متفرق مضامین

ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل کے متعلق قرآن کریم کی حیرت انگیز پیشگوئی: وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حال ہی میں اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ ۲۲؍ستمبر۲۰۲۳ء بمقام مسجدمبارک ٹلفورڈ، اسلام آباد، یوکے، میں احباب جماعت کو قرآن کریم کی صداقت کی طرف توجہ کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’بعض نوجوان اور جوانی میں قدم رکھنے والے بچے بھی پوچھتے ہیں…کہ ہمیں کس طرح پتہ چلے کہ اسلام سچا مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سچے نبی ہیں، باقی نہیں؟

یہاں کے ماحول نے ان پر یہ اثر ڈالنا شروع کر دیا ہےکہ ان کو اسلام کی سچائی کے بارے میں شک پڑنا شروع ہوگیا ہے… والدین خود بھی قرآن کریم پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی یہ پیشگوئیاں دکھائیں کہ کس طرح یہ اسلام کی سچائی پر ایک دلیل ہیں۔ اسلام کی سچائی کے ثبوت تو ہزاروں ہیں۔ پس والدین کو بھی اورنوجوانوں کو بھی اپنے علم کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔صرف سوال کر دینا کافی نہیں ہے۔اگر سوال کرنا ہے تو خود علم حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اسی طرح جو ہماری تنظیمیں ہیں، ان کو بھی اس بارے میں بھی ان کو علم دینا چاہیے۔‘‘

قرآن حکیم کے کتاب الٰہی ہونے کے دلائل میں سے ایک اس کی آئندہ زمانے کے متعلق پیشگوئیاں ہیں کیونکہ مستقبل کا علم انسانی احاطۂ سوچ سے باہر ہے اور کوئی بھی انسان آئندہ رونما ہونے والے حالات کا علم نہیں دے سکتا ہاں اللہ تعالیٰ جسے منتخب کر کے یہ علم دینا چاہے تو وہ دے سکتا ہے اور وہ دیتا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے:عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُعَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا۔ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ (الجن: ۲۷-۲۸) یعنی وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔بجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔ اپنے اسی فرمان کے مطابق اُس نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو غیب کی خبروں سے نوازا جن میں ماضی کی خبریں بھی ہیں اور مستقبل کا احوال بھی ہے۔ ماضی کے متعلق تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ خبریں کسی ذریعے سے معلوم کرلی ہوں گی (حالانکہ یہ محض ایک اعتراض ہے) لیکن مستقبل کی خبروں کے متعلق تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی ذریعہ سے معلوم کر لی ہوں گی خاص طور پر اُس زمانے میں جبکہ ابھی سائنسی علوم کا آغاز بھی نہ ہوا تھا اور عرب قوم ویسے بھی اُمّی کہلاتی تھی یعنی اَن پڑھ۔ پس ایسے زمانے اور ایسے معاشرے میں آئندہ زمانے کے عالمی تغیرات کے متعلق پیشگوئی کرنا محض اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ علم سے ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم کی ایسی پیشگوئیوں میں سے ایک وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر:۵) کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے یعنی اور جب دس ماہ کی گابھن اُونٹنیاں بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کے حل لغات میں لکھتے ہیں:’’ عِشَارٌ: عُشَرَاءُ کی جمع ہے … عِشَار اُن اونٹنیوں کو کہتے ہیں جن کے حمل پر دس مہینے گذر جائیں یا آٹھ مہینے گذر جائیں۔ اکثر لوگوں کے نزدیک عِشَار انہی اونٹنیوں کو کہتے ہیں جن کے حمل پر دس مہینے گذر جائیں مگر بعض نے کہا ہے کہ جن کے حمل پر آٹھ مہینے گذر جائیں ان کو بھی عِشَارکہتے ہیں۔ (اقرب) … اُن اونٹنیوں کے گلّہ کو بھی عِشَارکہتے ہیں جن میں سے بعض بچہ جَن چکی ہوں اور بعض کا بچہ قریب میں ہونے والا ہو۔ (اقرب) …

