حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکین مجلس انصار اللہ فرانس کی (آن لائن) ملاقات

مورخہ۵؍جنوری۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصارالله فرانس کے ۱۵۰؍ اراکین پر مشتمل ایک گروپ کی آن لائن ملاقات منعقد ہوئی۔ حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز سے رونق بخشی جبکہ اراکین مجلس انصار الله نے فرانس کے دارالحکومت پیرس کے علاقہSaint- Prix میں واقع مسجد مبارک سے آن لائن شرکت کی۔ اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآنِ کریم و ترجمہ سے ہوا۔

ملاقات کے شروع میں حضورِانور نے صدر صاحب مجلس انصاراللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے دریافت فرمایا کہ کیا آپ ہندوستان سے ہیں؟ جس پر انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ موصوف نے عرض کیا کہ ہماری مجالس کی کُل تعداد چودہ ہے جبکہ انصار کی مجموعی تجنید۳۵۰؍ احباب پر مشتمل ہے۔ الله تعالیٰ کے شکر انے کے طور پریہاں پر موجود و دیگر تمام انصار نے ملک بھر میں آج کے بابرکت دن کا آغاز نمازِ تہجد سے کیا۔

حضورِانور کے نماز تہجد کے بعد ناشتہ کروانے کی بابت دریافت فرمایا پر بتایا گیا کہ اُبلے ہوئے انڈوں، ڈبل روٹی، آملیٹ اور شہد وغیرہ لوازمات پر مشتمل ناشتہ احباب کی خدمت میں پیش کیا گیا، حضورِانور نے اس پر مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ یہ تو جوان بوڑھے ہیں، دانت سلامت ہیں، ان کو تو سخت سخت چیزیں کھلانی چاہئیں تھی۔ اس پر تمام حاضرینِ مجلس خوب محظوظ ہوئے۔

بعد ازاں شاملینِ مجلس کوحضورِانور سے مختلف موضوعات پرمتفرق سوالات پوچھنے اور راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔

سب سے پہلا سوال یہ کیا گیا کہ حضور راہنمائی فرمائیں کہ خلافت کے ساتھ پختہ تعلق قائم کرنے کےلیے ہم اپنے بچوں کی کیسے تربیت کر سکتے ہیں؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ آپ نے کس طرح خلافت سےتعلق پیدا کیا تھا؟ جس طرح آپ نے پیدا کیا تھا اسی طرح بچوں میں پیدا کر دیں۔ آپ کے والدین نے آپ سے تعلق پیدا کروایا تھا، نصیحت کی تھی۔پرانے لوگ نصیحتیں کیا کرتے تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے اپنا ذاتی تعلق پیدا کریں اور اس میں اپنے بچوں کے لیے دعا کریں، ماں باپ کی دعائیں بچوں کے لیے قبول ہوتی ہیں اور بچوں کی دعائیں ماں باپ کے لیے قبول ہوتی ہیں۔ اور اس میں یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو خدا تعالیٰ سے جوڑے، دین سے جوڑے اور دین سے جوڑنے کے ساتھ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح ِموعودؑ و مہدیٔ معہودؑ آئے، ان کی جماعت سے جوڑے اور انہی پیشگوئیوں کے مطابق خلافت کا نظام جاری ہونا تھا، اس لیے خلافت سے بھی تعلق پیدا کرے۔

تو جب یہ چیزیں ہوں گی، آپ کے اپنے نمونے ہوں گے، آپ کی اپنی دعائیں ہوں گی اور بچوں کو پیار اور محبّت سے نصیحت ہو گی تو ان کا خلافت سےتعلق پیدا ہوتا رہےگا۔ یہ نہیں ہے کہ بچہ بڑا ہو کرتعلق پیدا کر لے گا، بچپن سے ہی بچے کے کان میں ڈالیں۔جس طرح بچے سے بچپن میں لاڈ، پیار اور دوستی کر کے باتیں کرتے ہیں۔لیکن جب بچے بارہ، چودہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ماں باپ،خاص طورپر باپ،لڑکوں سے ذرا فاصلہ اختیارکرناشروع کر دیتے ہیں، پوری طرح دوستی نہیں رکھتے، باتیں نہیں کرتے۔ مائیں پھر بھی اپنی لڑکیوں سے دوستی کر لیتی ہیں اور باتیں کر لیتی ہیں، باپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ باپ بھی اپنا کردار ادا کریں تو بچے قریب رہیں گے۔ جماعت کے ساتھ ان کو attach کریں، جب جماعت کے ساتھ attach کریں گے تو جماعت کا نظام اور خلافت کا نظام ایک ہی چیز ہے، جب ان کو اس کی سمجھ آ جائے گی تواس کے بعد وہ اٹیچ ہو جائیں گے۔

حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ بہت سے فرانسیسی باشندے اسلام کی حقیقی تعلیمات کے متعلق کم علمی کی وجہ سے اسلام کے خلاف ہیں۔ احمدی احباب ان حقیقی تعلیمات پر عمل بھی کرتے ہیں اور لوگوں تک پھیلاتے بھی ہیں، لیکن صورتحال کچھ ایسی ہے کہ اس کے باوجود لوگوں میں تبدیلی لانا مشکل معلوم ہوتا ہے، اس صورتحال میں پیارے حضور ہماری کیا راہنمائی فرما سکتے ہیں؟

