متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (دورہ کینیڈا۔ اکتوبر، نومبر۲۰۱۶ء کے چند واقعات۔ حصہ دوم)

مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد کینیڈا کے مشنری انچارج صاحب نے کئی نکاحوں کا اعلان کیا۔ حضور انور ازراہ شفقت اس موقع پر تشریف فرما رہے اور نکاحوں کے اعلان کے اختتام پر دعا کروائی۔ ایک موقع پر نکاح پڑھاتے ہوئے مکرم مشنری انچارج صاحب نے حق مہر بیان کرتے ہوئے صرف پچیس ڈالر حق مہر کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر خود حضور انور نے حیرت کا اظہار فرمایا جس پر مکرم مشنری انچارج صاحب نے بتایا کہ ان سے غلطی سے یہ الفاظ ادا ہو ئے ہیں اور حق مہر کی رقم پچیس ہزار ڈالر ہے۔ اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ لڑکے کے حق میں ہیں۔

اس موقع پر موجود جملہ احباب حضور انور کے اس تبصرہ سےخوب محظوظ ہوئے اور میرا خیال ہے کہ دلہن خاص طور پر حضور انور کی ممنون ہوئی ہو گی کہ حضور انور نے اس غلطی کی اصلاح فرمائی۔

احمدیوں کے جذبات

اس صبح حضور انور نے درجنوں فیملیز سے ملاقات فرمائی۔ ایک فیملی جسے حضور انور سے ملاقات کا شرف ملا وہ فیصل احمد( عمر ۳۷؍سال) ان کی اہلیہ کنول چودھری صاحبہ اور ان کے دو بچے تھے۔ ان کا تعلق Windsorجماعت سے تھا اور اس سے پہلےانہوں نے کبھی بھی حضور انور سے ملاقات کا شرف نہ پایا تھا۔

خوشی اور فرط جذبات سے فیصل صاحب نے بتایا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہیں اور مجھے پسینہ آرہا ہے کیونکہ جو کچھ ابھی ہوا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا ۔میں ابھی حضور انور کو ملا ہوں اور آپ نے مجھے دیکھاہے۔ میں نے حضور کی باتیں سنیں اور آپ نے میری باتیںسماعت فرمائیں۔ پھر مجھے آپ کا دست مبارک چھونے کا موقع ملا اور یہ لمحہ میری زندگی کا سب سے قیمتی لمحہ تھا۔ آج میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی ہے اور حضور انور کو ملنے سے مجھے لگتا ہے جیسے جنت کے دروازے میرے لیے کھل گئے ہوں۔

اپنے تجربات کے بارے میں کنول صاحبہ نے بتایا کہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مجھے اس احساس کی ایک جھلک ملی ہے جو جنت میں داخل ہونے سے مجھے ملے گی۔ جس چیز نے مجھے جذبات سے مغلوب کر دیا وہ حضور انور کی عاجزی ہے۔ باوجود اس کے کہ آپ زمین پر سب سے عظیم آدمی ہیںآپ کس قدر شفیق ، محبت کرنے والے ہیں اور ہمارے ساتھ آپ نےدوستوں کی طرح گفتگو فرمائی ۔ میں صرف الحمدللہ ہی کہہ سکتی ہوں۔

میری ملاقات چودھری فاروق حیدر صاحب (عمر ۴۷؍سال )سے ہوئی جن کی ابھی مع فیملی حضور انور سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔انہوں نے مجھے بتایا کہ آخری بار ان کی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒسے پاکستان میں ملاقات ہوئی تھی۔

چودھری فاروق صاحب نے بتایا کہ صرف ہم احمدیوں کو ہی حضور انور کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کو حضور کی ضرورت ہے۔ حضور انور نہایت مشکل حالات میں جماعت کی قیادت فرما رہے ہیں کیونکہ لوگ مسلسل اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اور آپ تنِ تنہا ان جھوٹے الزامات کا جواب عطا فرما رہے ہیں جو پھیلائے جاتے ہیں۔ کوئی عام آدمی ایسا عظیم کام کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔صرف خدا تعالیٰ کا سچا خلیفہ ہی اس بوجھ کو برداشت کر سکتا ہے۔

موصوف نے مزید بتایا کہ میرا خیال ہے کہ حضور انور کی مسکراہٹ حضرت مصلح موعودؓ کی مسکراہٹ جیسی ہے جو میں نے تصاویر میں دیکھی ہے۔ میں نے یہ بات دوران ملاقات حضور کی خدمت میں عرض کی جس پر حضور نے تبسم فرمایا اور یوں میں نے حقیقت میں دیکھ لیا کہ واقعۃً آپ کی مسکراہٹ حضرت مصلح موعود ؓکی مسکراہٹ سے مشابہ ہے۔

جذبات سے مغلوب ہو کر اچانک چودھری فاروق صاحب نے بتایا کہ میں کبھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے ہاتھ کو چھونے کے احساس کو بھلا نہیں سکا۔ اس وقت میں بچہ تھا۔وہ لمحہ میرے دل و دماغ میں ۳۵؍ سال سے زائد عرصہ سے نقش ہے اور بالآخر آج پھر مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ کو چھونے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ میں اس پر اللہ تعالیٰ سے شکر کا حق ادا نہیں کر سکتا۔

