حضرت مصلح موعود ؓ

مُشیر کا فرض ہے کہ امانت دار ہو (قسط اوّل)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۱؍فروری۱۹۲۱ء)

اس خطبہ میں حضورؓ نےمشورہ کی شرائط اور مشورہ کے مقاصد کو بیان فرمایا ہےنیز آپؓ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

تشہد و تعوذ سورہ فاتحہ اور آیت شریفہ :یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ وَتَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (الانفال ۲۸) کی تلاوت کے بعد فرمایا۔

آج میرا منشاء ایک اَور ہی مضمون بیان کرنے کا تھا۔ مگر ایک خط نے جو آج ہی ایک دوست کی طرف سے ملا ہے توجہ کو اَور طرف پھرایا ہے۔ اور میں اس کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں۔

خوب اچھی طرح یاد رکھو کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کے بہت سے افراد میں کام کی اہلیت نہ پائی جائے۔

جن قوموں کے اکثر افراد میں کام کرنے کی اہلیت نہ ہو وہ جلد تباہ ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ انسان فانی ہے۔ ایک عرصہ میں کام کرنے والے افراد مر جاتے ہیں۔ ان کے بعد جن کے ہاتھوں میں کام جاتا ہے وہ کام کے اہل نہیں ہوتے۔ اس لئے ایسی جماعتیں بہت جلد تباہ ہو جاتی ہیں۔ پس وہی جماعت قائم رہ سکتی ہے جس میں ایک کا م کرنے والے کے بعد دوسرا کھڑا ہو۔اور دوسرے کے بعد تیسرا۔ اور تیسرے کے بعد چوتھا۔اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا جائے۔

کام کی اہلیت اور قابلیت دو طرح پیدا ہوتی ہے۔ اول عملی تجربہ سے دوسرے علمی طریق سے۔

اگر عملی قابلیت کے ساتھ علم نہ ہو تو کوئی کامل نہیں ہوسکتا۔ اگر علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو بھی کوئی شخص قابل نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ایک شخص نے عملی طور پر سرجری کو پڑھا ہو اور ایک ذخیرہ کتب پڑھا ہو مگر عملی تجربہ اس کو نہ ہو اور وہ محض اپنے علم کی بنا پر چاہے کہ میں آپریشن کروں تو یقیناً یہ شخص عالم ہونے کے باوجود کسی کی جان لے لے گا۔ لیکن اگر علم کے ساتھ اس نے عمل بھی کیا ہے یعنی پہلے مُردوں پر مشق کی ہے پھر ماہر ڈاکٹروں کو آپریشن کرتے دیکھا ہے۔ اور ماہروں کے سامنے خود آپریشن کی مشق کی ہے تو اس کا علم اور عمل مفید اور کارگر ہوں گے۔

تمام کاموں میں یہی ہوتا ہے کہ علم کے ساتھ تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر کوئی شخص محض کتاب پڑھ کر طبیب بننا چاہے تو محال ہے۔ ضرورت ہے کہ طب کی کتب پڑھنے کے ساتھ لائق طبیب کے سامنے مریضوں کی تشخیص اور علاج کیا ہوتب کامل ہوگا۔ ورنہ علم بغیر عمل کے ناقص رہے گا اور عمل بغیر علم کے مفید نہیں ہوگا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی علم اور عمل کے متعلق سناتے تھے کہ ایک طبیب تھا جو بہت بڑا عالم تھا۔ اس نے طب کا علم خوب پڑھا تھا۔ اس نے رنجیت سنگھ کا شہرہ سنا تو دلی سے اس کے دربار میں پہنچا کہ شاید ترقی حاصل ہو۔ رنجیت سنگھ کا وزیر ایک مسلمان تھا۔ اس نے اس سے ملاقات کی اور اس سے مہاراجہ سے ملنے کے لیے سفارش چاہی۔ وزیر کو اندیشہ ہوا کہ اگر اس کا رسوخ ہوگا تو میں نہ کہیں گر جائوں۔ اور طبیب کی سفارش نہ کرنا بھی اس نے مروّت کے خلاف سمجھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے اس نے سفارش کی اور کہا کہ حضور یہ بہت بڑے عالم ہیں انہوں نے فلاں کتاب پڑھی ہےفلاں کتاب پڑھی ہے اور اس کے علم کی بہت تعریف کی۔

