متفرق مضامین

جنیوا کے تحقیقاتی مرکزسرن میں ڈاکٹر عبد السلام کی تھیوری کے تجرباتی ثبوت کا یادگاری سمپوزیم

(زکریاورک۔کینیڈا)

جنیوا کے تحقیقاتی مرکز سرن میں ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو ایک یادگاری سمپو زیم منعقد ہوا۔ اس کا مرکزی مو ضوع ڈاکٹر عبد السلام کی الیکٹرو ویک تھیوری کے وہ تجرباتی ثبوت تھے جو آج سے پچاس سال قبل ملے تھے۔ان دریافتوں کی پیش گوئی تین سائنسدانوں شیلڈن گلاشو، سٹیون وائن برگ اور ڈاکٹر عبد السلام نے برقی مقناطیسی اور کمزور نیوکلیائی قوتوں کو یکجا کرنے والی تھیوری میں کی تھی۔کا ئنات میں چار بنیادی قوتیں پائی جاتی ہیں یعنی گریوٹی، الیکٹرو میگنٹزم، ویک نیوکلیئر فورس اور سٹرانگ نیوکلیئر فورس۔مذکورہ سائنسدانوں نے الیکٹرو میگنیٹک(برقی اور مقناطیسی قوت) اور ویک نیو کلئیر فورس کو یکجا کرنے کا نظریہ پیش کیا۔ اس تھیوری کی صداقت ثابت کر نے کے لیے سرن کی تجربہ گاہ میں تجربات کیے گئے تھے۔

سا ئنسدانوں نے ویک نیوکلیئر کرنٹ کے موجود ہونے کی پہلی ڈائریکٹ شہادت ۱۹؍ جولائی ۱۹۷۳ءکو پیش کی تھی۔ اس دریافت کی بنا پر شیلڈن گلاشو، وائن برگ اور عبد السلام کو ۱۹۷۹ءمیں فزکس کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس تھیوری میں تین ذرات کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ ان میں دو ذرات W Bosons جو چارجڈ کرنٹ کے حامل ہوتے ہیں کا ثبوت ۲۵؍ جنوری ۱۹۸۳ءکو ملا تھا ۔ جبکہ Z Boson جو کہ نیوٹرل کرنٹ کا حامل ہوتا ہے اس کا تجرباتی ثبوت یکم جولائی ۱۹۸۳ء کو ملا تھا۔ ۲۰۲۳ء زبردست اہمیت کا حامل ہے جس میں ان دریافتوں کے بالترتیب پچاس اور چالیس سال مکمل ہوچکے ہیں۔ ان دریافتوں کے لیے کیے جانے والے تجربات کی تیاری، تکمیل اور نتائج کے حصول تک کے مراحل کامیابی سے سرانجام دینے پر Carlo Rubia اور Simon van der Meerکو۱۹۸۴ءمیں فزکس کے نوبیل انعام سے سرفراز کیا گیا۔ اس موضوع پر۱۹۸۳ء میں بی بی سی کی طرف سے بنائی جانے والی ڈاکو منٹری The Geneve Eventسرن،جنیوا میں ۳۰؍نومبر۲۰۲۳ء کو دکھائی گئی۔

یادگاری سمپوزیم

سرن (CERN) یعنی یورپین سینٹر فار نیوکلیئر ریسرچ میں یہ میموریل میٹنگ دو حصوں میں تقسیم تھی۔ صبح دس بجے اجلاس شروع ہوا جس میں چار سا ئنسدانوں نے ویک نیوکلیئر کرنٹWeak Nuclear Current اور ڈبیلو اینڈ زیڈ(W&Z) پارٹیکلز کے موضوع پر تقاریر کیں۔ تقاریر کایہ سلسلہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوا۔ دوپہر کا اجلاس دوبجے شروع ہوا جس میں تین معتبر سائنسدانوں نے تقاریر کیں۔ تین بج کر پندرہ منٹ پر وقفے کے بعد تین مزید سائنسدانوں نے اس موضوع پر پُر مغز تقاریر کیں اور یہ اجلاس پانچ بجے ختم ہوا۔ خواہشمند قارئین مضمون کے اختتام پر دیے گئے لنکس سے مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

