متفرق مضامین

دعوتِ الی اللہ کے چند اُسلوب

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

اسلام ایک عالمگیر تبلیغی مذہب ہے۔ تبلیغ کے ذریعہ اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا تے چلے جانا اہلِ اسلام کا بنیادی فریضہ ہے۔ اس لحاظ سے اسلام ہر مسلمان سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق ہر آن جاری و ساری جہادِ تبلیغ ِ اسلام میں بھر پور حصہ لیتا رہے۔ اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تبلیغ کے مختلف طریقوں سے واقفیت حاصل کی جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور سمجھ سے اپنی سب طاقتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سُرخروئی اور کامیابی کے ساتھ اس ذمہ داری کو ادا کیا جائے۔ تبلیغ کس طرح کی جائے؟ اس اہم سوال کا بہترین اور جامع جواب قرآن مجید کی اس آیتِ کریمہ میں ملتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَالۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ۔(النحل :۱۲۶)اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہادیٔ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور حضورؐ کے سب متبعین کو یہ تاکیدی حکم دیا ہے کہ لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ اپنے رب کے طریق کی طرف بلانا چاہیے۔ نیز مذہبی امور سے متعلق بحث کے موقع پر بھی اس طریق سے بات کرنی چاہیے جو سب سے اچھا طریق ہو۔ اس قرآنی ہدایت میں نہایت جامع الفاظ میں تبلیغ کے بنیادی طریق بتائے گئے ہیں اور اُن امور کی نصیحت کی گئی ہے جن کو تبلیغ کے دوران ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھنا از بس لازم ہے۔ حکمت، موعظۂ حسنہ اور بطریقِ احسن مجادلہ۔ تبلیغ کے تین بنیادی اصول اس آیت کریمہ سے ثابت ہیں جن کی تفصیل میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ خاکسار اس مختصر مضمون میں انہی اصولوں کی روشنی میں چند ایسی باتیں بیان کرنا چاہتا ہے جو اس عاجز کے خیال اور تجربہ کے مطابق جہادِ تبلیغ میں عملی طور پر بہت مفید اور سُود مند ثابت ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ مختصر مضمون عام طریق سے قدرے ہٹ کر ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔

اسلامی تعلیم کے مطابق مومن کا ہر کام ہی دعا سے شروع ہونا چاہیے۔ تبلیغ کا از حد بابرکت کام دعا کے بغیر شروع کیا جانا خارج از قیاس ہے۔ تبلیغ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستہ کی طرف بلانے کا نام ہے۔ دلوں پر کامل تصرّف تو خدا تعالیٰ کو حاصل ہے اور ہدایت کا سرچشمہ بھی اُسی کی ذات ہے۔ اس لحاظ سے بھی دعا کے ساتھ تبلیغ کا آغاز رحمتِ الٰہی کو جذب کرنے اور تبلیغ کے مؤ ثر بننے کا یقینی ذریعہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر دعا کی اہمیت و برکات کاذکر فرماتے ہوئے بہت ہی پیارا فقرہ تحریر فرمایا ہے :’’یہ اسم اعظم ہے اوردنیا کا تختہ پلٹ سکتی ہے۔دعا مومن کا ہتھیار ہے ‘‘(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۳۵۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

ہر تبلیغی کوشش بھی تو لوگوں کو راہِ حق کی طرف بلانے کی ایک تدبیر ہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ دعا کے بغیر یہ تدبیر بلکہ کوئی بھی تدبیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پس دعا کے ساتھ تبلیغ کا آغاز کرنا اور ہر آن دعا کی طرف متوجہ رہنا، کامیاب تبلیغی کوششوں کے لیے ایک آزمایا ہوا نسخہ ہے۔ دعا ایک مبلغِ اسلام اور ہر داعی الی اللہ کا انتہائی کار گر ہتھیار اور تبلیغ ِ اسلام کا اوّلین زینہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے دربار میں جا کر پیغامِ حق پہنچانے کا ارشاد فرمایا تو آپؑ کو جو دعا سکھائی گئی وہ یہ تھی : رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ۔وَیَسِّرۡلِیۡۤ اَمۡرِیۡ۔وَاحۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ۔یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ۔(طٰہٰ:۲۶۔۲۹) اے میرے ربّ! میرا سینہ میرے لیے کشادہ کر دے۔ اور میرا معاملہ مجھ پر آسان کر دے۔اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں۔

