اداریہ

اداریہ: ہے نرالا رنگ میں اپنے سمائے قادیاں

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

’’ایک دن آنے والا ہے جو قادیاں سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے‘‘

اتوار ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۳ء کے روز امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز نے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ ایوانِ مسرور اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے براہِ راست جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت فرمائی اور بصیرت افروز اختتامی خطاب فرمایا۔

مسیحِ دوراںؑ کی مبارک بستی ۱۸۹۱ء یعنی جلسہ سالانہ کے آغاز سے ہی اس سفر کی گواہ ہے جب ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو ۷۵؍ افرادکی موجودگی میں امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی زیرِ سرپرستی پہلے جلسے کا انعقاد فرمایا۔ آج بھی اس بستی کی فضاؤں کی کسی dimensionمیں مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریمؓ کی پُرشوکت آواز میں حضرت اقدسؑ کا تصنیف فرمودہ مضمون آسمانی فیصلہ محفوظ ہو گا۔ اس بستی نے اگلے سال جلسے کی حاضری کو بڑھ کر پانچ سو ہوتے دیکھا اور پھر اس سے ہی اگلے سال جلسے کو ملتوی ہوتا دیکھ کر یہ بھی سمجھ لیا ہو گا کہ جلسے کے انعقاد کے مقاصد پورے نہ ہوں تو محض اجتماع کا کوئی فائدہ نہیں۔

پھر اس پیاری بستی کی آنکھ جلسہ سالانہ کی ترقیات کو سال بہ سال دیکھتی دیکھتی حضرت اقدسؑ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری جلسہ سالانہ پر آکر مسجد اقصیٰ میں ایک لمحہ کے لیے ٹھہر گئی ہو گی کہ اس جلسہ میں حاضری ریکارڈ تھی ، تین ہزار۔ اس بستی کے والی، اس کے بادشاہ ’’مہمانوں کی اس قدر تعداددیکھ کر بےحد خوش نظر آتے تھے۔ چنانچہ ایک روز اپنے مہمانوں سمیت قادیان کے بڑے بازار سے گزر کر قصبہ کے باہر سیر کو تشریف لے گئے تاکہ اس بازار کے باشندے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ حضور کا الہام یَأتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَ یَأتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ آج کس شان سے پورا ہو رہا ہے۔‘‘ (روایت حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ، الفضل ۲۲؍ جنوری ۱۹۶۰ء)

قادیان اپنی تاریخ کے سب سے قیمتی وجود، اللہ تعالیٰ کے ایک پیارے نبی علیہ افضَل صلوٰت کی جدائی کے صدمے سے گزرنے کے بعد خلافتِ حقہ اسلامیہ احمدیہ کے رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کے تسلسل کو اس پیارے کی جماعت پر اترتا دیکھتی ہو گی۔ اس نے جان لیا ہو گا کہ الٰہی سلسلوں میں ہر وہ کام جس کی بنیاد یا جس کی تخم ریزی نبی کے ہاتھوں سے کی جاتی ہے خلافت اُس کے بعد ان کاموں کو آگے بڑھاتی چلی جاتی ہے کیونکہ ’’خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد۶صفحہ۳۵۳)

قادیان نے جلسہ سالانہ کو بھی نبوت سے خلافت کے دور میں داخل ہوتے اور اس چھوٹے سے بیج کو پھلتے پھولتے دیکھا ہو گا۔ دورِ خلافتِ اولیٰ کے چھ جلسہ ہائے سالانہ اس نے مشاہدہ کیے ہوں گےجن میں حاضری اڑھائی سے تین ہزار کے درمیان رہی۔ دارالامان نے احمدیوں کے اخلاص اور ان کے اندر قربانی کی روح کو ایسے بھی جانچا ہو گا کہ خلافتِ اولیٰ کے پہلے جلسے پر قحط سالی اور بخار کی عالمگیر وبا پھیلی ہوئی تھی لیکن اس سب کے باوجود جلسے پر رونق دیدنی تھی۔ جاڑوں میں منعقد ہونے والے جلسے کے دوران خلیفۃ المسیح اور جید علمائے کرام کے خطابات شاملین کے ایمان کو تازہ کرتے اور روح کو گرما دیتے ہوں گے تو گویا اس بستی کا درجہ حرارت بھی گونا بڑھ جاتا ہو گا۔

اس پیاری بستی نے جلسہ سالانہ کی ترقی کا مشاہدہ ایسے بھی کیا ہو گا کہ حاضرین کی تعداد کی رعایت کے پیش نظر مقام جلسہ مسجد اقصیٰ سے مسجد نور کے صحن اور پھر وہاں سے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میدان میں منتقل کر دیا گیا۔

اور پھر یوں بھی کہ پہلے پہل حاضری اتنی ہی ہوتی تھی کہ مقررین کی آواز بغیر کسی مشکل کے حاضرین تک پہنچ جاتی تھی لیکن ۱۹۱۰ء کے جلسہ سالانہ پر پہلی مرتبہ احباب کی کثرتِ تعداد کی وجہ سے چار افراد نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی آواز سامعین تک پہنچائی۔ اس کے بعد لاؤڈ اسپیکر کے استعمال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

