متفرق مضامین

حضرت عیسیٰؑ کی نبوت اورعقیدہ ختم نبوت (قسط دوم۔ آخری)

(’عبد الرحمٰن‘)

علماء کی تطبیق پر چند ملاحظات

٭…بعض علماء نے تطبیق کرتے ہوئے یہ زائد بات بھی کی ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰؑ کو نبوت پہلے دی گئی اس لیے ان کا آنا خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کی صراحت کے خلاف نہیں ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ حضورﷺ کو سب سے آخر میں نبی بنایا گیا۔

۱۔وَالْمَعْنَى أَنْ لَا يَتَنَبَّأَ أَحَدٌ بَعْدَهُ، وَلَا يَرُّدُ نُزُولَ عِيسَى آخِرَ الزَّمَانِ، لِأَنَّهُ مِمَّنْ نُبِّئَ قَبْلَهُ۔ (البحر المحيط في التفسير ۸/ ۴۸۵)

۲۔ولا يقدحُ فيه نزولُ عيسىَ بعدَهُ عليهما السَّلامُ لانَّ معنى كونِه خاتمَ النبيِّينَ أنَّه لا ينبأ احد بعده وعيسى ممَّن نُبِّىء قبلَه وحينَ ينزلُ۔ (إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم (۷/ ۱۰۶)

۳۔ ولا يَقدَحُ نزولَ عيسى بعدَه؛ لِأنّه يكونُ على دينِه مع أن المراد أنه آخر من نبئ۔(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (۷/ ۲۳۶)

۴۔ فلا ينافيه نزول عيسى بعده؛ لأنه كان موجودًا قبل وجود محمد۔ (منحة الباري بشرح صحيح البخاري (۶/ ۵۹۸)

مفتی محمد شفیع صاحب لا نبی بعدی کے معنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’آپﷺ کے بعد کسی کو عہدۂ نبوت نہ دیا جائے گا…حضرت عیسیٰؑ کو اس عالم میں آپﷺ سے پہلے عہدۂ نبوت مل چکا ہے تو ان کا آپﷺ کے بعد میں تشریف لانا ہرگز لا نبی بعدی کے خلاف نہیں…‘‘۔(ختم نبوت صفحہ۲۱۴ طبع ادارۃ المعارف کراچی)

یہ تطبیق بوجوہِ ذیل قابلِ اعتناء نہیں

۱)اس تاویل کے نتیجے میں آپ خود لا نبی بعدی کی عمومیت کو ختم کر دیتے ہیں۔یعنی آپ کے نزدیک لا نبی بعدی اور ختم نبوت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک قسم کا نبی آسکتا ہے جس کو پہلے سے نبوت ملی ہو۔اگر ہر قسم کی نبوت کا انکار کیا جائے تو معتزلہ کے نظریہ کے مطابق نزول مسیح کا انکار کرنا پڑتا ہے۔جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔

۲)علماء کی ایک کثیر تعداد یہ نظریہ رکھتی ہے کہ حضرت اقدس رسول اللہﷺ کو سب سے پہلے نبوت دی گئی۔ حدیث ’’ كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ‘‘ (الطبقات الكبرى طبع العلمية (۱/ ۱۱۸) اس کی تفصیلی تحقیق یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔البتہ ذیل میں کچھ علماء کے حوالہ جات اور علماء کا اقرار درج کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے:

۱۔علامہ السبکی لکھتے ہیں:’’ وَإِنَّ مَنْ فَسَّرَهُ بِعِلْمِ اللّٰہِ بِأَنَّهُ سَيَصِيرُ نَبِيًّا لَمْ يَصِلْ إلَى هَذَا الْمَعْنَى لِأَنَّ عِلْمَ اللّٰہِ مُحِيْطٌ بِجَمِيعِ الْأَشْيَاءِ وَوَصْفُ النَّبِيِّ – صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بِالنُّبُوَّةِ فِي ذَالِكَ الْوَقْتِ يَنْبَغِي أَنْ يُفْهَمَ مِنْهُ أَنَّهُ أَمْرٌ ثَابِتٌ لَهُ فِي ذَالِكَ الْوَقْتِ…لَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ ذَالِكَ مَعْنًى ثَابِتًا فِي ذَالِكَ الْوَقْتِ وَلَوْ كَانَ الْمُرَادُ بِذَالِكَ مُجَرَّدَ الْعِلْمِ بِمَا سَيَصِيرُ فِي الْمُسْتَقْبَلِ لَمْ يَكُنْ لَهُ خُصُوصِيَّةٌ بِأَنَّهُ نَبِيٌّ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ لِأَنَّ جَمِيعَ الْأَنْبِيَاءِ يَعْلَمُ اللّٰہُ نُبُوَّتَهُمْ فِي ذَالِكَ الْوَقْتِ وَقَبْلَهُ فَلَا بُدَّ مِنْ خُصُوصِيَّةٍ لِلنَّبِيِّ -صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘۔(فتاوى السبكي (۱/ ۳۸-۳۹)یعنی جس نے اس حدیث کا یہ مطلب کیا ہے کہ اس حدیث سے مراد اللہ کا علم ہے یعنی اللہ کے علم میں تھا کہ آپﷺ نبی بنیں گے تو وہ حقیقی مطلب تک نہ پہنچ سکا کیونکہ اللہ کے علم میں تو تمام چیزیں ہیں (اس سے ایک کی تخصیص کرنا جائز نہیں) بلکہ مراد یہ ہے کہ آپﷺ کا وصف نبوت اس وقت ثابت تھا… اگر یہ معنی نہ تسلیم کریں اور علم اللہ کے حوالے سے ہی تعبیر پر اصرار کریں تو حضورﷺ کی کوئی خصوصیت باقی نہیں رہتی کیونکہ تمام انبیاء کی نبوت علم ِالٰہی میں تھی۔پس وصف نبوت کا ثبوت ماننا پڑے گا تب یہ خصوصیت حضورﷺ کی ثابت ہو گی۔

۲۔ علامہ ابن حجر الھیتمی،علامہ السبکی کا حوالہ درج کرکے اس سے ابراہیمؓ کی نبوت پر استدلال کرتے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:’’ وَبِه يُعلَم تَحْقِيقُ نبوّةِ سيّدِنَا إِبْرَاهِيم فِي حَالِ صِغَرِه‘‘۔(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي صفحہ۳۱۰)یعنی اس سے حضرت ابراہیمؓ کے صغر سنی میں نبوت ثابت ہوتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کے بارے میں تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو پہلے سے نبوت ملی ہوئی تھی۔

