بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۶۸)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…غرقد والی حدیث کی وضاحت

٭…ظہر کی نماز سے پہلے رکعات کی تعداد کے بارے میں راہنمائی

سوال: سیرالیون سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حدیث میں آیا ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے لڑائی نہ کر لیں۔ اور یہود پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے اور پتھر اور درخت پکاریں گے کہ اے مسلمانو!،یہودی یہاں چھپا ہے آؤ اسے قتل کرو۔ مگر’’غرقد‘‘ایسا نہیں پکارے گا کیونکہ یہ درخت یہود کا ہے۔ اس حدیث کا مطلب سمجھا دیں نیز’’ غرقد ‘‘سے کیا مراد ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب: آپ نے اپنے خط میں جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُوْنَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُوْنَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُوْدِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَيَقُوْلُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللّٰہِ هَذَا يَهُوْدِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُوْدِ۔(صحیح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِبَاب لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مَكَانَ الْمَيِّتِ مِنَ الْبَلَاءِ)یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کی گھڑی قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے جنگ کریں گے اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی کسی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپ جائے گا تو وہ پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان! اے اللہ کے بندے ! یہ میرے پیچھے یہودی ہے آ اور اسے قتل کر، سوائے غرقد (درخت)کے کیونکہ وہ یہود کا درخت ہے۔

قرآن کریم اور احادیث میں بہت سی تمثیلی باتیں بیان ہوئی ہیں، جنہیں اگر ظاہر پر محمول کیا جائے تو ان کے حقیقی معانی سمجھ نہیں آ سکتے۔اس لیے ان باتوں کی حقیقت کو جاننے کے لیے ان کی تاویل کرنی پڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی بیان کردہ باتوں کی تاویل بھی اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے فرستادہ ہی بہتر جانتے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان باتوں کی تاویلات سکھاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ھُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ وَمَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ وَالرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ۔(آل عمران:۸) یعنی وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی ہے جس کی بعض (آیتیں تو) محکم ہیں جو اس کتاب کی جڑ ہیں اور کچھ اور (ہیں جو) متشابہ ہیں۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ تو فتنہ کی غرض سے اور اس (کتاب) کو (اس کی حقیقت سے) پھیر دینے کے لیے ان (آیات) کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو اس (کتاب) میں سے متشابہ ہیں۔ حالانکہ اس کی تفسیر کو سوائے اللہ کے اور علم میں کامل دستگاہ رکھنے والوں کے (کہ) جو کہتے ہیں (کہ) ہم اس (کلام) پر ایمان رکھتے ہیں (اور جو کہتے ہیں کہ یہ) سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہے کوئی نہیں جانتا اور عقل مندوں کے سوا کوئی بھی نصیحت حاصل نہیں کرتا۔

چنانچہ صحیح مسلم کے اسی باب میں جہاں مذکورہ بالا حدیث بیان ہوئی ہےکئی اَور احادیث بھی بیان ہوئی ہیں، جن کی بہرحال ہمیں کوئی نہ کوئی تاویل کرنی پڑے گی۔ورنہ ان کے ظاہری الفاظ کے کوئی معانی نہیں بنتے۔ مثلاً حبشہ کے چھوٹی پنڈلیوں والے ایک شخص کا کعبہ کو تباہ کرنا۔قیامت کی گھڑی قائم ہونے سے پہلے قحطان کے ایک آدمی کا لوگوں کو اپنے عصا سے ہانکنا۔دن اور راتیں ختم ہونے سے پہلے جھجاہ نامی شخص کا حکومت کرنا۔ اسی طرح اور کئی احادیث ہیں جن کے معانی سمجھنے کے لیے ہمیں ان کی کوئی نہ کوئی تاویل کرنی پڑے گی۔

یہ حدیث جس کی بابت آپ نے دریافت کیا ہے، اس میں قیامت کی گھڑی قائم ہونے سے پہلے مسلمانوں کی یہود کے ساتھ جنگ کا ذکر ہے۔اسی طرح صحیح مسلم کے اسی باب میں قیامت کی گھڑی قائم ہونے سے پہلے مسلمانوں کی ترکوں کے ساتھ جنگ کا بھی ذکر ہے۔ نیز بالوں کے جوتے پہننے والی قوم اور ڈھالوں جیسے چہروں والی قوم اور چھوٹی آنکھوں اور چھوٹی اور چپٹی ناک والی قوم کے ساتھ بھی جنگ کا ذکر ہے۔گویا دنیا کی کئی اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے قتال کا ذکر ہے۔ جبکہ اس کے برعکس صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ بھی مروی ہے کہ آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اسلام کی نشاٴۃ ثانیہ کے لیے آنحضورﷺ کا روحانی فرزند اور غلام صادق مسیح محمدیؑ جب مبعوث ہو گا تو وہ جنگوں کو موقوف کر دے گا۔(صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم)

