یادِ رفتگاں

ایک نیک اور صالح وجود رائے عبدالقادر منگلا صاحب (مرحوم)

(’ن۔ منگلا‘)

میرے والد محترم رائے عبدالقادر منگلا صاحب منگلا قوم کے ابتدائی بیعت کرنے والوں میں شامل تھے اور محترم محمد اسلم شاد منگلا صاحب کے بڑے بھائی تھے۔انہوں نے ۱۹۵۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےان کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور دعا دی تھی۔ اللہ کے فضل و کرم سے آپ کی ساری عمر خدمت دین اور دعوت الی اللہ کرتے گزری۔ جماعتی خدمات میں بھی پیش پیش تھے بطور صدر جماعت، سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری دعوت الی اللہ ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ ایک بہترین داعی الی اللہ تھے۔جب بھی موقع ملتا دعوت الی اللہ کرتے۔کسی فوتیدگی کے موقع پر جب لوگ اکٹھے ہوتے اس وقت کو یہ خوب استعمال کرتے اور تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ ان کی زندگی سے چند ایمان افروز واقعات ان کے لیے بغرضِ دعا خاکسار پیش کرتاہے۔

ایک دفعہ بھری مجلس میں ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے کہا کہ تم لوگ نماز جمع کرتے ہو جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا اس کا کوئی ثبوت ہے تو دکھاؤ۔والد محترم نے گھرسے صحیح مسلم منگوائی اور بھری مجلس میں اسے حوالہ نکال کر دکھادیا جس پر وہ مولوی صاحب لاجوا ب ہوگئے۔

اسی طرح ایک دفعہ ایک شیعہ سے دوران گفتگو کہا کہ تم جن خلفاء کو برا بھلا کہہ رہے ہو اور گالیاں دیتے ہو تمہیں تو ان کا احسان مند ہونا چاہیے کیونکہ تمہارے تمام اماموں کی ماں شہر بانو جو ایک جنگ کے بعد مال غنیمت میں آئی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےہی ان کی شادی حضرت امام حسین سے کروائی تھی جن سے بارہ امام پیدا ہوئے۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نعوذ باللہ ایک غاصب خلیفہ تھے تو ایک غاصب خلیفہ کی عطا سے ساری مبارک اولاد ہوئی۔

اسی طرح ایک دفعہ گاؤں کے چوک میں آپ تبلیغ کررہے تھے کہ ایک معاند احمدیت نے کہا جاؤ اپنا کام کرو اگر مرزا صاحب سچے ہوتے تو تمہارے ہاں اولاد نہ ہو جاتی۔ اس وقت والد صاحب کی شادی کو لمبا عرصہ ہو چکا تھا لیکن اولاد نہ تھی۔ والد محترم نے بڑے جوش سے کہا کہ مرزا صاحب سچے ہیں اور خدا پر مجھے کامل یقین ہے کہ وہ مجھے اولاد ضرور دے گا۔والد صاحب فرماتے تھے کہ یہ کہہ کر جب میں وہاں سے نکلا تو سوچا کہ یہ معاملات تو خدا کے ہاتھ میں ہیں اولاد عطا کرے یا نہ کرےیہ میں نے کیا کہہ دیا۔ یہی سوچتاسوچتا سیدھا خدا کے گھر میں گیا اور سجدے میں گر گیا فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھے سجدے میں وہ سرور اور لذت نصیب ہوئی کہ جو بعد میں قبولیت دعاکے رنگ میں ظاہر ہوئی۔خدا تعالیٰ نے ان تضرعات کو سنا اور لمبے عرصے بعداپنے فضل سے اولاد عطا فرمائی چنانچہ دو بیٹیاں اور خاکسار پیدا ہوئےجب کہ وہ معاند احمدیت بےاولاد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ بے شمار مولویوں سے ان کا واسطہ پڑا لیکن ہمیشہ خدا تعالیٰ نے انہیں علمی میدان میں فتح سے ہمکنار کیا۔

