خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگ اُحدمیں صحابہ کرام ؓ کی قربانیوں کا تذکرہ نیز فلسطین کے عمومی حالات اوریمن اور پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا ؤں کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍فروری۲۰۲۴ء

٭… حضرت علیؓ  کی بہادری پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں علیؓ سے ہوں اور علیؓ مجھ سے ہے تو جبرئیلؑ نے کہا میں آپ دونوں سے ہوں

٭… حضرت سعدؓ نے دشمن پر بےتحاشا تِیر چلائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم پر میرے ماں باپ قربان ہوں برابر تِیر چلاتے جاؤ

٭… ابو دجانہؓ نے آپؐ کے جسم کو اپنے جسم سے چھپائے رکھا اور جو تیر یا پتھر آتا تھا اُسے اپنے جسم پر لیتے تھے حتی کہ اُن کا بدن تیروں سے چھلنی ہو گیا

٭… ابوسفیان کے شرک کا نعرہ مارنے پر جب خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا تو آپؐ کی روح بیتاب ہوگئی اور آپؐ نےصحابہؓ  کوجواب دینے کا فرمایا

٭…فلسطین کے عمومی حالات نیز یمن اور پاکستان کے احمدیوں کے لے دعا کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍فروری۲۰۲۴ء بمطابق ۰۲؍ تبلیغ ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲؍فروری ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مکرم صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : جنگ اُحد کے واقعات میں صحابہؓ کی قربانیوں اور اُن کے عشقِ رسولؐ کی مثالیں میں نے دی تھیں۔اِن میں حضرت علیؓ  کی بہادری کے واقعات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ اُحد کے موقع پر ابن قمئہ نےحضرت مصعب بن عمیرؓ  کو شہید کرکے گمان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیااور قریش کو کہا کہ میں نے محمدؐ کوقتل کر دیا۔

حضرت مصعبؓ کے شہید ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علیؓ کے سپرد کیا۔

حضرت علیؓ نے یکے بعد دیگرے کفار کے علم برداروں کو تہ تیغ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت علیؓ نےکفار کے عمرو بن عبداللہ جمحی اور شیبہ بن مالک کو قتل کردیا۔جبرئیل ؑ نے حضرت علیؓ کے بارے میں کہا کہ یا رسول اللہؐ!یقیناً یہ ہمدردی کے لائق ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں تو جبرئیلؑ نے کہا کہ میں آپ دونوں میں سے ہوں۔ اس بات کو شیعہ حضرات مبالغہ آرائی کر کے بہت زیادہ بڑھا چڑھا بھی لیتے ہیں۔

سعید بن مسیبؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ اُحد میں حضرت علیؓ  کوسولہ زخم لگے تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں کہ مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے اُحدسے واپس آ کر حضرت فاطمہؓ  کو اپنی تلوار دھونے کے لیے دیتے ہوئے کہا کہ آج اِس تلوار نے بڑا کام کیا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر فرمایا:

علی !تمہاری ہی تلوار نے کام نہیں کیا۔پھرآپؐ نے چھ سات صحابہؓ کے نام لیتے ہوئے فرمایا کہ ان کی تلواریں تمہاری تلوار سے کمزور نہ تھیں اُن کی تلواروں نے بھی جوہر دکھائے ہیں۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت ابو طلحہ انصاریؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے تِیر چلاتے چلاتے تین کمانیں توڑیں اور دشمن کے تِیروں کے مقابل پر سینہ سپر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کو اپنی ڈھال سے چھپایا۔ حضرت سعد بن وقاص ؓکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تِیر پکڑاتے اور حضرت سعدؓ یہ تِیر دشمن پر بے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ نے حضرت سعدؓ سے فرمایا:تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں برابر تِیر چلاتے جاؤ۔ حضرت سعدؓ اپنی آخری عمر تک ان الفاظ کو نہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔

ابو دجانہؓ نے بڑی دیر تک آپؐ کے جسم کو اپنے جسم سے چھپائے رکھا اور جو تیر یا پتھر آتا تھا اُسے اپنے جسم پر لیتے تھے حتی کہ اُن کا بدن تیروں سے چھلنی ہو گیا مگر اُنہوں نےاُف تک نہیں کی۔

پھر حضرت اُمِّ عمارہ کا بھی ذکر ملتا ہے جنہوں نے بہادری کے جوہر دکھائے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ اِدھر مسلمان اپنی مرہم پٹی میں مصروف تھے تو اُدھر دوسری طرف یعنی نیچے میدان جنگ میں مکہ کے قریش مسلمان شہیدوں کی لاشوں کی نہایت بے دردانہ طور پر بے حرمتی کر رہے تھے۔مثلہ کی وحشیانہ رسم پوری وحشت کے ساتھ ادا کی گئی اور مسلمان شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ مکہ کے خونخوار درندوں نے جو کچھ بھی اُن کے دل میں آیا وہ کیا۔ قریش کی عورتوں نے مسلمانوں کے ناک کان کاٹ کراُن کے ہار پروئے اور پہنے۔ ابو سفیان کی بیوی ہندحضرت حمزہ ؓکا جگر نکال کر چبا گئی۔ غرض بقول سر ولیم میور’’مسلمانوں کی لاشوں کے ساتھ قریش نے نہایت وحشیانہ سلوک کیا۔‘‘اور مکہ کے رؤساء دیر تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لاش میدان میں تلاش کرتے رہے اور اس نظارے کے شوق میں اُن کی انکھیں ترس گئیں مگر جو چیز کہ نہ پانی تھی نہ پائی۔ اس تلاش سے مایوس ہو کر ابو سفیان اپنے چند ساتھیوں کو ساتھ لے کر اُس درّہ کی طرف بڑھا جہاں مسلمان جمع تھے اور اُس کے قریب کھڑے ہو کر پکار کر بولا۔ مسلمانو! کیا تم میں محمدؐ ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی جواب نہ دے۔چنانچہ سب صحابہؓ خاموش رہے۔پھر اُس نے ابوبکرؓ و عمرؓ کا پوچھا، مگر اس پر بھی آپؐ کے ارشاد کے ماتحت کسی نے جواب نہ دیا جس پر اُس نے بلند آواز سے فخر کے لہجے میں کہا کہ یہ سب لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔اُس وقت حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا اور وہ بے اختیار ہو کر بولے۔

اے عدو اللّٰہ !تُو جھوٹ کہتا ہے ہم سب زندہ ہیں اور خدا ہمارے ہاتھوں سے تمہیں ذلیل کرے گا۔

ابو سفیان نے حضرت عمرؓ  کی آواز پہچان کر کہا۔ عمرؓ  سچ سچ بتاؤ کیا محمد زندہ ہے؟ حضرت عمرؓنے کہا ہاں ہاں خدا کے فضل سے وہ زندہ ہیں اور تمہاری یہ باتیں سُن رہے ہیں۔ ابو سفیان نے کسی قدر دھیمی آواز میں کہا تو پھر ابن قمئہ نے جھوٹ کہا ہے کیونکہ میں تمہیں اُس سے زیادہ سچا سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ابو سفیان نے نہایت بلند آواز سے پکار کر کہا: اُعْلُ ھُبَلْ یعنی اے ھبل تیری بلندی ہو۔صحابہ ؓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا خیال کر کے خاموش رہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے نام پر تو خاموش رہنے کا حکم دیتے تھے اب خدا تعالیٰ کے مقابلے میں بُت کا نام آنے پر بے تاب ہو گئے اور فرمایا: تم جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا جواب دیں۔ آپؐ نے فرمایا:

اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ یعنی بلندی اور بزرگی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔

ابو سفیان نے کہا لَنَا الْعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ یعنی ہمارے ساتھ عزّیٰ ہےاور تمہارے ساتھ عزّیٰ نہیں ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہو اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلیٰ لَکُمْ۔عزّیٰ کیا چیز ہے۔ہمارے ساتھ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارے ساتھ کوئی مددگار نہیں۔

