حسد کے مرض سے بچو
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۹؍ اگست ۱۹۱۹ء)
۱۹۱۹ء کے اس خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے سورة الفلق کی روشنی میں حسد کی تعریف بیان فرماتے ہوئے شیطان کے حملے کرنے کے طریق پر روشنی ڈالی اور حسد اور مساوات میں باہم فرق بیان فرمایا۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ جمعہ شائع کیا جارہا ہے۔
حضورؓنے تشہد و تعوذ، سورۃ فاتحہ اور سورۃ الفلق کی تلاوت کے بعد فرمایا:
سورہ فلق میں ان تمام اشیاء سے اللہ تعالیٰ نے پناہ مانگنے کی دعا سکھائی ہے۔ جو انسان کے لیے ضرر رساں ہوتی ہیں۔ فلق کے معنے ہوتے ہیں ۔ مخلوق کے۔ اور یوں تو قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ مِنْ شَرِّمَا خَلَقَ میں تما م ہی مخلوق کی بدیوں سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔مگر باوجود اس کے جس جس رنگ میں کوئی دُکھ پہنچ سکتا ہے۔ اس سے بھی بچنے کی اللہ تعالیٰ نے دُعا سکھائی ہے۔ پھر سب دکھ دینے والی چیزوں سے دو کو علیحدہ کرلیا ہے اور وہ دو چیزیں شَرِّالنَّفّٰثٰتِ اور شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ہیں۔ بیشک شَرِّغَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ کو بھی علیحدہ کیا ہے۔اور اس میں بھی بہت وسیع مضمون ہے اور وہ ہر قسم کی تکلیف پر مشتمل ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے یہ دونوں باتیں خاص تعلق اور وابستگی رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان دونوں کو علیحدہ کرکے دعا میں شامل کیا ہے۔
آج میں ان دونوںامروں میں سے ایک کے متعلق اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں۔ حسد گو ایک عربی کا لفظ ہے۔ مگر ہماری زبان میں بھی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور ہندوستان کا بچہ بچہ جو اردو یا پنجابی زبان رکھتا ہے حسد کو خوب جانتا ہے۔اور ایسا شخص جس پر حسد کرنے کا شبہ بھی ہو۔اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ یہ لفظ ہماری زبان میں مستعمل ہے اور لوگ اس کو خوب سمجھتے ہیں۔ اور باجود اس بیماری کی شدت کو جاننے کے اور باوجود اس کے کہ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر بھی عمداً اس میں لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔اور باوجود حسد کو اس لحاظ سے جاننے کے کہ حسد کی موٹی تعریف ان کو معلوم ہوتی ہے۔اور باوجود اس علم کے کہ حسد بُری چیز ہے۔اور نفرت کے طور پر جس کو گالی دینی ہو اُسے حاسد کہتے ہیں پھر بھی اپنے آپ کو اس سے نہیں بچاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسد کی جو حقیقی تعریف ہے اس سے لوگ ناواقف ہیں۔
حسد کے معنے لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ ایک ایسا شخص جس کے پاس مال ہو اس کی نسبت دوسرے کی خواہش ہو کہ اس سے مال چھن جائے اور اسے مل جائے۔بیشک یہ حسد ہے، لیکن یہی حسد نہیں ہے۔ بلکہ جس طرح شیطان نے اَور بدیوں کو مختلف رنگ دیے ہوتے ہیں۔ اسی طرح حسد کو بھی کئی رنگوں میں پیش کرتا ہے۔