حضور انورنے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جو تبلیغ کا ہمارا کام تھا وہ ہم نے صحیح طرح سے ادا نہیں کیا۔ اگر ہم اپنے اپنے حلقے میں تبلیغ کریں، پمفلٹس تقسیم کریں، اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتائیں تو کم از کم لوگوں کو پتا لگ جائے گا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے۔

اسلام کا ایک غلط تصور، بہت سارے مین سٹریم (mainstream)جس کو اسلام کہتے ہیں، جنہوں نے مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانا، انہوں نے نام نہاد مُلّاں اور علماء کے سخت رویےاور قرآن کریم کی غلط انٹرپریٹیشن (interpretation)کی وجہ سے ایسا اسلام کا نظریہ پیش کیا ہے جو شدّت پسندی ہے۔ اس کو ہم اتنی جلدی ختم تو نہیں کر سکتے، کوشش ہے ہماری، ہم نے کوشش کرتے رہنا ہے۔ ایک ایک، دو دو کر کے ان کو قائل کرتے رہیں اور کم از کم پیغام پہنچاتے رہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا تھاکہ تمہارا کام تبلیغ کرنا ہے۔ بَلِّغْ۔ جو پیغام آپؐ پر اُتارا گیا، باقی ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔

لیکن ہمارے عمل بھی ساتھ اچھے ہونے چاہئیں۔ اگر ہم احمدی مسلمانوں کے عمل صحیح ہوں گے اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ، لٹریچر کے ساتھ ساتھ ہم یہ تصور اپنے علاقے، اپنے ماحول میں پیدا کردیں گے تو ایک سے دس آدمی جو ہمارے قریبی ہوں گے، وہ خود ہی کہنے والے ہوں گے کہ اسلام کی تعلیم احمدی دے رہے ہیں اور یہ اکثر جگہ پرہوتا ہے۔ بہت سارے لوگ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جماعتِ احمدیہ جس طرح اسلام کا پیغام پہنچاتی ہے اور ا س کی تعلیم کے بارے میں بتاتی ہے وہ تصور بالکل اس سے مختلف ہے جو عامۃ المسلمین ہمیں پیش کرتے ہیں یا شدت پسند علماء پیش کرتے ہیں۔

اس لیے ہمارا کام یہ ہے کہ ہم کوشش کرتے رہیں۔ ایک دم میں تو دنیا کو ہم نہیں بدل سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کا غلبے کا وعدہ ہے۔ عرب دنیا میں بہت وسیع علاقے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا لیکن اس وقت بھی سارے مسلمان تو نہیں ہوئے۔پھر خلافتِ راشدہ کے دوران، پھر باقی جو دوسری خلافت شروع ہوئی اس کے دوران، پھر آہستہ آہستہ پیغام دنیا میں پہنچا۔لیکن آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے دوگنی ہے، اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسلام غلط مذہب ہے یا اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ دنیا مسلمان ہو۔

اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں نے تمہیں کھلی آزادی دے دی ہے، کانشنس (Conscience)دے دیا ہے۔ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری لگا دی کہ تمہارا کام تبلیغ کرنا ہے، پیغام پہنچانا ہے، تم پہنچاتے چلے جاؤ اور ساتھ دعا بھی کرو۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گا اور جب وقت آئے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ بریک تھرو(breakthrough) ہو گا۔

اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسی لیے بھیجا ہے کہ آپ کے ذریعہ سے اسلام کی نشأةِثانیہ ہو، احیائے اسلام، احیائے دین کا دَور ہو۔ لٹریچر اور مختلف میڈیا کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام کی تعلیم کا بتایا جائے۔ ہم ہر ایک تک تو نہیں پہنچ سکتے، فرانس میں تو احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے، جیسا کہ میں نے کہا،تو جو مختلف ذرائع ہیں، سوشل میڈیا (social media) ہے، بروشرز (brochures)ہیں، لٹریچر ہے، جس حد تک آپ کوشش کرسکتے ہیں وہ کرتے چلے جائیں اور ایک وقت آئے گا کہ جب ان شاء اللہ تعالیٰ ایک بریک تھرو ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے آنے کے سو سال کےاندر اندر مَیں ایک انقلاب پیدا کر دوں گا یا جلدی ایک انقلاب پیدا کر دوں گا۔ ہاں! آپؑ نے یہ ضرور فرمایا کہ عیسائیت دنیا میں جو پھیلی، حکومتوں نے جب عیسائیت کو قبول کیا، رومن امپائر (Roman Empire)نے بھی، تو اس کو تین سو سال سے زائد عرصہ لگا تھا، لیکن احمدیت کے ذریعہ سے اسلام دنیا میں جو پھیلے گا اور میرے ذریعہ سے جو پیغام دنیا میں پھیلے گا اس کو تین سو سال کا عرصہ نہیں لگے گا کہ جب تم دیکھو گے کہ دنیا کی اکثریت اسلام کے جھنڈے تلے آ جائے گی۔