مر کز سلسلہ اکثر تشریف لاتے۔ بزرگوں سے ملتے۔ انہیں دعا کی درخواست کرتے۔ پیارے حضور جب ناظر اعلیٰ تھے تو آپ کی خدمت میں بار ہا حاضر ہوئے۔ بڑی پگڑی پہنے اپنے بڑے بھائی رائے عبداللہ منگلا صاحب کے ساتھ آیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب سے ملنے گئے جب کہ آپ ناظر اعلیٰ تھے۔ دفتر نظارت علیاء آئے تو حضرت صاحب اپنے دفتر سے نکل کر گیلری میں جا رہے تھے۔ وہ پیچھے ہولیے اور سوچ رہے تھے کہ میاں صاحب سے ملنا تھا، لگتا ہے آج ملاقات نہ ہو سکے گی۔ کہتے ہیں یہی سوچ رہا تھا کہ ایک اور شخص نے جو مجھ سے آگے تھا اور میاں صاحب سے ملنا چاہتا تھا آواز دی میاں صاحب! آپ نے جب پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تو والد محترم بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک نور کی لاٹ (شعاع) آپ کی پیشانی سے نکلی اور چھت سے آرپارہو گئی۔ کہتے ہیں یہ نظارہ دیکھ کر میں ششدرو حیران وہاں کھڑا ہوگیا اور سوچتا رہا کہ یہ کیا نظارہ ہے۔ یہ شخص کوئی عام شخص نہیں بلکہ خدا کا بہت ہی پیارا وجود ہے اور پھر تقدیر نے یہ بات ثابت کر دی۔ انہوں نے یہ واقعہ مجھ سے حلفاً بیان کیا۔

۱۹۷۴ء کے مشکل دور کا اور ۱۹۸۴ء کے کٹھن وقت کا بھی انہوں نے انتہائی جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ ہماری مسجد کی پیشانی پر کلمہ تحریر تھا۔ پولیس جب بھی کلمہ مٹاتی یہ سیڑھی لگاتے اور پھر کلمہ لکھ دیتے۔ انہیں مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کئی مرتبہ تھانے بلوائے گئے لیکن ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہر شر سے محفوظ رکھا۔

علاقے میں بے شمار لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کیا اور کئی جھگڑے نمٹائے۔ بہت ذہین اور معاملہ فہم تھے۔ بہت جلدی بات کی تہ تک پہنچ جاتے تھے۔ آپ کے پاس آئے روز لوگ اپنے معاملات لے کر آتے اور کہتے آپ بطور ثالث اس کا جو بھی فیصلہ کردیں ہمیں منظور ہوگا۔ آپ ہمیشہ انصاف سے فیصلہ کرتے۔ کئی لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھوا کر جاتے۔

حساب کتاب کے بھی آپ ماہر تھے کسی بھی چیز کا حساب منٹوں میں بغیر کسی کیلکولیٹر کے فوراًکر لیتے۔ پہاڑے (multiplication tables) فرفر یاد تھے۔ پورے علاقے میں آپ کے تعلقات تھے۔ ان کی وفات پر پورے علاقے سے لوگ افسوس کے لیے آئے اور ان کے واقعات سناتے رہے۔ ایک غیر از جماعت دوست نے جو گاؤں کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں کہا کہ میں تو ان کو مفکر کا درجہ دوں گا۔ انہوں نے مجھے واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک مجلس میں ہم بیٹھے تھے اور بات چیت چل رہی تھی کہ ہمارے ایک مولوی صاحب نے کہا کہ آج کل لوگ یہ یہ گناہ کرتے ہیں اور اسلامی تعلیم کی رو سے یہ سب لوگ جہنمی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر ہم سوچ میں پڑگئے کہ ہم میں سے کوئی نہیں بچے گا اور ہم سب گویا جہنمی ہیں۔ یہی باتیں چل رہی تھیں کہ آپ کے والد محترم تشریف لے آئے۔ میں نے کہا رائے عبدالقادر صاحب یہ یہ معاملہ ہے کیا کوئی بچنے کی سبیل ہے؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، اسلام تو انسان کو آگ سے بچانے کے لیے آیا ہے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی کہ جس نے صدق دل سے کلمہ پڑھ لیا وہ جنتی ہے، پھر اس کے بعد بعض اور آیات اور احادیث بھی بتائیں۔ ساری محفل جیسے کھل اٹھی اور میں نے کہا شکر ہے کہ بچ گئے ورنہ مولوی صاحب نے تو ہمیں جہنم میں ڈلوا دیا تھا۔