سرن کا تعارف

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے محض تین سال بعد نوبیل انعام یافتہ طبیعات دان لوئیس ڈی بروگلی نے یوروپی طبیعات کی لیبارٹری کا منصوبہ پیش کیا۔ ابتدائی طور پر بارہ ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور یورپین مرکز برائے نیوکلیائی تحقیقات تشکیل دیا گیا۔ ۱۹۵۲ء میں جنیوا (سوئٹزرلینڈ) کو سرن کی لیبارٹری کے لیے جگہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس وقت سرن کے۲۳؍ ممالک ممبر ہیں ۔جاپان اور امریکہ اس کے آبزرور ممبر ہیں۔ ۴۶؍ ممالک اس کے نان ممبر ہیں جس میں کینیڈا بھی شامل ہے۔ جبکہ دس ممالک کو ایسوسی ایٹ ممبر کی حیثیت حاصل ہے جس میں پا کستان اور ہندوستان بھی شامل ہیں۔یہاں اس وقت انیس ہزار لوگ بر سر روزگار ہیں جن میں تین ہزار سائنسدان ہیں۔ ایل ایچ سی کو۱۹۹۵ء میں۲.۶ بلین سوئس فرانک کے بجٹ کے ساتھ منظور کیا گیا تھا۔ سرن کا بجٹ۱۲۰۰؍ ملین سوِس فرانک ہے۔

لارج ہیڈران کولائیڈر

سرن لیبارٹری جنیوا کے مضافات Myrin میں فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر دیہی علاقوں کے نیچے بنائی گئی ہے۔ یہ تجربہ گاہ زمین کے اندر ایک سو میٹر گہرائی پر ایک سرنگ (ٹنل )میںگول دائرے میں گزرتی ہے۔ اس تجربہ گاہ کو بنانے میں بیس سال کا عرصہ لگا تھا۔ اس کی تعمیر پر ۸؍ بلین ڈالر لاگت آئی ہے۔ وہ گول سرنگ (ٹنل)جس کے اندر پروٹان سفر کرتے ہیں وہ سترہ میل (۲۷؍کلومیٹر)لمبی ہے۔ ہر پروٹان ۲۷؍کلو میٹر چھلے میں ہر سیکنڈ میں گیارہ ہزار مرتبہ گھومتا ہے ۔ ہیڈران کی شعاعیں جو بر عکس سمتوں میں جاتی ہیں وہ قریب قریب روشنی کی رفتار۱۸۶,۰۰۰؍ میل فی سیکنڈ پرسفر کر کے آپس میں ٹکراتی ہیں۔ لارج ہیڈران کولائیڈر کی بلڈنگ سات منزلہ عمارت جتنی اونچی ہے۔ تجربات کے لیے جو کیمرے استعمال کیے جاتے ہیں وہ ۶۰؍ Mega Pixel کے ہیں۔ سب اٹامک پا رٹیکلز سرنگ کے اندر خلا (Vaccum) میں سفر کرتے ہوئے آپس میں ٹکراتے ہیں۔ تجربہ گاہ میںجو۹,۳۰۰؍ دیو قامت مقناطیس استعمال کیے گئے ہیں ان کا درجہ حرارت -۲۷۱Cہوتا ہے تا کہ وہ سپر کنڈکٹرز بن جائیں۔مقناطیسوں کے وسیع نظام پر دس ہزار ٹن لو ہا استعمال کیا گیا جو پیرس کے ایفل ٹاور سے زیادہ لو ہاہے۔ سرنگ (ٹنل )میں ایسے مقناطیس اتارے گئے جو گریوٹی (Gravity) سے لاکھ گنا زیادہ طاقتور ہیں۔ مقناطیس کے اس فیلڈ کے درمیان اکیس میٹر اونچا اورچودہ ہزار ٹن وزنی چیمبر تعمیر کیا گیا ۔ اس چیمبر کا ایک حصہ پا کستان کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس(ٹیکسلا) میں بنایا گیا اور اس کے اوپر پاکستانی جھنڈا چھاپا گیا ۔