عُطِّلَتْ: عَطَّلَ سے مجہول کا مؤنث کا صیغہ ہے اور عَطَّلَ الإبلَ کے معنے ہوتے ہیں خَلَّاہُ بِلَا رَاعٍ یعنی بغیر گلہ بان اور چرواہے کے اُونٹ کو چھوڑ دیا۔ و کُلّ مَا تُرِک ضِیَاعًا فَقَد عُطِّلَ۔ اور ہر وہ چیز جسے یونہی ضائع ہونے کے لئے چھوڑ دیا جائے اس کے لیے عَطَّلَ کا لفظ آتا ہے۔ (اقرب) پس وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ کے معنے یہ ہوئے (۱) جبکہ دس ماہ کی گابھن اونٹنیوں کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا یعنی خواہ وہ مریں یا جئیں اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھا جائے گا۔ (۲) ایسی اونٹنیوں کے گلّوں کو جن میں سے بعض بچہ دے چکی ہوں اور بعض ابھی بچہ دینے والی ہوں چھوڑ دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں، یہ چاہے مریں یا رہیں ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ ۲۰۵، ۲۰۶۔ تفسیر سورۃ التکویرآیت نمبر ۵)

گو کہ سورۃ التکویر کی ابتدائی آیات میں قیامت کے متعلق دیگر علامات کا بھی ذکر ہے لیکن اونٹنیوں کے بیکار چھوڑے جانے کی علامت خاص طور پر عرب کا حال بیان کرتی ہے کیونکہ عربوں کے نزدیک اونٹ سب سے زیادہ قیمتی اور باعث افتخار چیز تھی، علامہ الرازی کہتے ہیں: وليس شيء أحب إلى العرب من النوق الحوامل کہ عربوں کو حاملہ اونٹنیوں سے زیادہ اور کوئی چیز عزیز نہیں۔ علامہ البقاعی کہتے ہیں: وهي أحب أموال العرب إليهم وأنفسها عندهم لأنها تجمع اللحم والظهر واللبن والوبرکہ یہ عربوں کے نزدیک پسندیدہ اور نفیس ترین اموال میں سے تھیں کیونکہ ان میں گوشت، سواری، دودھ اور اُون سب میسر تھیں۔ علامہ الطنطاوی بیان کرتے ہیں: وكان يحافظون عليها حتى فى أشد حالات الخوف یعنی وہ ان کی بہت زیادہ حفاظت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ شدید ترین خوف کے حالات میں بھی۔ احادیث سے بھی علم ہوتا ہے کہ عربوں کے نزدیک سب سے قیمتی انعام اور تحفہ اونٹ ہی تھا، آنحضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو فرمایا: ’’فَوَاللّٰہِ لأَنْ يَهْدِيَ اللّٰہُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ ‘‘ (ترجمہ: خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کا تیرے ذریعہ کسی ایک شخص کو ہدایت دینا تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔ )(بخاری کتاب المغازی باب (۳۸)باب غَزْوَةُ خَيْبَرَ)

آنحضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ہجرت مدینہ کے موقع پر کفار نے دونوں کو قتل کرنے یا قیدی بنانے کی صورت میں بھی ’’دِیۃ کلّ واحدٍ مِنھما ….. أی مائۃ من الابل‘‘ یعنی ایک سو اونٹوں کے انعام کا لالچ دیا تھا۔ (فتح الباری شرح بخاری کتاب مناقب الأنصار باب ھجرۃ النبیﷺ و أصحابہ الی المدینۃ) دولت عثمانیہ میں متعین رہے امریکی سفیر

George Perkins Marsh (1801 – 1882)

اپنی ایک کتاب میں عربوں کے نزدیک حاملہ اونٹنی کو اپنے بیٹے سے مشابہت دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

The Bedouin regards the foaling of a camel with much the same feelings as Sterne‘s Obadiah greeted the advent of his calf. “Lo! Another child is born to us,”

