حضرت مصلح موعود ؓ

ہر ایک چیز میں تغیّر ہے اچھے تغیّر کے لیے دُعائیں کرو

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۸؍مارچ۱۹۱۸ء)

اس خطبہ میں حضورؓ نے سورت فاتحہ کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرماتے ہوئے تغیّر کے مضمون پر روشنی ڈالی ہے۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

حضور نے تشہدو تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

اﷲ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت مَیں آج بھی مجبوری کی وجہ سے وہ مضمون جو مَیں نے شروع کیا ہوا تھا نہیں بیان کرسکتا۔ چونکہ ابھی تک میرا حلق اس قابل نہیں ہوا کہ سب تک اپنی آواز پہنچا سکوں اس لئے آج مَیں پھر اسی مضمون کو جس کے متعلق پچھلے جمعہ توجہ دلائی تھی کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔

سورۃ فاتحہ میں علاوہ ان تمام معارف اور حقائق کے جو بیان کئے گئے ہیں۔

ایک معرفت کا نکتہ یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق کی حالت یکساں نہیں رہتی۔

مخلوق کی تغیّر پذیری کہاں سے ثابت ہے؟ سو یاد رہے کہ یہ بات اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الفاتحۃ:۲)سے ثابت ہوتی ہے۔ ربّ کے معنے ہیں کہ جو پہلے پیدا کر کے اور پھر اس کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف ترقی دیتا ہوا لے جائے۔ پھر اس کی ضروریات کے مطابق آہستہ آہستہ اس کو کمال تک پہنچائے۔ یہ معنی ربّ کے ہیں اور اس سورۃ میں بتلایا گیا ہے کہ تمام جہانوں کا ربّ اﷲ ہے خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین پر۔ نباتات ہو یا جمادات سب کا ربّ اﷲ ہی ہے۔

ایویلیوشن تھیوری اپنی اصلی صورت میں یہی ہے۔ اِس کے استعمال میں غلطی لگی ہے کہ آیا بندر سے انسان نے ترقی کی ہے یا کیا۔

یورپ نے اس تھیوری کو اب ایجاد کیا ہے، لیکن قرآن نے آج سے ساڑھے تیرہ سو برس پیشتر اس حقیقت کو ظاہر کر دیا تھا۔ یورپ کی حیرت انگیز ایجادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر ایک چیز ادنیٰ حالت سے اعلیٰ مدارج پر پہنچتی ہے۔ کیونکہ اگر کوئی ایسی چیز ہو جو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف نہ جاتی ہو تو خدا ربّ العالمین نہیں رہتا۔ اس نکتہ کو ہمیں قرآن نے بتا دیا کہ

ہر ایک چیز خواہ کہیں ہو اس میں تغیّر کرنے والا خدا ہے۔

سورۃ فاتحہ تمہید ہے اس تفسیر کی جو خداوند عالم نے انسان کے سامنے دھری ہے۔ پہلے فرمایا کہ ہر ایک چیز میں تغیّر ہے۔ پھر فرمایا: الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ(الفاتحۃ :۳)خدا تعالیٰ کے انعام کے دو طریق ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ بغیر کسی محنت کے انعام کرتا ہے۔ دوسرے کسی محنت کے بعد انعامات عنایت فرماتا ہے۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ میں ربوبیت دو قسم کی بتلائی ہے۔

ایک ربوبیت تو بغیر محنت اور دوسری بعد محنت۔

پھر فرمایا۔ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ(الفاتحۃ :۴)یعنی جو اس ربّ کی ربوبیت ہے وہ لغو نہیں بلکہ اس نے جزاء و سزا رکھی ہے۔ ربوبیت کے بعد نتائج نکلتے ہیں۔پھر فرمایا۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ(الفاتحۃ :۵) وہی ربوبیت جو الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ میں بیان کی تھی وہی اس جگہ دوسری طرح بیان کی گئی ہے۔ اس جگہ رحیمیت کو پہلے رکھا گیا ہے اور رحمانیت کو بعد میں۔

رحیمیت یہ ہے کہ انسان کچھ کرتے ہیں اور بعد میں خدا کی طرف سے انعامات کا صدور ہوتا ہے۔

اس کے متعلق ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب خدا کی طرف سے یونہی بغیر کسی محنت کے رحمانیت کے ماتحت انعام ہو رہا ہے تو پھر اس سوال سے کیا مطلب ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں۔ یعنی صفتِ رحیمیت کے ماتحت سوال کرتے ہیں جبکہ رحمانیت کے ماتحت خودبخود انعامات حاصل ہو رہے ہیں۔

پس رحیمیت پہلے کیوں رکھی گئی ہے؟ یہ ایک خاص نکتہ ہے جس کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے قرآن کریم پر اِس رنگ میں غور کیا ہے کہ قرآن شریف میں کوئی لفظ بیہودہ نہیں۔

اس میں اﷲ تعالیٰ نے ایک لطیف بات بیان کی ہے۔ اس خیال کے مطابق تو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ وَ اِيَّاكَ نَعْبُدُ چاہئے تھا کوئی کہہ سکتا ہے کہ قافیہ ملانے کے لئے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ دیا ہے، لیکن اگر کوئی انسان غور کرے گا تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ قرآن قافیہ نہیں ملاتا بلکہ یہ اَور ہی باتیں مدِّنظر رکھتا ہے۔ ہاں اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ قافیہ بھی مل جاتا ہے۔ پس اب غور کرنا چاہئے کہ اس میں کیا وجہ اور حکمت ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ

رحمانیت دو قسم کی ہوتی ہے ایک جو رحیمیت کے بغیر ہوتی ہے اور دوسری وہ جو رحیمیت کے ساتھ ہوتی ہے۔

