اداریہ

اداریہ: دعا کی چٹھی اور نبی کی پہچان

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

جب بھی کوئی حکومت کسی ملک سے سفارتی تعلقات استوار کرتی ہے تو اس میں اپنا سفیر، اپنا نمائندہ بھجواتی ہے۔ جہاں اس کے فرائض منصبی کی انجام دہی کے لیے اس کے ساتھ تربیت یافتہ سفارتی عملہ مامور ہوتا ہے وہاں اس کے کام میں سہولت کے لیے اسے ایک پہچان دی جاتی ہے، چٹھیوں، تاروں اور فیکسوں کے ذریعہ سرکلر کیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں ملک کا نمائندہ ہے، وہ جو بات کرے گا اسے اُس کے ملک کی جانب سے متصور کیا جائے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ جب اپنے نبی یا اپنے رسول کو اس دنیاکی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتا ہے تو اُسے رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ کی دعا سکھلا کر شرفِ قبولیت بخشتا ہے اور اس کے ساتھ مومنین کی صورت میں نہ صرف یہ کہ اس کا معین و مددگار سفارتی عملہ فراہم کرتا ہے بلکہ ان سے لیے جانے والے متوقع کاموں کی مناسبت سے ان مومنین کو امتحانوں اور مشکلات سے گزار کر ان کی تربیت بھی فرما دیتا ہے۔ ان مومنین کو بھی اللہ تعالیٰ گویا دعاؤں اور سچے خوابوں کی چٹھیوں، تاروں اور فیکسوں کے ذریعے اپنے پیارے کی بعثت سے مطلع فرماتا، انہیں ایمان لانے کی توفیق دیتا اور استقامت عطا فرماتا ہے نیز انہیں اس یقین کی لازوال نعمت سے سرفراز فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اس نبی کے شامل حال ہیں۔