(The Camel: His Organization, Habits and Uses by George P. Marsh – Boston Gould and Lincoln, 1856)

پس ایسی قیمتی اور عزیز ترین متاع کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ قرب قیامت میں یہ قیمتی مال و متاع بھی بیکار خیال کیا جائے گا اور اسے متروک چھوڑ دیا جائے گا۔

ایک اور بات بھی بیان کر دینا ضروری ہے کہ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان آیات میں جن علامات کا ذکر ہے وہ قیامت کو ہی ظاہر ہوں گی، اِس دنیا میں ان علامات کا ظہور ماننا درست نہیں۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ خود مفسرین نے ان آیات کو قیامت کے قریب اسی دنیا میں واقع ہونا ممکن بتلایا ہے اور ان علامات کو اشراط الساعۃ یعنی قیامت کی نشانیاں قرار دیا ہے، طوالت سے بچتے ہوئے صرف تین صحابہ رسولؐ سے مروی تفاسیر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ وعن ابن عباس قال: هي اثنتا عشرة خصلة ستة في الدنيا، وستة في الآخرة،یعنی حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہاں بارہ باتوں کا ذکر ہے جن میں سے چھ اس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں اور چھ آخرت کے ساتھ۔(تفسير لباب التأويل في معاني التنزيل/ الخازن (المتوفّی ۷۲۵ہ) سورۃ التکویر:۶) وقال أبيّ بن كعب: ست آيات من قَبْل يوم القيامة: حضرت ابّی بن کعب کہتے ہیں کہ چھ نشانیاں قیامت سے پہلے ہی ہیں۔ (تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي (المتوفّی ۶۷۱ه) سورۃ التکویر: ۶) عن أبي العالية رضي اللّٰه عنه قال: ست آيات من هذه السورة في الدنيا والناس ينظرون إليه، وست في الآخرة (تفسير الدر المنثور في التفسير بالمأثور/ السيوطي ( المتوفّی ۹۱۱ھ)حضرت ابو عالیہؓ کہتے ہیں کہ اس سورت میں سے چھ علامات اسی دنیا میں پوری ہوں گی جبکہ لوگ اس کو دیکھ رہے ہوں گے اور باقی چھ آخرت میں پوری ہوں گی۔ علاوہ ازیں اونٹوں کے معطل اور متروک ہونے کی علامت حدیث میں قیامت سے پہلے مسیح موعود کی آمد کے طور پر بیان ہوئی ہے چنانچہ صحیح مسلم کی مشہور روایت ہے کہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى اللّٰه عليه وسلم وَاللّٰہِ لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلاً فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نمبر (۷۱)باب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صلى اللّٰه عليه وسلم) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! ضرور ابن مریم حکم و عدل کے طور پر نازل ہوں گے، صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ روک دیں گے۔ اور اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی اور اُن پر سواری نہیں کی جائے گی۔ پس اس حدیث سے بھی اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ یہ مذکور علامات قیامت سے پہلے اسی دنیا میں ظاہر ہوں گی۔

(آسٹریلیا میں ریلوے لائن کا سامان لادے ہوئے اونٹ۔ تصویر بشکریہ www.abc.net.au)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسی ضمن میں ایک اور نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’عشار حملدار اُونٹنی کو کہتے ہیں جو عربوں کی نگاہ میں بہت عزیز ہے اور ظاہر ہے کہ قیامت سے اِس آیت کو کچھ بھی تعلق نہیں کیونکہ قیامت ایسی جگہ نہیں جس میں اُونٹ اُونٹنی کو ملے اور حمل ٹھہرے…اور حملدار ہونے کی اِس لئے قید لگا دی کہ تا یہ قید دنیا کے واقعہ پر قرینہ قویہ ہو اور آخرت کی طرف ذرہ بھی وہم نہ جائے … (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۱۸)بہرکیف فی زمانہ ان علامات کا واقعاتی طور پر پورا ہونا ظاہر ہوچکا ہے اور ان آیات میں بیان شدہ ہر علامت قرآن کریم کی صداقت کو عیاں کر رہی ہے۔

