حضرت مصلح موعود ؓ

مشیر کا فرض ہے کہ امانت دار ہو (قسط دوم۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۱؍فروری۱۹۲۱ء)

[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍جنوری ۲۰۲۴ء]

(گذشتہ سے پیوستہ )میں افسوس سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی غلطیاں ہمارے اس پچھلے مشورہ کے متعلق ہوئی ہیں۔ مجھے آج ہی ایک رقعہ آیا ہے۔ جس میں وہ صاحب لکھتے ہیں کہ ان کو کوئی کام سپرد کرنے کی رائے دی گئی تھی مگر بعضوں نے ان کے خلاف رائے دی۔ وہ شخص جس نے ان کو جاکر یہ بات بتائی اس نے خدا اور رسول اور بندوں کی بھی خیانت کی۔ دیکھو

جن سے مشورہ لیا گیا ان سے یہ توقع کی گئی تھی کہ وہ صفائی سے ا پنی رائے ظاہر کریں گے۔

اگر انہوں نےا پنی رائے ظاہر کی تو انہوں نے اپنا فرض ادا کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو جھوٹ بولتے اور جو ان کے خیال میں نااہل تھا اس کو اہل بتا کر خیانت کرتے۔ اور جس نے اس شخص کو اپنی خیر خواہی جتانے کے لئے کہا اس نے فتنہ ڈلوانا چاہا اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ لوگ کسی کے متعلق صاف رائے نہ دیں۔ اور اگر صاف رائے دیں تو لوگوں کی ناراضی کو سر لیں اور فتنہ پڑے۔ ایسا شخص جو مشورہ کی باتیں ظاہر کرتا ہے فتنہ ڈلواتا ہے۔

فی الحال تو میں نے یہ کیا ہے کہ دفتر امور عامہ میں ہدایت کی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ وہ کونسا شخص تھا۔ اور اگر آئندہ بھی ایسا ہوا۔ تو ایسے شخص کے متعلق اعلان کردیا جائے گا کہ اس سے نہ اب نہ آئندہ کبھی مشورہ لیا جائے۔

دیکھو ہمیں اخلاق سکھائے گئے ہیں ابھی گورنمنٹ نے محکمہ قائم کئے ہیں۔ نئے وزراء سے عہد لئے گئے ہیں کہ وہ مشوروں میں رازداری سے کام لیں گے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔

ہمارے ساتھ تو دینی پہلو بھی لگا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں جو مشورہ میں خیانت کرتا ہے وہ دوسروں میں فتنہ ڈلواتا ہے۔

اور خدا کا حکم توڑتا ہے اور خدا کا حکم توڑنے والا سمجھ لو کہ کس سزا کا مستحق ہوتا ہے؟بے شک کسی کے خلاف منصوبہ ہو تو اس کو ظاہر کرو۔ لیکن جب کام کرنے کا سوال ہوگا تو بعض رائیں بعض کے خلاف بھی ہونگی۔ اسی جلسہ مشاورت میں بعض لوگ جو مجلس میں نہ تھے ان کے متعلق کام کا سوال ہوا۔ میں نے کہا کہ وہ فلاں کام کے اہل نہیں۔ اور بعض مجلس میں بیٹھے تھے ان کے متعلق بھی میں نے اسی خیال کا اظہار کیا۔ اگر لوگ یونہی ہاں میں ہاں ملا دیں تو وہ منافقت کریں گے اور

اگر وہ لوگ جن کے خلاف رائے دی گئی افسوس کریں تو انکی غلطی اور جہالت ہوگی۔

اس میں کیا شک ہے کہ ہر ایک شخص ہر ایک کام کا اہل نہیں ہوتا۔ مثلاً سوال پیدا ہو کہ ہائی سکو ل کا ہیڈ ماسٹر کس کو بنایا جائے کوئی کہہ دے کہ خود خلیفۃ المسیح ہی ہیڈ ماسٹر ی کا کام کریں اور کوئی میرے خلاف رائے ظاہر کرے تو میرے لئے اس میں کوئی غصہ کی بات نہیں۔ کیونکہ سکول میں حساب اور انگریزی بھی پڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور مجھ کو یہ چیزیں نہیں آتیں۔ یا کسی منارہ کی تعمیر کا سوال ہو۔ کوئی کہے کہ خلیفۃ المسیح ہی اپنے اہتمام میں بنوا لیں۔ اور کوئی کہے کہ یہ تو انجینئر نہیں ہیں۔ تو یہ اس کا اعتراض غلط نہ ہوگا۔ یا اگر ہم گزارے کے قابل کوئی عمارت بنوا بھی سکتے ہوں۔ مگر چونکہ ہماری یہ قابلیت مشکوک ہوگی۔ اس لئے معترض کا اعتراض غلط نہیں۔ اور ہمارے لئے غصہ کا مقام نہیں۔ ہاں خداکسی کو کسی کام کے قابل بنائے تو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں خلافت کے قابل نہیں تو میں کہوں گا تو جھوٹ کہتا ہے۔ خدا نے مجھے خلافت کے قابل بنایا اور خلیفہ مقرر کیا ہاں اگر ہیڈ ماسٹری کا سوال ہو تو میں خود کہوں گا کہ میں قابل نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَاتَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ وَتَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ اللہ اور اس کے رسول کی خیانت نہ کرو۔ نہ آپس میں خیانت کرو اور تم جانتے ہو۔ کیونکہ