اس کے بعد ابو سفیان نے کہا لڑائی ایک ڈول کی طرح ہوتی ہے جو کبھی چڑھتا اور کبھی گِرتا ہے۔پس یہ دن بدر کے دن کا بدلہ سمجھو اور تم میدان جنگ میں ایسی لاشیں پاؤ گے جن کے ساتھ مثلہ کیا گیا ہے۔میں نے اس کا حکم نہیں دیا مگر جب مجھے اس کا علم ہوا تو مجھے اپنے آدمیوں کا یہ فعل کچھ برا بھی نہیں لگا اور ہمارے اور تمہارے درمیان آئندہ سال انہی ایّام میں بدر کے مقام میں پھر جنگ کا وعدہ رہا۔ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے ماتحت جواب دیا کہ بہت اچھا۔یہ وعدہ رہا۔یہ کہہ کر ابو سفیان اپنے ساتھیوں کو لے کر نیچے اُتر گیا اور پھر جلد ہی لشکر قریش نے مکہ کی راہ لی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش کو اس موقع پر مسلمانوں کے خلاف غلبہ حاصل ہوا تھا اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے وہ اگر چاہتے تو اپنی اس فتح سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کا راستہ تو بہرحال اُن کے لیے کھلا تھا مگر

خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ قریش کے دل باوجود اس فتح کے اندر ہی اندر مرعوب تھے اور انہوں نے اسی غلبہ کو غنیمت جانتے ہوئے جو اُحد کے میدان میں اُن کو حاصل ہوا تھا مکہ کو جلدی جلدی لوٹ جانا ہی مناسب سمجھا

مگر بَاِیں ہَمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید احتیاط کے خیال سے فوراً ستّر صحابہ کی ایک جماعت جس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زبیرؓ بھی شامل تھے تیار کر کے لشکر قریش کے پیچھے روانہ کر دی۔یہ بخاری کی روایت ہے۔عام مؤرخین یوں بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت علیؓ یا بعض روایات کی رُو سے سعد بن وقاص ؓکو قریش کے پیچھے بھجوایا اور اُن سے فرمایا کہ اس بات کا پتا لاؤ کہ لشکر قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیت تو نہیں رکھتا اور آپؐ نے اُن سے فرمایا اگر قریش اُونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑوں کو خالی چلا رہے ہوں تو سمجھنا کہ وہ مکہ کی طرف واپس جا رہے ہیں مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا اُن کی نیت بخیر نہیں اور آپؐ نے اُن کو تاکید فرمائی کہ اگر قریش کا لشکر مدینہ کا رُخ کرے تو فوراًآپؐ کو اطلاع دی جاوے اورآپؐ نے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ

اگر قریش نے اس وقت مدینہ پر حملہ کیا تو خدا کی قسم ہم اُن کا مقابلہ کر کے اُنہیں اس حملہ کا مزہ چکھا دیں گے۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے آدمی آپؐ کے ارشاد کے ماتحت گئے اور بہت جلد یہ خبر لے کر واپس آگئے کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جا رہا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکرؓ اور عمرؓ  کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے جب خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آپؐ کی روح بیتاب ہوگئی اور آپؐ نے نہایت جوش سے صحابہ ؓکی طرف دیکھ کرجواب دینے کا فرمایا اور اس طرح آپؐ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی۔ اس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑا کہ باوجود اس کے کہ اُن کی امیدیں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ اُن کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے اُن کو مار دینا مادّی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا، وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور جس قدر فتح اُن کو نصیب ہوئی تھی اُسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ واپس چلے گئے۔ حضرت مصلح موعود ؓنے مختلف زاویوں سے اس واقعہ کو مختلف جگہ بیان فرمایا ہےپھر انشاء اللہ آئندہ بھی بیان کروں گا۔

حضور انور نے آخر میں فلسطین کے لیے، یمن اور پاکستان کے احمدیوں کے لیے، اُمت مسلمہ اور دنیا کے حالات کے لیے دعا کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button