صدیوں سے انسان جانوروں کو بوجھ اٹھانے اور سواری کے طور پر استعمال کرتا چلا آ رہا ہے اسی لحاظ سے ان جانوروں کو beasts of burden کہا جاتا ہے جن میں گھوڑا، اونٹ، خچر، گدھا اور بیل وغیرہ شامل ہیں لیکن عرب لوگوں میں اونٹ کی خاص اہمیت رہی ہے کیونکہ عرب کا اکثر حصہ صحرا پر مشتمل ہے اور اس صحرائی علاقے میں اونٹ کا متبادل اور کوئی جانور نہیں اسی وجہ سے اس کو ship of the desert کہا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عرب لوگ اونٹ کو ایک قیمتی اور باعث عزت مال گردانتے تھے۔ اس آیت میں سر زمین عرب کے اسی قیمتی اور مفید جانور کے بیکار ہوجانے اور متروک کر دیے جانے کی خبر دی گئی ہے اور یہ خبر موجودہ دور میں بعینہٖ پوری ہو چکی ہےاور اونٹنیوں کا معطل ہونا موجودہ زمانے میں ظاہر و باہر ہوچکا ہے۔ پچھلی چند صدیوں میں نت نئی ایجادات نے دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا ہے انہی ایجادات میں سے ایک اہم ایجاد دخانی انجن (steam engine)بھی ہے جس کے منظر عام پر آنے سے دنیا نے سالوں کا سفر دنوں میں طے کرنا شروع کیا۔ انیسویں صدی میں یورپ میں ریلوے انجن (locomotive) کی آمد کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں ریلوے لائنوں کا جال بچھنے لگا اور لوگ رفتہ رفتہ جانوروں کی سواری سے نکل کر اس تیز رفتار سواری کی آسانیوں سے فائدہ اٹھانے لگے۔ گو کہ ریلوے لائن کا جال بچھنے سے ہی قرآنی بیان وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ کی تکمیل واضح ہو رہی تھی لیکن ساتھ ہی کچھ ایسے حالات رونما ہوئے جن سے بظاہر قرآنی پیشگوئی کے اُلٹ مناظر دکھائی دینے لگے یعنی اونٹوں کو معطل اور بیکار چھوڑے جانے کی بجائے الٹا ان کی مانگ بڑھنے لگی۔ انیسویں صدی کے وسط میں ہی آسٹریلیا کی حکومت نے ملک کے اندرونی علاقوں کی تلاش اور شمال کو جنوب سے زمینی راستوں کے ذریعہ ملانے کے لیے ایک Victorian Exploration Expedition Committee تشکیل دی جس نے اس کام کو بخوبی سرانجام دینے کے لیے اونٹ بہترین وسیلہ قرار دیا اور اونٹوں کی کھیپ آسٹریلیا لانے کے منصوبے بنائے گئے۔ چنانچہ ۱۸۶۰ء میں ۲۴؍ اونٹ کراچی کی بندرگاہ سے درآمد کیے گئے، اونٹوں سے کام لینے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی کہ محض اونٹوں کا منگوانا بے فائدہ ہوگا جب تک کہ ان کے ساتھ شتربانوں کو بھی نہ لایا جائے چنانچہ کئی شتربان (cameleers)بھی بلائے گئے۔ پہلی کھیپ کے بعد مختلف مراحل میں مزید اونٹ بھی درآمد کیے گئے، ایک رپورٹ کے مطابق ۱۸۷۰ء سے ۱۹۰۰ء تک قریباً ۱۵۰۰۰ اونٹ آسٹریلیا درآمد کیے گئے۔