۳۔ مخالفین بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں۔چنانچہ مولوی بدر عالم صاحب میرٹھی لکھتے ہیں:’’اس تحقیق کی بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ آنحضرتﷺ کو حضرت آدم علیہ السلام میں نفخِ روح سے پہلے نبوت سے نوازا جا چکا تھا‘‘۔(احتساب قادیانیت جلد ۴صفحہ۳۷۰)

مولوی صاحب یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہی تشریح علامہ السبکی اور ابن حجر الھیتمی کے علاوہ ابو نعیم اصفہانی،امام الرازی، ابن عربی، علامہ الزرقانی وغیرہ نے بھی کی ہے۔ (احتساب قادیانیت جلد ۴صفحہ۳۷۱-۳۷۲) یہ یاد رہے کہ یہی تشریح الآجری (الشریعۃ (۲/۲۵۹)علی القاری،(شرح فقہ الاکبر صفحہ ۱۰۷)الخفاجی (نسیم الریاض فی شرح الشفاء لقاضی عیاض (۳/۱۳۰) وغیرہ بہت سے علماء سے ثابت ہے۔

پس جب آپ کے مسلّمہ علماء کے نزدیک حضرت اقدس رسول اللہﷺ کو نبوت سب سے پہلے دی گئی تو یہ استدلال کرنا کہ ’’حضرت عیسیٰؑ کا تشریف لانا اس لئے جائز ہے کیونکہ ان کو حضورﷺ سے پہلے نبوت دی جا چکی ہے‘‘ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔بلکہ آپ حضرات کی تشریح کا نتیجہ تو یہ نکلا کہ حضرت عیسیٰؑ کو سب سے آخر میں نبوت دی گئی کیونکہ حضورﷺ سے قبل آخری نبی حضرت عیسیٰؑ تھے اور آپ کے مسلمات کی رُو سے حضرت اقدس رسو ل اللہﷺ کو سب سے پہلے نبوت دی گئی۔پس اگر خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ وہ نبی جس کو سب سے آخر میں نبوت دی گئی تو آپ کی بیان کردہ مندرجہ بالا تشریح کی رو سے حضرت عیسیٰؑ معاذ اللہ خاتم النبیین ٹھہرتے ہیں!!!!!

اگر یہ کہا جائے کہ اگرچہ حضورﷺ کو نبوت پہلے دی گئی مگر بعثت سب سے آخر میں ہو گی تو اس کا مطلب ہے کہ حضرت عیسیٰ تشریف لائیں گے نبوت کے حامل بھی ہوں گے مگر مبعوث نہیں ہوں گے۔حالانکہ شریعتِ محمدیہؐ کے حوالے سے جو کام وہ بطور حکم عدل کریں گے،وہ انبیاء کا ہی کام ہے۔ اس کے علاوہ انہیں وحی بھی ہو گی، ان کا انکار کرنا کفر ہو گا پھر یہ کہنا بھی کفر ہو گا کہ وہ نبوت سے معزول ہیں۔ بعثت اس کے علاوہ اور کسے کہتے ہیں؟ علماء کے عقیدہ کے مطابق نبوت ان کی موسوی ہو گی اور کام وہ محمدی شریعت کا کریں گے، اس لیے مسئلہ ہے۔پس علماء کے عقیدہ کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ بعثت کے لحاظ سے بھی حضرت عیسیٰؑ ہی (معاذ اللہ) آخری نبی ہوں گے خواہ وہ اس کا زبان سے اقرار کریں یا نہ کریں۔

٭…بعض علماء نے ایک مثال سے اپنے موقف کی یوں تائید کی ہے کہ حضرت عیسیؑ کا امت محمدیہ میں آنا ایسا ہی ہے جیسا کسی صوبہ کا گورنر کسی دوسرے صوبہ میں جاتا ہے۔دوسرے صوبہ میں جانے سے وہ اپنی گورنری سے معزول نہیں ہو جاتا۔(مثلاً دیکھیں: احتساب قادیانیت (۱۷/۳۲)مگر یہ قیاس مع الفارق ہے۔مخالفین یہ سوچتے نہیں کہ ان کی دی گئی مثال انہی کے مسلمات کے خلاف ایک بڑی دلیل ہے۔وہ ایسے کہ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت محدود تھی یعنی صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے۔جبکہ حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی نبوت ساری دنیا اور ساری اقوام کے لیے ہے۔پس حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد ان کا کسی صوبہ پر اختیار ہی نہیں رہا۔آپ کی بیان کی ہوئی مثال تو تب صحیح ہوتی جب حضرت اقدس رسول اللہﷺ معاذ اللہ بنی اسرائیل کو چھوڑ کر باقی تمام دنیا کے نبی ہوتے۔مگر یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ حضرت اقدس رسول اللہﷺ تمام دنیا کے رسول ہیں۔گویا بنی اسرائیل و بنی اسماعیل اور تمام اقوام کے گورنر ہیں۔پس اگر اب حضرت عیسیٰؑ کی آمد تسلیم کی جائے تو یہ ختم نبوت کے صریحاً منافی ہے۔حضرت عیسیٰؑ کی آمد کا لازمی نتیجہ ہے کہ آپ کی گورنری (نبوت)حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد بھی جاری و ساری ہےحالانکہ حضرت ا قدس رسول اللہﷺ کی نبوت سے تمام نبوتیں ختم ہو گئی ہیں صرف ایک ہی نبوت ہے اور وہ حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی نبوت ہے جو قیامت تک قائم رہے گی۔

٭… بعض علماء نےتطبیق میں یہ تساہل بھی کیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نزول کے وقت (معاذ اللہ) وصف نبوت سے معزول ہو کر آئیں گے۔مثلاً علامہ الخفاجی (۱۰۶۹ھ) تفسیر بیضاوی پر اپنے مشہور حاشیہ میں لکھتے ہیں: الظاهرُ أنَّ المرادَ مِن كونِه على دينِ نبِيِّنا صلى اللّٰه عليه وسلم انسِلاخُه عن وصفِ النُّبُوَّةِ والرِّسالةِ۔(عنایۃ القاضی و کفایۃ الراضی(۷/۴۹۵)

