اداریہ

اداریہ: ’’اِک مردِ خدا پکارتا ہے‘‘

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

(ایک احمدی کیسے اپنی اصلاح کر کے دنیا سے ظلم مٹانے میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے؟)

مشرقِ وسطیٰ میں جاری اسرائیل حماس جنگ کو آج پندرہ ہفتے گزر چکے۔ فلسطین میں پچیس ہزار کے قریب جبکہ اسرائیل میں گیارہ سو سے کچھ زائد افراد اب تک لقمۂ اجل بن چکے۔ ساڑھے تین لاکھ سے زائد گھر یا رہائشی عمارتیں تباہ ہو چکیں۔ پونے چار سو کے قریب تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا، علاقے کے پینتیس میں سے تیس اسپتال بند ہو چکے، سوا سو کے قریب ایمبولینسز متأثر ہوئیں اور سوا دو سو کے قریب عبادتگاہیں ناقابلِ استعمال ہو چکیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق اسرائیل غزہ میں خوراک کے نظام کو نشانہ بناکر اسے بھی بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیل ابھی چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن ایک دوسرے سے برسرِ پیکار نظر آتے ہیں، مغربی کنارے میں الگ سے حالات کشیدگی اختیار کر کے پیچیدہ ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں پچانوے بچوں سمیت ساڑھے تین سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام، یونیسف اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)غزہ میں پھیلے قحط اور وبائی صورتحال پر قابو پانے کے لیے امدادی سرگرمیوں میں بہتری لانے کی اپیل کررہے ہیں۔

دوسری جانب بحیرۂ احمر اور خلیج عدن میں حوثی قبائل کی جانب سے مال بردار جہازوں پر حملے کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے حوثیوں پر میزائل حملے کیے گئے۔ حوثیوں کا کہنا ہے کہ مال بردار جہازوں پر حملہ کرنے کا مقصد غزہ میں جاری بمباری کو روکنا ہے جبکہ ان حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے خطے کی نگرانی میں غیرمعمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اس جنگ کے آغاز سے ہی یہ احتمال تھا کہ یہ پورے خطے میں نہ پھیل جائے جبکہ اب یہ آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ خدانخواستہ یہ جنگ تیسری عالمی جنگ کا ابتدائیہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ جنوری میں اسی خدشے کے پیشِ نظر دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ’’اسرائیل اب لبنان کی سرحد کے ساتھ بھی حزب اللہ کے خلاف محاذ کھول رہا ہے اور جس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اسی طرح امریکہ اور برطانیہ نے حوثی یمنی قبائل کے خلاف جو محاذ کھولا ہے یہ سب چیزیں جو ہیں یہ جنگ کو مزید وسیع کر رہی ہیں، پھیلا رہی ہیں اور اب تو بہت سارے لکھنے والوں نے لکھ دیا ہے اورلکھ رہے ہیں کہ عالمی جنگ کے آثار بڑے قریب نظر آ رہے ہیں۔ پس دعاؤں کی بہت ضرورت ہے اللہ تعالیٰ انسانیت کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔‘‘

جنوبی ایشیا کی طرف دیکھیں تو پاکستان، ایران کشیدگی حیرت انگیز ہے اور یورپ کی جانب نظر کریں تو رشیا، یوکرین جنگ بھی زور و شور سے جاری ہے۔ خبررساں ادارے روئٹرز (Reuters)کے مطابق ان حالات میں کسی نیٹو نمائندہ ملک پر متوقع حملے کےپیش نظر سرد جنگ (Cold war) کے دوران ۱۹۸۸ء کے آپریشن ریفورجر (Reforger)سے اب تک ہونے والی نیٹوفورسز کی سب سے بڑی فوجی مشقیں جنہیں آپریشن سٹیڈفاسٹ ڈیفینڈر۲۰۲۴ء(Operation Steadfast Defender2024) کا نام دیا گیا ہے جرمنی، پولینڈ اور بالٹک اسٹیٹس میں اس ہفتے شروع ہو کر مئی تک جاری رہیں گی۔ ان مشقوں کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر یورپ کی حفاظت کے لیے جنوبی امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک سے عسکری دستے انتہائی سبک رفتاری سے موقعہ پر پہنچنے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ان مشقوں میں پچاس سے زائد بحری جنگی جہاز، اسّی سے زائد ہوائی جنگی جہاز، ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز اور گیارہ سو سے زائد ٹینک و دیگر جنگی گاڑیاں (combat vehicles)حصہ لیں گی۔ نیٹو ممالک کے نوّے ہزار فوجی ان مشقوں میں شامل ہوں گے۔