مشوروں وغیرہ میں خیانت کے نقصان بہت صاف اور کھلے ہوتے ہیں۔ جو شخص خیانت کرتا ہے وہ خدا کے غضب کا مستحق ہوتا ہے۔ خفیہ مجالس میں شامل نہ ہو۔ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے مشورے نہ کرو۔ مگر دوسرے امور کے مشوروں کو چھپائو۔ کیونکہ جب مشورہ ہوگا تو کسی کے رائے خلاف ہوگی اور جس کے خلاف ہوگی اس کو برا معلوم ہوگا۔ جب اس کو علم ہوگا تو وہ دوسر ےکو اپنا خواہ مخواہ دشمن سمجھ لے گا۔اس لئے مشوروں کا ظاہر کرنا جرم ہے۔

میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح اس سے فتنہ پڑتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ کے وقت میں ایک مدرس کی ترقی کا سوال تھا۔ میرے خیال میں وہ شخص مستحق تھا۔ میں نے رائے دی کہ اس کو ترقی ملنی چاہیے۔ ایک دوسرے شخص نے کہ وہ بھی ممبر تھا اس کے خلاف رائے دی۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد اس شخص نے جس نے مجلس میں رائے خلاف دی تھی اس کو کہا کہ تمہیں ترقی تو مل جاتی میاں صاحب نےمخالفت کی۔

میں نے جو اس کے حق میں رائے دی تھی اس کی خاطر نہ تھی بلکہ انصاف کی خاطر تھی

مگر دوسرے شخص نے مجلس میں خلاف رائے دیکر باہر جا کر اس کو خیر خواہی جتائی ایک مدت کے بعد باتوں باتوں میں یہ راز کھلا۔ اور اس نے کہا کہ آپ نے میرے خلاف رائے دی تھی تو میں نے اس کو بتایا کہ میں تو خلاف رائے نہیں دی۔ تو اس طرح شریر شرارت کر گذرتے ہیں۔

اس لئے مشوروں کے متعلق حکم ہے کہ ظاہر نہ کئے جائیں۔ میں نے بتایا ہے کہ دنیاوی معاملات میں بھی راز داری سے کام لیا جاتا ہے۔ہمارا معاملہ تو آخرت تک چلتا ہے۔

پس جب مشورہ لیا جاتا ہےاور جن سے لیا جاتا ہے اس لئے لیا جاتا ہے کہ وہ صاف اور صحیح رائے دیں اگر یہی سلسلہ رہا اور اس سے فتنہ پڑنا لازمی ہے تو یا تو لوگ صاف رائے نہ دیں گے اور جب صاف رائے نہ ملے گی تو ہم اس سلسلہ ہی کو بند کردیں گے۔ پر

اگر تم میں اہلیت پیدا نہ ہوگی تو تمہارا قصور ہوگا۔ موجودہ کام کرنے والے مرجائیں گے اور تم کچھ کام نہ کر سکو گے۔

پس دونوں راہیں کھلی ہیں۔ چاہے آئندہ کو احتیاط کا پہلو اختیار کرو اور کام کی اہلیت سیکھو یا تم سے آئندہ مشورہ نہیں لیا جائے گا۔اگر ضرورت ہے کہ جماعت زندہ رہے اور کام کے اہل پیدا ہوں تو مشورے میں خیانت کا طریق نہایت غداری کا طریق ہے۔ فتنہ کا طریق ہے۔

اگر کسی کے خلاف سازش ہو تو اعلان کرو ورنہ مشورہ ظاہر کرنا خدا اور رسولؐ اور بندوں کی امانت میں خیانت ہے۔

اللہ تعالیٰ تم میں کام کی اہلیت پیدا کرے اور تم مشورہ کی امانت داری کی اہمیت سمجھو اور خدا اور رسول اور بندوں کی امانت میں خیانت نہ کرو اور اس طریق سے بچو جس سے جماعت میں فتنہ پڑے ۔ بلکہ وہ راہ اختیار کرو جس سے جماعت بڑھے اور اس کا نظم ترقی کرے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button