یعنی حضرت عیسیٰؑ کا نبی کریمﷺ کے دین پر نازل ہونے کا مطلب ہے کہ آپؑ (معاذ اللہ) وصفِ نبوت سے الگ کر دیے جائیں گے۔قاضی عیاض لکھتے ہیں: أنّ عيسى حِينَ نُزُولِه لا يَكونُ رسولًا لهذه الأمةِ ولا مجددًا شريعة، وإنما يأتى بالحُكمِ بِشرِيعة محمد – عليه الصلاة والسلام۔ (إكمال المعلم بفوائد مسلم (۷/۴۰۵) یعنی حضرت عیسیٰؑ اپنے نزول کے وقت اس امت کے رسو ل ہوں گے اور نہ کہ شریعت کی تجدید کرنے والے ہوں گے بلکہ وہ اس شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے لیے تشریف لائیں گے۔لیکن یہ تطبیق نہایت کمزور ہے :

۱)مضمون کے ابتدائی حصہ میں علماء کی ایک بڑی تعداد کے حوالہ جات موجود ہیں جو حضرت عیسیٰؑ کے نزول کو بہ حیثیت نبی مانتے ہیں بلکہ اس کے انکار کو کفر سمجھتے ہیں جیسے علامہ البرزنجی (۱۱۰۳ھ)،امام السیوطی(۹۱۱ھ) کے حوالہ سے لکھتے ہیں:مَن قال بِسَلبِ نُبُوّتِہ فقد کَفَرَ۔(الاشاعۃ لاشراط الساعۃ صفحہ۱۳۹ طبع دار الکتب العلمیۃ)یعنی جس نے حضرت عیسیٰؑ کے نبوت سے معزول ہونے کا نظریہ رکھا تو اس نے کفر کیا۔

۲)بعض علماء نے خاص ان اقوال کو درج کر کے ان کا ردّ کیا ہے مثلاً ملا علی القاری لکھتے ہیں: قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ فِي قَوْلِهِ:’’إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘‘ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِذَا نَزَلَ حَكَمًا مِنْ حُكَّامِ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَدْعُو بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ – صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَلَا يَنْزِلُ نَبِيًّا أَقُولُ: وَلَا مُنَافَاةَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا وَيَكُونَ مُتَابِعًا لِنَبِيِّنَا – صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي بَيَانِ أَحْكَامِ شَرِيعَتِهِ، وَإِتْقَانِ طَرِيقَتِهِ، وَلَوْ بِالْوَحْيِ إِلَيْهِ كَمَا يُشِيرُ إِلَيْهِ قَوْلُهُ – صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ’’ ’’لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِّبَاعِي‘‘ ’’ أَيْ مَعَ وَصْفِ النُّبُوَّةِ وَالرِّسَالَةِ، وَإِلَّا فَمَعَ سَلْبِهِمَا لَا يُفِيدُ زِيَادَةَ الْمَزِيَّةِ۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (۱۱/ ۲۴۰-۲۴۱) یعنی بعض علماء حدیث کی یہ شرح کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ ایک حاکم کے طور پر نازل ہوں گے اور نبی نہیں ہوں گے۔اس پر ملاں علی القاری کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے نبی ہونے میں اور حضورﷺ کے تابع ہونے میں کوئی تضاد نہیں ہے اگرچہ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے تو بھی اس میں کچھ مانع نہیں ہے جیسا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر موسیٰؑ زندہ ہوتے تو میرے متبع ہوتے۔اس مقام پر یقینی طور پر آپﷺ کی مراد حضرت موسیٰؑ کا وصفِ نبوت کے ساتھ ہونا تھا ورنہ فضیلت باقی نہیں رہتی۔ اسی طرح علامہ آلوسی،خفاجی کا قول درج کر کے لکھتے ہیں: فمعاذَ اللّٰهِ أن يُعزَل رسول أو نبـي عن الرسالةِ أو النبوةِ بل أكادُ لا أتعقَّل ذلك، ولعلّه أرادَ أنه لا يَبقى له وصف تبليغِ الأحكامِ عن وحي۔(روح المعاني (۱۱/ ۲۱۳)یعنی اللہ کی پناہ اس بات سے کہ یہ مانا جائے کہ ایک نبی یا رسول اپنی نبوت یا رسالت سے معزول کیا جائے گا۔میری عقل میں تو یہ بات بالکل نہیں آتی۔شاید علامہ خفاجی کی مراد یہ ہو کہ آپؑ کا وحی کے ذریعہ تبلیغ احکام کرنے کا وصف باقی نہیں رہے گا۔

۳)یہ بات یقینی طور پر ممکن ہے کہ خفاجی یا قاضی عیاض وغیرہ کی مراد مطلق نبوت کی نفی نہ ہو جیسا علامہ آلوسی نے اشارہ کیا ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے بعض علماء نے لا ینزل نبیا کے ساتھ ایسی شرائط لگا دی ہیں جن سے لگتا ہے کہ علامہ خفاجی وغیرہ کی بھی یہی مراد تھی۔مثلاً علامہ النووی لکھتے ہیں:’’ أَيْ يَنْزِلُ حاكما بهذه الشريعة لا ينزل نبيا بِرِسَالَةٍ مُسْتَقِلَّةٍ وَشَرِيعَةٍ نَاسِخَةٍ بَلْ هُوَ حَاكِمٌ مِنْ حُكَّامِ هَذِهِ الْأُمَّةِ‘‘۔(المنهاج في شرح صحيح مسلم بن الحجاج (۲/۱۹۰)یعنی آپؑ شریعت محمدیہ کے ساتھ فیصلہ کرنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے نہ کہ کسی مستقل ناسخ شریعت کے ساتھ۔ علامہ العراقی (۸۰۴ھ) نے بھی اس مفہوم کو بیان کرنے کے لیے تقریباً یہی الفاظ استعمال کیے ہیں:’’وَالْمُرَادُ أَنَّهُ يَنْزِلُ حَاكِمًا بِهَذِهِ الشَّرِيعَةِ لَا نَبِيًّا بِرِسَالَةٍ مُسْتَقِلَّةٍ وَشَرِيعَةٍ نَاسِخَةٍ فَإِنَّ هَذِهِ الشَّرِيعَةَ بَاقِيَةٌ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا تُنْسَخُ‘‘۔( طرح الثریب فی شرح التقریب (۷/۲۵۵)