ہر تبلیغی گفتگو سے قبل یہ دعا ضرور کرنی چاہیے۔ خود دعائیں کرنے کے ساتھ ساتھ امامِ وقت حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعائیں حاصل کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ حضور انور کی بابرکت دعائیں جو بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوتی ہیں، ہماری حقیر دعاؤں اور کوششوں کی کامیابی کے لیے اکسیر کا حکم رکھتی ہیں۔ ان دعاؤں کے حاصل کرنے کا ذریعہ باقاعدگی کے ساتھ حضور کی خدمت اقدس میں دعا کے لیے عرض کرتے رہنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۹۷۰ءمیں لندن روانہ ہونے سے قبل الوداعی ملاقات میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت خاکسار کو یہ نصیحت فرمائی کہ ہفتہ میں ایک بار ضرور خط لکھا کروں۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس ہدایت کی تعمیل کی سعادت ملی اور میں نے ہمیشہ اس کی برکت کو محسوس کیا۔

تبلیغ میں برکت اور کسی بھی تبلیغی جدو جہد کی کامیابی محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ تبلیغ کے مواقع بھی اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے مہیا کرتا ہے اس لیے دعا کرتے وقت علاوہ اَور دعاؤں کے اس دعا کے لیے بھی طبیعت میں خاص میلان اور توجہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص تصرف سے ایسے مواقع اور حالات میسر فرمائے جن سے تبلیغِ اسلام کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے اور پھر ان تبلیغی مواقع سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ اس دعا میں باقاعدگی کی برکت سے غیر معمولی حالات پیدا ہونے کا بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۹۷۳ءمیں ایک روز میں لندن مشن کے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ اچانک ایک دوست کا فون آیا۔ اس نے بتایا کہ اس وقت بی بی سی ریڈیو پر ایک پروگرام مرنے کے بعد کی زندگی کے بارےمیں نشر ہو رہاہے اور اس بات کی سہولت دی گئی ہے کہ کوئی شخص بھی فون کے ذریعہ اس پروگرام میں شامل ہو سکتا ہے۔ خاکسار نے فوری طور پر ریڈیو پر تھوڑی دیر یہ پروگرام سنا اور زیرِ بحث موضوع سے متعارف ہونے کے بعد فون کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم کیا۔ مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا۔ غالباً ایک یا دو منٹ کے انتظار کے بعد ان کا فون آیا کہ آپ اب گفتگو کے لیے تیار ہو جائیں۔ فوراً ہی مجھے کہا گیا کہ MR. RASHED, NOW YOU ARE ON AIR۔ چنانچہ خاکسار نے اپنا تعارف کروانے کے بعد بتایا کہ میں مرنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تفصیل قرآن مجید کی تعلیمات پر مبنی ہے جو مسلمانوں کی مذہبی کتاب ہے نیز کتاب ’’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ سے لی گئی ہے جو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فرستادہ سیدنا حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام نے تحریر فرمائی ہے۔ اس کے بعد جنت اور دوزخ اور ان کی کسی قدر کیفیت بیان کرنے کا موقع ملا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے خیال میں جنت و دوزخ میں جانے والے لوگ ہمیشہ وہاں رہیں گے؟ اس پر بتایا گیا کہ جنت تو یقیناً ابد الآباد تک قائم رہے گی اور اس میں جانے والے کبھی اس پُر لطف اور روحانی زندگی سے الگ نہ کیے جائیں گے لیکن دوزخ میں جانے والے اپنی مقررہ سزا برداشت کرنے کے بعد، گناہوں کی آلائش سے پاک و صاف ہو جانے پر بالآخر سب لوگ اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور محبت سے حصہ پائیں گے۔ یہ ساری گفتگو چند منٹ جاری رہی اور اسی وقت براہِ راست ریڈیو پر نشر ہوتی رہی۔ اس طرح لاکھوں سامعین تک کلمۂ حق پہنچانے کی سعادت مل گئی۔ مقصد اس واقعہ کے ذکر سے یہ ہے کہ یہ تقریب جو اس سے قبل میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی اچانک محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مہیا فرمادی، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