سرن میں ذروں کی تلا ش کے لیے کئی ڈی ٹیکٹرز استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان میں سے دنیا کا سب سے بڑا LHC (لارج ہیڈران کو لائیڈر) ہے جو بہت سے سائنسی سوالات کے جواب فراہم کرنے کے لیے تعمیرکیا گیا تھا۔ جیسے:کا ئنات جب تخلیق ہوئی تھی تو اس کے اولین سیکنڈز کیسے تھے؟ کائنات کیوں پید اہوئی؟ کا ئنات تخلیق کے معاََبعد نینو سیکنڈز میں کیسے تھی؟کمیت کہاں سے ہے؟ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ کائنات میںمختلف قسم کے ذرات پیدا کرنے والے حالات کیا تھے؟ کائنات کو سمجھنے میں گم شدہ اجزا کیا ہیں؟ ہماری کائنات میں صرف میٹر (مادہ) ہی کیوں ہے؟ اور کوئی اینٹی میٹرہمیں کیوں نظر نہیں آتا؟

ایل ایچ سی سب سے زیادہ دستیاب ممکنہ انرجی پر پارٹیکلز کوآپس میں ٹکراتا ہے۔ یہ پروٹون کی شعاعوں کو روشنی کی رفتار۱۸۶,۰۰۰؍ میل فی سیکنڈ کے بہت قریب رفتار تک توانائی فراہم کرتا ہے۔ مخالف طور پر حرکت کرنے والی دو شعاعوں کو انسانی بالوں کی چوڑائی سے کئی گنا چھوٹے حصے تک لے جاتا ہے اور ایل ایچ سی سرنگ کے ارد گرد چار مختلف مقامات پر ایک دوسرے سے ٹکرانے کے قریب لایا جاتا ہے۔ جہاں ڈی ٹیکٹر Atlas، سی ایم ایس (CMS)، اور ایل ایچ سی بی(LHCB) واقع ہیں۔ ٹکراؤ کے وقت ایل ایچ سی میں ناقابل یقین دستیاب توانائی اور درجہ حرارت بعینہٖ وہی ہوتا ہے جو ۱۳.۸؍ بلین سال قبل بگ بینگ واقعہ کے چند لمحوں کے بعد موجود تھا۔

بگ بینگ کے نظریے کے مطابق کائنات کا آغاز ایک یکسانیت سے ہوا تھا۔ جس نے اچانک سے پھنسے ہوئے کمیت کو چھوڑ دیا جس سے واقعات کے افق کے ذریعہ ایک نئی کائنات کی تخلیق ہوئی۔ جب ایل ایچ سی میں ٹکرانے والے ذرات ٹوٹتے ہیں تو نئے ذرات جنم لیتے ہیں۔ نو زائیدہ ذرات کا پتا پہلے سے موجود اور جدید آلات کا استعمال کرتے ہوئے لگایاجاتا ہےجنہیں ڈی ٹیکٹر کہا جاتا ہے جو بائی ریزولیوشن کیمروں کے طورپر کام کرتے ہیں۔ نئے ذرات پر مشتمل اعداد و شمار کا تجزیہ کر کے ذرات کی خصو صیات اور ان میں موجود قوتوں کا تعین کیا جا سکتا ہے۔اس بات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بگ بینگ کے وقت حالات کس طرح کے تھے؟ مارچ ۲۰۱۰ء سے ایل ایچ سی مکمل فعال ہے اور بہترین نتا ئج مہیا کررہا ہے۔