٭…یہ خیال بھی درست نہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کا امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھنا ان کی نبوت کے منافی ہے۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں: وَيُشْبِهُ هَذَا مَا بَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْمُنْكِرِينَ أَنَّهُ أَنْكَرَ مَا وَرَدَ مِنْ أَنَّ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ إِذَا نَزَلَ يُصَلِّي خَلْفَ المهدي صَلَاةَ الصُّبْحِ، وَأَنَّهُ صَنَّفَ فِي إِنْكَارِ ذَالِكَ كِتَابًا… وَقَوْلُ هَذَا الْمُنْكِرِ: إِنَّ النَّبِيَّ أَجَلُّ مَقَامًا مِنْ أَنْ يُصَلِّيَ خَلْفَ غَيْرِ نَبِيٍّ – جَوَابُهُ: أَنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَلُّ الْأَنْبِيَاءِ مَقَامًا وَأَرْفَعُهُمْ دَرَجَةً، وَقَدْ صَلَّى خَلْفَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ مَرَّةً، وَخَلْفَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أُخْرَى۔(الحاوی للفتاویٰ صفحہ۵۷۳-۵۷۴)یعنی بعض منکرین نے حضرت عیسیٰؑ کے امام مہدی کے پیچھے نما ز پڑھنے کا انکار کیا ہے بلکہ اس پر کتاب بھی لکھی ہے…انکار کرنے والے کی یہ دلیل کہ نبی کا مقام اس سے بڑا ہے کہ وہ غیر نبی کے پیچھے نماز پڑھے، کا جواب یہ ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ تمام انبیاءسے مقام اور مرتبہ میں بلند تھے مگر آپﷺ نے بھی حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ اور حضرت ابو بکر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔پس ثابت ہوا کہ غیر نبی کے پیچھے نماز پڑھنا نبوت کو باطل نہیں کرتا۔

جماعت احمدیہ اور دیگر علماء کے درمیان محلِ اختلاف

مذکورہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوا کہ علماء:

۱)اس بات پر متفق ہیں کہ لا نبی بعدی اور خاتم النبیین میں مطلق نفی نہیں کرتے جیسا کہ معتزلہ یا جہمیہ کا نظریہ ہے۔

۲)اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ بطور نبی تشریف لائیں گے۔

۳)اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنی سابقہ نبوت مستقلہ کے ساتھ تشریف لائیں گے اور امتی بن جائیں گے۔

ہمارے نزدیک یہ تیسری شق خاص طور پر محلِ نظر ہے اور یہ ختم نبوت کے خلاف ہے کیونکہ

۱۔ اس کے معنی ہیں کہ ایک مستقل نبی جس کی نبوت کے حصول میں حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی پیروی کا بالکل بھی دخل نہیں،آپﷺ کے بعد آ جائے گا۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’ علاوہ ان باتوں کے مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کو یہ آیت بھی روکتی ہے ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین اور ایسا ہی یہ حدیث بھی کہ لَانَبِیَّ بَعْدِی۔ یہ کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ باوجودیکہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آ جائے اور وحئی نبوت شروع ہو جائے؟ کیا یہ سب امور حکم نہیں کرتے کہ اس حدیث کے معنے کرنے کے وقت ضرور ہے کہ الفاظ کو ظاہر سے پھیرا جائے ‘‘۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ۲۷۹)

۲۔حضرت عیسیٰ مستقل نبی امتِ موسویہ کے حامل ہونے کے باوجود فیصلہ امت ِ محمدیہ کے حکم عدل ہو کر آئیں گے؟یعنی عہدۂ نبوت کا دائرہ گذشتہ امت ہے لیکن اس کا نفاذ امتِ محمدیہ پر ہو گا؟