آنحضورﷺ کے اسی فرمان کی بنا پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی مسلمانوں کو اس نام نہادجہاد سے باز رہنے، اور حضورﷺ کے حکم کی نافرمانی کی صورت میں ہتھیاروں کی اس جنگ میں ان کی ناکامی کے انذار پر مبنی نصائح فرمائیں۔ چنانچہ آپؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال

دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

فرما چکا ہے سید کونین مصطفٰے

عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التوا

جب آئے گا تو صُلح کو وہ ساتھ لائے گا

جنگوں کے سِلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا

یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا

بھولیں گے لوگ مشغلہ تِیر و تفنگ کا

یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۷-۷۸)

اور عملاً اسی طرح ہو رہا ہے اور جو لوگ حضورﷺ کی اس واضح ہدایت کی نافرمانی کر رہے ہیں وہ ہزیمت بھی اٹھا رہے ہیں۔

قرآن کریم اور احادیث نبویﷺ سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس مسیح محمدیؑ کا ظہور آخری زمانہ میں ہو گا جو قیامت کی گھڑی کے ساتھ متصل ہوگا۔ نیز یہ کہ وہ دجال جس سے تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کو ڈراتے آئے ہیں اور آنحضورﷺ نے بھی اس کے بارے میں صحابہ ؓکو انذار فرمایا، اس کا ظہور بھی اسی مسیح محمدی کے ہی زمانہ میں ہو گا۔ اور یہی مسیح محمدی اس دجال کا خاتمہ کرے گا۔(صحیح مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ بَاب ذِكْرِ الدَّجَّالِ وَصِفَتِهِ۔صحیح بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

پس ایک طرف تو بعض احادیث میں مسلمانوں کی آخری زمانہ میں مختلف اقوام کے ساتھ جنگوں کا ذکر ہے اور دوسری طرف مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جنگوں کے خاتمہ کا ذکر ہے، اب ان دونوں قسم کی احادیث کے ہم ظاہری معانی نہیں کرسکتےکیونکہ دونوں باتیں آپس میں متضاد ہیں۔ اس لیے لازماً ہمیں ایک بات کی تاویل کرنی پڑے گی۔ چنانچہ جب ہم اس آخری زمانہ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ اسلام کے پہلے دور میں مذہب کے نام پر تلوار کے ساتھ جس طرح جنگیں ہو رہی تھیں، اس آخری زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ کسی قوم کی اس طرح تلوار یا گولہ بارود کے ساتھ مذہبی جنگیں نہیں ہو رہیں بلکہ دنیا کے مختلف مذاہب اور اقوام طرح طرح کے اعتراضات کے ساتھ اسلام اور بانی اسلامؐ پر حملے کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان دونوں قسم کی احادیث کی آپس میں اس طرح تطبیق ہو گی کہ تلوار اور مختلف قسم کے ہتھیاروں کے ساتھ تو اس آخری زمانہ میں اسلام کی کسی کے ساتھ جنگ نہیں ہو گی۔ لیکن دجالی فتنہ جو یہود و نصاریٰ ہی کا ایک بگڑا ہوا گروہ ہے، مذہب اور خصوصاً اسلام کے خلاف چونکہ اس رنگ میں نبرد آزما ہو گا کہ دنیا کی تمام اقوام کو مذہب سے دور کرکےخدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے تعلق میں دوری پیدا کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کے لیے وہ تمام مذاہب اور خاص طور پر اسلام جو تمام مذاہب کا سردار مذہب ہے کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات اٹھائے گا اور لوگوں کے دلوں میں مذہب کے لیے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس دجالی فتنہ کے مقابلہ کے لیے اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ کے غلام صادق اور جری اللہ فی حلل الانبیاء کو بھیجے گا جو دلائل و براہین کے ساتھ مذہب کا دفاع کر ے گا اور لوگوں کے دلوں میں مذہب اور خدا تعالیٰ کے روحانی نظام کی محبت پیدا کرے گا۔ اور الٰہی تائید کے ساتھ اس دجالی فتنہ کی حقیقت لوگوں پر آشکار کرے گا۔ اور جو لوگ اس مسیح محمدی کی پیروی کریں گے اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اسلام کے دفاع کے لیے خلافت کا ایک روحانی نظام قائم فرمائے گا جو قرآن کریم، حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ اور آپ کے روحانی فرزند کی تعلیمات کے ذریعہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کرے گا۔ اور اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں دلائل و براہین کے ساتھ اس دجالی فتنہ کا مقابلہ کرے گا۔