شیطان کی عادت ہے۔(اس جگہ شیطان سے میری مراد ابلیس نہیں۔ بلکہ شیطانی ارادوں والے آدمی اور وسواس ڈالنے والے لوگ ہیں)کہ وہ بدی کو نیکی کے رنگ میں دکھایا کرتاہے۔ اس ذریعہ سے وہ بہت بڑے بڑےفساد ڈالتا ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ اگر کوئی ان کو بدی کے ذریعہ بدی پر لگائےتو نہیں لگیں گے، لیکن اگر نیکی کی صور ت میں بدی پیش کی جائے تو وہ اس پر کاربند ہوجائیں گے۔مثلاً ایک شخص کو کہا جائے کہ تم فلاں شخص کو قتل کردو۔ تو وہ اس خیال سے نفرت کرےگا اور اس خیال سے گھبرائے گا،لیکن نیکی کی صورت میں جب یہ بات پیش کی جائے کہ بڑا ثواب ہوگا۔یا اور کوئی مفید نتیجہ نکلے گا۔ تو لوگ قتل سے نہیں گھبراتے۔آجکل جو ٹھگوں کا بدنام گروہ ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ابتداء میں یہ ایک مذہبی گروہ تھا جو اس لیے لوگوں کو قتل کر دیا کرتا تھا کہ لوگ دنیا کے رنج و آلام سے چھوٹ جائیں۔اور یہ لوگ سمجھتے تھے کہ اس طرح ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ احسان کرتے ہیں۔ تو یہ بغیر کسی لالچ اور خواہش اور بغض و حقد کے قتل کے مرتکب ہوتے تھے۔ ان کا قاعدہ تھا کہ مسافر راستہ میں چلا جاتا ہو۔ اس کے گلے میں پھانسی ڈال کر مار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ مصیبت میں تھا۔ہم نے اس کو بچا لیا وہ اس کو ایک ثواب کا کام خیال کرتے تھے۔ اب یہ گروہ ایک لٹیروں کا گروہ ہو گیا ہے۔ ورنہ یہ ایک مذہبی جماعت تھی جس کے سامنے لوگوں کو قتل کرنا بُرائی کے رنگ میں پیش نہ ہوا۔ بلکہ اس صورت میں پیش ہوا کہ لوگ دنیا میں رہ کر دکھ اٹھاتے تھے۔اس لیے ان کو دکھوں سے نجات دینے کے لیے ان کو قتل کر دینا چاہیے۔ اور یہ ان پر احسان ہوگا ظلم نہ ہوگا۔ یہ دھوکہ تھا جو شیطان نے ان کو نیکی کے رنگ میں دیا۔
پس شیطان کبھی بدی کی تعلیم کو نیک پیرائے میں پیش کرتا ہے اور بدی کو نیکی کا لباس پہنا کر لوگوں کی ہمدردی حاصل کرتا ہے۔ مثلاً کہیں صدقہ کا سوال ہوتا ہے۔ اب اس کے مقابلہ میں اگر لوگوں کو بخل کی تعلیم دی جائے تو وہ اس پر کان نہیں دھر سکتے، مگر یورپین رنگ دے کر اسی خیال کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اگر اس طرح صدقہ و خیرات کی جائے تو ملک کا ایک بڑا حصہ نکما ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب ان کو خیرات ملنے لگتی ہے تو وہ محنت چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ خیرات کرتے ہیں وہ نیک کام کرنے کی بجائے ملک سے دشمنی کرتےہیں۔اب اگر کھلے لفظوں میں بخل کی تعلیم دی جاتی تو ایک آدھ شخص بھی مشکل سے اس خیال کو تسلیم کرتا۔ مگر اس رنگ میں سینکڑوں اس بخل کی تعلیم کو تسلیم کرکے اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ یا اسی طرح اگر کوئی شخص کہے کہ عبادت میں کیا رکھا ہے اور ہماری تسبیح و تحمید سے خدا کا کیا بنتا ہے۔ تو بہت کم لوگ اس کے قابو میں آئیں گے،لیکن اگر یوں کہا جائے کہ اصل تو عبادت غریب لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے جتنے عرصہ میں کوئی تسبیح پڑھتا ہے۔ اتنے عرصہ میں ایک غریب کو مدد دینے میں بہت فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ تو نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ اس خیال کو تسلیم کر لیں گے۔ اسی لیے تمام بدیاں نیکی کی شکل میں پیش کی جاتی ہیں اور نادان ان پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور اس طرح لوگ تمام عبادتیں تسبیح و تحمید حتیٰ کہ نماز تک کو ترک کر دیتے ہیں۔
ہمارے ملک کا بڑا دنیاوی مصلح جس نے مسلمانوں کی مادی حالت بالکل بدل ڈالی اور جس کی ذاتی محنت اور کوشش اور ہمت اور قربانی سے کئی نکمے کام کےاور سست چست ہوگئے اور اس وقت جبکہ انگریزی زبان پڑھنے کو جہالت اور نادانی سے لوگ کفر سمجھتے تھے۔ جس نےاس غلط خیال کو لوگوں کے دلوں سے نکالا وہ سید احمد خان ہے۔ دنیاوی لحاظ سے اس میں شک نہیں کہ اس نے بڑا کام کیا۔ وہ قومی محبت دل میں رکھتا تھا۔ہاں مذہب کی محبت اس کے دل میں نہ تھی۔ جس کو وہ قوم سمجھتا تھا۔ اس کے لیے اس نے نماز ترک کردی اور کہہ دیاتھا کہ وہ وقت جَو میں نماز میں لگائوں گا کیوں نہ قوم کی خدمت اور بھلائی میں صرف کروں۔جس سے قوم کاکام بنے۔ پس شیطان نےاس کو بھی دھوکہ دیا اور اس کے دل میں ڈال دیا کہ تیری یہ کارروائیاں ہی نماز کی قائم مقام ہیں۔