یہ تو دنیا کے ایک کونے کی کہانی ہے، دوسری طرف اُسی زمانے میں امریکہ کے جنوب مغربی حصے میں بھی اونٹ کے استعمال کے حق میں بڑی زوردار آوازیں اٹھیں جو کہ مخالفت اور موافقت کے ملے جلے رجحان سے دیکھی گئیں گوکہ مخالفانہ رجحان غالب رہا۔ قصہ مختصر ایک خطیر رقم کے ساتھ امریکہ میں اونٹ درآمد کیے گئےجن میں اونٹوں کی دونوں قسمیں عربی(dromedary)اور دوسری بختیاری (bactrian camel)شامل تھیں۔ امریکہ میں اونٹوں کے استعمال کے حق میں بولنے والوں میں Major G. H. Crosman, Major Henry C. Wayne, Jefferson David, E F Beale کے نام خاص طور پر ملتے ہیں۔ اس حوالے سے ۱۹۲۹ء میں چھپنے والی ہارورڈ یونیورسٹی پریس کی کتاب Uncle Sam‘s Camels مفید ہے۔

پھر اُسی دور میں کینیڈا میں بھی اونٹوں کا تجربہ کیا گیا، شدید سرد علاقہ ہونے کے لحاظ سے دو کوہانوں والے ۲۳ اونٹ منگوائے گئے۔ یہ تجربہ کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں کیا گیا جو کہ کامیاب نہ ہونے کی وجہ سے ترک کرنا پڑا۔ برٹش کولمبیا صوبے میں بہنے والے Fraser River پر بنائے گئے ایک پُل کو اسی کی یاد میں Bridge of the Twenty-Three Camels کا نام دیا گیا ہے۔

بہرحال شرق و غرب میں اونٹوں کی اس مانگ سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ اُس وقت حالات قرآنی بیان کے مخالف سمت جا رہے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اونٹوں کی یہ درآمدگی بالآخر اونٹوں کے بیکار ہونے پر ہی منتج ہوئی۔ آسٹریلیا میں انہی اونٹوں کو ریلوے لائن کے نیچے بچھائے جانے والے لکڑی کے گارڈر کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا گیا، ریلوے لائن تیار ہونے پر یہ اونٹ بیکار ہوگئے اور آہستہ آہستہ ان کو بے ضرورت سمجھا جانے لگا نتیجۃً ان کو جنگل میں آوارہ چھوڑ دیا گیا جہاں ان کی تعداد دن بدن بڑھتی گئی اور آج کئی ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔ BBC کی ایک رپورٹ کے بقول their numbers have balloonedیعنی ان کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ آسٹریلیا میں اونٹ پالتو (domestic)جانور سے جنگلی(feral) جانور بن گیا اور عربی محاورہ عُطِّلَتِ الإبِلُ: تُرِکَتْ بِلا راعٍ حقیقی معنوں میں پورا ہوگیا یعنی اونٹ فی الحقیقت بغیر چرواہے کے ہوگیا۔

پس آسٹریلیا میں اونٹوں کے حال پر لفظ عُطِّلت کا اطلاق واقعۃً ثابت ہو چکا ہے اور وكل شيءٍ خلا من حافظٍ فقد عُطِّل. (مقاییس اللغۃ) کانظارہ آپ ان پر بنائی جانے والی documentaries میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔

پھر خاص سر زمین عرب میں بھی اونٹوں کا معطل ہونا واضح ہو چکا ہے اور بموجب حدیث مسلم اونٹوں کا بیکاریا معطل ہونا خاص طور پر اُن پر سواری کے حوالے سے ہے جیسا کہ فرمایا وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلَاصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا یعنی اونٹ چھوڑ دیے جائیں گے اور اُن پر سواری نہیں کی جائے گی اسی وجہ سے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: وإذا عطلت عشار الأرجل المنتفع بها في السير عن الاستعمال في المشي وترك الانتفاع بها۔ (تفسير القرآن / ابن عربي (المتوفّی ۶۳۸ه) سورۃ التکویر آیت ۴۔ وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ) یعنی جب ٹانگوں والی گابھن اونٹنیاں جن سے کہ سفر میں فائدہ اٹھایا جاتا ہے، کا استعمال چلنے پھرنے میں چھوڑ دیا جائے گا۔ پس ابن عربی نے بھی اونٹنیوں کا بیکار چھوڑے جانا خاص طور پر سفروں وغیرہ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ امام نوویؒ نے شرح مسلم میں لکھا ہے : ’’و معناہُ: أن یُزھد فیھا و لا یُرغب فی اقتنائھا لکثرۃ الأموال، و قلۃ الآمال، و عدم الحاجۃ، و العلم بقرب القیامۃ، و إِنما ذکرت القلاص لکونھا أشرف الإِبل التی ھی أنفس الأموال عند العرب، وھو شبیہ بمعنی قول اللہ عزّ و جلّ { وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ } (شرح صحیح مسلم لامام النووی۔ کتاب الایمان باب نمبر ۷۱ – باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکمًا بشریعۃ نبینا محمد ﷺ) یعنی اس کا مطلب ہے کہ ان (اونٹوں) میں بے رغبتی دکھائی جائے گی اور کثرت اموال کی وجہ سے اور ان کی عدم حاجت کی وجہ سے ان کو حاصل کرنے میں کوئی شوق نہیں رہے گا۔ اور اس نشانی میں قرب قیامت کا علم ہے … اور یہ حدیث فرمانِ الٰہی کے بالکل مشابہ ہے جہاں فرمایا وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ۔

آسٹریلیا میں جنگلی اونٹوں کا ایک ہجوم۔ تصویر بشکریہ : www.pewtrusts.org

اہل حدیث عالم پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری حدیث وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’جوان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا، اور ان سے محنت و مشقت نہیں لی جائے گی (دوسرے وسائل میسر آنے کی وجہ سے ان کی محنت کی ضرورت نہ ہو گی)‘‘ (صحیح مسلم مترجم پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری۔ کتاب الایمان باب نمبر ۷۱۔ مکتبہ دار السلام سعودی عرب) ’’دوسرے وسائل میسر آنے کی وجہ سے ان کی محنت کی ضرورت نہ ہوگی‘‘ کے الفاظ واضح طور پر اس حدیث کے پورا ہونے کا اعلان کر رہے ہیں کیونکہ وہ کام جو اونٹوں سے لیا جاتا تھا وہ اب جدید اور تیز رفتار وسائل کے میسر آ جانے کی وجہ سے ان سےنہیں لیا جا رہا۔ مشہور سعودی عالم محمد بن صالح العُثيمين (المتوفّی ۲۰۰۱ء) نے شک میں رہنے والوں کے لیے ان وسائل کا بھی ذکر کر دیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں: ’’(لتتركن القلاص فلا يسعى عليها) هذا أيضًا من آيات الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم، القلاص يعني الإبل تترك فلا يسعى عليها، وإذا طبقنا هذا على وقتنا الحاضر وجدنا أنه مطابق، فالقلاص الآن مهجورة والسير على الفلك البري والبحري والجوي.‘‘ یعنی یہ (حدیث) بھی آنحضور ﷺ کے معجزات میں سے ہے کیونکہ القلاص اونٹوں کو کہتے ہیں جو کہ چھوڑ دیے جائیں گے اور ان پر سواری نہیں کی جائے گی۔ اگر اس بیان کو ہم اپنے اس زمانے پر منطبق کر کے دیکھیں تو اس کو عین مطابق پائیں گے کیونکہ اونٹ اب ترک کر دیے گئےہیں اور سفر زمینی (موٹروں)، بحری اور ہوائی (جہازوں) پر ہو رہا ہے۔

(https://alathar.net/home/esound/index.php?op=codevi&coid=105110)(8/11/2023)

پھر خود عربوں کے اقبالی بیانات بھی ملاحظہ کریں۔ سعودی آئل کمپنی Saudi Aramco کا ترجمان رسالہ Aramco World اپنے ایک مضمون The Camel in Retrospect میں لکھتا ہے:

Though there are still herds to be seen, the era of the great camel caravans has passed, and throughout the Arabian Peninsula the effects, to those who notice, are evident: untended desert wells and abandoned caravan routes. Soon, hundreds of centuries of tradition will have vanished.