پارٹیکل فزکس کا سٹینڈرڈ ماڈل اس حقیقت کی وضاحت نہیں کرتا کہ مختلف ذرات کمیت یا حجم کیسے حاصل کرتے ہیں اور کیوں کچھ ذرات بھاری ہوتے جبکہ دیگر ہلکے ہوتے ہیں؟ اس ماڈل میں جو پیش گوئی کی گئی تھی وہ ایک نئی فیلڈ کی موجودگی ہے۔ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ پوری جگہ اس فیلڈ سے بھری ہوئی ہے اور ذرات اس فیلڈ کے ساتھ تعامل کرکے کمیت حاصل کرتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میںپیٹر ہگز Higgsنے الیکٹرو ویک تھیوری میں خود بخود ٹوٹی ہوئی ہم آہنگی Spontaneus symmetry breaking کی تجویز پیش کی جس میں عام طور پر ذرات اور خاص طور پر ڈبلیو اور زیڈ ذرات کی ابتدا کی وضاحت کی گئی تھی۔ یہ ہگزمیکا نزم جس کو پیٹر ہگز کے علاوہ متعدد طبیعات دانوں نے ایک ہی وقت میں تجویز کیا تھا ایک نئے ذرہ ہگز بوزان کی موجودگی کی پیش گوئی کرتا ہے۔ اگر ایسا ذرہ موجود ہے تو ایل ایچ سی میں تجربات کو اس کو لگا نے کے قابل ہونا چاہیے تھا۔ ۴؍ جولائی ۲۰۱۲ء کو سرن کے اٹلس اور سی ایم ایس میں کیے جا نے والے تجربات میں طویل عرصے سے مطلوب ذرے ہگز بوزان کے مشاہدے کا خوش کن اعلان کیا گیا۔ اس تہلکہ خیز دریافت کے بعد پیٹرہگز اور فرا نسوا انگلارٹ کو ۲۰۱۲ء میں فزکس کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ گویا ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوری پر مزید تحقیق کر کے متعدد سا ئنسدان نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔

سرن میں ہونے والی ایجادات

سرن میں ہونے والی ایجادات میں انٹرنیٹ، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی شامل ہیں۔ برطانوی سائنسدانTim Berners Lee نے ۱۹۸۹ء میں ورلڈ وائڈ ویب بنایا جس سے انٹرنیٹ معرض وجود میں آیا جس نے پوری دنیا کو آپس میں منسلک کر دیا اور یوں سائنسدانوں کو آپس میں رابطے اور معلومات کا تبادلہ آسان ہو گیا۔کمپیوٹر فیلڈ میںاور بھی ایجادات ہو رہی ہیں جیسے گرِڈ کمپیوٹر جس کا مقصد۴۲؍ ممالک میں ۱۷۰مقامات پر ایل ایچ سی سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو سٹور ، ڈسٹری بیوٹ اور اینا لائز کرنا ہے۔

سرن میں پا کستان کا تعارف ۱۹۶۰ء کی دہائی میں پاکستان کے مہر درخشاں سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام کے ذریعہ ہوا۔ عبدالسلام کی تجویز پر حکومت پا کستان اور سرن کے مابین ایک غیر رسمی تعاون قائم کیا گیا۔ سرن میں اوون لاک اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) نے اس سیٹ اپ میں اہم کردار کیا۔ اس دوران پا کستان سے تعلق رکھنے والے پا ر ٹیکل طبیعات دانوںکو قلیل مدتی دوروں کے ذریعہ سرن میں تحقیقی کام کرنے کا موقعہ ملا۔ یہ ۱۹۹۷ءکی بات ہے جب پی اے ای سی اور سرن کے مابین سی ایم ایس ڈی ٹیکٹر کے آٹھ مقناطیسی سپورٹس کی تعمیر کے لیے ایک ملین سوئس فرانک کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ سال۲۰۰۰ء میں سی ایم ایس میوان سسٹم کے لیے ریزیسٹیو پلیٹ چیمبرز (RPC) کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ پا کستان نے نہ صرف ایک کروڑ ڈالر کی مالی معاونت کی بلکہ سی ایم ایس ڈی ٹیکٹر کی تیاری کے دوران مَین پاور بھی فراہم کی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور یورپی اداروں سے وابستہ پا کستانی، پوسٹ ڈاک سکالرز اور طلبہ اس پورے منصوبے کوکا میاب بنانے میں بھرپور کردار اداکر رہے ہیں۔

