خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگ اُحدمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی ثابت قدمی اور جاںنثاری کا تذکرہ نیز یمن کے احمدیوں، امّتِ مسلمہ اور دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعا ؤں کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍جنوری۲۰۲۴ء

٭… نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب اُس قوم پر سخت ہو جاتا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خون آلود کر دیاہو

٭… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ کے رنگ میں کامل طور پررنگی ہوئی رحمت اس حالت میں بھی غالب آئی جبکہ آپؐ زخمی تھے اور خون بہ رہا تھا

٭… جتنا دُکھ صحابہؓ  کو جنگ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کی وجہ سے پہنچا ویسا دُکھ آپؐ کی ساری زندگی میں کبھی صحابہؓ  کو نہیں پہنچا

٭…یمن کے احمدیوں، امّت مسلمہ نیز دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعاؤں کی تحریک

٭…حافظ ڈاکٹر عبدالحمید گامانگا صاحب نائب امیرجماعت سیرالیون اور طاہرہ نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ چودھری رشید الدین صاحب مربی سلسلہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍جنوری۲۰۲۴ء بمطابق ۲۶؍ صلح ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۶؍جنوری ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ میں جو زخم پہنچے تھے اس کی تفصیل میں بعض روایات اس طرح ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق اس موقع پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب اُس شخص پر سخت ہو جاتا ہے جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے راستے میں قتل کیا ہواور

اللہ تعالیٰ کا غضب اُس قوم پر سخت ہو جاتا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خون آلود کر دیاہو۔

طبرانی کی روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے تو فرمایا:اُ س قوم پر اللہ کاغضب انتہائی سخت ہو جاتا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کوزخمی کیا۔پھر تھوڑی دیر رُک کر فرمایا:اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نادان ہے۔ پس آپؐ کی رحمت جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں کامل طور پررنگی ہوئی تھی اس حالت میں بھی غالب آئی جبکہ آپؐ زخمی تھے اور خون بہ رہا تھا۔ اور آپؐ نے پھر یہ دعا کی کہ

اے اللہ! یہ ظلم جو کر رہے ہیں یہ لاعلمی اور بےوقوفی کی وجہ سے کررہے ہیں۔ ان کو بخش دے۔ان پر ان کی غلطیوں کی وجہ سے عذاب نازل نہ کرنا۔ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔ کیا شفقت اور رحمت کا مظاہرہ ہے۔

صحیح بخاری میں یہ روایت اس طرح ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اے اللہ !میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی سیرت خاتم النبیینؐ میں تفصیل لکھی ہے کہ درّہ میں پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ  کی مدد سے اپنے زخم دھوئے اور جو دو کڑیاں آپؐ کے رخسار میں چبھ کر رہ گئی تھیں وہ ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے بڑی مشکل سے اپنے دانتوں کے ساتھ کھینچ کھینچ کر باہر نکالیں حتیٰ کہ اس کوشش میں ان کے دو دانت بھی ٹوٹ گئے۔اُس وقت آپؐ کے زخموں سے بہت خون بہ رہا تھااور آپؐ اس خون کو دیکھ کر حسرت کے ساتھ فرماتے تھے۔کَیْفَ یَفْلَحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ۔کس طرح نجات پائے گی وہ قوم جس نے اپنے نبی کے منہ کو اُس کے خون سے رنگ دیااس جرم میں کہ وہ انہیں خدا کی طرف بلاتا ہے۔اس کے بعد آپؐ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور پھرفرمایا:اَللّٰھُمَّ ا غْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔یعنی اے میرے اللہ !تُو میری قوم کو معاف کر دے۔ کیونکہ ان سے یہ قصور جہالت اور لاعلمی میں ہوا ہے۔

روایت آتی ہے کہ اسی موقع پر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی کہ لَيۡسَ لَكَ مِنَ الۡأَمۡرِ شَيۡءٌ یعنی عذاب و عفو کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس سے تمہیں کوئی سروکار نہیں خدا جسے چاہے گا معاف کرے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔

فاطمۃالزہراؓ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دہشت ناک خبریں سُن کر مدینہ سے نکل آئی تھیں وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد اُحد میں پہنچ گئیںاور آتے ہی آپؐ کے زخموں کو دھونا شروع کر دیا مگر خون کسی طرح بند ہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔آخر حضرت فاطمہؓ نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلاکر اُس کی خاک آپؐ کے زخم پر باندھی تب جا کر کہیں خون تھما۔دوسری خواتین نے بھی اس موقع پر زخمی صحابیوں کی خدمت کرکے ثواب حاصل کیا۔

حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ غزوہ اُحد کے موقع پرزخمی ہونے کے بعد جب آپؐ کو ہوش آیا تو آپؐ نے یہ خیال ہی نہ کیا کہ دشمن نے مجھے زخمی کیا ہے، میرے دانت توڑ دیے ہیں اور میرے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو شہید کر دیا بلکہ آپؐ نے ہوش میں آتے ہی دعا کی کہ لوگ میرے مقام کو شناخت نہیں کر سکے اس لیے تُو ان کو بخش دے اور ان کے گناہوں کو معاف فرما دے۔

جنگ اُحد میں فرشتوں کا حاضر ہوکرلڑائی کرنے کے بارے میں بھی ذکر ملتا ہے۔

حضرت سعد بن وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں دو آدمی دیکھے۔اُن پر سفید لباس تھا۔ بڑی سخت لڑائی کر رہے تھے میں نے اُن دونوں کو نہ اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد دیکھا یعنی جبرائیلؑ اور میکائیل ؑ۔

علامہ بیہقی نے عُروہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن سے صبر اور تقوی پر وعدہ کیا تھا کہ پانچ ہزار لگاتار فرشتوں کے ذریعے اُن کی مدد کریں گے

اور اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا لیکن جب اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی اور صفوں کو چھوڑ دیا اورتِیر اندازوں نے اپنی جگہوں کو چھوڑ کر دنیا کا ارادہ کیا تو اُن سے فرشتوں کی مدد اُٹھا لی اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ وَلَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ۔اور یقیناً اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا جب تم اُس کے حکم سے اُن کی بیخ کنی کر رہے تھے۔

اپنے ایک خطبہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں جب فرشتے دیکھے گئے اُن کے سَروں پر سیاہ پگڑیاں تھیں اور اُن کی ایک یونیفارم تھی۔جب روایتیں اکٹھی ہوئی ہیں تو وہ تعجب میں پڑ گئے مگر جیسا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مُسَوِّمِیْنَ کی تفسیر فرمائی تھی بعینہٖ ایسا ہوا۔ اسی طرح جنگ اُحد میں جو فرشتے دکھائی دیے اُن کے سَروں پر بطور نشان سُرخ پگڑیاں تھیں۔

سُرخ رنگ میں کچھ غم کا پیغام بھی تھا کیونکہ جتنا دُکھ صحابہؓ  کو جنگ اُحد میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کی وجہ سے پہنچا ویسا دُکھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں کبھی صحابہؓ  کو نہیں پہنچا۔

ایک غم کے بعد دوسرے غم کی خبر اُن کو ملی اور وہ غموں سے نڈھال ہو گئے۔پس اس غزوہ میں فرشتوں کی علامت کےلیے بھی ایک ایسا رنگ چُنا گیا جس میں غم اور خون اور دُکھ کا پہلو شامل تھا۔

صحابہ ؓکی ثابت قدمی اور جاںنثاری کے واقعات بھی بہت ہیں کہ کس طرح اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کیں۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ اُس وقت نہایت خطرناک لڑائی ہو رہی تھی اور مسلمانوں کے واسطے ایک سخت ابتلا اور امتحان کا وقت تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ ہمت ہار چکے تھے اور ہتھیار پھینک کر میدان سے ایک طرف ہو گئے تھے۔ انہی میں حضرت عمرؓ  بھی تھے۔ چنانچہ یہ لوگ اسی طرح میدان جنگ کے ایک طرف بیٹھےتھے کہ اوپر سے ایک صحابی انس بن نضر انصاریؓ آگئے اور ان کو دیکھ کر کہنے لگے۔ تم لوگ یہاں کیا کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پائی۔اب لڑنے سے کیاحاصل ہے؟

