متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ ہفتم)

خوف کا امن سے بدلنا

باوجود اس کے کہ حضور انور کو عزیزم رضا کی وفات پر بہت صدمہ ہوا تھا، جس طرح سے آپ نے اس حادثہ پر ردعمل دکھایا وہ ہر شخص کے لیے جو رضا کو جانتا تھا اور ان سب کے لیے بھی جو ہائیکنگ پر اس کے ساتھ تھے، صبر دینے والا تھا ۔لندن واپس تشریف لانے کے کچھ دن بعد حضور انور نے اسلام آباد (ٹلفورڈ) کا دورہ فرمایا تاکہ رضا کے والدین اور فیملی ممبران سے تعزیت فرمائیں۔ ا س موقع پر اسلام آباد میں جامعہ کے اس ہائیکنگ گروپ کے اکثر دوست موجود تھے۔جن میں میرے دوستوں میں سے عبدالقدوس عارف، نعمان ہادی اور فاطر طاہر مومن شامل تھے۔

قدوس صاحب نے گذشتہ سالوں میں ہماری پریس اینڈ میڈیا ٹیم میں میری معاونت کی تھی جبکہ باقی دونوں احباب عزیز م نعمان اور عزیز م فاطر کو چند سال قبل میرے دفتر میں وقفِ عارضی کے لیے بھجوایا گیا تھا۔ اگلے چند دنوں میں ان سب نے مجھے بتایا کہ کس طرح حضور انور نے انہیں اس سانحہ کے بعد حوصلہ عطا فرمایا تاکہ وہ زندگی میں آگے بڑھیں اور کس طرح ان کے صدمے کی کیفیت اور دلی تکلیف کو امن سے بدل کر انہیں اس حالت سے باہر نکالا۔

اس حادثے کے بعد لندن واپسی کے بارے میں عبدالقدوس صاحب نے بتایا کہ جونہی ہم لندن واپس پہنچے میں نے کپڑے بدلے اور سیدھا اسلام آباد چلا گیا۔ جہاں میں رضا (مرحوم )کی فیملی اور ان کی والدہ سے ملا۔ یہ ایسا وقت تھا کہ میں اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکا اور زار و قطار رونے لگااور یہی کیفیت عید کے اگلے دن تک جاری رہی یہاں تک کہ حضور انور رضا کے والدین سے ملنے کے لیے اسلام آباد تشریف لائے۔

قدوس صاحب نے مزید بتایا کہ اس دن ہم سب نے جو اٹلی میں رضا کے ساتھ تھے، ایک اَور بات کا مشاہدہ کیا کہ کس طرح خلافت غم کی ایک شدید کیفیت کو امن اور سکون سے بدل دیتی ہے۔ حضور انور کی تشریف آوری سے پہلے اسلام آباد میں ایک غم کی فضا تھی اور حضور انور کو ملنے کے بعد رضا کی فیملی اور ہم سب کو فوراً صبر آ گیا اور اپنے دلوں میں امن اترتا محسوس ہوا۔

اس واقعہ کے بارے میں نعمان ہادی صاحب نے مجھے بتایا کہ آپ تصور کر سکتے ہوں گے کہ جب سے یہ حادثہ پیش آیا اس وقت سے سارا گروپ صدمے کے باعث سکتہ میں تھا ۔ صرف یہی چیز ہمیں تسلی دے رہی تھی کہ حضور انور کو اس حادثہ کا علم ہوچکا ہے اور آپ رضا اور ہمارے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔

اس حادثہ کے بعد حضور انور سےپہلی مرتبہ ملنے کے بارے میں نعمان نے بتایا کہ جس طریق پر حضور انور نے ہمارے سکون کا سامان فرمایا اس نے ہم پر واضح کیا کہ کس طرح خلافت غم اور صدمہ کی کیفیت کو امن سے بدلتی ہے۔ جس لمحہ حضور انور نے ہمارے ساتھ اسلام آباد میں گفتگو کا آغاز فرمایا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ہماری مشکلات دور ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

سارے ہائیکنگ گروپ کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اب آپ کو آگے بڑھنا ہوگا اور زیادہ حوصلہ اور محنت سے جامعہ کی پڑھائی میں محنت کرنی ہوگی اور اپنے وقف کے مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کرنی ہوگی۔ اب آپ کو محض اپنی امیدوں اور خواہشوں کو ہی پورا نہیں کرنا بلکہ رضا کی خواہشوں اور امیدوں کو بھی پورا کرنا ہو گا۔یوں آپ کی دوستی کا حق ادا ہو گا۔

عزیزم فاطر مومن نے مجھے رضا کی وفات اور اس حادثہ کے بارے میں بتایا کہ پہاڑ سے اترتے وقت میں رضا کے ساتھ سب سے آخر پر تھا کہ اچانک میں نے رضا کو اپنے پاس سے بہت تیزی سے گزرتے ہوئے دیکھا۔وہ پھسل گیا تھا اور اپنا توازن کھو بیٹھا تھا۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ اس تک پہنچ سکیں لیکن اللہ کو یہی منظور تھا ۔ جو یادداشت میرے ذہن میں سب سے زیادہ مستحضر ہے وہ دعاؤں اور درود کی آواز ہے جو رضا کے گِرنے کے بعد سارے ہائیکنگ گروپ نے بلند کی۔ ہم صرف اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کر سکتے تھے۔