سرن میں پا کستانی احمدی خاتون سائنسدان

اس وقت یہاں مظفر گڑھ میں جنم لینے والی پاکستانی احمدی سائنسدان ڈاکٹرمنصورہ شمیم ریسرچ کا کام کر رہی ہیں جنہوں نے راقم کواس سمپوزیم کی اطلاع دی اور ضروری معلومات فراہم کیں۔ ڈاکٹر صاحبہ یہاں ستمبر ۲۰۲۳ء میں پوسٹ کیر یئر فیلو شپ پر آئی ہیں۔اس سے پہلے وہ چھ سال ۲۰۰۸ء – ۲۰۱۴ء سرن میں سائنسی تحقیقاتی کام کر چکی ہیں۔ ان کو بتایا گیا کہ اس سال پچاس ہزار سائنسدانوں نے۱۷۰؍ اسامیوں کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ اس لحاظ سے خدا کے فضل و کرم سے بڑی خوش قسمت ہیں ۔ان کا ایک تفصیلی انٹر ویو الفضل ربوہ میں۱۰؍ جون ۲۰۱۳ء کو شائع ہوا تھا۔

ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ میرا تحقیقی کام ایل ایچ سی میں اٹلس ڈی ٹیکٹر کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے پر مبنی ہے۔ اس وقت میں جس خاص شعبے پر توجہ مرکوز کر رہی ہوں اس کو ٹریگر Trigger کہا جاتا ہے ۔ آسان لفظوں میں یہ وہ مرحلہ ہے جہاں اٹلس ڈی ٹیکٹر فیصلہ کرتا ہے کہ پروٹان سے ٹکراؤ سے ہر سیکنڈ میں پیدا ہونے والے۴۰؍ ملین ایونٹس میں سے ہمیں کون سے دلچسپ ایونٹس کو محفوظ کر لینا چاہیے۔ اس عمل میں ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں شامل ہیں۔ میں زیادہ ترسافٹ ویئر پر کام کر رہی ہوں۔ میں جزوی طور پر Faser Experiment پر بھی کام کر رہی ہوں تا کہ میوآنزMuons پر مشتمل ایونٹس کے پس منظر کا تجزیہ کیا جاسکے۔ فیزر ڈی ٹیکٹر، اٹلس ڈی ٹیکٹر سے تقریباً ۴۸۰؍ میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایک بار مجھے ڈی ٹیکٹر کے غار(Cavern) اور ایل ایچ سی ٹنل کے ایک حصہ میں جانے کا موقعہ ملا تھا۔ شافٹ میں ۹۰؍ میٹر زمین کے اندر جانا ایک دل دہلا دینے والا غیر معمولی تجربہ تھا۔

سرن میں پاکستان کو بہت عزت دی جاتی ہے جس کی بڑی وجہ پا کستان کے نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام ہیں۔ ان کے نام پرسرن میں ایک سڑک کانام Rue Abdus Salam ہے۔یہ اس یگانہ روزگار سائنسدان کی سائنسی خدمات کے اعتراف میں ہے جس کو لوگوں نے اپنے وطن میںمذہبی نفرت کی نذر کردیا مگر دنیا ان کے گن گاتی ہے۔

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جا ئے گا

1.Lectroweak milestones – 50 years of neutral currents, 40 years of W and Z bosons (October 31, 2023) ·

Indico (cern.ch)

2.CERN screening of The Geneva Event (November 30, 2023) · Indico

3.The Geneva event (short version) · CDS Videos · CERN

(راقم السطور ڈاکٹر منصورہ شمیم صاحبہ کا ممنون احسان ہے کہ انہوں نے اس مضمون پر نظر ثانی فرمائی )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button