انسؓ نے کہاکہ یہی تو لڑنے کا وقت ہے تا جو موت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پائی وہ ہمیں بھی نصیب ہو اور پھرآپؐ کے بعد زندگی کابھی کیا لطف ہے؟

اور پھر اُن کے سامنے سعد بن معاذؓ آئے تو انہوں نے کہاکہ سعد!مجھے تو پہاڑی سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ کہہ کر انسؓ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔جنگ کے بعد دیکھا گیا تو اُن کے بدن پراسّی سے زیادہ زخم تھے اور کوئی پہچان نہ سکتا تھا کہ یہ کس کی لاش ہے۔ آخر اُن کی بہن نے اُن کی انگلی دیکھ کر شناخت کیا۔

حضرت مصلح موعود ؓنے بھی ان کی شہادت کا ذکر فرمایا ہے۔آپؓ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد میں جب خدا تعالیٰ نے پھر مسلمانوں کو غلبہ دیا اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مالک بن انسؓ  کو تلاش کرو تو اُن کی بہن نے ایک جگہ پر ایک لاش کے ٹکڑوں میں سے ایک انگلی کے ذریعےپہچان کر کہ یہ میرے بھائی مالکؓ  کی لاش ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔یہ تھا صحابہؓ رسولؐ کا عشقِ رسولؐ۔یہ ذکر چل رہا ہے ابھی انشاءاللہ آئندہ بھی ہوگا۔

حضور انور نے بعد ازاں فرمایا کہ دعاؤں میں آج کل یمن کے احمدیوں کےلیے بھی دعا کریں وہ آج کل کافی مشکلات میں گرفتار ہیں۔اِسی طرح مسلم اُمّہ کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان میں بھی وحدت اورا کائی پیدا کرے اور عقل اور سمجھ دے۔ دنیا کے عمومی حالات کےلیے بھی دعا کریں۔بڑی تیزی سے جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

حضور انور نے آخر میں

دو جنازے غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

پہلا جنازہ غائب حافظ ڈاکٹر عبدالحمید گامانگا صاحب نائب امیر جماعت سیرا لیون کا تھا جو ۱۳؍جنوری ۲۰۲۴ءکو مختصر علالت کے بعد پینتالیس سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔

امیر صاحب سیرالیون لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر گامانگا صاحب سیرالیون میں سب سے زیادہ چندہ وصیت ادا کرنے والے تھے۔نئی جلسہ گاہ کے لیے جگہ خریدنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے سب سے زیادہ رقم کا وعدہ کیا اور اپنی وفات سے پہلے دس ہزار امریکی ڈالر ادا کیے۔

ڈاکٹر صاحب نے نصرت جہاں سکیم کے تحت پانچ سال کا وقف کیا تھا۔ ان کی تقرری نائیجیریا میں ہوئی تھی لیکن ابھی کارروائی ہو رہی تھی، کاغذات مکمل نہیں ہوئے تھے کہ ان کی وفات ہو گئی۔اللہ تعالیٰ مرحوم سے رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے،درجات بلند فرمائےاور ان کے بیوی بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو۔

دوسرا جنازہ غائب طاہرہ نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ چودھری رشید الدین صاحب مربی سلسلہ کا تھا جن کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت چودھری غلام حسین صاحبؓ کے ذریعہ ہوا تھا۔ اسی طرح ان کے نانا حضرت چودھری غلام حیدر صاحب دھاریوالؓ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ ان کے خاوند چودھری رشید الدین صاحب دو مرتبہ تبلیغ کی غرض سے افریقہ گئے۔ اس دوران یہ پاکستان میں رہیں اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف پوری توجہ سےکوشش کرتی رہیں۔اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button