نبی اکرم ﷺ کے عاشق صادق، اسم بامسمیٰ غلامِ احمد مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں بھی خدا تعالیٰ سعادت مندوں کو سچی خوابوں، قبولیتِ دعا اور سچی پیشگوئیوں کے نتیجے میں کشاں کشاں مومنین کی جماعت میں شامل فرماتا رہا۔ ایسا ہی ایک ایمان افروز واقعہ پیش خدمت ہے:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی حضرت رحمت اللہ صاحبؓ احمدی تحریر فرماتے ہیں:خدا نے اپنے فضل وکرم سے مجھے چن لیااورغلامی حضور سے سرفراز فرمایا ورنہ ۔من آنم کہ من دانم ۔تفصیل ا س کی یہ ہے ۔حضرت مسیح موعودؑنے چند ماہ لدھیانہ میں قیام فرمایامیری عمر اس وقت قریباً ۱۷، ۱۸برس کی ہوگی اور طالب علمی کا زمانہ تھا۔میں حضور کی خدمت اقدس میں گاہ بگاہ حاضر ہوتا۔مجھے وہ نور جوحضورکے چہرہ مبارک پر ٹپک رہاتھانظر آیا۔جس کے سبب سے میراقلب مجھے مجبور کرتاکہ یہ جھوٹوں کا منہ نہیں ہے مگر گردونواح کے مولوی لوگ مجھے شک میں ڈالتے۔ اسی اثنامیں حضور کا مباحثہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے لدھیانہ میں ہؤا جس میں مَیں شامل تھا۔اس کے بعد خدا نے میری ہدایت کے لئے ازالہ اوہام کے ہر دوحصے بھیجے وہ سراسر نور وہدایت سے لبریز تھے۔خداجانتاہے کہ میں اکثر اوقات تمام رات نہیں سویا۔اگر کتاب پر سر رکھ کر غنودگی ہوگئی تو ہوگئی ورنہ کتاب پڑھتارہااور روتارہا کہ خدایا یہ کیا معاملہ ہے کہ مولوی لوگ کیوں قرآن شریف کو چھوڑتے ہیں؟خداجانتاہے کہ میرے دل میںشعلۂ عشق بڑھتاگیا۔میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی [یکے از بانیانِ دیوبند] کو لکھاکہ حضرت مرزاصاحب عیسیٰؑ کی وفات تیس آیات سے ثابت کرتے ہیں آپ براہ مہربانی حیات کے متعلق جو آیات واحادیث ہیں تحریر فرما دیںاور ساتھ جو تیس آیات قرآنی حضرت مرزا صاحب لکھتے ہیں تردید فرماکر میرے پاس بھجوادیںمیں شائع کرادوں گا۔جواب آیا کہ آپ عیسیٰؑ کی حیات وممات کے متعلق حضرت مرزاصاحب یا اس کے مریدوں سے بحث مت کروکیونکہ اکثر آیاتِ وفات ملتی ہیں۔یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ اس امر پر بحث کرو کہ مرزاصاحب کس طرح مسیح موعود ہیں؟جواب میں عرض ہؤاکہ اگرحضرت عیسیٰؑ فوت ہوگئے ہیں توحضرت مرزاصاحب صادق ہیں۔جواب ملا کہ آپ پر مرزاصاحب کا اثر ہوگیاہے۔میں دعا کروں گا۔جواب میں عرض کیاگیاکہ آپ اپنے لئے دعا کرو۔ آخر میں آستانۂ الوہیت پر گرا۔اور میرا قلب پانی ہوکربہہ نکلا ۔ گویامیں نے عرش کے پائے کو ہلادیا۔عرض کی خدایا!مجھے تیری خوشنودی درکار ہے ۔ میں تیرے لئے ہر ایک عزت کو نثار کرنے کو تیارہوں۔اور ہرذلت کو قبول کروں گا ۔ تو مجھ پر رحم فرما۔ تھوڑے ہی عرصہ میں مَیں اس ذات کی قسم کھاتاہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ بوقت صبح قریباً چار بجے ۲۵؍دسمبر۱۸۹۳ء بروزسوموارجناب سیدنا حضرت محمدﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔تفصیل اس خواب کی یہ ہے کہ خاکسار موضع بیر ی میں نماز عصر کا وضو کررہاتھاکسی نے مجھے آکر کہاکہ رسول عربی آئے ہوئے ہیں اور اسی ملک میں رہیں گے۔میں نے کہا۔کہاں؟اس نے کہایہ خیمہ جات حضور کے ہیں۔میںجلد نماز اداکرکے گیا۔حضور چنداصحاب میں تشریف فرما تھے ۔ بعد سلام علیکم مجھے مصافحہ کا شرف بخشاگیا۔میں باادب بیٹھ گیا۔حضورعربی میں تقریرفرما رہے تھے۔خاکسار اپنی طاقت کے موافق سمجھتاتھااورپھر اردو بولتے تھے ۔ فرمایا۔ میں صادق ہوں میری تکذیب نہ کرووغیرہ وغیرہ۔میں نے کہا آمنا و صدقنا یا رسول اللہ!تمام گاؤں مسلمانوں کا تھا مگر کوئی نزدیک نہیں آتاتھا۔میں حیران تھا کہ خدایا!یہ کیا ماجراہے؟آج مسلمانوں کے قربان ہونے کا دن تھاگویاحضور کا ابتدائی زمانہ تھاگومجھے اطلاع دی گئی تھی کہ حضور اسی ملک میں تشریف رکھیں گے۔مگر حضور نے کوچ کا حکم دیا۔میں نے رو کر عرض کی حضورجاتے ہیں۔میں کس طرح مل سکتا ہوں؟میرے شانہ پر حضور نے اپنادست مبارک رکھ کر فرمایاگھبراؤنہیں ہم خود تم کو ملیں گے۔ ….مجھے فعلی رنگ میں سمجھایاگیا۔الحمد للہ ثم الحمدللہ۔میں نے بیعت کا خط لکھ دیامگر بتاریخ ۲۷؍دسمبر۱۸۹۸ء بروز منگل قادیان حاضرہوکر بعدنماز مغرب بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔خداکے فضل نے مجھے وہ استقامت عنایت فرمائی کہ کوئی مصائب مجھے تنزل میں نہیں ڈال سکا۔ مگر یہ سب حضورکی صحبت کے طفیل تھاجو باربارحاصل ہوئی۔ (رجسٹر روایات نمبر1صفحہ58-59)

آج جب خدا تعالیٰ کے دین کو انصار کی ضرورت ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اصحابِ احمدؑ کی زندگیوں کا مطالعہ کریں اور ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کامل ایمان اور کرامت والی استقامت کے طلبگار ہوں تا اپنی استطاعتوں کے مطابق دین کی خدمات بجا لانے کی توفیق پائیں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button