی ہے کہ جب سیبویہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے ’’حَدَّثَنِی مَنْ اَثِیْقُ بَعَرْبِیَّتِہٖ‘‘(مجھ سے اس نے بیان کیا جس کی عربیت پر مجھے اعتماد ہے ) تو اس سے مراد میں ہوتا ہوں مگر عام رائے یہ ہے کہ اس سے الخلیل مراد ہوتا ہے،بہرحال اس سے صاف ظاہر ہے کہ بڑے بڑے جلیل القدر علما ء’الکتاب ‘سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یہ امر بھی بہت حد تک یقینی ہے کہ سیبویہ کو اس کتاب کے پڑھانے یا شاگردوں کے سامنے قراءت کرنے کا موقع نہ ملا، البتہ سیبویہ کی وفات کے بعد اس کے استاد الاخفش نے’الکتاب ‘کی مکمل نظرثانی کا اہتمام کیا۔ صرف یہی نہیں کہ اہل بصرہ نے ذوق وشوق سے الکتاب کا مطالعہ کیا، بلکہ ایک عجیب روایت کی رُو سے الجاحظ نے الکتاب کا ایک نسخہ المعتصم کے وزیر ابن الزیات کے کتاب خانے کے لیے پیش کیا۔ یہ عجیب و غریب نسخہ مشہور کوفی نحوی الفراء کے خط میں تھا، الکسائی نے اصل سے مقابلہ کیا تھااور الجاحظ نے اس کی تہذیب کی تھی۔ ابن الزیات نے تسلیم کیا کہ یہ کتاب کا بہترین نسخہ اور علم کا انمول خزانہ ہے۔ اگرچہ سیبویہ کا لب ولہجہ عجمی تھا، تاہم اس کی تصنیف ہمیشہ فصیح زبان کا معیاری نمونہ سمجھی جاتی رہی۔ الکتاب عربی ادب کی قدیم ترین کتابوں میں سے ہے۔ اس کا اسلوب بیان اکثر حشو وزوائد سے بھرا ہوا ہے اور اس کی لمبی لمبی دلیلیں تھکا دیتی ہیں، تاہم اس میں تین سو سے زائد آیات قرآنی سے استشہاد کیا گیا ہے اور اس میں ایک ہزار سے زیادہ اشعار جاہلی شاعری کے ہیں، جن میں سے پچاس نامعلوم شعراء کے ہیں، مگر وہ بعد کی کتب نحو میں الکتاب کی سند پر معتبر شواہد کی حیثیت سے پیش کیے گئے ہیں۔ ان اشعار کی تشریح ابو سعید الحسن بن عبداللہ السیرافی (۹۷۸ء) نے بڑی قابلیت سے کی ہے۔السیرافی نے دبستان بصرہ کی بہت سی مشہور کتب کی شروح لکھی تھیں۔اس دور کے بعد الکتاب کی شروح کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیااور دبستان بصرہ کا شاید ہی کوئی ایسا عالم ہوگا جس نے الکتاب پر حواشی نہ لکھے ہوں یا اس کے مضامین پر اضافہ نہ کیا ہو۔ (ملخص از اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱۱صفحہ ۴۹۱تا۴۹۲)

مشہور فقیہ اور فقہ حنبلی کے عالم امام ابن المبرد (۱۴۳۷ء۔۱۵۰۳ء) کے بارےمیں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص ان کے سامنے سیبویہ کی کتاب پڑھنے کا ارادہ کرتا تو امام مبرد اُسے کہتے :ھل رکبت البحرتعظیمًا واستصعابًا (مُفْتَاح السَعَادۃ وَمِصبَاح السِیَادَۃَ المجَلدالأول صفحہ ۱۴۷) کیا تم سمندروں کی شناوری کرنا چاہتے ہو؟ یہ اس کی عظمت اور گہرائی کی وجہ سے تھایعنی وہ اس کتاب کو سمندر سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ ایک اور روایت کے مطابق المبردکاایک شاگرد اُن سے کتاب سیبویہ پڑھنے آتا تو وہ اُسے کہتے: ھَلْ رَکِبْتَ الْبَحْرَ؟ تَعْظِیْمًا لَہ وَ اِسْتِعْظَامًا لِمَا فِیْہ (انباہ الرواۃ تالیف علی بن یوسف القفطی الجزءالثانی صفحہ ۳۴۸ناشردارالفکر العربی القاھرہ) کیا تم سمندری سفر کا ارادہ رکھتے ہو؟یہ اس کتاب کی تعظیم اور جو کچھ اس میں درج ہے اس کی عظمت کی وجہ سے تھا۔