پُر حکمت بات کرنا تبلیغ کا ایک زرّیں اصول ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ ایسی بات بیان کی جائے جو عین با موقع اور برجستہ ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی بات کا سننے والوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا ایک واضح تجربہ انگلستان میں Leamington Spa جماعت کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے ہوا۔ یہ اجلاس ایک مذہبی مذاکرہ کی نوعیت کا تھا جس میں مجھ سے قبل بدھ مت اور سکھ مت کے بارے میں دو مقررین نے تقاریر کیں۔ آخر میں میری باری تھی کہ میں اسلام کے حوالے سے حاضرین کو کچھ بتاؤں۔ میں نے اپنے ذہن میں تقریر کا ایک خاکہ تیار کیا تھا کہ میں ابتدا میں اسلام کا مختصر تعارف کروانے کے بعد اسلام کے چند امتیازات بیان کروں گا۔ مجھ سے معاً قبل سکھ مذہب کے بارے میں تقریر کرنے والے مقرر نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ سکھ مذہب کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب دنیا کے سب مسائل کا حل پیش نہیں کرتی اور یہی وجہ ہے کہ سکھ لوگ بھی اس کتاب کے ہر لحاظ سے مکمل ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے اور نہ ہی ایسا دعویٰ اس کتاب میں پایا جاتا ہے۔ اس بیان پر سامعین کے چہروں پر ایک عجیب مسکراہٹ آ گئی کیونکہ اس سے قبل بدھ مت کے حوالے سے بھی ان کی کتاب کے مکمل ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔

اس حیرت اور جستجو کے ماحول میں مجھے تقریر کی دعوت دی گئی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عاجز کی راہنمائی فرمائی۔ میں نے تقریر کا آغاز کچھ اس طرح کیا کہ ’’ خواتین و حضرات! آج میں آپ کو ایک ایسے مذہب سے متعارف کروانا چاہتا ہوں جس کا دعویٰ ہے کہ اس کی مذہبی کتاب ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے اور بنی نوع انسان کی سب ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے۔ یہ دعویٰ اس کتاب کی ابتدائی آیات میں درج ہے اور بڑی تحدّی کے ساتھ بار بار دوہرایا گیا ہے۔ اس کتاب کا نام قرآنِ مجید ہے جو عالمگیر مذہب اسلام کی مقدس مذہبی کتاب ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ برجستہ آغاز سامعین کی توجہ جذب کرنے کا موجب بنا اور مجھے یہ سبق بھی حاصل ہوا کہ ہمیشہ ایسی بات کرنی چاہیے جو وقت کے لحاظ سے سب سے زیادہ باعثِ کشش اور جاذبِ توجہ ہو۔

اسلام نہایت خوبصورت اور دلکش مذہب ہے۔ اس کی سب تعلیمات انتہائی مؤ ثر ہیں لیکن موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے اور خاص طور پر اقتصادی اور تمدنی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے بعض پہلو ایسے ہیں جن پر زیادہ زور دینا یا ان کو سب سے پہلے بیان کرنا بہت مفید ثابت ہوتا ہے اور مزید تفصیلی گفتگو کی گنجائش پیدا کر دیتا ہے۔ ان میں سے ایک بات اسلام میں آزادیٔ ضمیر کے حوالے سے مذہبی جبر کی ممانعت کی تعلیم ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب بھی اس بات کو اچھے طریق سے بیان کیا جائے تو سننے والوں پر اس کا خاص اثر ہو تا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب اس کی وہ حکمت بھی بیان کی جائے جو قرآن مجید میں بیان ہو ئی ہے کہ حق و صداقت کو منوانے کے لیے جبر کی ضرورت ہی کیا ہے۔ حق تو باطل سے بہت بالا اور ممتاز ہے تو یہ بات لوگوں کو اسلام کی حقانیت اور صداقت کا بھی یقین دلاتی ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جو مذہب اپنی تبلیغ کے لیے جبر و تشدد کے استعمال کو غلط قرار دیتا ہے وہ یقیناً دلائل و براہین کے اعتبار سے اس قدر پُرکشش اور تسلی بخش ہے کہ اسے جبر کی ضرورت ہی نہیں۔ جبر سے جسم فتح ہو سکتے ہیں لیکن دلوں کو فتح نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کا مقصد تو ساری دنیا کے دلوں کو محبت، پیار، نرمی اور خوش اخلاقی کے ساتھ فتح کرنا ہے۔ ہمارا ماٹو بھی تو یہی ہے