وہ عام ہے اس میں کافر و مسلم کی تمیز نہیں۔ مثلاً انسان کو آنکھیں دی گئی ہیں ۔مگر بعض اوقات کوئی مسلمان نابینا ہو گا اور کافر سوجاکھا۔ غرض ساری مخلوق کے ساتھ عام ہے۔ یہ رحمانیت جب تک ہر انسان کے ساتھ نہ ہو وہ کچھ بھی کام نہیں کر سکتا۔ منہ میں زبان ہو گی تو بولے گا۔ کان ہوں گے تو سُنے گا۔ ہاتھ ہوں گے تو کام کرے گا۔ پَیر ہوں گے تو چلے گا، پھرے گا۔ اگر ہاتھ نہ ہوں آگ لگ جائے تو آگ کیونکر بُجھائے گا۔ یہ وہ رحمانیت ہے جس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ پس ملی ہوئی چیز کا مانگنا تحصیل حاصل ہے۔ اس عام رحمانیت کے مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو اُس وقت دے دی جاتی ہے جس وقت ہم ابھی دُنیا میں آئے نہیں ہوتے۔

دوسرا قدم رحیمیت ہے اور پھر تیسرا رحمانیت جو خاص مومن سے تعلق رکھتی ہے۔

تین درجہ ہیں۔ اوّل رحمٰن۔ دوم رحیم۔ پھر تیسرا درجہ رحمٰن پہلے رحمانیت ہوتی ہے اور پھر رحیمیت۔ اس کے بعد خاص رحمانیت اور یہ رحمانیت جو آخری درجہ کی ہوتی ہے اور مومنوں سے ہی خاص ہوتی ہے اس کو بھی اﷲ تعالیٰ کسی اعمال اور نیکی کے بدلہ میں نہیں لانا چاہتا۔ مثلاً

نبوت جو ہے وہ ایک موہبت ہے اور یہ رحمانیت ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کسی کافر مشرک اور بدکار کو نبی بنادے بلکہ اس رحمانیت کا نزول نیک اور پاک بندوں پر ہی ہوتا ہے ۔

نبوت تو بڑا درجہ ہے۔ الہام کا درجہ بھی موہبت سے ہی ملتا ہے۔ قرآن شریف میں آتا ہے۔ اَلرَّحْمٰنُ۔ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ۔ (الرحمٰن:۲تا۵)پس یہ رحمانیت خاص ہوتی ہے۔ ورنہ پہلی قسم کی رحمانیت میں بعض کافر انبیاء کی نسبت زیادہ موٹے تازہ اور جسیم ہوتے ہیں۔ ان کی صحت بھی بوجہ بے فکری کے زیادہ اچھی ہوتی ہے اور نبی کمزور اور بیمار ہوتے ہیں۔ چونکہ پہلی رحمانیت کو بیان کر دیا گیا تھا۔ اس لئے فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۔

اب رحیمیت کے ماتحت کام ہو گا اور پھر بعد میں رحمانیت شروع ہو گی۔

پھر جو مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کی صفت آتی ہے۔ اس میں تغیّر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو پیدا کیا جائے گا۔ اب تغیّر دو ہی قسم کا ہوسکتا ہے۔ نیک اور مفید۔ یا دوسرا وہ جو سزا کے باعث ہو۔

تو سورۃ فاتحہ میں ایک عظیم تغیّر کا ہونا بیان کیا گیا ہے۔

تغیّر تو ہو گا کیونکہ تمام انسان تغیّر پذیر ہیں۔ اچھا بھی تغیّر ہوگا اور بُرابھی۔ اور یہ دونوں تغیّر ربوبیت کے ماتحت آسکتے ہیں۔ خراب کو وہ کاٹ دیتا ہے اور عُمدہ کو برقرار رکھتا ہے۔

اگر کوئی مالی باغ کے درختوں میں سے بعض کو کاٹ دے اور بعض کی شاخوں کو الگ کر دے تو کوئی نہیں کہے گا کہ یہ مالی باغ کو برباد کر رہا ہے۔ پس ربوبیت دو قسم کی ہوئی کہ بعض دفعہ گرا کر ہی تغیّر پیدا کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی طبیب کسی مریض کو دست آوردوائی دیتا ہے تو وہ نادان ہے جو یہ کہے کہ طبیب نے تو اُلٹا اس مریض کو کمزور کر دیا اور اس کی اگلی طاقت کو بھی کھودیا۔

یہ کمزوری نہیں پیدا کی گئی بلکہ آئندہ طاقت پیدا کرنے کے لئے ایک ذریعہ اختیار کیاہے۔ پس

تغیّر دوقسم کے ہوتے ہیں۔ اچھے بھی اور بُرے بھی۔ اس لئے آپ لوگوں کو دُعا کرنا چاہئے اور چوکس رہنا چاہئے کہ آپ میں جو تغیّر ہو وہ اچھا ہو۔

مَیں نے پچھلے جمعہ بتایا تھا کہ آجکل عذاب کس طرح بڑھ رہے ہیں۔ قحطوں، زلزلوں، بیماریوں وغیرہ کے رنگ میں آرہے ہیں اور آجکل متواتر ڈاک کھولنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ طاعون کثرت سے پھیل رہی ہے۔

یہ ایک تغیّر کرنے کا ذریعہ ہے جو خدا نے اختیار کیا ہے۔ اِس لئے اِس تغیّر کے وقت میں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے لئے اچھا تغیّر ہو اور باغبان اپنے باغ کی حفاظت کے لئے ہمیں نہ کاٹ دے۔

پس خدا کے حضور دُعائیں کرو اور خُوب کرو۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کے لئے دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی ہر قسم کی آفات سے بچائے اور جماعت کی ترقی ہو۔ آمین۔ (الفضل ۱۶؍مارچ ۱۹۱۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button