۳۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کو وحی نبوت ہوگی؟ اگر کہا جائے کہ نہیں تو یہ غیر معقول بات ہے کہ نبی تو ہو مگر وحیٔ نبوت نہ ہو۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’ ہر یک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیاہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیاہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لئے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔ لیکن اگرہم فرض کے طور پر مان بھی لیں کہ مسیح ابن مریم زندہ ہو کر پھر دنیا میں آئے گا تو ہمیں کسی طرح اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ رسول ہے اور بحیثیت رسالت آئے گا اور جبرئیل کے نزول اور کلام الٰہی کے اُترنے کا پھر سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ جس طرح یہ بات ممکن نہیں کہ آفتاب نکلے اور اس کے ساتھ روشنی نہ ہو۔ اسی طرح ممکن نہیں کہ دنیا میں ایک رسول اصلاح خلق اللہ کے لئے آوے اور اس کے ساتھ وحی الٰہی اور جبرائیل نہ ہو۔‘‘ ( ازالۂ اوہام روحانی خزائن جلد ۳صفحہ۴۱۲) علامہ الھیتمی اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: نَعَمَ یُوْحٰی اِلَیْہِ وَحْیٌ حَقِیْقِیٌّ کَمَا فِیْ حَدِیْثٍ صحیح مسلم۔(الفتاویٰ الحدیثیۃ صفحہ ۱۸۱ )علامہ آلوسی ہردو فریق کے موقف ( یعنی ایک جو کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو وحی نہیں ہو گی اور دوسرا جو کہتا ہے کہ وحی ہو گی) میں تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ولعَلَّ مَن نَفي الوحي عنه عليه السّلام بعد نُزُلِه أرادَ وحي التَّشريعِ وما ذُكِر وحي لا تشريعَ فيه فتأمَّل۔(روح المعانی (۸/۲۱۹)یعنی جس نے حضرت عیسیٰؑ سے وحی کی نفی کی اس کی مراد تشریعی وحی تھی اور جس نے اثبات کیا اس کی مراد ایسی وحی ہے جس میں تشریع نہیں۔علامہ السیوطی صحیح مسلم کی حدیث کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فَهَذَا صَرِيحٌ فِي أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ بَعْدَ النُّزُولِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ الْجَائِيَ إِلَيْهِ بِالْوَحْيِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، بَلْ هُوَ الَّذِي يُقْطَعُ بِهِ وَلَا يُتَرَدَّدُ فِيهِ؛ لِأَنَّ ذَالِكَ وَظِيفَتُهُ، وَهُوَ السَّفِيرُ بَيْنَ اللّٰہِ وَبَيْنَ أَنْبِيَائِهِ، لَا يُعْرَفُ ذَالِكَ لِغَيْرِهِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ وَالدَّلِيلُ عَلَى ذَالِكَ…وَقَدْ زَعَمَ زَاعِمٌ أَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِذَا نَزَلَ لَا يُوحَى إِلَيْهِ وَحْيًا حَقِيقِيًّا، بَلْ وَحْيَ إِلْهَامٍ، وَهَذَا الْقَوْلُ سَاقِطٌ مُهْمَلٌ؛ لِأَمْرَيْنِ أَحَدُهُمَا: مُنَابَذَتُهُ لِلْحَدِيثِ الثَّابِتِ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَمَا تَقَدَّمَ مِنْ صَحِيحِ مُسْلِمٍ،… وَذَالِكَ صَرِيحٌ فِي أَنَّهُ وَحْيٌ حَقِيقِيٌّ لَا وَحْيَ إِلْهَامٍ، وَالثَّانِي: أَنَّ مَا تَوَهَّمَهُ هَذَا الزَّاعِمُ مِنْ تَعَذُّرِ الْوَحْيِ الْحَقِيقِيِّ فَاسِدٌ؛ لِأَنَّ عِيسَى نَبِيٌّ، فَأَيُّ مَانِعٍ مِنْ نُزُولِ الْوَحْيِ إِلَيْهِ، فَإِنْ تَخَيَّلَ فِي نَفْسِهِ أَنَّ عِيسَى قَدْ ذَهَبَ وَصْفُ النُّبُوَّةِ عَنْهُ وَانْسَلَخَ مِنْهُ فَهَذَا قَوْلٌ يُقَارِبُ الْكُفْرَ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ لَا يَذْهَبُ عَنْهُ وَصْفُ النُّبُوَّةِ أَبَدًا وَلَا بَعْدَ مَوْتِهِ…. فَعُرِفَ بِذَالِكَ أَنَّهُ لَا تَنَافِيَ بَيْنَ كَوْنِهِ يَنْزِلُ مُتَّبِعًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كَوْنِهِ بَاقِيًا عَلَى نُبُوَّتِهِ، وَيَأْتِيهِ جِبْرِيلُ بِمَا شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الْوَحْيِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ۔ (الحاوی للفتاوی(۵۷۱-۵۷۳) یعنی یہ حدیث صریح دلالت کرتی ہے کہ حضرت عیسٰؑی پر وحی ہو گی اور ظاہر ہے کہ وحی حضرت جبریل ہی لے کر آتے ہیں اور یہ بات قطعی ہے اور اس میں کوئی ترددنہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ انہی کا کام ہے۔وہ اللہ اور اس کے انبیاء کے درمیان سفیر ہیں۔یہ کسی اور فرشتہ کا کام نہیں ہے۔(علامہ سیوطی دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں)…ہو سکتا ہے کہ گمان کرنے والا گمان کرے کہ حضرت عیسیٰؑ جب نازل ہوں گے ان پر وحی حقیقی نہیں ہو گی بلکہ وحی الہام ہو گی۔یہ موقف دو وجوہ سے مرجوع ہے۔اول یہ کہ صحیح مسلم کی صریح حدیث کے خلاف ہے دوسرا یہ کہ ایسا گمان کرنے والے کا یہ وہم کہ وحی حقیقی نہیں آ سکتی باطل ہے کیونکہ حضرت عیسیٰؑ نبی ہیں تو ان پر وحی ماننے میں کیا مانع ہے؟اور اگر کہو کہ ان سے وصف نبوت جاتا رہے گا تو یہ قول کفر کے قریب ہے کیونکہ نبی سے وصف نبوت کبھی نہیں جاتا اس کی موت کے بعد بھی نہیں…پس ثابت ہوا کہ ان کا حضورﷺ کا تابع ہو کر آنا اور نبوت پر باقی رہنا ایک دوسرے کے منافی نہیں اور ان پر جبریل وحی لائیں گے جیسے اللہ چاہے گا۔

خلاصہ یہ کہ علماء کا اضطراب واضح ہے۔وحی ہو گی یا نہیں ہو گی ؟ کیا ایک مستقل نبی کی وحی کو صرف الہام تک محدود رکھنا جائز ہے؟ وغیرہ

۴۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو قرآن شریف کا علم کیسے ہوگا؟کیا قرآن کریم ان پر نازل ہو گا؟علماء کے دیے گئے جواب بہت دلچسپ ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس بارے میں علماء کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’علاوہ اس کے ہر یک عاقل معلوم کر سکتا ہے کہ اگر سلسلہ نزول جبرائیل اور کلام الٰہی کے اُترنے کا حضرت مسیح کے نزول کے وقت بکلّی منقطع ہوگا تو پھر وہ قرآن شریف کو جو عربی زبان میں ہے کیوں کر پڑھ سکیں گے۔ کیا نزول فرماکر دوچار سال تک مکتب میں بیٹھیں گے اور کسی مُلّا سے قرآن شریف پڑھ لیں گے۔ اگرفرض کر لیں کہ وہ ایسا ہی کریں گے تو پھر وہ بغیر وحی نبوت کے تفصیلات مسائل دینیہ مثلًا نماز ظہر کی سُنت جو اتنی رکعت ہیں اور نماز مغرب کی نسبت جو اتنی رکعات ہیں اور یہ کہ زکوٰۃ کن لوگوں پر فرض ہے۔ اور نصاب کیاہے کیوں کر قرآن شریف سے استنباط کر سکیں گے۔ اور یہ تو ظاہر ہوچکا ہے کہ وہ حدیثوں کی طرف رجوع بھی نہیں کریں گے۔ اور اگر وحی نبوت سے ان کو یہ تمام علم دیا جائے گا تو بلاشبہ جس کلام کے ذریعہ سے یہ تمام تفصیلات اُن کو معلوم ہوں گی وہ بوجہ وحی رسالت ہونے کے کتاب اللہ کہلائے گی۔‘‘ (ازالۂ اوہام روحانی خزائن جلد ۳صفحہ۴۱۲)