مارچ ۱۹۱۴ء میں جب اس بستی کی مٹی نے ہزاروں سوگوار عشاق کی سسکیوں اور دعاؤں میں خلافتِ احمدیہ کے پہلے مظہر کو اپنے دامن میں سمویا ہو گا تو نوراللہ، زکی غلام، فضلِ عمر، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کو بطور خلیفۃ المسیح الثانی مسکراتے چہرے سے خوش آمدید کہا ہو گا۔ یقیناً قادیان کی بستی آج بھی یہ گواہی دیتی ہے کہ اس صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت وجود کے بابرکت دورِ خلافت میں جماعت احمدیہ نے ہرمیدان میں خوب ترقی کی۔ دسمبر کے مہینے میں جب احباب روحانی اور علمی برکات کو سمیٹنے کے لیے جوش و خروش کے ساتھ جوق در جوق مرکزِ احمدیت پہنچتے ہوں گے تو قادیان کی رونقوں کی کیا بات ہوتی ہو گی۔ کہاں اس دَور کے پہلے جلسے میں چار ہزار عشاق کے پہنچنے پر انتظامیہ خوشیاں مناتی ہو گی اور کہاں جوبلی جلسہ پر حاضری چالیس ہزار کو پہنچ گئی ہو گی اور ابھی کئی پر شکستہ ایسے بھی ہوں گے جو یہ خواہش رکھتے ہوئے بھی نہ پہنچ پائےہوں گے۔ قادیان نے وہ وقت بھی دیکھا ہو گا جب انتظامیہ زیادہ حاضری سے اس لیے گھبراتی ہو گی کہ ان تک آواز پہنچانا کیسے ممکن ہو گا اور پھر وہ وقت بھی آیا ہو گا جب ۱۹۳۶ء کے جلسے میں ایک جدید آلے، لاؤڈ اسپیکرکے استعمال نے ان کی پریشانیوں کو رفع کر دیا ہو گا۔

جب ۱۹۳۹ء میں سخت ذہین و فہیم اور دل کے حلیم اور علومِ ظاہری وباطنی سے پُر کیے گئے کلمۃ اللہ کی خلافت پر پچیس سال پورے ہونے پر جوبلی جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوا ہو گا تو قادیان بھی اس جلسے کی آب و تاب دیکھ کر حیران ہوتی ہو گی۔ دارالامان خدا کے حضور یہ سوچ کر سجدہ ریز ہو گیا ہو گا کہ کہاں چند دہائیاں پہلے ایک درویش کے ہمراہ معدودے چند احباب نماز ادا کررہے ہوتے تھے اور کہاں چالیس ہزار افراد اپنی اپنی جماعتوں کے افراد کے ساتھ کوئی ڈیڑھ سو جھنڈے اٹھائے، اشعار پڑھتے اور خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتے اسی درویش کے موعود بیٹے سے فیض حاصل کرنے جلسہ گاہ پہنچے۔ اسی جلسے کے دوران قادیان کی فضاؤں نے لوائے احمدیت، لوائے خدامِ احمدیت اور لوائے لجنہ اماء اللہ کو لہراتا محسوس کیا ہوگا۔

اور پھر وہ وقت، ہائے وہ وقت جب تقسیمِ ہند کے وقت مسیح کی اس محبوب بستی کے روح و رُواں، اس کے بادشاہ، اس کے باسیوں، خدمتگاروں اور عقیدت مندوں، سب ہی کو یہاں سے کوچ کرنا پڑا ہو گا۔ اس وقت مٹھی بھر جانباز درویشوں نے اس کے تقدّس کی حفاظت کے لیے اپنے آقا کے ایما پر اپنی زندگیاں وقف کر دی ہوں گی۔ اس موقعے پر جو دسمبر آیا ہوگا تو گویا جلسے کو ایک مرتبہ پھر نقطۂ آغاز سے شروع کرنے کا عندیہ ہوگا۔ پہلے جلسہ سالانہ کی طرح دورِ درویشی کا پہلا جلسہ بھی مسجد اقصیٰ میں ہو رہا ہوگا۔ ملکی حالات کی وجہ سے احمدی بیرونِ قادیان سے پہلے کی طرح جلسے پر نہیں پہنچ سکتے ہوں گے۔ صورتِ حال کچھ یوں ہو گی کہ قادیان کی بستی بھی موجود ہو گی ، اس کی مساجد بھی موجود ہوں گی، اس کا لنگر خانہ بھی موجود ہو گا لیکن ہائے افسوس ؎

رونقِ بستانِ احمد، دل ربائے قادیاں

موجود نہیں ہو گا۔ اس کی آنکھیں اپنے آقا کو دیکھنے کے لیے ترستی ہوں گی مگر پاتی نہیں ہوں گی۔