Today, to be sure, camels are still raised for food – milk and meat – and for racing, but rarely for transport; camels cannot compete with the cross-peninsula Boeings, fast freight trains and trailer trucks…

(Aramco World Magazine, March/April 1981 page 43)

ترجمہ: گوکہ اونٹوں کے گلے ابھی بھی دیکھے جاسکتے ہیں لیکن اونٹوں کے عظیم قافلوں کا دور اب گذر چکا ہےاور دیکھنے والوں کے لیےپورے جزیرہ عرب میں اس کے آثار بغیر دیکھ بھال کے صحرائی کنویں اور کاروانوں کے متروک راستوں کی شکل میں واضح ہوچکے ہیں۔ بہت جلد سینکڑوں صدیوں پرانی روایت ختم ہو جائے گی۔ بےشک آج بھی اونٹ خوراک، دودھ اور گوشت کے لیے اور اونٹوں کی دوڑ کے لیے بھی پالے جاتے ہیں لیکن نقل و حمل کے لیے شاذ و نادر ہی۔ اونٹ جزیرہ پار کرنے والے بوئنگ، تیز مال بردار ٹرینوں اور ٹریلر ٹرکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ….

اسی طرح سعودی عرب کا مشہور انگریزی اخبار Arab News لکھتا ہے:

“The ship of the desert has been replaced by Cadillacs and Caprices…”

(https://www.arabnews.com/node/264875 )

یعنی صحرائی جہاز کی جگہ اب Cadillacs اور Caprices گاڑیوں نے لے لی ہے۔

پس قرآن کریم اور حدیث نبویؐ دونوں میں مذکور یہ پیشگوئی حیرت انگیز طور پر پوری ہوچکی ہےلیکن افسوس یہ ہے کہ صحیح مسلم کی اس پیشگوئی کا پورا ہونا تو تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن اس مسیح موعود کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کے حق میں آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی بیان فرمائی تھی۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مسلم … نے آخری زمانہ کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے ایک نئی سواری کا ذکر کر کے یہ کہا لَیُتْرَكَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا اور قرآن شریف نے اسی مضمون کو عبارت ذیل میں بیان فرما کر اور بھی صراحت کر دی کہوَاِذَاالۡعِشَارُعُطِّلَتۡ (التكوير:۵)۔قرآن و حدیث کا تطابق اور پھر عملی رنگ میں اس دور دراز زمانہ میں جبکہ ان پیشگوئیوں کو تیرہ سو برس سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے ان کا پورا ہونا ایمان کو کیسا تازہ اور مضبوط کرتا ہے … پس جب یہ پیشگوئی جو آثارِ قربِ قیامت اور مسیح موعودؑ کی آمد کے نشانات میں سے ایک زبردست اور اقتداری پیشگوئی ہے، پوری ہو رہی ہے تو ایمان لانا چاہیے کہ مسیح موعود بھی موجود ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۴۹۲-۴۹۳، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

بعض لوگ اس حقیقت کو ماننے سے بچنے کے لیے اس حدیث کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا سے مراد ہے کہ اونٹوں کی زکوٰۃ نہیں لی جائے گی کیونکہ اُس وقت (دیگر روایات کے مطابق) زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ حدیث کی یہ تشریح قاضی عیاض وغیرہ سے اخذ کی گئی ہے لیکن امام نوویؒ نے اپنی شرح مسلم میں اس کو ’’تاویل باطل‘‘ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ و قال القاضی عیاض و صاحب المطالع رحمھما اللّٰہ: معنی لا یسعیٰ علیھا أی لا تُطلب زکاتُھا، إِذ لا یُوجد من یقبلھا، و ھذا تأویل باطل من وجوہ کثیرۃ تفھم من ھذا الحدیث وغیرہ، بل إِن الصواب ما قدمناہ و اللّٰہ أعلم۔(شرح صحیح مسلم لامام النووی۔ کتاب الایمان باب نمبر 71 – باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکمًا بشریعۃ نبینا محمد ﷺ) یعنی قاضی عیاض اور صاحب المطالع نے لکھا ہے کہ لا یسعیٰ علیھا کا مطلب ہے کہ ان کی زکوٰۃ نہیں طلب کی جائے گی کیونکہ اُس وقت زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ لیکن یہ تاویل کئی وجوہ سے باطل ہے جو کہ اس حدیث سے بھی اور دیگر احادیث سے بھی سمجھی جا سکتی ہے۔