الغرض اس وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انتباہ کی عملی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے نظر آرہی ہے کہ ’’اے یورپ! تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا! تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۶۸تا۲۶۹)

لیکن جہاں اللہ تعالیٰ کے مامور نے دنیا کو تباہی کا عندیہ دیا وہاں ان کے پاس اس تباہی سے بچنے کا راستہ بھی موجود تھا کہ ؎موجود اِک ہم میں مردِ خدا ہے۔ حال ہی میں موجودہ عالمی صورتِ حال میں مظلوم کی دادرسی اور دنیا میں پائیدار قیامِ امن کی بابت ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے قدرتِ ثانیہ کے پانچویں مظہر حضرت مرزا مسرور احمد ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’اس کا آخری علاج تو یہی ہے کہ دنیا میں اسلام کی حکومت قائم ہو، انصاف پسند مسلمانوں کی حکومت قائم ہو اور وہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے اور اس کے لیے ہمارا کام ہے کہ ہم تبلیغ کریں اور جس حد تک پیغام پہنچا سکتے ہیںپیغام پہنچائیں۔‘‘

نیز اس کی مزید وضاحت کچھ ان الفاظ میں فرمائی: ’’امن تواسی وقت قائم ہو گا جب اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلائے اور اکثریت اس میں شامل ہو جائے گی۔ اس کے لیے ہمیں اپنی کوشش کرتے رہنا چاہیے، دعاؤں سے بھی اور کوشش سے بھی۔یہی ایک حل ہے اس کے علاوہ اَور کوئی حل نہیں۔ جب تک اس حل کا نتیجہ سامنے نہیں آتا، اس وقت تک مظلوم اسی طرح پستے چلے جائیں گے۔‘‘ (روزنامہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍ جنوری ۲۰۲۴ء صفحہ ۳ اور۷)

حضورِ انور کے ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں مظلوم کو ظلم سے بچانے کے لیے ہم میں سے ہر ایک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ کر کے مؤثر کردارادا کرسکتا ہے ؎

خدا کے لیے مردِ میداں بنو تم

کہ اسلام چاروں طرف سے گھرا ہے

تبلیغ کے بھی کئی ذرائع ہیں؛ کسی سے گفتگو کر کے تبلیغ کی جا سکتی ہے اور کسی کو لٹریچر پیش کر کے، کسی کو مختلف جماعتی تقریبات میں مدعو کر کے اسے جماعت کا تعارف کروایا جا سکتا ہے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا وغیرہ پر تبلیغ کی الگ ہی دنیا ہے لیکن مؤثر تبلیغ کا بہترین نقطۂ آغاز دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر پختہ یقین کے سوا کچھ نہیں۔ اگر ہم غور کریں تو کیا ہی خوبصورت یہ حقیقت ہے کہ ہر احمدی کا نمازیں پڑھنا، ہمارا اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور خلیفۂ وقت کی اطاعت کرنا، ہمارا اپنی ذات کی اصلاح کرنا، ہمارا گناہوں سے بچنا، ہمارا تقویٰ میں بڑھنا، ہمارا احکاماتِ الٰہیہ پر عمل کرنا، ہمارا معاشرے کا ایک اچھا فرد بننا جہاں ہماری ذات کے لیے فائدہ مند ہو گا وہاں دنیا کے دُور دراز خطوں میں بسنے والے مظلوموں کو ظلم سے نجات حاصل کرنے میں سبک رفتار سے نہ بھی سہی لیکن مؤثر کردار ضرور ادا کرے گا۔ الغرض جس قدر ظالم کا ظلم دیکھ کر طبیعت بوجھل ہو گی اسی قدر دعاؤںسے روحانیت اور اخلاقیات میں ترقی کی طرف توجہ پیدا کر کے روح کی تسکین کا سامان کیا جائے گا؎

عدو جب بڑھ گیا شوروفغاں میں

نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو دینِ کامل پر پختہ ایمان نصیب فرمائے تاکہ اس کی ذات اسلام کی سچائی کی تصویر اور چلتی پھرتی تبلیغ بن کر آبادی کی اکثریت کو اسلام کی آغوش میں لانے کا وسیلہ بنے اور دنیا حقیقی امن کا گہوارہ ہو۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button