اس روحانی معرکہ میں جو اقوام خواہ وہ یورپ کی ہوں یا امریکہ و افریقہ کی ہوں اور بھلے ان کے آپس میں باہمی اختلافات ہوں لیکن وہ بحیثیت مجموعی اس دجالی فتنہ کا ساتھ دیں گی۔اور یہی اقوام اصل میں ’’غرقد‘‘کا درخت ہیں جو ہر جائز و ناجائز طریق سے اس دجالی فتنہ کو مدد فراہم کر کے اسے پناہ دینے کا باعث بن رہی ہیں۔

سوال: کینیڈا سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں تحریر فرمایا ہے کہ ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں ہیں اور بعد میں بھی چار رکعتیں ہیں، چار کی جگہ دو دو بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔جبکہ فقہ احمدیہ میں لکھا ہے کہ ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعت اور فرض پڑھنے کے بعد دو رکعت نماز سنت ہے۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۱؍نومبر۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اصل بات یہ ہے کہ نماز ظہر کے فرضوں سے پہلے اور بعد میں پڑھی جانے والی سنت نماز کی رکعات کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ کی روایات ہیں کہ حضورﷺظہر سے پہلے چار اور بعد میں دو رکعات پڑھا کرتے تھے۔(صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، بَاب الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ،صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا،بَاب جَوَازِ النَّافِلَةِ قَائِمًا وَقَاعِدًا) نیز سنن ترمذی میں حضرت علیؓ کی بھی روایت ہے کہ حضورﷺ ظہر سے پہلے چار رکعات اور بعد میں دو رکعات ادا فرمایا کرتے تھے۔(سنن ترمذی، کتاب الصلوٰۃ، بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ)اسی طرح سنن ترمذی میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ جب کبھی حضورﷺ ظہر سے پہلے چار رکعات ادا نہیں کر پاتے تھے تو ظہر کے بعدان چار رکعات کو ادا فرماتے تھے۔ (سنن ترمذی، کتاب الصلوٰۃ، بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ) علاوہ ازیں سنن ترمذی میں حضرت ام حبیبہ ؓ کی روایات ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے ظہر سے پہلے چار اور بعد چار رکعات پڑھیں اللہ تعالیٰ نے اسے آگ پر حرام کر دیا۔ (سنن ترمذی، کتاب الصلوٰۃ، بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ) ان روایات کے علاوہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سےیہ بھی مروی ہے کہ حضورﷺ نماز ظہر سے پہلے اور بعد میں دو دو رکعات پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، بَاب التَّطَوُّعِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ،صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھابَاب فَضْلِ السُّنَنِ الرَّاتِبَةِ قَبْلَ الْفَرَائِضِ وَبَعْدَهُنَّ)

ان تمام احادیث پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضورﷺ عموماً نماز ظہر کے فرضوں سے پہلے چار اور بعد میں دو رکعات ادا فرمایا کرتے تھے۔حضورﷺ کے اس تعامل کی تائید آپ کے اہل بیت سے بھی ہوتی ہے۔ البتہ بعض اوقات حضورﷺ نے مسجد میں ظہر سے پہلے دو اور بعد میں دو رکعات بھی ادا کیں، جنہیں بعض صحابہؓ نے دیکھا، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا بیان ہے۔ لیکن اس کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی یہ روایت بھی ہے کہ اگر ظہر سے پہلے حضور چار رکعات ادا نہ کر سکتے تو بعد میں ان چار رکعات کو ادا فرما یا کرتے تھے۔ اس لیے ممکن ہے کہ حضور ان سنتوں کو اپنے گھر جاکر ادا فرماتے ہوں۔ کیونکہ حضورﷺ کا ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ فرض نمازوں کے علاوہ باقی نمازوں میں انسان کی سب سے بہترین نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں ادا کرتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان بَاب صَلَاةِ اللَّيْلِ)

پس نماز ظہر کی رکعات کے بارے میں حضورﷺ کی سنت متواترہ جو امت کے تعامل سے ہم تک پہنچی وہ یہی ہے کہ حضورﷺ ظہر کے چار فرضوں سے پہلے چار رکعات اور بعد میں دو رکعات نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔اگرچہ کتب احادیث میں ان رکعات کی بابت کچھ مختلف روایات بھی ملتی ہیں۔

اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اصولی ہدایات ہمیں عطا فرمائیں ان میں احادیث رسولﷺ کے متعلق آپ نے اس امر کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ احادیث کے دو حصے ہیں ایک وہ حصہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طورپرآگیا ہے۔ یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اورقوی اورلاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اورمرتبہ یقین تک پہنچادیا ہے۔ جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اورعقود اور معاملات اوراحکام شرع متین داخل ہیں۔ سو ایسی حدیثیں تو بلاشبہ یقین اور کامل ثبوت کی حد تک پہنچ گئی ہیں اور جو کچھ ان حدیثوں کو قوت حاصل ہے وہ قوت فن حدیث کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوئی اور نہ وہ احادیث منقولہ کی ذاتی قوت ہے اور نہ وہ راویوں کے وثاقت اور اعتبار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ وہ قوت ببرکت و طفیل سلسلہ تعامل پیدا ہوئی ہے۔ سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک ان کو سلسلۂ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں لیکن دوسرا حصہ حدیثوں کا جن کو سلسلۂ تعامل سے کچھ تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور صرف راویوں کے سہارے سے اور ان کی راست گوئی کے اعتبار پر قبول کی گئی ہیں ان کو میں مرتبہ ظن سے بڑھ کر خیال نہیں کرتا اور غایت کار مفید ظن ہوسکتی ہیں کیونکہ جس طریق سے وہ حاصل کی گئی ہیں وہ یقینی اور قطعی الثبوت طریق نہیں ہے بلکہ بہت سی آویزش کی جگہ ہے۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد۴صفحہ۳۵)

پس نماز ظہر کی سنتوں کے بارے میں حضورﷺ کا تعامل یہی ہے جو میں نے اوپر بیان کر دیا ہے کہ حضورﷺ عموماً ظہر سے پہلے چار اور بعد میں دو رکعات ادا فرمایا کرتے تھے، لیکن اگر کسی وجہ سے پہلے چار رکعات ادا نہ کر سکتے تو بعد میں چار رکعات کی ادائیگی فرمایا کرتے تھے۔

فقہاء نے حضورﷺ کے نوافل کو سنت مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ دو الگ الگ نام دیئے ہیں۔ یعنی ایسے نوافل جن پر حضورﷺ نے دوام اختیار فرمایا انہیں سنت مؤکدہ کہا جاتا ہے اور جن کو حضورﷺ نے کبھی ادا فرمایا اور کبھی ترک کردیا انہیں سنت غیر مؤکدہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ فقہاء نے ظہر کے فرضوں سے پہلے کی چار سنتوں اور بعد کی دو سنتوں کو سنت مؤکدہ کہا ہے اور بعد میں دو مزید سنتوں کو سنت غیر مؤکدہ کہا ہے۔

آنحضورﷺ کےاپنے شب و روز چونکہ خدا تعالیٰ کے حضور کثرت سے نوافل ادا کرنے اور دعاؤں میں ہی گزرتے تھے، اس لیے آپ صحابہ ؓکو بھی مختلف اوقات میں نوافل کی ادائیگی اور کثرت سے ذکر الٰہی کی ترغیب دلاتے رہتے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے ظہر کی نماز کی سنتوں کے متعلق بھی صحابہ کو ترغیب دلانے کے لیے فرمایا کہ جس شخص نے ظہر کی نماز سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعات کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ آگ کو اس پر حرام کر دے گا۔ فقہاء نے نماز ظہر کے بعد کی ان چار سنتوں کو مستحب قرار دیا ہے۔

پس فقہی اعتبار سے ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار اور بعد میں دو رکعات سنت مؤکدہ ہیں۔ اور اس کے بعد مزید دو رکعات سنت غیر مؤکدہ ہیں۔ نیز بعد میں دو کی بجائے چار رکعات پڑھنا مستحب ہے۔ البتہ اگر کسی نے ظہر سے پہلے چار کی بجائے دو سنتیں پڑھی ہوں تو وہ ظہر کے بعد چار رکعات اکٹھی بھی ادا کر سکتا ہے اور دو دو رکعات کر کے بھی پڑھ سکتا ہے۔ اس لیے تفسیر کبیر اور فقہ احمدیہ میں لکھی جانے والی دونوں باتیں ہی درست ہیں، انسان جس کے مطابق نماز ادا کرے گا اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھ سکتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button