خاکسار اختصار کی غرض سے صرف دو حوالے پیش کرتا ہے۔ علامہ ابن حجر کے حوالے سے علامہ سیوطی لکھتے ہیں: فَهَلْ يَنْزِلُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ حَافِظًا لِكِتَابِ اللّٰہِ الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ، وَلِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ يَتَلَقَّى الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ عَنْ عُلَمَاءِ ذَالِكَ الزَّمَانِ وَيَجْتَهِدُ فِيهَا؟ وَمَا الْحُكْمُ فِي ذَالِكَ؟ فَأَجَابَ بِمَا نَصُّهُ وَمِنْ خَطِّهِ نَقَلْتُ: لَمْ يُنْقَلْ لَنَا فِي ذَالِكَ شَيْءٌ صَرِيحٌ، وَالَّذِي يَلِيقُ بِمَقَامِ عِيسَى عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَنَّهُ يَتَلَقَّى ذَالِكَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَحْكُمُ فِي أُمَّتِهِ بِمَا تَلَقَّاهُ عَنْهُ؛ لِأَنَّهُ فِي الْحَقِيقَةِ خَلِيفَةٌ عَنْهُ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ۔(الحاوی للفتاویٰ (۵۷۳)یعنی علامہ ابن حجر سے سوال کیا گیا کہ کیا حضرت عیسیٰؑ حافظ قرآن و سنت کی حیثیت سے نازل ہوں گے یا قرآن و سنت علمائے زمانہ سے سیکھیں گے پھر اجتہاد کریں گے؟ابن حجر نے جواب دیا کہ اس بارے میں ہمیں نصوص میں کوئی صریح جواب نہیں ملتا۔البتہ حضرت عیسیٰؑ کے شایانِ شان ہے کہ وہ یہ سب حضرت رسول اللہﷺ سے حاصل کریں اور پھر آپﷺ کی امت میں اس کے مطابق فیصلے کریں کیونکہ اصل میں وہ آپﷺ کے خلیفہ ہیں۔اسی طرح علامہ سیوطی نے اس سوال کے جوا ب میں کہ بَيِّنْ لَنَا طَرِيقَ مَعْرِفَةِ عِيسَى بِأَحْكَامِ هٰذِهِ الشَّرِيْعَةِ (یعنی حضرت عیسیٰؑ احکام شریعت کیسے حاصل کریں گے؟)، چار طریق وضع کیے ہیں۔چنانچہ لکھتے ہیں:الطَّرِيقُ الْأَوَّلُ: أَنَّ جَمِيعَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ قَدْ كَانُوا يَعْلَمُونَ فِي زَمَانِهِمْ بِجَمِيعِ شَرَائِعِ مَنْ قَبْلَهُمْ وَمَنْ بَعْدَهُمْ بِالْوَحْيِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالَى عَلَى لِسَانِ جِبْرِيلَ… الطَّرِيقُ الثَّانِي: أَنَّ عِيسَى صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُمْكِنُ أَنْ يَنْظُرَ فِي الْقُرْآنِ فَيَفْهَمَ مِنْهُ جَمِيعَ الْأَحْكَامِ الْمُتَعَلِّقَةِ بِهَذِهِ الشَّرِيعَةِ مِنْ غَيْرِ احْتِيَاجٍ إِلَى مُرَاجَعَةِ الْأَحَادِيثِ كَمَا فَهِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَالِكَ مِنَ الْقُرْآنِ… الطَّرِيقُ الثَّالِثُ: مَا أَشَارَ إِلَيْهِ جَمَاعَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْهُمُ السبكي وَغَيْرُهُ، أَنَّ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ – مَعَ بَقَائِهِ عَلَى نُبُوَّتِهِ – مَعْدُودٌ فِي أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَاخِلٌ فِي زُمْرَةِ الصَّحَابَةِ، فَإِنَّهُ اجْتَمَعَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ حَيٌّ مُؤْمِنًا بِهِ وَمُصَدِّقًا…۔ وَقَدْ رَأَيْتُ فِي عِبَارَةِ السبكي فِي تَصْنِيفٍ لَهُ مَا نَصُّهُ: إِنَّمَا يَحْكُمُ عِيسَى بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ، وَحِينَئِذٍ فَيَتَرَجَّحُ أَنَّ أَخْذَهُ لِلسُّنَّةِ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَرِيقِ الْمُشَافَهَةِ مِنْ غَيْرِ وَاسِطَةٍ، وَقَدْ عَدَّهُ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ فِي جُمْلَةِ الصَّحَابَةِ هُوَ والخضر وَإِلْيَاسُ۔ قَالَ الذهبي فِي ’’ تَجْرِيدِ الصَّحَابَةِ‘‘: عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ نَبِيٌّ وَصَحَابِيٌّ؛ فَإِنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَهُوَ آخِرُ الصَّحَابَةِ مَوْتًا… ثُمَّ ظَهَرَ لِي طَرِيقٌ رَابِعٌ وَهُوَ أَنَّ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ إِذَا نَزَلَ يَجْتَمِعُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَرْضِ فَلَا مَانِعَ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَنْهُ مَا احْتَاجَ إِلَيْهِ مِنْ أَحْكَامِ شَرِيعَتِهِ… أَنَّ جَمَاعَةَ أَئِمَّةِ الشَّرِيعَةِ نَصُّوا عَلَى أَنَّ مِنْ كَرَامَةِ الْوَلِيِّ أَنْ يَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَجْتَمِعُ بِهِ فِي الْيَقَظَةِ، وَيَأْخُذُ عَنْهُ مَا قُسِمَ لَهُ مِنْ مَعَارِفَ وَمَوَاهِبَ… فَإِذَا كَانَ هَذَا حَالَ الْأَوْلِيَاءِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعِيْسَى النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْلَى بِذَالِكَ أَنْ يَجْتَمِعَ بِهِ فِي أَيِّ وَقْتٍ شَاءَ، وَيَأْخُذَ عَنْهُ مَا أَرَادَ مِنْ أَحْكَامِ شَرِيعَتِهِ مِنْ غَيْرِ احْتِيَاجٍ إِلَى اجْتِهَادٍ، وَلَا تَقْلِيدٍ لِحُفَّاظِ الْحَدِيثِ۔(الحاوی للفتاویٰ(۵۶۴-۵۷۰)یعنی پہلا طریق تطبیق کا یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ تمام انبیاء بذریعہ جبریل نازل شدہ وحی کے توسط سے تمام شرائع جو ان سے قبل گزری ہیں یا جو بعد میں آئیں گے،کا علم اپنے زمانہ میں رکھتے ہیں…دوسرا یہ مانا جائے کہ حضرت عیسیٰؑ بغیر احادیث کی طرف جائے براہِ راست قرآن کریم پر نظر کر کے شریعت محمدیہ کے تمام متعلقہ احکام کا فہم حاصل کر لیں گے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حاصل کیا…۔تیسرا طریق جس کی طرف علماء کی ایک جماعت علامہ سبکی سمیت گئی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اپنی (موسوی مستقل ) نبوت پر قائم رہتے ہوئے امتِ محمدیہ میں شمار ہوں گے اور وہ صحابہ میں سمجھے جائیں گے کیونکہ ان کا حضورﷺ کی زندگی میں مومن اور مصدق ہونے کی حالت میں آپ سے ملنا ثابت ہے (اور یہی تعریف صحابی کی ہے)…میں نے علامہ سبکی کی تصنیف میں یہ عبارت دیکھی۔وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ ہمارے نبی کریمﷺ کی شریعت کے فیصلے قرآن و سنت کی روشنی میں کریں گے۔پس معلوم یہی ہوتا ہے انہوں نے حضرت رسول اللہﷺ سے بالمشافہ سنت کا علم اخذ کیا ہے۔اسی وجہ سے بعض محدثین نے آپؑ کو اور حضرت خضر و الیاس کو صحابہ میں شمار کیا ہے اور علامہ ذہبی نے اپنی کتاب تجرید الصحابہ میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نبی اور صحابی بھی ہیں کیونکہ انہوں نے حضورﷺ کو دیکھا ہے پس وہ وفات کے لحاظ سے آخری صحابی ہوں گے…۔پھر مجھ پر ایک چوتھا طریق ظاہر ہوا کہ حضرت عیسیٰؑ جب نازل ہوں گے تو وہ زمین پر آپﷺ سے ملاقات کر کے احکام شریعت اخذ کر سکتے ہیں…ائمہ شریعت کی ایک جماعت نے اس بات پر نص کی ہے کہ ولی کی کرامت ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کو جاگتے ہوئے دیکھ سکتا ہے اور معارف حاصل کر سکتا ہے… تو اگر اولیاء کا یہ حال ہے تو حضرت عیسیٰؑ تونبی ہیں ان کے بارے میں یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ جب چاہیں آپﷺ سے احکام شریعت حاصل کر لیں۔ان کو نہ ہی اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے اورنہ ہی حفاظِ حدیث کی تقلید کرنے کی۔