پس ان حیلوں اور بہانوں سے حقائق کو دبایا نہیں جا سکتا خاص طور پر اِس دور میں جبکہ واقعات نے ان پیشگوئیوں کی حقیقت واضح کر دی ہے۔

آیت وَاِذَاالۡعِشَارُعُطِّلَتۡ سے اگلی آیت ہے وَإِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ یعنی جب وحشی جانور اکٹھے کیے جائیں گے۔ عربوں نے مال کی فراوانی میں جہاں ایک پالتو جانور یعنی اونٹ کو متروک کر دیا ہے وہاں جنگلی اور وحشی جانوروں کو اکٹھا کرنے اور پالنے کا شوق پیدا کر لیا ہے یعنی پہلے اونٹ عرب میں مالدار شخص کا status symbol تھا لیکن آج وہ متروک ہوکر وحشی جانور کے جمع کرنے نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ مشہور عربی میڈیا چینل العربیہ (Al Arabiya) اپنی انگریزی ویب سائٹ پر عرب ممالک میں جنگلی جانوروں کے بطور pet رکھنے کے رجحان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

The trend of owning lions, chimps, cheetahs, and other endangered primates and showcasing them on social media as a “status symbol” is fueling a growth in the GCC‘s illegal animal trafficking trade, according to experts.

(https://english.alarabiya.net/News/gulf/2022/08/23/Cheetahs-to-chimps-Trafficked-wildlife-a-growing-status-symbol-in-GCC-experts-say )

اسی طرح CNN اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے:

Ownership of exotic pets has long been considered a status symbol across the Gulf country. Wealthy owners… often post pictures on social media flaunting their exotic animal collection.

https://www.cnn.com/2017/01/10/middleeast/exotic-pets-uae-ban/index.html

پس ایک پالتو جانور کو گھر سے نکالنا اور وحشی جانور کو گھر میں پالنا زمانہ ٔجدید کی ایک تعجب انگیز حقیقت ہے لیکن اس سے بھی تعجب انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ سب باتیں بطور پیشگوئی ایک عرصہ سے قرآن کریم میں موجود ہیں جب کہ ان باتوں کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یقیناً عقل رکھنے والوں کے لیے صداقتِ رسول ﷺ اور حقانیتِ قرآن کی یہ ایک بھاری دلیل ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یاد رہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچائی کے لئے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے کہ آپ نے تیرہ سو برس پہلے ایک نئی سواری کی خبر دی ہے اور اس خبر کو قرآن شریف اور حدیث صحیح دونوں مل کر پیش کرتے ہیں۔ اگر قرآن شریف خدا کا کلام نہ ہوتا تو انسانی طاقت میں یہ بات ہرگز داخل نہ تھی کہ ایسی پیشگوئی کی جاتی کہ جس چیز کا وجود ہی ابھی دنیا میں نہ تھا اُس کے ظہور کا حال بتایا جاتا جبکہ خدا کو منظور تھا کہ اِس پیشگوئی کو ظہور میں لاوے تب اُس نے ایک انسان کے دل میں یہ خیال ڈال دیا کہ وہ ایسی سواری ایجاد کرے کہ جو آگ کے ذریعہ سے ہزاروں کوسوں تک پہنچادے۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۲۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button