ایک fitness چیلنج

ایک دن جب حضور انور اپنے دفتر سے باہر تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ دو نوجوان مربیان شاہ رخ عابد صاحب جن کا تقرر کیلگری میں ہے اور اسفند سلیمان صاحب جو بطور اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری خدمت کی توفیق پا رہے ہیں حضور انور کے انتظار میں کھڑےتھے۔حضور انور نے جب ان کو دیکھا تو مسکراتےہوئےفرمایاکہ میرا خیال تھا کہ تم دونوں آج میرے سے چُھپتے رہو گے۔

اس کے جواب میں عزیزم شاہ رخ نے بتایا کہ حضور! ہم دونوں نے آج فجر کے بعد دوڑ لگائی ہے۔

یہ سننا تھا کہ میں کچھ حیران ہو گیا اور سمجھ نہیں سکا کہ انہوں نے حضور انور کو کیوں بتایا کہ انہوں نے دوڑ لگائی ہے۔بعدازاں عزیزم شاہ رخ نے مجھے اس کا پس منظر بتایا کہ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسفند اور میرا وزن کچھ زیادہ ہے اس لیے گذشتہ روز حضور انور نے ہمیں بلایا اور فرمایا کہ Peace Village میں آپ کے قیام کے دوران ہر روز ہمیں اس بلاک کے ارد گرد تین چکر دوڑتے ہوئے لگانے ہیں۔حضور انور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم روزانہ آپ کو رپورٹ کرتے رہیں اور آپ کو مطلع کریں کہ ہم نے اپنی روزانہ کی دوڑ مکمل کر لی ہے۔

یہ سن کر میں بے اختیار ہنس پڑاکہ ہمارے خلیفہ کس قدر عظیم الشان وجود ہیں۔ایسے بے پناہ مصروف دورے کے دوران بھی حضوردو نوجوان مربیان کی جسمانی صحت کی فکر کرتے ہیں اورآپ انہیں صحت مند اور fit دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ حضور انور کبھی کسی کو ایسا کام کرنے کا نہیں فرماتے جو خود نہ کرتے ہوں۔ چنانچہ اپنی مصروفیات کے باوجود حضور انور اکثر اوقات نماز فجر کے بعد اپنے گھر میں indoor cyclingکے لیے وقت نکالتے ہیں۔

اس دورے کے دوران گاہے بگاہے حضور انور دونوں مربیان سے استفسار فرماتے رہے کہ آیا وہ اپنے ٹریننگ شیڈیول پر عمل کر رہے ہیں۔ ایک ماہ کے اختتام پر وہ دونوں پہلے سے زیادہ fit تھےاور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے اس دوران ایک یا دو پاؤنڈ وزن بھی کم کر لیا ہے۔

حضور انور کی خدمت میں آرام کرنے کی تجویز

میں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور کےبعض رشتہ داروں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ کیا حضور کینیڈا کے دورہ کے دوران آرام کرنے کے لیے کچھ وقت نکالیں گے؟جواب میں خاکسار نے عرض کی کہ میں نے بہت کم دیکھا ہے کہ حضورآرام فرمائیں یا ذاتی مصروفیات کے لیے وقت نکالیں، خواہ آپ لندن میں ہوں یا بیرون ممالک دورہ جات پر۔

ایک رشتہ دار نے تجویز دی کہ جماعت کو مجلس شوریٰ میں تجویز پیش کرنی چاہیے جس میں حضور سےمستقل طور پردوران سال آرام کے لیے کچھ وقت نکالنے کی درخواست کی جائے۔

مجھے حتمی طور پر توعلم نہ تھا کہ آیا ایسا کرنا مناسب ہے یا نہیںکیونکہ شوریٰ کی ہر تجویز بالآخر حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت اقدس میں منظوری کے لیے پیش ہوتی ہے اوراگرچہ جماعت تجویز پیش کربھی دے پھر بھی حضرت خلیفۃالمسیح کسی بھی صورت میں شوریٰ کی تجویز پر عمل کرنےکے پابند نہیں ہوتے۔

یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ کینیڈا کی جماعت نے اس ماہ کے آخر پر دو یا تین دن آرام کے لیے رکھے تھے۔تاہم میرے ذہن میں ان دنوں کے لیے کچھ کام ہے جس میںمعاونت کے لیے مَیں تمہیں بلاؤں گا۔

جب حضور انور نے یہ فرمایاتو ایک طرف مجھے اس سعادت پر بے حد خوشی ہوئی کہ ان شاءاللہ مجھے حضور انور کی کسی کام میں معاونت کرنے کی توفیق ملے گی لیکن اس کے ساتھ کچھ افسردہ بھی تھا کہ جماعت نے حضور انور کے آرام کے لیے جو وقت تجویز کیا اس میں بھی حضورآرام کرنے کی بجائے کام کو ترجیح دینا پسند فرما رہے ہیں۔

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button