LOVE FOR ALL HATRED FOR NONE

محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں۔

تبلیغی گفتگو کے وقت مَیں عام طور پر ایک اور بات کو بھی بیان کرتا ہوں کہ ہم اسلام کی تبلیغ سچی محبت کے جوش اور بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبہ سے کرتے ہیں۔ مختلف مذہبی اور غیر مذہبی اداروں کے منّاد ہر جگہ اس کثرت سے پرچار کرتے نظر آتے ہیں کہ اس پر ایک پیشہ کا گمان کیا جانے لگا ہے۔ اس ماحول میں بظاہر اسی طریق کو اختیار کرتے ہوئے لٹریچر وغیرہ تقسیم کرنے سے لوگوں کو یقیناً غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔ اس ماحول میں یہ بات بیان کرنی ضروری ہوجاتی ہے اور مؤ ثر بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہم بنی نوع انسان کی سچی بھلائی کی خاطر انہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ ہماری مثال بالکل ویسی ہی ہے کہ جیسے ایک شخص کسی نہایت عالی شان اور گرانقدر راز سے آگاہ ہو جائے تو محض انسانی ہمدردی کے جذبہ سے چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس دولت کو حاصل کریں۔ جس طرح ہم بھی اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسے خوبصورت مذہب کی دولت عطا کی ہے سچی ہمدردی کے ساتھ آپ کو بھی اس دولت سے مالا مال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طریقِ گفتگو بہت کامیاب رہتا ہے۔

اس سلسلہ میں ایک اور بات جس کا خیال رکھنا بہت مفید نتائج کا حامل معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ اسلام کے قابلِ عمل ہونے کے پہلو پر بھی خاص زور دیا جائے۔ انگلستان میں بھی اور پھر جاپان میں بھی لوگوں سے بات چیت کے دوران اکثر یہ محسوس کیا ہے کہ وہ مذہبی تعلیمات کے عملی پہلو کے بارےمیں پوری طرح مطمئن نظر نہیں آتے۔ اکثر مذہبی عبادات اور پابندیوں کو دوبھر اور مشکل بلکہ اکثر لوگ تو ناقابلِ عمل سمجھتے ہیں۔اس لحاظ سے کچھ اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں کہ مذہب گویا ازمنۂ رفتہ میں تو قابلِ عمل رہا ہوگا لیکن آج کے اس ترقی یافتہ، مصروف اور برق رفتار دور میں مذہبی امور کی پابندی کرنا خارج از قیاس ہے۔ ایسے لوگوں سے بات کرتے وقت مختلف مثالوں کے ذریعہ بات کو سمجھایا جائے تو ان کی یہ ذہنی مشکل بھی دور ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ ایک جاپانی نوجوان سے جو ایک پرائیویٹ سکول کے نگران ہیں اس موضوع پر بات ہوئی۔ انہیں دن میں پانچ نمازوں کا تصور ہی پریشان کن نظر آرہا تھا۔ جب انہیں نماز کی اہمیت بتانے کے بعد پانچوں نمازوں میں صرف ہونے والے کل وقت کا اندازہ بتایا گیا تو ان کی پریشانی کچھ کم ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر وہ دن میں ہر روز تین بار کھانا کھاتے ہیں اور دو تین یا چار مرتبہ چائے یا کافی پیتے ہیں اور اس بار بار کی تکرار سے نہ گھبراتے ہیں اور نہ ہی اسے ضیاعِ وقت خیال کرتے ہیں تو نماز بھی تو ایک روحانی غذا کی طرح ہے جس کے بغیر صحیح اطمینانِ قلب نہیں مل سکتا۔ الحمد للہ ان باتوں سے ان کے لیے نماز کی حکمت اور افادیت کو سمجھنا آسان ہو گیا۔

تبلیغ کے بے شمار ذرائع اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں مہیا فرمائے ہیں۔ جلسوں اور اجتماعات، تقاریر، کتب و اخبارات اور پمفلٹ کی اشاعت اور تقسیم، خط و کتابت اور انفرادی بات چیت وغیرہ، بے شمار ذرائع موجود ہیں اور اپنی اپنی جگہ سب ہی بہت مفید ہیں۔ مقامی حالات کے لحاظ سے افادیت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے حالات کو دیکھ کر بہترین طریق کا انتخاب بہت ضروری ہے۔

عمومی طور پر میں نے محسوس کیا ہے کہ تقاریر کی افادیت اپنی جگہ مسلّم لیکن انفرادی بات چیت کا طریق نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس میں مخاطب کی ضرورت، اس کی دلچسپی اور معیار کے مطابق مؤثر اور مناسبِ حال بات بیان کرنے کا موقع ملتا ہے۔اس لحاظ سے بسا اوقات نتائج عمومی تقریر کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔

اس بات چیت میں خاکسار ہمیشہ ایک اور بات بھی ضرور پیش کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ بتایا جائے کسی عیسائی یا ہندو یا کسی اَور مذہب کے پیروکار کو کہ اسلام قبول کرنے سے اس کے سابقہ معیار سے بہت بڑھ کر خوبیاں حاصل ہوں گی۔ نیز کسی سابقہ نیک اور اچھی بات کو چھوڑنا نہیں پڑے گا۔ مثلاً ایک عیسائی اگر اسلام قبول کرتا ہے تو وہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام پر ایمان کے علاوہ بانیٔ اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر بھی ایمان لے آئے گا۔ گویا سابقہ سب نیک باتوں پر اضافہ ہی ہو گا، کوئی کمی ہر گز نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ سابقہ غلط باتوں کی تصحیح کے بعد صحیح عقائد پر مبنی مستحکم ایمان بھی نصیب ہوگا۔ یہ طریق نفسیاتی لحاظ سے بہت مؤ ثر ثابت ہوتا ہے اور حقیقت کے عین مطابق بھی ہے کہ اسلام سابقہ ادیان کی خوبیوں کو قائم رکھتے ہوئے ایک جامع، مکمل اور بہترین شریعت کا حامل ہے۔

انفرادی گفتگو میں بعض اور باتوں کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مخاطب کی بات اور اس کے سوال کو توجہ اور غور سے سننا ضروری ہے۔ اگر سوال پوری طرح سمجھ نہ آئے تو دوبارہ پوچھنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ مخاطب کو بھی بات کرنے کا پورا موقع دینا چاہیے اور اس کی بات پوری توجہ سے سننے کے بعد محبت سے اس کے سوال کا جواب دیا جائے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ اگر مخاطب کی بات کو توجہ سے سنا جائے تو وہ جواب کو بھی پوری توجہ سے سنتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح یہ طرز تبلیغی گفتگو میں خوشگوار ماحول پیدا کرتی ہے۔ علاوہ ازیں دوسرے شخص کے خیالات اور عقائد خواہ کچھ بھی ہوں ان کا واجبی لحاظ اور خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہر شخص کو اپنے خیالات سے ایک طبعی لگاؤ ہوتا ہے اس لیے عام طور پر جارحانہ طریق کی بجائے محبت و پیار اور نرمی سے بات کرنے کی تاثیر بہت زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔

تبلیغ کے سلسلہ میں میرا ایک اور معمول یہ بھی ہے کہ ملکی اخبارات پر نظر رکھتا ہوں اور جہاں کوئی ایسی بات نظر آئے جس میں اسلامی نقطۂ نظر سے لوگوں کی راہنمائی کی جا سکتی ہو۔ یا اگر اسلام کے بارےمیں کوئی غلط بات لکھی گئی ہو تو فوری طور پر بذریعہ خط اپنے خیالات کا اظہار کرنا تبلیغ کا ایک عمدہ ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ جاپان کے ایک اخبار میں ایک شخص کا خط چھپا جس میں اس نے یہ پوچھا تھا کہ کیا خدا پر یقین کرنے والے زیادہ خوش ہوتے ہیں یا یقین نہ کرنے والے؟ نیز یہ لکھا کہ میں خدا پر یقین رکھتا ہوں پھر بھی میری زندگی تلخیوں سے بھر پور کیوں ہے؟ خاکسار نے فوری طور پر اس کا جواب لکھا جو جاپان کے مشہور انگریزی اخبار THE JAPAN TIMES میں شائع ہو گیا۔ اسی طرح ایک اور اخبار میں یہ اعتراض نظر سے گزرا کہ اسلام نے عورتوں کے معاشرتی حقوق پامال کیے ہیں اور اب وہ اس قید سے آزادی حاصل کر رہی ہیں۔ اس موقع پر بھی میں نے ایک خط کے ذریعہ اسلام میں عورت کے بلند مقام کی وضاحت کی۔ الغرض ملکی اخبارات سے رابطہ اور ان میں بروقت خطوط اور مضامین کی اشاعت بھی تبلیغ کا ایک بہت عمدہ اور مفید ذریعہ ہے۔