علامہ جاحظ (۷۷۵ء۔۸۶۸ء) عربی ادب میں نَابغۂ روزگارمانے جاتے ہیں اوراُن کی کتابیں عربی ادب کا ستون شمار ہوتی ہیں۔جاحظ،سِیْبَوَیْہ کی کتاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ لَمْ یَکْتَب النَّاس فیِ النَّحْوِ کِتَابا مِثْلَہٗ، وَ جَمِیْعُ کُتُبِ النَّاسِ عَلَیْہ عَیَال۔ وَکَانَ سِیْبَوَیْہ لِشُہْرَتِہِ وَ فَضْلِہِ عَلَمًا عِنْد النَّحْوِین، وَکَان یُقَال بِالبَصرۃَ :قَرَأَ فُلَانٌ الکِتَاب؛ فیُعْلَمُ أَنَّہٗ کِتَابُ سِیْبَوَیْہ، وَ لَا یشک أَنَّہ کِتَابُ سِیْبَوَیْہ (انباہ الرواۃ: الجزءالثانی صفحہ ۳۵۱) کسی نےنحو میں اُس جیسی کتاب نہیں لکھی باقی سب کتابیں اُس کے عیال کی طرح ہیں۔ سِیْبَوَیہ اپنی شہرت اور فضیلت کی وجہ سے نحویوں کے لیے بطور عَلَم کے تھے۔اور جب کبھی بصرہ میں کہا جاتا تھاکہ فلاں آدمی نے ’’الکتاب‘‘پڑھی ہے۔(توسننے والا)سمجھ جاتا تھا کہ اس کی مراد کتابِ سیبویہ ہے،اور بلا شبہ اس کی مراد سیبویہ کی کتاب ہی ہوتی تھی۔وفیات الاعیان کے مؤلف شمس الدین احمد بن محمد بن أبی بَکر بن خَلکَان نے لکھا ہے کہ آل الربیع بن زیاد الحارثی، سِیْبَوَیْہ کے بارےمیں کہتے ہیں کہ ان أعلم المتقدمین والمتأخرین بالنحو، ولم یوضع فیہ مثلُ کتابہ (وَفِیَاتُ الأَعْیَانِ المَجلدالثالِث صفحہ ۴۶۳، دارصادر بیروت،۱۹۷۰ء) وہ متقدمین اورمتأخرین میں سے سب سے زیادہ نحو جانتا تھا اور نحو میں اس کی کتاب جیسی کوئی کتاب وضع نہیں ہوئی۔

سیبویہ کی کتاب کے مقام کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اہل علم میں سے جب کوئی کسی کو تحفہ دینے کا ارادہ کرتا تو اس کا پہلا انتخاب یہ کتاب ہوتی۔ معجم الادباءمیں ہارون بن محمد بن عبدالمالک الزیات کے حوالے سے ایک روایت لکھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دخل الجاحظ علی أبی وقد افتصد فقال لہ: أدام صحتک، ووصل غبطتک، ولا سلبک نعمتک، قال: ماأھدیت لی یا أبا عثمان؟ قال: أطرف شیء، کتاب سیبویہ بخط الکسائی۔ (معجم الأدباء، الجزء ۵صفحہ۲۱۲۷) جاحظ میرے باپ کے پاس اس حال میں آیا کہ وہ پسینے سے شرابور تھا۔ اُس نے میرے باپ سے کہا: اللہ آپ کو صحت دے اور آپ کے لیے خوشحالی کو قائم رکھے اور اپنی نعمتوں سے آپ کو محروم نہ کرے۔ میرے باپ نے اُس سے پوچھا : اے ابوعثمان! تم میرے لیے تحفے میں کیا لائے ہو؟ جاحظ نے کہا:سب سے عمدہ شے لایا ہوں یعنی سیبویہ کی کتاب لایا ہوں جس کی کتابت کسائی نے کی ہے۔

