کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

شہید وہ ہے جو خداتعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوّت پاتا ہے

عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا یا وباء میں مرگیا وغیرہ۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفاء کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے۔ شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خداتعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتاہے۔ اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا۔ وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتاہے۔ یہانتک کہ اگر محض خداتعالیٰ کے لیے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اُس کو ملتا ہےاور وہ بدُوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کیے اپنا سررکھ دیتا ہےاور چاہتا ہے کہ باربار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں۔ ایک ایسی لذت اور سُرور اُس کی رُوح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جو اُس کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب، جو اُس کو پیس ڈالے، اُس کو پہنچتی ہے۔ وہ اُس کو ایک نئی زندگی، نئی مسرت اور تازگی عطاکرتی ہے۔ یہ ہیں شہید کے معنی۔ پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے۔ عبادتِ شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں۔ اور جیسے شہد فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ (النحل: ۷۰) کا مصداق ہے۔ یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں۔ اُن کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پاجاتے ہیں۔ اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انساں اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے۔ اس کا نام احسان بھی ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۷۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

شہادت کا ابتدائی درجہ خد اکی راہ میں استقلال اور ثباتِ قدم ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص نہ مرا اﷲ کی راہ میں اور نہ تمنا کی، مرگیا وہ نفاق کے شعبہ میں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کا مل مومن نہیں ہوتا جبتک اﷲ تعالیٰ کی راہ میں مرنا دنیا کی زندگی سے وہ مقدم نہ کرے۔ پھر یہ کیسا گراں مرحلہ ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے دنیا کی حیات کو عزیز سمجھا۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنے کے یہ معنے نہیں کہ انسان خواہ مخواہ لڑائیاں کرتا پھرے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ خد اتعالیٰ کے احکام اور اَوَامر کو اس کی رضا کو اپنی تمام خواہشوں اور آرزوؤں پر مقدم کرے اور پھر اپنے دل میں غور کرے کہ کیا وہ دنیا کی زندگی کو پسند کرتا ہے یا آخرت کو اور خدا کی راہ میں اگر اس پر مصائب اور شدائد بھی پڑیں تو وہ ایک لذت اور خوشی کے ساتھ انہیں برداشت کرے اور اگر جان بھی دینی پڑے تو تردّد نہ ہو۔

(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۴۲۳-۴۲۴، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button