جاپان آنے کے بعد مجھے جلد ہی دو ملکوں کے سفیروں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ آسٹریا کے سفیر سے ملاقات کی صورت اس طرح پیدا ہوئی کہ اخبار میں ان کی اہلیہ کا انٹرویو شائع ہوا جس میں یہ بھی ذکر تھا کہ سفیر موصوف اس سے قبل تین سال تک پاکستان میں آسٹریا کے سفیر رہ چکے ہیں۔ یہی بات ملاقات کی تمہید بن گئی۔ میں نے سفیر موصوف کو خط لکھا اور جلد ہی ملاقات کی تاریخ طے ہو گئی۔ ملاقات کے دوران قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا اور کافی دیر تک دلچسپ گفتگو ہوتی رہی۔ اسی طرح بعد ازاں اخبار میں ایک کتاب پر تبصرہ نظر سے گزرا۔ کتا ب کا نام تھا AFRICA SPEAKS۔ عنوان پڑھتے ہی دلچسپی ہوئی کہ یہ کونسی کتاب ہے؟ کیونکہ اسی نام کی کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے دورہ ٔ مغربی افریقہ ۱۹۷۰ء کے بعد شائع ہوئی تھی۔ زیرِ تبصرہ کتاب جاپان میں غانا کے سفیر محترم نے لکھی تھی۔ خاکسار نے فوری طور پر سفیر موصوف کو خط لکھا اور حضور کے دورہ سے متعلق کتاب کا بھی ذکر کیا۔ چنانچہ چند روز بعد جب ملاقات ہوئی تو خاکسار نے ان کی خدمت میں قرآنِ مجید کا تحفہ پیش کرنے کے علاوہ یہ کتاب بھی پیش کی۔ بعد میں پون گھنٹہ تک بڑے اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی۔

مقصد ان ہر دو واقعات کے ذکر سے یہ ہے کہ بعض اوقات ایک معمولی سا واقعہ ایک اچھی تبلیغی تقریب کی تمہید بن جاتا ہے۔ میرا ہمیشہ یہ اصول رہا ہے کہ ہر ایسے موقع سے فوری طور پر فائدہ اٹھایا جائے اور کسی موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔

تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت سے مواقع اور تقاریب پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ بڑی بھی اور چھوٹی بھی۔ تبلیغ کا ایک اصول اور میرا معمول یہ ہے کہ کسی بھی موقع کو خواہ وہ کتنا ہی معمولی یا غیر اہم ہی کیوں نہ نظر آئے، معمولی نہ خیال کیا جائے۔ نہ معلوم کونسی بظاہر معمولی سی بات ہی کسی سعید فطرت انسان کی ہدایت کا موجب بن جائے۔ بطور مثال یہاں اپنے ایک معمول کا ذکر کرتا ہوں جو بظاہر بہت ہی معمولی نظر آتا ہے لیکن میرے خیال میں اس کی حیثیت ایک چھوٹا سا بیج بونے کی مانند ہے جو ایک روز بڑھتے بڑھتے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تناور درخت بن جاتا ہے۔

جاپان میں مرد و عورت میں مساوات کے تصوّر کا ایک غلط نتیجہ یہ ہے کہ گاڑی میں سفر کے دوران مرد حضرات عام طور پر عورتوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ خالی نہیں کرتے البتہ یہ ضرور ہے کہ جب کوئی معمر یا ضرورت مند خاتون (یا مرد بھی) آ جائے تو پھر عام طور پر ان کے احترام میں جگہ خالی کر دی جاتی ہے۔ مجھے بھی بارہا ایسا کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ میرے مذہب کی تعلیم کے عین مطابق ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں کا اور ضرورت مندوں کا، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، سب کا احترام کیا جائے۔ میں جب بھی ایسے مواقع پر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے معمر یا معذور لوگوں کو بیٹھنے کی دعوت دیتا ہوں تو فوری طور پر جاپانی زبان میں یہ کہتا ہوں :

WATASHI NO SHKY WA, KORE O OSHIETE KUREMAS

یعنی ’’ میرا مذہب مجھے اس بات کی تعلیم دیتا ہے ‘‘ اکثر اوقات، بلکہ ہمیشہ ہی، میرا یہ فقرہ سن کر وہ فوراً پوچھتے ہیں کہ وہ مذہب کون سا ہے؟ اس طرح بغیر کسی سابقہ تعارف کے فوراً ہی گاڑی میں سفر کے دورا ن تبلیغ کا موقع مل جاتا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ بسا اوقات لمبی گفتگو کا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح اسلام کی تعلیم کا ایک پائیدار اور حسین تاثر دلوں میں قائم ہوتا ہوگا۔ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ۔

تبلیغ کے حوالے سے یہ چند اسلوب ہیں جو میں نے مختصراً بیان کیے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم سب کو اپنے فضل سے مقبول خدمتِ اسلام اور تبلیغ کی توفیق دیتا چلا جائے۔ آمین

نوٹ: یہ مضمون ۱۹۷۶ء کا لکھا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی افادیت آج بھی قائم ہے۔ فالحمد للہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button