استاد کا احترام

سیبویہ اپنے اساتذہ کا احترام ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے اساتذہ بھی آپ کو بہت چاہتے تھے۔ معجم الادب میں لکھا ہے کہ جب سیبویہ اپنے استاد احمد بن خلیل الفراہیدی کی مجلس میں جاتے تو وہ خوشی سے کِھل اُٹھتے اور کہتے مرحبا بزائر لا یمل ہمارے عزیز طالب علم کوخوش آمدید۔جس نے ہمیں کبھی ناراض نہیں کیا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ احمد بن خلیل نے کبھی اس طرح کے الفاظ کسی دوسرے شخص کے لیے نہیں کہے۔( معجم الأدباء، الجزء ۵ صفحہ ۲۱۲۴۔تالیف یاقوت الحموی الرّومی۔الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۹۳ءدارالغرب الاسلامی بیروت)

سیبویہ نے اپنی کتاب میں بہت سے علماء کے اقوال نقل کیے ہیں جن میں خلیل بن احمد الفراہیدی کے اقوال سب سے زیادہ ہیں۔ سیبویہ نے اپنی کتاب میں اہل ِ بصرہ کے مذہب کو ترجیح دی ہے لیکن کئی جگہوں پر اپنے اساتذہ سے اختلاف بھی کیا ہے۔ سیبویہ کے دل میں اپنے استاد امام خلیل بن احمد الفراہیدی کا اس قدر احترام اور عزت پائی جاتی تھی کہ وہ ہر مسئلہ میں ’’قال الاستاذ ‘‘کہہ کر اوّل قول انہی کا نقل کرتے ہیں اور اس کے بعد باقی اقوال لکھتے ہیں۔ لطف کا مقام یہ ہے کہ جہاں کہیں سیبویہ نے اپنے استاد سے اختلاف کیا ہےاس جگہ بھی پہلا قول اُن ہی کا لکھا ہے اور پھر اپنے استاد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے نام کا ذکر کیے بغیر اپنے قول کو اس طرح شروع کرتے ہیں:’’وقال غیرہ ‘‘یعنی استاد کے علاوہ دیگر کا قول یہ ہے جس سے مراد سیبویہ خود ہوتے ہیں۔

سیبویہ کے آخری لمحات

سیبویہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے اور اُن کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس موقع پر انہوں نے یہ شعر پڑھے :

یؤملُ دنیا لتبقی لہ

فمات المؤملُ قبلَ الأَمَلٌ

حثیثًا یروّی أصولَ النخیل

فعاش الفسیلُ وماتَ الرجلْ

(معجم الأدباء، الجزء ۵ صفحہ ۲۱۲۶)

ترجمہ: وہ امید کرتا ہے کہ دنیا اس کے لیے باقی رہے گی،جبکہ اُمید کرنے والا اُمید سے پہلے ہی مرگیا۔ وہ بڑی تندہی سے کھجور کی جڑوں کو پانی دیتا ہے پس کھجور کا بچہ تو زندہ رہا مگر پانی دینے والا انسان مرگیا۔

کہا جاتا ہے کہ آخری بیماری کے دوران اُس نے اپنا سر اپنے بھائی کی گود میں رکھ دیا۔اس پر اُس کے بھائی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور آنسو کا ایک قطرہ سیبویہ کے چہرے پر گرا تو اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور بھائی کو روتےدیکھ کر یہ شعر پڑھا:

اُخَیَّیْنِ کُنَّا فَرَّقَ الدَّھْرُ بَیْنَنَا

اِلَی الأَمَدِ الْاَقْصَی وَمَن یَأمَن الدَّھْرَا

(معجم الأدباء، الجزء ۵ صفحہ ۲۱۲۶)

یعنی زمانے نے ہم دونوں بھائیوں میں ایک لمبی مدت کے لیے دُوری ڈال دی ہے اور کون ہے جو زمانے کی دُوری سے بچ سکا ہے۔

امام اصمعی ؒکہتے ہیں کہ میں نے سیبویہ کی قبر پر سلیمان بن یزیدالعدوی کے یہ اشعار لکھے ہوئے دیکھے :

ذھب الأحبۃُ بعد طولِ تزاورٍ

ونأی المزارُ فأسلموکَ وأقشعوا

ترکوک أوحش ما تکونُ بقفرۃٍ

لم یؤنسوک وکربۃً لم یدفعوا

قضی القضاءُ وصرتَ صاحبّ حفرۃٍ

عنک الأحبۃُ أعرضوا وتصدَّعوا

(معجم الأدباء، الجزء ۵ صفحہ ۲۱۲۵)

یعنی پیارے طویل ملاقات کے بعد چلے گئے، مزارکی جگہ دور ہوگئی پس انہوں نے تجھے زمین کے سپرد کردیا اور وہ پراگندہ ہوگئے۔ تجھے اس حال میں خالی جگہ میں چھوڑ گئے کہ تو بہت زیادہ وحشت محسوس کررہا تھا۔ انہوں نے نہ تو تجھ سے موانست کی اور نہ ہی تیری بے چینی کو دُور کیا۔ قضاء صادر ہوگئی اور تو صاحب ِقبربن گیا۔ تمام احباب تجھ سے منہ موڑ کر منتشر ہوگئے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ سیبویہ اور محمد بن الحسن (جو علوم فقہ کے بہت بڑے امام اورنہایت اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک تھے)کی ایک ہی دن وفات ہوئی تھی۔ان دونوں کی تدفین کے بعد کسی نے کہا :دفنت النحو والفقہ فی یوم واحد (مُفْتَاح السَعَادۃ وَمِصبَاح السِیَادَۃَ المجَلدالأول صفحہ ۱۴۹) ہم نے نحو اور فقہ کو ایک ہی دن دفن کردیایعنی ان علوم کے دو ماہرین کے چلے جانے کی وجہ سےایسا بڑا علمی خلا پیدا ہوگیا ہے کہ گویا دونوں علوم دفن ہوگئے۔

اگر عربی زبان وادب اور گرائمر کی بات کی جائے تو تاریخ میں کئی ممتاز علماءکے نام پڑھنے کو ملیں گے، جن میں سلف وخلف کے بے شمار علماءشامل ہیں لیکن اُن میں سے کسی کو سیبویہ جیسا مقام اور عظمت نہیں ملی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لغت کی امہات کتب میں جب اہلِ لغت کسی مسئلہ پر اختلاف کرتے ہیں، تو اُن کے درمیان قولِ فصل سیبویہ کی بات ہوتی ہے۔ ’’شرح ابن عقیل‘‘علم نحو کی ایک محقق کتاب مانی جاتی ہے۔ جس کے مصنف قاضی ابن عقیل اس کتاب میں ترجیح دیے بغیر سیبویہ کی بات نقل کرکے باب ختم کر دیتے ہیں۔ یعنی اُن کے نزدیک سیبویہ کے الفاظ ہی ایسی سند ہیں کہ اُن کے لیے یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ سیبویہ نے صحیح کہا ہے۔ علمی دنیا میں سیبویہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ’’علومِ عربیہ‘‘کے مکاتب میں آج بھی اگر کسی استاد نے اپنے شاگرد کو لغوی مہارت پر داددینی ہوتو وہ طالب علم کو ’’سیبویہ ‘‘کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button