خلاصہ یہ کہ علماء کی جانب سے یہ سب تکلفات کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس عقیدہ کی بنا ہی غلط ہے۔اور وہ یہ کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ ہیں اور وہی تشریف لائیں گے۔اگر قرآنی نصوص جو کہ وفاتِ مسیح پر دلالت کر رہی ہیں،کی روشنی میں احادیث کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی تو اس قسم کے تکلفات کی بالکل ضرورت نہ تھی۔

۵۔علماء امتی ہونے کی حقیقت کو نہیں سمجھے۔ ان کا کہناہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ امتی بن کر آئیں گے تو سوال یہ ہے کہ امتی کی حقیقت کیا ہے؟کیا صرف ایمان لانا امتی بناتا ہے تو وہ تو حضرت رسول اللہﷺ کی بعثت سے قبل ہی ان پر ایمان لائے ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے ہی بشارت دی کہ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ۔یہی نہیں بلکہ اگر امتی کا صرف یہی سرسری مطلب کیا جائے تو آیت میثاق النبیین کی روشنی میں ماننا پڑے گا کہ ہر نبی ہی دوسرے کا امتی ہے کیونکہ ان سب نے ایک دوسرے پر ایمان کا اقرار کیا ہے۔یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بارہا وضاحت فرمائی کہ امتی وہ ہوتا ہے جس کو تمام روحانی کمالات نبی متبوع کی پیروی سے حاصل ہوں۔جبکہ حضرت عیسیٰؑ کو سب سے بڑا روحانی کمال یعنی نبوت پہلے سے مستقل طور پر حاصل ہے پس وہ کیسے امتی بن سکتے ہیں؟پس ان کا آنا خاتم النبیین کے بعد ایک مستقل نبی کا آنا ہے:جب تک کوئی اُمّتی ہونے کی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا اورحضرت محمد ؐکی غلامی کی طرف منسوب نہیں تب تک وہ کسی طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اُتارنا اور پھر ان کی نسبت تجویز کرنا کہ وہ اُمّتی ہیں اور اُن کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چراغِ نبوّت محمدیہؐ سے مکتسب اور مستفاض ہے کس قدر بناوٹ اور تکلّف ہے۔ جو شخص پہلے ہی نبی قرار پا چکا ہے۔ اُس کی نسبت یہ کہنا کیونکر صحیح ٹھہرے گا کہ اس کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغِ نبوّت سے مستفاد ہے۔ اور اگر اس کی نبوّت چراغِ نبوت محمدیہ سے مستفاد نہیں ہے تو پھر وہ کن معنوں سے اُمّتی کہلائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اُمّت کے معنے کسی پر صادق نہیں آسکتے جب تک ہر ایک کمال اُس کا نبی متبوع کے ذریعہ سے اس کو حاصل نہ ہو۔ پھر جو شخص اتنا بڑا کمال نبی کہلانے کا خود بخود رکھتا ہے وہ اُمّتی کیونکر ہوا بلکہ وہ تو مستقل طور پر نبی ہوگا جس کے لئے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قدم رکھنے کی جگہ نہیں۔(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱۵) نیز حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’ ولیس مِن الأمّۃِ إلا الّذِی وَجَدَ کَمالَہ مِن فُیُوضِ المُصطَفٰی، ولا یُوجَد ھذا الشَّرطُ فی عیسٰی، فإنَّہ وَجَدَ مَرتَبَۃَ النُّبُوَّۃ ِقَبلَ ظُہُورِ سَیِّدِنا خاتَمِ الأنبیاءِ، فَکمالُہ لَیس بِمُستَفَاد مِن نَبِیِّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھذا أمر لیس فیہ شیء مِن الخفاءِ فَجَعلُہ فَردا مِن الأمَّۃِ جَہلٌ بِحَقیقۃِ لَفظِ ’’الامّۃِ‘‘ ‘‘۔(مواھب الرحمٰن، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۲۹۴)یعنی امتی تو وہ ہے جس کو حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی پیروی سے کمال حاصل ہوا۔حضرت عیسیٰؑ میں یہ شرط موجود نہیں وہ حضورﷺ کے ظہور سے قبل ہی نبی تھے۔پس ان کا کمال ہمارے نبی کریمﷺ سے حاصل شدہ نہیں ہے اور یہ بات واضح ہے۔پس ان کو امتی بنانا لفظ امت کو ناسمجھنے پر دلالت کرتا ہے۔

اگر کہو کہ وہ ان کی نبوت امتی ہو جائے گی تو دوسرے الفاظ میں گذشتہ مستقل نبوت ان سے لے لی جائے گی اور امتی نبوت دی جائے گی۔ فھو المراد!

