قرآن و حدیث میں مذکور جنت کی نعماءکی حقیقت
جنت کی نعماء کے بارے میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ میں جو امور بیان ہوئے ہیں وہ سب تمثیلی کلام ہے اورصرف ہمیں سمجھانے کے لئے ان چیزوں کی دنیاوی اشیاء کے ساتھ مماثلت بیان کی گئی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ۔(الرعد:۳۶)یعنی اس جنت کی مثال جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے (یہ ہے)۔
پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔ (السجدہ:18)یعنی کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لئے ان کے اعمال کے بدلہ کے طور پر کیا کیا آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔
اسی طرح حضورﷺ نے فرمایا۔ يَقُولُ اللّٰهُ تَعَالَى أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ذُخْرًامِنْ بَلْهِ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزراہے۔ وہ نعمتیں ایسا ذخیرہ ہیں کہ ان کے مقابل پر جو نعمتیں تمہیں معلوم ہیں ان کا کیا ذکر۔…. ان نعمتوں کے مخفی رکھنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:خدا کے چھپانے میں بھی ایک عظمت ہوتی ہے اور خدا کا چھپانا ایسا ہے جیسے کہ جنت کی نسبت فرمایا فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ(کہ کوئی جی نہیں جانتا کہ کیسی کیسی قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے) در اصل چھپانے میں بھی ایک قسم کی عزت ہوتی ہے جیسے کھانا لایا جاتا ہے تو اس پر دسترخوان وغیرہ ہوتا ہے تو یہ ایک عزت کی علامت ہوتی ہے۔(البدر نمبر11، جلد1، مورخہ 9؍جنوری 1903ء صفحہ 86)
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۵۰
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۰؍مارچ ۲۰۲۳ء)