مہاراجہ نے پوچھا کہ یہ تو بتائو کہ انہوں نے علاج میں کیا کیا تجربے حاصل کئے ہیں؟

وزیر نے کہا کہ تجربہ بھی حضور کے طفیل ہوجائے گا۔ رنجیت سنگھ دانا آدمی تھا۔ سمجھ گیا کہ علم بغیر عمل کے کچھ نہیں اور کہا کہ تجربہ کے لئے کیا غریب رنجیت سنگھ ہی رہ گیا ہے۔ بہتر ہے کہ حکیم صاحب کو انعام دے کر رخصت کر دیا جائے۔

تو ایک لوگ عملی تجربہ کار ہوتے ہیں۔ جن کو مختلف شعبوں میں کام کی عملی واقفیت ہو۔ اور ایک عالم ہوتے ہیں کہ جہاں غلطی ہو ان سے مشورہ لیا جائے۔ غلطیاں ہوں گی مگر اس سے بھی قابلیت پیدا ہوگی۔

جب تک ان دونوں باتوں سے کام نہ لیا جائے کچھ نہیں ہوسکتا۔

اگر کسی جماعت میں کام کرنے والا پیدا نہ ہو تو آخر وہ کب تک رہیں گے۔وہ دو سال، چار سال، بیس حد سے حد سو سال میں مرجائیں گے۔تو ایسی جماعت دنیا میں اپنے وجود کو قائم نہیں رکھ سکتی۔

زندہ جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اس میں اس کے کام کو سنبھالنے والے پیدا ہوں۔ اور کثرت سے ہوں۔

افراد مر جاتے ہیں لیکن وہ جماعتیں جن کی یہ حالت ہو کہ ان میں تربیت یافتہ افراد پیدا ہوتے رہیں نہیں مرا کرتیں۔ یہی روح ہے جو کسی جماعت میں مسلسل چلنی چاہیے۔

اس کے دو ذرائع ہیں۔

ایک وہ ہوں جو علم میں کامل ہوں وہ علمی مشورہ دیں۔ ہر دقیق مسئلہ اور مشکل معاملہ پر غور کریں اور استنباط کرکے بہتر رائے دیں۔ ایک وہ ہوں جو عمل کریں اور کام کو خوبصورتی سے انجام دیں۔

یاد رکھو کہ مشورہ کی یہی غرض نہیں ہوتی کہ جو مشورہ لیتا ہے وہ مشورہ کا محتاج ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آتیں وہ دوسروں سے پوچھتا ہے۔ لیکن اکثر یہ بھی غرض ہوتی ہے کہ

جن سے مشورہ لیا جاتا ہے ان کو سکھانا منظور ہوتا ہے کہ ان میں قابلیت پیدا ہو۔

پس ہمیشہ مشورہ کی غرض مشورہ لینے والے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا کہ نبی کے لئے مشورہ کی ضرورت نہیں ہوتی یہ تو رحم کے طور پر ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ بھی جماعت پر رحم ہی ہے کہ ان میں قابل اور مستعد لوگ پیدا ہوں۔ اور یہ غرض مشورہ کی ہوتی ہے۔ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں۔ تجربہ کار ہوتے ہیں مگر اپنے کام اپنی اولاد کے سپرد کرتے ہیں تاکہ ان کی نگرانی میں ان میں کام کی اہلیت آجائے۔ اور اگر ماں باپ اپنی نگرانی میں ان سے کام نہ کرائیں تو ان کے بعد اولاد نالائق ثابت ہو اور کوئی کام نہ کر سکے۔

اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مشورے لئے جاتے ہیں اور وہ کئی طرح لئے جاتے ہیں۔ کبھی مجلس میں ایک بات کی جاتی ہے اور اس سے غرض مشورہ ہوتا ہے۔ اور کبھی الگ بلا کر چند آدمیوں کو ان سے مشورہ لیا جاتا ہے۔ کبھی زیادہ آدمیوں کو جمع کرکے مشورہ لیا جاتا ہے۔

پہلی غرض یہی ہوتی ہے کہ جن سے مشورہ لیا جاتا ہے ان میں استعداد پیدا ہو اور یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ مشورے کس طرح دئے جاتے ہیں اوران کی کیا شرطیں ہوتی ہیں۔

اور کس طرح پیش آمدہ مشکلات کو حل کیا جاتا ہے۔

مشورہ کی شرائط میں سے ایک اہم شرط جس کو نظر انداز کرنے سے تباہی آجاتی ہے وہ یہ ہے کہ

ہر مشورہ امانت ہوتا ہے۔ جس سے مشورہ کیا جائےو ہ امانت کی طرح رکھے کیونکہ اس کے اظہار سے بہت دفعہ فتنہ پیدا ہوتا ہے۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امانت سے کام کرے۔یہاں یہ مطلب نہیں کہ خفیہ سوسائٹی بنائے اور کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے جوکسی سے مشور لیا جائے اس کو بھی چھپائے مثلاً کوئی شخص کسی کو کہے کہ میں فلاں کو زہر دوں اور یہ چھپائے۔ یہ غلط ہے۔ اگر یہ اس مشورہ کو چھپائے گا تویہ جرم کرے گا۔ بلکہ اس کا فرض ہے کہ اس کو ظاہر کرے اور اس کا علان کرے۔ پس اسلام میں خفیہ انجمنیں جائز ہی نہیں۔ بلکہ مشورہ کو امانت رکھنے کے یہ معنی ہیں کہ

مشورہ لینے والے کا اس میں اپنا کام ہو کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا مدنظر نہ ہو۔

ایسا مشورہ ظاہر کرنا غلطی ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی کے پاس آئے اور کہے کہ میں نے فلاں جگہ اپنا روپیہ رکھا ہے کیا وہ جگہ محفوظ ہے اور یہ شخص بجائے اس بات کو امانت رکھنے کے اس کا اعلان کردے تو چور جائیں گے اور روپیہ نکال کر لے جائیں گے۔

پس ضروری ہے کہ جس مشورہ میں کسی کو نقصان پہنچانا مدنظر نہ ہو ایسے مشورہ کو چھپایا اور مخفی رکھا جائے۔

اگر کسی مشورہ میںکسی کو نقصان پہنچانے کا خیال نہیں یا کسی کام کا سوال ہے کہ فلاں اس کام کا اہل ہے یا نہیں۔ اس کو بھی پوشیدہ رکھے۔کیونکہ اس میں بھی اس کو نقصان پہنچانے کا سوال ہے۔ بلکہ کام کے قابل یا ناقابل ہونے کا سوال ہے۔ کیونکہ اگر ایک شخص ایسے مشورہ میں جو کسی اہم کام کے متعلق ہو اس شخص کے خلاف رائےد ے جس کو وہ کام سپرد کرنے کی رائے کسی نے دی ہو۔اور اس پر کوئی شخص جو اس کو اس کام کا اہل نہ سمجھتا ہو تو چونکہ اس سے مشورہ لیا گیا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس شخص کے متعلق جیسی رائے رکھتا ہے ظاہر کرے۔ اگر وہ صحیح رائے ظاہر نہ کرے۔ نالائق کو لائق بتائے تو وہ منافقت کرتا ہے۔

مشورہ کے تو معنی ہی یہ ہوتے ہیں کہ لوگ صحیح صحیح رائے اپنے علم کے مطابق ظاہر کریں۔

اگر ایسا نہ کریں تو وہ ایک منافقوں کی جماعت ہو جائیں گے اور ایسی جماعت بہتر ہے کہ نہ ہو۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button