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:ونَعتَقِدُ بِأنَّہ لا نبیَّ بَعدَہ إلَّا الَّذِی ھُوَ مِن أمَّتِہ ومِن أکمَلِ أتباعِہ، الَّذی وَجَدَالفَیضَ کلَّہ مِن رُوحانیتِہ وأضاءَ بضِیائِہ . فَہُناک لا غَیرَ ولا مقامَ الغَیرَۃِولیسَت بِنُبُوَّۃ أخرٰی ولا مَحَلَّ للحَیرَۃِ، بل ھو أحمَدُ تَجَلّی فی سَجَنْجَلٍ آخرَ، ولا یَغارُرَجل علی صُورَتِہ الَّتی أراہ اللّٰہُ فی مِرْآۃ وأظہَرَفإنَّ الغَیرۃَ لا تَہِیجُ علی التِّلامِذَۃِوالأبناءِ، فَمَن کان مِنَ النَّبی وفی النَّبی فإنَّما ھُوَ ھُوَ، لِأنَّہ فی أتَمِّ مقامِ الفَناءِ… ولایَدخُلُ الحضرۃَ أبدا إلَّا الَّذی مَعَہ نَقشُ خاتِمِہ، وآثارُ سُنَّتِہ، ولَن یُقبَل عَمَل ولا عِبادۃ إلا بَعدَ الإقرارِ بِرسالتِہ، والثّباتِ علی دِینِہ ومِلَّتِہ….مَنِ ادَّعی النُّبُوَّۃَ مِن ھذہ الأمۃِ، وما اعَتَقَدَ بِأنّہ رُبّیَ مِن سَیّدنا محمّدٍ خیرِ البَریَّۃ،وبِأنَّہ لَیسَ ھُوَ شَیئا مِن دُونِ ھَذہِ الأسوَۃِ، وأنَّ القُرآنَ خاتِمُ الشَّریعۃِ، فَقَدھَلَکَ وألحَقَ نَفسَہ بالکفَرَۃِ الفَجَرَۃِ. ومَنِ ادَّعی النُّبُوَّۃَ ولَم یَعتَقِد بِأنّہ مِن أمَّتِہ، وبِأنَّہ إنَّما وَجَدَ کُلَّ ما وَجَدَ مِن فَیضَانِہ، وأنَّہ ثَمَرَۃ مِن بُستَانِہ،وقَطرَۃ مِن تَہْتَانِہ، وشَعْشَعٌ مِن لُمعانِہ، فَہُوَ مَلعُون ولعنۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ وعَلی أنصارِہ وأتباعِہ وأعوانِہ. لا نبیَّ لَنَا تَحتَ السَّماءِ مِن دُونِ نَبِیِّنا المُجتَبٰی،ولا کِتابَ لَنَا مِن دُونِ القُرآنِ، وکُلُّ مَن خَالَفَہ فَقَد جَرَّ نَفسَہ إلی اللظی۔(مواھب الرحمٰن، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۲۸۵-۲۸۷)

یعنی ہمارا اعتقاد ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں مگر جو آپﷺ کی امت میں سے ہو اور آپﷺ کے سب سے کامل متبعین میں سے ہو۔جس نے اپنا تمام فیض حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی روحانیت سے حاصل کیا ہو اور وہ آپﷺ کے نور سے منور ہوا ہو۔اس مقام میں نہ کوئی اجنبیت ہے اور نہ غیرت کی جگہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی الگ نبوت ہے اور نہ ہی حیرت کا مقام ہے بلکہ یہ احمد ہی ہے جو دوسرے آئینہ میں ظاہر ہوا۔اور کوئی شخص اپنی ہی صورت پر جو اللہ نے آئینہ میں دکھائی اور ظاہر کی،غیرت نہیں کھاتاکیونکہ غیرت شاگردوں اور بیٹوں پر جوش نہیں مارتی۔پس جو نبی سے (فیض یافتہ)ہے اور نبی میں (فنا) ہے وہ درحقیقت وہی ہے کیونکہ وہ کامل فنا کے مقام پر ہے……اب ذات باری تعالیٰ کی درگاہ میں وہی داخل ہو سکتا ہے جس کے پاس آپﷺ کی مہر کا نقش ہے اور آپﷺ کی سنت کے آثار ہوں۔اوراب کوئی عمل یا عبادت قابل قبول نہیں جب تک آپﷺ کی رسالت کا اقرار نہ ہو اور آپﷺ کے دین پر ثابت قدم نہ ہو…جس نے اس امت میں سے نبوت کا دعویٰ کیا لیکن یہ اعتقاد نہ رکھا کہ وہ حضرت اقدس رسول اللہﷺ کا تربیت یافتہ ہے،اور و ہ آپﷺ کے اسوہ کے بغیر کچھ نہیں اور یہ کہ قرآن آخری شریعت ہے،تو وہ ہلاک ہو گیا اور اس نے خود کو کافروں اور فاجروں سے جا ملایا۔ اور جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ اعتقاد نہ رکھا کہ وہ آپﷺ کی امت میں سے ہے اور جو کچھ اسے ملا ہے وہ آپﷺ کا فیضان ہے اور یہ کہ وہ آپﷺ کے ہی باغ کا پھل ہے اور آپﷺ ہی کی موسلادھار بارش کا ایک قطرہ ہے آپﷺ کی ہی روشنی کی ایک کرن ہے،تو وہ ملعون ہے اور اس پر اور اس کے انصار ومتبعین پر اللہ کی لعنت ہو۔آسمان کے نیچےہمارے نبی مجتبیٰﷺ کے علاوہ ہمارا کوئی نبی نہیں اور قرآن کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی تو وہ خودکو آگ کی طرف کھینچ کر لے گیا۔

خلاصہ کلام یہ کہ

۱۔ علماء کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کا نبوت مستقلہ موسویہ کے ساتھ آنا اور ان پر وحی نبوت ہونا نیز امت میں باہمی نزاعات میں فیصلہ کرنا ختم نبوت کے منافی نہیں ہے جبکہ ہمارے نزدیک یہ ختم نبوت کے صریح منافی ہے۔

۲۔حضرت عیسیٰؑ پر امتی ہونے کی حقیقت صادق نہیں آتی کیونکہ امتی وہ ہے جس نے تمام مدارج روحانیہ نبی متبوع کی پیروی سے حاصل کیے ہوں جبکہ حضرت عیسیٰؑ، حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی آمد سے قبل ہی مستقل نبی تھے۔

یعنی علماء کی یہ بات تو درست ہے کہ امتی نبی کا آنا ختمِ نبوت یا لا نبی بعدی کے خلاف نہیں ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ وہ امتی حضرت عیسیٰؑ بن جائیں گے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button