ہمیں تو ابھی ایک سو تیس سال گزرے ہیں، تین سو سال کا عرصہ نہیں گزرے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور اگر ہم اسی طرح اپنی کوشش کرتے رہیں، محنت کرتے رہیں، دعا کرتے رہیں اور تمام ذرائع اور وسائل استعمال کرتے رہیں، اپنی اصلاح کریں، اپنے نمونے بھی قائم کریں تو ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ ہماری نسل نہیں تو اگلی نسل اسلام کی ترقی ضرور دیکھے گی۔

اس لیے یہ کہنا کہ ہم اپنے زمانے میں دیکھ لیں، یہ نہیں ہو سکتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالمگیر نبی کے طور پر آئے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو عرب کے کچھ ممالک مسلمان ہوئے تھے۔ چین میں اور عرب دنیا سے باہر جو اسلام پھیلا ہے وہاں آپؐ کے بعد پھیلا ہے۔ سو ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔جب وقت آئے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ لوگ مسلمان ہو جائیں گے۔ اس لیے ہم نے مایوس نہیں ہونا، اپنے کام کو چھوڑنا نہیں، ہمارا کام یہ ہے کہ تبلیغ کرنا اور اللہ تعالیٰ کا کام ہے پھل لگانا، اگر ہماری نیتیں نیک ہیں۔

اس کے بعد حضورِانور سے دریافت کیا گیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہی طریقہ بتایا ہے کہ ذکرِالٰہی کرو، نمازوں میں دعا کرو، اور عشاء کی نماز کے بعد رات میں دو نفل بھی پڑھواور اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اپنا قرب عطا فرمائے۔ حضورِانور نے توجہ دلائی کہ کس طرح الله تعالیٰ نے آپ کو زندگی، روزگار اور آمدنی میں برکتوں سے نوازا ہے۔ اسی طرح تلقین فرمائی کہ اپنے اوپر افضالِ الٰہی کو یاد رکھیں اور شکر گزاربنیں نیز صدقہ بھی دیا کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ (ابراھیم:۸)کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا۔

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیثِ قدسی کا تذکرہ کرتے ہوئے حضورِانور نے بیان فرمایا کہ جو شخص چل کر خدا کے پاس آتا ہے تو خدا تعالیٰ دَوڑتا ہوا اس کے پاس جاتا ہے۔ حضورِانور نے اس کی روشنی میں تلقین فرمائی کہ اس کے لیے انسان کو کوشش کرنی چاہیے۔

اسی طرح حضورِانور نے صحابۂ کرامؓ کی حیاتِ مبارکہ کی روشن مثال بھی پیش فرمائی کہ وہ کاروبار بھی کیا کرتے تھے۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جنگ کے موقع پر تین سو اونٹ عطیہ کیے تھے جس سے ان کی پیشۂ  تجارت سے وابستگی اجاگر ہوتی ہے۔ اس کے باوجود صحابہؓ خدا کو نہیں بھولے اور اس کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔

ایک ناصر بھائی نے انتہائی جذباتی انداز اور پُر نم آنکھوں کے ساتھ عرض کیا کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی الله علیہ وسلم کو ہجرت کے بعد فتح مکہ کے ذریعہ واپس لَوٹایا، کیا خلیفة المسیح بھی دوبارہ پاکستان جائیں گے یا پاکستان اب اس برکت سے محروم ہو گیا ہے؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ یہ جتنے جذباتی آپ اس وقت ہو رہے ہیں اتنے جذباتی ہو کے پاکستان واپسی کے لیے دو نفل پڑھا کریں، سارے لوگ پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ قبول بھی کرے گا۔ مَیں تو کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے خواب میں ایک دفعہ کہا کہ اگر سارے احمدی تین دن اکٹھے ایک جان ہو کے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔

باقی انبیاء جب ہجرت کرتے ہیں تو عموماً دوبارہ وہاں نہیں جاتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ تو کر لی لیکن رہے مدینہ میں ہی۔ ہاں کبھی نہ کبھی خلافت کے لیے راستے کھلیں گے، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ راستہ بالکل ہی ختم ہو گیا، کوئی نہ کوئی ایسے حالات پیدا ہوں گے ان شاء اللہ تعالیٰ !

وہاں ربوہ میںبھی مرکز ہے، قادیان بھی مرکز ہے۔ قادیان میں لَوٹنے کی بھی پیشگوئیاں ہیں، ربوہ میں لَوٹنے کی بھی خبریں ہیں، حضرت مصلح موعود رضی الله تعالیٰ عنہ تو ربوہ سےبڑی امید رکھتے تھے۔ تو ان شاء اللہ تعالیٰ ایک وقت آئے گا کہ جب خلافت کا وہاں بھی جانا ہو گا، یہ نہیں کہتا کہ مستقل جاکر وہاں قیام ہو گا۔ یہ جماعت کی ترقیات سے وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح اس نے جماعت کو ترقیات دینی ہیں۔خلیفۂ وقت کا اگر پاکستان جانا ہو گا، ربوہ میں جانا ہو گا، قادیان میں جانا ہو گا تو اس وقت ہو گا جب وہ یہاں باہر کے ملکوں میں بھی رہے گا جہاں اشاعت اسلام کے لیے وسائل اور ذرائع زیادہ ہیں۔اورایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یورپ میں اور ان ترقی یافتہ ملکوں میں اسلام اور جماعت کی مخالفت شروع ہو جائے گی تو ہو سکتا ہے کہ یہاں سے بھی ہجرت کرنی پڑے،کہیں اَور جانا پڑے یا پھر واپس وہاں چلے جائیں۔ قادیان جائیں یا ربوہ جائیں۔

تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیں امید تو یہی رکھنی چاہیے لیکن اس کے لیے ہمیں کوشش بھی کرنی ہو گی، اپنے اعمال کی اصلاح کرنی ہو گی، اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کرنی ہو گی، اپنے تعلق کو خدا تعالیٰ سے زیادہ بڑھانا ہو گا، دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہوگی تو ان شاء اللہ تعالیٰ حالات بدل جائیں گے۔

انہی دوست نےدوسرا سوال کیا کہ کیا ایک عورت بغیر محرم کے، جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹریول ایجنسیز(travel agencies) وغیرہ انتظامات کرواتی ہیں، حج یا عمرہ کر سکتی ہے؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ پرانے زمانے میں سفر کی سہولتیں نہیں تھیں اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتیں محرم کے ساتھ سفر کیا کریں کیونکہ بعض دفعہ ضرورت بھی پیش آ جاتی ہے۔ عورتیں عام طور پر جب حج یا عمرہ کرتی ہیں تو عموماً عورتیں، عورتوں کا ہی گروپ بناکرکر رہی ہوتی ہیں یا اکثر یہ ہوتا ہے کہ بعض فیملیاں گروپ بنا لیتی ہیں اور اس میں دوسری عورتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ گو وہ محرم نہیں ہوتے لیکن دوسری عورتیں ا ن کے ساتھ کسی اَور فیملی کی شامل ہوتی ہیں تو اس طرح گروپ میں لوگ جارہے ہوتے ہیں، پھر حفاظت کے لیےبڑے وسیع گروپ جارہے ہوتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا ارشاد یہ ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب امن قائم ہو جائے گا، سفروں میں خطرات نہیں رہیں گے اور ایک عورت اکیلی مدینہ سے حضرموت تک کا سفر کر لے گی اور اس کو خدا کے سوا کسی اَور کا کوئی خوف نہیں ہوگا، یہ بھی حدیث ہے۔مَیں تو اس سے یہی استنباط کرتا ہوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کا علیحدہ سفر کرنا منع نہیں ہے لیکن سفر کے خطرات کی وجہ سے بہتر یہی ہے کہ عورت یا تو محرموں کے ساتھ یا اپنے گروپ کے ساتھ سفر کرے تا کہ حفاظت میں رہے۔

آج کل سفر کی سہولیات بھی ہیں اور حالات بھی بہتر ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا حج اور عمرہ کے لیے صرف خطرہ ہے؟ باقی ساری جگہ دنیا میں عورتیں پھرتی ہیں تو کہیں آپ نے کسی کوروکا ہے؟ تو جب وہاں نہیں روکتے تو یہاں حج اور عمرہ میں ہی سارا خطرہ آپ کونظر آناہے؟

حضورِانور سے راہنمائی طلب فرمائی گئی کہ ہم اپنی نمازوں میں حالتِ خشوع و خضوع کس طرح پیدا کر سکتے ہیں؟

حضور انورنے فرمایا کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوں تواس میں ادعیۂ ماثورہ کو پوری توجہ سے پڑھیں۔ نفلی نمازوں کے دوران بار بار تکرار کے ساتھ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ اور اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَ کے کلمات ادا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نمازوں کے دوران اپنے اوپر حالتِ گریہ و زاری طاری کرنے کی نصیحت فرمائی ہے کیونکہ چہرے کی ظاہری کیفیت انسان کے باطن پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ حضورِانور نے مزید تلقین فرمائی کہ اس کے لیے دعا اور کوشش کرنی چاہیے۔

مشرق وسطیٰ کی موجودہ کشیدہ صورت حال کے تناظر میں ایک سوال کیا گیا کہ فلسطین کے لوگوں کو کب تک امن نصیب ہو گا اور وہاں کے لوگ کب تک بہتر حالت میں آجائیں گے؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ عبادالصالحین جب بن جائیں گے تو مسلمان دوبارہ امن میں آ کر وہاں قبضہ کر لیں گے۔ اس کے لیے مَیں نے یہ کہا تھا بلکہ مُربیان کو سرکلر بھی کروایا تھا کہ حضرت مصلح موعودرضی الله تعالیٰ عنہ کی تفسیر ِکبیر میں سے سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کے آخری حصہ کی تفسیر پڑھیں، اسی طرح سورۂ انبیاء کی آیت نمبر ۱۰۶ کی تفسیر پڑھیں، اس میں سارا آ جائے گا کہ فلسطین کے اور اسرائیل کے حالات کیا ہیں اور کیا ہونا ہے، اس کے بعد اس پر قبضہ کس طرح ہو گا، یہ اسلحہ سے اور جنگوں سے اور ان چیزوں سے نہیں ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے وہاں یہی شرط رکھی ہے کہ عبادالصالحین پیدا ہوں گے، وہی قبضہ کریں گے، جب ہماری یہ حالت ہو جائے گی تو وہاں حالات بھی بہتر ہو جائیں گے۔ اصل چیز یہی ہے کہ ہم جتنی جلدی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے ہوں گے، اللہ تعالیٰ سے مانگنے والے ہوں گے، اتنی جلدی اللہ تعالیٰ بھی ہمارے لیے حالات بہتر کرے گا۔