والد محترم انتہائی سادہ انسان تھے کوئی تکبر اور ریا نہ تھی۔ عزیزوں رشتہ داروں کا ساری عمر خیال رکھا۔ پانچ بھائی تھے اور گاؤں میں ان پانچ بھائیوں کے آپس میں اتفاق کی مثال دی جاتی تھی۔

الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کی خدمت کی توفیق بخشی۔ وہ بہت دعائیں کرنے والے اور نماز تہجد باقاعدگی سے ادا کرنے والے تھے۔ قرآن کریم سے بے انتہا محبت تھی قرآن کریم کے کئی دور انہوں نے مکمل کیے۔ باوجود بڑھاپے کے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں بھی رمضان المبارک کے سارے روزے رکھتے رہے۔ دن میں ہزاروں دفعہ درود شریف پڑھتے۔ اکثر دعاؤں کا ورد کرتے رہتے۔ مطالعہ کا بےحد شوق تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب زیر مطالعہ ہوتی۔ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے کئی اشعار زبانی یاد تھے۔ اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا۔ ان کے تعلق باللہ کا ایک واقعہ یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی قدر کرتاہے اور ان کو ہر نقصان سے بچاتاہے۔ ایک دفعہ رات کو سوئے ہوئے تھے کہ اچانک کسی نے اٹھایا اور کہا کہ اٹھو ڈیرے پر جاکر پتا کرو۔ کہتے ہیں کہ میں نے توجہ نہ کی اور سو گیا۔ پھر کسی نے جگایا لیکن پھر سو گیا۔ تیسری دفعہ کسی نے سختی سے جگایا اور کہا کہ اٹھو اور ڈیرے پر جا کر پتا کرو۔

کہتے ہیں کہ تیسری دفعہ جب کسی نے جگایا تو فوراً اٹھا اور اپنا سونٹا اٹھایا اور ڈیرے کی طرف بھاگ نکلا۔ سردی کے دن تھے، جانور اندر بندے ہوئے تھے۔ کنڈی کھولی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بھینس کا بچہ زنجیر میں جکڑا پڑا ہے اور قریب تھا کہ گلا گھٹنے سے مر جاتا۔ فوراً اس کو چھڑایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے نقصان سے بچالیا اور بروقت مطلع کر دیا۔

ان کی وفات پر کئی مربیان کرام نے خاکسار سے اظہارتعزیت کیا اور کہا کہ وہ ہمارے استاد تھے، ہم نے کئی علمی باتیں ان سے سیکھیں۔ میرے لیے دعاؤں کا خزانہ تھے۔ خاکسار ان کا اکلوتا بیٹا ہے۔ بڑے شوق سے مجھے جامعہ بھجوایا۔ مجھے فرمایا کرتے اللہ تعالیٰ تمہارا متکفل ہو گا ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنا اور اسی پر بھروسا رکھنا۔ خلافت کا دامن ہمیشہ تھامے رہنا اور خلیفۃ المسیح سے ہمیشہ خاص تعلق رکھنا اور خلافت کا ہمیشہ مطیع رہنا۔ بزرگوں سے ملتے رہنا اور دعا کے لیے عرض کرنا۔ غرض بہت ہی پیارا وجود تھا جو ایک پیاری زندگی گزار کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔ الحمدللہ کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی نیز بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین کی اجازت عنایت فرمائی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button