عزیز م فاطر نے بتایا کہ حضور انور کی محبت اور شفقت کو جاننے کے باوجود اپنے دل میں مجھے ڈر تھا کہ شاید حضور ناراض ہوںگے۔ تاہم جب حضور انور کو ملے توایسے جملہ شکوک و شبہات دور ہو گئے۔ عزیز م فاطر نے بتایا کہ جونہی حضور انور ہمیں ملے آپ نے فرمایا کہ پریشان نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے رضا کوبچانے کی بھرپور کوشش کی اور یہ بھی کہ ایسے حادثات کسی وقت بھی پیش آ سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہی خداتعالیٰ کی تقدیرتھی۔

اس صدمے کے پہنچنے پر اور فوری تسکین میسر آنے کے بارے میں عزیزم فاطر نے بتایا کہ میں نے ایسی چیز کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ ایک ایسے دوست کو کھونا جو میرے ساتھ پلابڑھا ہو یقیناً بہت زیادہ صدمہ پہنچانے والی بات تھی۔اس کے بعد کئی دنوں تک ان لمحات کے مناظر میری نظروں میں گھومتے رہے۔ جب میں باضابطہ طور پر رضا کی میت کی شناخت کے لیےگیا توعالم تصوّر میںپہاڑوں میں ہماری بلند دعاؤں کی گونج سن رہا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ہمیں کسی ماہر نفسیات کےپاس جانا چاہیے تاکہ وہ صدمہ کے بعد ہونے والے ذہنی دباؤ کا علاج کرسکے ۔ تاہم حضور انور کے محبت بھرے الفاظ نے ہمیں ایسی شفابخشی کہ کوئی ماہر نفسیات بھی شاید ایسا نہ کر پاتا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہمیں دوبارہ زندگی مل گئی ہو۔ حضور انور کی محبت، شفقت اور قوت ِقدسی ایسی ہے جس کا کسی دوسرے وجود سے موازنہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔

Calais میں رُکنا

جس سروس سٹیشن پر ہم نے نماز پڑھی وہیں ہم سب نے ہلکا پھلکا کھانا کھایا اور بعد ازاں حضور انور نے اس موقع پر موجود جملہ احباب جماعت احمدیہ جرمنی سے ملاقات کی جس کے بعد قافلہ سیدھا Calaisکی طرف بڑھا جہاں ہم شام پانچ بج کر پانچ منٹ پر پہنچے۔

گھر (یوکے) واپسی کے سفر پر قافلہ میں ایک جگہ خالی تھی کیونکہ محمود خان صاحب ابھی تک ہسپتال میں تھے۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت ایک نوجوان خادم ظفراللہ خان صاحب کو قافلے میں شامل ہونے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ ظفراللہ صاحب ایک شادی میں شمولیت کی غرض سے جرمنی آئے تھے۔ ان کی بذریعہ جہاز لندن واپسی تھی لیکن قافلے میں ایک خالی جگہ ہونے پر انہوں نے حضور انور سےقافلے کے ساتھ واپس جانے کی درخواست کی۔

جس دوران ہم سروس سٹیشن پر انتظار کر رہے تھے، ظفراللہ صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگےکہ عابد صاحب، ممکن ہے آپ کے لیے یہ عام بات ہو لیکن میرے لیے حضور انور کو ایسے غیر رسمی طور پر دیکھنا ، سروس ایریا میں چلتے پھرتے دیکھنا اور لاوٴنج میں تشریف فرما دیکھنا بہت غیر معمولی ہے۔

میں نے کہاکہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعی غیر معمولی بات ہے اور چاہے آپ کو حضور انور کے ساتھ سفر کرنے کی سعادت کتنی بار ملی ہے، ایسے مناظر کبھی معمولی حیثیت کے حامل نہیں ہوسکتے۔

جیسا کہ ہماری shuttleکا وقت قریب آ رہا تھا حضور انور اور خالہ سبوحی قافلہ کی گاڑیوں کی طرف تشریف لائے۔ خالہ سبوحی گھٹنے پر لگنے والی ایک چوٹ کی وجہ سے آہستہ چلتی ہیں لہٰذا حضور انور بھی آپ سے چند قدم پیچھے آہستہ رفتار میں چل رہے تھے۔ چلتے چلتے حضور انور نے دیکھا کہ میں اپنی نوٹ بُک میں کچھ لکھ رہا ہوں اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم یہ لکھ رہے ہو کہ ہم نہایت آہستہ رفتار میں چل رہے ہیں؟

میں نے عرض کیا کہ جی نہیں، حضور ،میں یہ لکھ رہا تھا کہ اپنی گاڑی کی طرف جاتے ہوئے آپ نے اشارہ سے خالہ سبوحی کو پالتو جانوروں کے کھیلنے کا ایریا دکھایا جو انہوں نے کار پارکنگ میں بنایا ہوا ہے۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مجھے یہاں بچوں کے کھیلنے کا کوئی ایریا نظر نہیں آیا لیکن پالتو جانوروں کے کھیلنے کا ایریا بہر حال بنا ہوا ہے۔

ایک لمبے دن کی تھکاوٹ کے بعد حضور انور کو مسکراتا ہوا دیکھنا بہت راحت بخش تھا۔

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button