آپ تفسیر ویسے پڑھ لیں۔لمبی تفسیر ہے اس لیے اس کو پڑھ لیں۔ آپ لوگوں کے پاس تو تفسیر کبیر ہونی چاہیے بلکہ مَیں نے کہا تھا کہ مسجدوں میں درس بھی دیا کریں۔

ایک ناصر بھائی نے دریافت کیا کہ ہم تقویٰ کے اعلیٰ معیار کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟

حضورِانور نے جواب دیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا؂

تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو

کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو

تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف۔ اللہ تعالیٰ کا خوف کسی ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی محبّت کی وجہ سے خوف کہ اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے۔ آپ کو کسی سے پیار ہو تو یہی خیال ہوتا ہے کہ وہ ناراض نہ ہو جائے۔ بعض لوگ اپنی بیویوں سے لڑائی اس لیے کر لیتے ہیں کہ ماں باپ ناراض نہ ہوجائیں تو وہ محبّت کی وجہ سے ہوتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ بیویوں کے بھی حق ادا کرو اور ماں باپ کے بھی حق ادا کرو۔ لیکن بہرحال ایک محبّت ہوتی ہے جس کی وجہ سے، اس خوف کی وجہ سے، آپ لوگ ان کی باتیں مانتے ہیں۔

تو اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ میرا تقویٰ اختیار کرو، میرا خوف دل میں پیدا کرو لیکن محبّت سے۔ اللہ کی محبّت پیدا ہوجائے گی جس کے لیے مَیں پہلے بتا چکا ہوں، بہت ساری وضاحت کر چکا ہوں تو تقویٰ کامعیار بھی حاصل ہو گا۔

پھر جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں ان پرعمل کریں، قرآن کریم میں بے شمار احکام ہیں، سات سو حکم ہیں یابعض جگہ لکھا ہے کہ بارہ سو حکم ہیں، تو وہ جتنے بھی ہیں، تلاش کر کے جہاں جہاں آتے ہیں، اس سے جہاں اللہ تعالیٰ نے خوف دلایا ہے وہاں خوف کریں، اِستغفار پڑھیں۔قرآنِ شریف کی تلاوت کرتے ہوئے جہاں ان حکموں پر عمل کرنے کا حکم ہے وہاں عمل کرنے کی کوشش بھی کریں تو تقویٰ کے معیار حاصل ہو جاتے ہیں۔

ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ نے راہنما کتاب تو رکھی ہوئی ہے اب اس پر مَیں نے کیا بتانا ہے ؟ باقی خلاصہ ایک شعر میں مَیں نے بتا دیا کہ نخوت چھوڑیں، کبر چھوڑیں، غرور چھوڑیں، بخل چھوڑیں اور یہ بخل ہر چیزمیں ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ مال میں بخل، تعلقات میں بھی بخل، اپنے آپس میں نیک جذبات کے اظہار میں بعض بخل کرتے ہیں وہ بھی نہیں کرنا۔ تو بہت ساری چیزیں ہیں ان کو اگر آپ صحیح کر لیں تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے، تقویٰ حاصل ہو جاتا ہے۔

ایک سوال کیا گیا کہ بعض افرادِ جماعت کسی عہدیدار کے غلط رویے یا کسی غلط فہمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ جماعت سے دُور ہوجاتے ہیں اور رابطہ کرنے پر جواب نہیں دیتے، ان کو دوبارہ نظام سے جوڑنے کے لیے کیا طریق اختیار کرنا چاہیے؟

حضور انورنے فرمایا کہ پہلی بات تو عہدیداروں کی اصلاح ہے۔ عہدیدار اپنی اصلاح کریں اور پھر ایسے لوگ جو دُور ہٹے ہوئے ہیں، ان سے جن عہدیداروں کے تعلقات ٹھیک ہیں، ان سے رابطہ پیدا کریں۔ صدر جماعت اور سیکرٹری تربیت کا کام ہے کہ ان سے رابطہ پیدا کریں اور صرف یہ نہیں ہے کہ ان سے چندہ لینے کے لیے ان کے پاس چلے جائیں یا اجلاس پربلانے کے لیے ان کے پاس چلے جائیں، ان سے ذاتی تعلق پیدا کریں اور جب ذاتی تعلق پیدا ہو گا تو پھر ان کو سمجھائیں بھی کہ تم نے احمدیت قبول کی تھی یا جماعتی نظام میں آئے تھے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اس زمانے میں جب امام مہدی آئے گا تو اس کو مان لینا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس کو مان لینا اور اس کی جماعت میں شامل ہو جانا، تو تم نے مسیح موعود علیہ السلام اور اس کے بعد خلافت کی بیعت کی ہے، تم نے کسی عہدیدار کی بیعت تو نہیں کی، تو عہدیدارکے غلط رویے کی وجہ سے تم جماعت سے کیوں دُور ہٹ رہے ہو، کیوں اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کی کوشش کر رہے ہو؟