اس بستی نے پھر حضرت مولوی عبدالرحمٰن جٹ صاحب رضی اللہ عنہ کی آواز میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ولولہ انگیز پیغام اپنی فضاؤں میں محفوظ کر لیا ہو گاجس میں حضورؓ نے فرمایا تھا کہ ’’یہ حالات عارضی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں پورا یقین ہے کہ قادیان احمدیہ جماعت کا مقدس مقام اور خدائے وحدہٗ لاشریک کا قائم کردہ مرکز ہے۔ …ضرور پھر … اس کی گلیوں میں دنیا بھر کے احمدی خدا کی حمد کے ترانے گاتے پھریں گے۔ …میں آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی کو احمدیت کی فتح کی خوشخبری لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ جو فیصلہ آسمان پر ہو زمین اسے ردّ نہیں کر سکتی اور خدا کے حکم کو انسان بدل نہیں سکتا۔ پس تسلّی پاؤ اور خوش ہو جاؤ۔ اور دعاؤں اور روزوں اور انکساری پر زور دو اور بنی نوع انسان کی ہمدردی اپنے دلوں میں پیدا کرو…اپنی آنکھیں نیچی رکھو لیکن اپنی نگاہ آسمان کی طرف بلند کرو۔ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۱۰ صفحہ ۴۳۹ تا ۴۴۱)

چنانچہ اس بستی نے اپنے محبوب کی راہ تکتے پینتالیس سال جب دشتِ فراق میں گزارےہوں گے تو دلہن کی طرح سجنے والی یہ بستی خاموشیوں اور سناٹوں میں کھو سی گئی ہو گی۔ ایک اللہ والے کی بعثت سے پہلے بھی یہ گمنام ہی تھی، قریب تھا کہ پھر سے گمنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں کھو کر احمدیوں کی عظمتِ رفتہ کی یاد بن کر رہ جائے لیکن خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت کی دوراندیشی اور پُر حکمت اور آسمانی راہنمائی اور قیادت اور اصحابِ بدر کی سنت پر عمل کرنے والے درویشانِ احمدیت کی قربانیوں کے صدقے اللہ نے اسے معجزانہ طور پر محفوظ رکھا ہو گا۔ پھر پینتالیس سال بعد جب اس کے راجہ، خلیفۃ المسیح ، حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ کے مبارک قدم ۱۹۹۱ء کے صد سالہ جلسہ قادیان کے موقع پر اس بستی پر پڑے ہوں گے تو یہ شکر کے سجدے بجا لاتی، فرطِ جذبات سے جھومتی تھکتی نہ ہو گی۔ اور ۲۰۰۵ء میں جب قادیان دارالامان نے ایک دولہے کو خوش آمدید کہا ہو گا تو اُس کی وجاہت اور رعب اور نورانی سراپے کو دیکھ کر زبانِ حال سے بے اختیار پکار اٹھی ہو گی: ’’وہ بادشاہ آیا‘‘۔

قصہ مختصر یہ کہ مسیح الزماںؑ کی پیاری اور مقدس بستی قادیان کی رونقیں خلافت کی بدولت تھیں۔ خلافت کی برکت سے اس کا تشخص قائم رہا اور خلافت ہی کی وجہ سے بحال ہونے لگا۔ جب سے خلافتِ احمدیہ کے مبارک قدم قادیان میں دوبارہ پڑے ہیں اس مبارک بستی نے ترقیات کی نئی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ اس کی رونقیں پھر سے بحال ہونے لگی ہیں۔ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ کو پورا ہوتا دیکھ کر ہم تہی دستوں کے دل ایمان اور یقین کے نُور سے پُر ہوئے جاتے ہیں کہ ’’یہ حالات عارضی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں پورا یقین ہے کہ قادیان احمدیہ جماعت کا مقدس مقام اور خدائے وحدہٗ لاشریک کا قائم کردہ مرکز ہے۔ …ضرور پھر … اس کی گلیوں میں دنیا بھر کے احمدی خدا کی حمد کے ترانے گاتے پھریں گے۔ …میں آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی کو احمدیت کی فتح کی خوشخبری لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ جو فیصلہ آسمان پر ہو زمین اسے ردّ نہیں کر سکتی اور خدا کے حکم کو انسان بدل نہیں سکتا۔‘‘

قارئین! قادیان اور اس میں مقاماتِ مقدسہ محمودہ کا محفوظ رہنا اور اس میں جلسے کی رونقوں کا بحال ہونا احمدیت اور خلافت کی سچائی اور حقانیت اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی وارث ہونے کی دلیل ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا تھا کہ ’’ایک دن آنے والا ہے جو قادیاں سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے‘‘(دافع البلاء، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۲۳۱)

اللہ کرے کہ قادیان کی رونقیں قائم رہیں جو ہر آنے والے روز زیادہ سے زیادہ دلوں کی ہدایت و تسکین کا باعث ہوں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button