جب ذاتی تعلقات اس حد تک ہوں گے تو پھر ایسا ممکن ہے۔ لیکن آپ پہلے ہی جا کے اس کوbluntlyکہنا شروع کردیں گے کہ تم پیچھے ہٹ گئے ہو، تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ یہ کردے گا، وہ کر دے گا۔ وہ کہے گا کہ اچھا! پھر ٹھیک ہے میرا اَور اللہ کا معاملہ ہے، تم کون ہوتے ہو، جاؤ گھر بیٹھو۔

تو اصل چیز یہی ہے کہ اگر یہ پتا لگے کہ عہدید اروں کی وجہ سے ایساہے تو پھر عہدیداروں کا کام ہے کہ اپنی اصلاح کریں اور ان کی اصلاح کے لیے کوشش بھی کریں چاہے خود ذاتی رابطہ کر کے کوشش کریں یا کسی ایسے شخص کے ذریعہ سے جن سے ان کے اچھے تعلقات ہیں، اس کے ذریعہ سےان کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ جماعت سے دُور ہٹنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔اگر تمہاری ناراضگی ہے تو عہدیدار سے ہے نہ کہ جماعت سے۔

پھر جب بے چارہ کوئی ایسا ناراض ہوا ہوا مسجد میں آجاتا ہے، دو مہینے، چار مہینے نہیں آیا،تو اس کو پھر جو ارد گرد کے لوگ ہیں آ کے بڑے طنزیہ انداز میں کہتے ہیں ’’اَج تے بڑی رونق لگ گئی اے، اَج تے بڑا چَن چڑھ گیا اے ‘‘یعنی آج تو مسجد میں ہم نے آپ کو دیکھ لیا۔اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، جس سے وہ اگلا اَور چڑ جاتا ہے۔اس لیے اپنے رویے بھی درست کریں۔

یہ جو جماعت ہے اس کی تو خوبصورتی ہی یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے اعضاء ہیں۔اگر یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ایک عضو میں جب تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم پر اس کا اثر ہوتا ہے، اگر یہ سوچ پیدا کریں گے تو وہ نزدیک ہو جائے گا نہ یہ کہ اگر کسی کی اصلاح ہو گئی ہے، آ گیا ہے یا کسی کے سمجھانے پر آ گیا ہے تو اس کو اتنا طنز کریں اور اس کو ایسی نظروں سے دیکھیں کہ وہ اگلا بے چارہ دوبارہ دَوڑ جائے، پھر وہ اگلا جمعہ ہی نہ پڑھے۔

یہ رویے آپ کو ٹھیک کرنے پڑیں گے اور یہ روح پیدا کریں کہ ہم نے آپس میں بھائی بھائی بن کے رہنا ہے۔ ہمیں آپس میں رُحَـمَآءُ بَيْنَـھُمْ (الفتح:۳۰) کا حکم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے جو اسلام کو ماننے والے ہیں، جو دین پر قائم ہیں، وہ ایک ہو کر رہتے ہیں اور ہر ایک کی تکلیف کا احساس کرتے ہیں۔

تو ہم نے بچانا ہے۔ایک دوسرے کو بچانا بھی بہت بڑی بات ہے۔ان کے ایمان کا امتحان نہ لیں۔ عہدیداروں کا بھی کام ہے کہ اپنی اصلاح کریں اور خدمتِ دین کو ایک فضلِ الٰہی جانیں نہ یہ کہ ہمیں عہدہ مل گیا تو ہم پتا نہیں کوئی چیز بن گئے ہیں۔ کوئی چیز نہیں بنے۔ پھلوں کے درختوں سے مثال لیں۔ عاجزی سے پھل کی شاخ نیچے جھکتی چلی جاتی ہے، اس طرح اپنے آپ کو جھکائیں۔ تو پہلی اصلاح تو عہدیداروں کی ہے۔ عہدیدارجب اصلاح کر لیں گے تو باقی لوگ آپ ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔

ایک سوال کیا گیا کہ دنیا کے موجودہ حالات میں بین الاقوامی ادارے مظلوم کو انصاف مہیا کرنے میں ناکام رہے ہیں، حضورِانور کی رائے میں کیا تبدیلی لائی جائے کہ مظلوموں کی نجات کے عملی اقدامات ہو سکیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ تبدیلی کیا لانی تھی؟ ہمارے سامنے تو مثالیں ہیں، مَیں کئی دفعہ بیان بھی کر چکا ہوں، پیش بھی کر چکا ہوں، بلکہ ہمارے تو لٹریچر میں پہلے بھی خلفاء اس کو بار بار بیان کرتے رہے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی الله تعالیٰ عنہ نے بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم ہوئی، انہوں نے لیگ آف نیشنز(League of Nations) قائم کی، اس لیے کہ دنیا میں امن قائم کریں گے اور ہم دنیا کو ایک رکھیں گے اور اب ہم جنگ نہیں ہونے دیں گے، یہ تباہی دنیا میں نہیں آنے دیں گے، جو پہلی جنگ چار سال کی ہوئی اس طرح کی جنگ دوبارہ نہیں ہونے دیں گے۔لیکن کیا ہوا ؟یہی جو ادارے تھے، انہوں نے انصاف مہیا نہیں کیا اور اس کے نتیجے میں پھر ۱۹۳۹ء میں دوبارہ جنگِ عظیم دوم شروع ہو گئی۔اس کے بعد انہوں نے United Nations بنا دی۔United Nationsمیں پھر انہوں نے پانچ ملکوں کو ویٹو پاور(veto power) دے دی، پھر انصاف کہاں سے قائم رہا؟ جب تک برابری کے اصول نہیں رہیں گے اس وقت تک یہی ہو گا۔ ویٹو پاور سے پھر فساد دنیا میں پیدا ہو گیا۔

اب یہ کیا ہے؟ اسرائیل ظلم کر رہا ہے۔یہ بے شک کہتے ہیں کہ جی! حماس نے ظلم کیا۔حماس نے ظلم کیا ہو گا۔ ان کے تیرہ سو آدمی مار دیے۔لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے دس گنا معصوموں کو مار دیا۔ ایک کے بدلے ایک کی بجائے دس آدمی مار دیے، اب تک پتا نہیں اَور کتنے مارنے ہیں۔تو اسرائیل کو کچھ کہنے کی کسی کو جرأت نہیں ہے۔ اب یہودیوں پر اگر ظلم ہوا تھا تو جرمنی والوں نے ظلم کیا تھا، یورپ نے ظلم کیا تھا، فلسطینیوں نے تو ظلم نہیں کیا تھا۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی!

اصل میں لاشعوری طور پر یا ارادۃً یہ لوگ کہتے تو نہیں کہ ہم مذہبی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن عملاًیہی ہے کہ کوئی بھی جو مذہب ہے اس کے یہ خلاف ہیں۔اور کیونکہ مسلمان اسلام پر زیادہ عمل کر رہے ہیں، اس لیے ان کے خلاف وہ تمام طاقتیں اور قوتیں اکٹھی ہو گئی ہیں جس میں atheistsبھی ہیں اور دوسرے لوگ بھی ہیں جو مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ باقی مذاہب کو اپنے مذہب سےکوئی دلچسپی نہیں، لیکن مسلمان کو اپنے مذہب سے دلچسپی ہے، اس لیے وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن اصل میں تو یہی ہے کہ یہ طاقتیں محض اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔اگر مذہب نہیں بھی ہے تو تب بھی اپنی معیشت کو قائم رکھنے کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ تعلقات قائم رہیں اور اگر یو این(UN) میں بل (bill)پیش کیا جاتا ہے، قرارداد پیش کی جاتی ہے تو اس کو ویٹو کر دیتے ہیں، تو جب ایسے حالات ہوں تو مظلوم کو انصاف کہاں سے مہیا ہونا ہے؟ مظلوم قومیں تو ماری جائیں گی۔

یہی افریقہ کا حال ہے۔ افریقہ میں تو مسلمان نہیں ہیں، عیسائی ہیں، لیکن ان کو بھی لُوٹ کر یہ لوگ کھا گئے۔یا paganہیں یا عیسائی ہیں ان کو بھی لُوٹ کے کھا رہے ہیں، ان کے سارے وسائل اور ذرائع، معدنیات لُوٹ کے کھا گئے۔ اس کے اوپر بھی اب شور پڑنا شروع ہو گیا ہے، افریقن قومیں بھی اُٹھنا شروع ہو گئی ہیں، شور مچانے لگ گئی ہیں کہ ہمیں سارے یورپ والے لُوٹ کر لے گئے ہیں۔ تو یہ ساری باتیں کہیں مذہب کے نام پریا مذہب کے حوالے سے یا جو دوسرے حوالے سے کی جاتی ہیں لیکن اصل مقصد یہی ہے کہ Geopolitical gainہے، جغرافیائی اور سیاسی مقاصد ہیں، جن کے حصول کے لیے یہ لوگ کوششیں کرتے ہیں اور انصاف پھر قائم نہیں کرتے اور اپنے آپ کو سب سے بڑا انصاف کا چیمپئن(champion) کہتے ہیں، امن قائم کرنے کا چیمپئن کہتے ہیں۔

تو اس کا آخری علاج تو یہی ہے کہ دنیا میں اسلام کی حکومت قائم ہو، انصاف پسند مسلمانوں کی حکومت قائم ہو اور وہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے اور اس کے لیے ہمارا کام ہے کہ ہم تبلیغ کریں اور جس حد تک پیغام پہنچا سکتے ہیںپیغام پہنچائیں۔

مَیں بےشمار جگہوں پر کیپیٹل ہل(Capitol Hill) میں اور باقی جگہوں پر بھی، ہر جگہ یہی باتیں کرتا رہا ہوں کہ تم لوگ ویٹو پاور کی بات جب تک کرتے ہو، اس وقت تک امن نہیں قائم کر سکتے۔ میں وہاں بھی کہہ کے آیا تھاکہ تمہاری بڑی طاقتیں جو انصاف قائم کرنا چاہتی ہیں، نہیں کر سکتیں۔ اور ان سے آرام سے بات ہو جاتی ہے، وہ کہتے ہیں ہاں! بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ پر کرنا انہوں نے وہی ہے۔

تو انہوں نے کیا امن قائم کرنا ہے؟ امن تواسی وقت قائم ہو گا جب اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلائے اور اکثریت اس میں شامل ہو جائے گی۔ اس کے لیے ہمیں اپنی کوشش کرتے رہنا چاہیے، دعاؤں سے بھی اور کوشش سے بھی۔یہی ایک حل ہے اس کے علاوہ اَور کوئی حل نہیں۔ جب تک اس حل کا نتیجہ سامنے نہیں آتا، اس وقت تک مظلوم اسی طرح پستے چلے جائیں گے۔

اب یہ تیسری جنگِ عظیم ہو گی تو پھر اس کے بعد امن قائم کرنے کے لیے ایک اَور بین الاقوامی تنظیم بنا دیں گے۔ اس کا بھی یہی حال ہو گا، یہ تو دجّالی چالیں ہیں، یہ کبھی ختم ہونی ہی نہیں۔ اس لیے بہت زیادہ دعاؤں اور محنت کی ضرورت ہے جو ہمیں کرنی چاہیے۔

اس بابرکت محفل میں کیا جانے والا آخری سوال پاکستان میں مستقبل قریب میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں تھاکہ اس سیاسی ماحول میں ایک احمدی کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟

اس پرحضورِانور نے واضح فرمایا کہ ہمارا کردار ہے ہی کوئی نہیں۔جب تک ہم جوائنٹ الیکٹوریٹ(joint electorate) میں شامل نہیں ہوتے، ایک مشترکہ فہرست جو ووٹر ز (voters)کی ہے، اس میں شامل نہیں ہوتے قطع نظر اس کے کہ ہم ان کی نظر میں غیر مسلم ہیں یا مسلمان ہیں یا عیسائی ہیں یا یہودی ہیں یاجو بھی ہیں۔

ہم یہ کہتے ہیں جس طرح باقی مذاہب کے لوگوں، باقی اقلیتوں کو تم کہتے ہو کہ ان کی ایک ووٹرز لسٹ(list) بنے گی، اس طرح ایک لسٹ بناؤ، احمدیوں کو شامل کرو۔ احمدیوں کی علیحدہ ایک اقلیت کی لسٹ بنا کے ایک احمدی اور قادیانی اور مرزائی یا لاہوری کر کے علیحدہ لسٹ بنانا، یہ ہمیں منظور نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود تسلیم کر لیں کہ ہم اقلیت اور مسلمانوں سے ہٹ کے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم نے تو یہ تسلیم ہی نہیں کرنا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا حق ہے کہ ہم پاکستانی شہری ہیں، پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے ہمیں پاکستانی شہری کا ووٹ کا حق ملنا چاہیے نہ کہ احمدی اور قادیانی کا۔اس لیے اگر مشترکہ لسٹ پاکستانی شہری کی بنے گی تو ہم الیکشن میں شامل ہوں گے، نہیں تو ہم شامل نہیں ہوں گے، ہمارا کوئی کردار ہی نہیں۔

ہاں! بعض اردگرد کے لوگ، جہاں جہاں ہمارا اَثر ہے، وہ آ جاتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ اپنے بعض لوگوں کو جوتمہارے زیر اثر ہیں ان کو کہہ دو کہ ہمیں ووٹ دے دیں۔ابھی بھی ہمارے کہنے پر وہ لوگ ووٹ دے دیتے ہیں، غیر از جماعت بھی، جو اچھے شریف لوگ ہیں یا ہمارے سمجھانے سے سمجھ بھی جاتے ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ ہمارا تو کوئی کردار ہی نہیں ہے، باقی دعا کریں کہ پاکستان کے حالات بہتر ہوں۔

ملاقات کے اختتام پر صدر صاحب مجلس نے ایک ایسے دوست کا تعارف کروایا کہ جو حال ہی میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہوئے تھے۔ حضورِانور کے قبول احمدیت کی وجہ دریافت فرمانے پر انہوں نے عرض کیا کہ جب مَیں آپ کا چہرہ دیکھتا ہوں تو مجھےآپ کے چہرے پر نور دکھائی دیتا ہے۔

حضورِانور نے موصوف کو تاکید فرمائی کہ میرے خیال میں آپ کو اپنے دینی علم میں اضافہ کرنا چاہیے،لٹریچر کا مطالعہ کریں، خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب اور تفسیرِ قرآن کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر، احمدیت کے بارے میں پختہ یقین اور ثباتِ قدم عطا فرمائے۔

حضور انورنے آخر پر سب شاملین کو اللہ حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ کہا اوراس طرح سے یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button