شیطان بڑی ترکیب سے کام کرتا ہے۔ حسد کے بہت سے مدارج ہیں جن میں سےایک مساوات کا خیال ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس خیال کی جو اصل ہے اس کا پیدا کرنے والا اسلام ہے۔ کیونکہ اسلام کی تعلیم ہے کہ تمام بنی نوع آپس میں بھائی بھائی ہیں۔انسان ہونے کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ۔اور اس میں شبہ نہیں کہ جب تک یہ خیال نہ ہو ترقی نہیں ہو سکتی۔مگر جن کو خدا نے بڑائی دی ہو۔ان کی تذلیل کے لیے کہدینا کہ اسلام نے مساوات رکھی ہے۔ ان کو ہم پر کوئی فضیلت نہیں۔ ایک غلط خیال ہے۔اور بہت لوگوں کو اس خیال نے تباہ کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وقت میں بعض وہ لوگ جنہوں نے اس زمانہ کے صوفیوں کی حالت کو دیکھا تھا کہ وہاں غریب و امیر کو ایک ہی قسم کا کھانا کھلایا جاتا ہے۔انہوں نے جب یہاں یہ بات ملاحظہ کی کہ ذی وسعت لوگوں کو ان کی حالت کے مناسب اور غرباء کو ان کے درجہ کے مطابق کھانا دیا جاتا ہے تو کہنے لگے کہ خدا کے سلسلہ میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہاں تو سب کو ایک ہی درجہ میں ہونا چاہیے۔ یہ بات حضرت اقدسؑ کے سامنے بھی پیش کی گئی۔ آپ نے فرمایا۔ہم تو خدا کے فعل کے متبع ہیں۔دیکھو خدا نے کسی کو امیر بنایا ہے اور کسی کو غریب۔کسی کے گھر میں قسمہا قسم کے کھانے ہوتے ہیں اور کسی کے ہاںمشکل سے دال روٹی۔اب جبکہ خدا نے یہ تقسیم کی ہے تو ہم کیسے اس تقسیم کے خلاف سب سے ایک ہی قسم کا معاملہ کریں۔جس کو گھر میں عمدہ کھانا ملتا ہے اس کو عمدہ نہ دینا اس پر ظلم کرنا ہےکیونکہ وہ معمولی کھانے کا عادی نہیں ہوتا۔ تو یہ مساوات کا غلط مطلب ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ خدا نے اسلام میں جو مساوات رکھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہ بادشاہ نماز پڑھے یا غریب سب کو ایک سا اجر ملے گا۔خدا کے ہاں یہ نہیں کہ اگر ایک امیر نماز یا روزہ کا عمل بجالائے تو اس کو اس سے زیادہ اجر ملے گا جو ایک غریب و فقیر کو ان اعمال کا اجر ملے گا۔ باقی رہی دولت و ثروت یہ نتیجہ ہےاس کی یا اس کے آباء کی محنت کا۔ اس میں مساوات کیسے ہو سکتی ہے۔
رسول کریم ﷺ کے پاس غرباء آئے اور کہا حضور ہمارے امیر بھائی نیکیوں میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں۔نماز ہم پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں۔روزہ ہم رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں ۔ہم جہاد کے لیے جاتے ہیں وہ بھی جاتے ہیں۔وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں ہم اس سے محروم ہیں۔آپؐ نے فرمایاکہ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں کہ اگر تم وہ کرو گے، تو امراء سے تم نیکیوں میں بڑھ جائو گے اور وہ بات یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد ۳۳؍ دفعہ تحمید ۳۳؍ دفعہ تقدیس اور ۳۴؍ دفعہ تکبیر کہا کرو۔اللہ تعالیٰ تمہیں ان سے بڑھا دے گا،چند دن کے بعد غرباء پھر آئے کہ حضور! امیر تو یہ کام بھی کرنے لگ گئے ہم کیا کریں۔آپ نے فرمایا کہ خدا جس کو فضیلت دیتا ہے میں کس طرح اس کو روک سکتا ہوں؟ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الذکر بعدالصلوٰۃ)وہ دولتمند مسلمان ایسے مسلمان نہ تھے کہ فرائض کو بھی ترک کر دیں۔ وہ تو نوافل میں اس قدر جدوجہد کرتے تھے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر ان کی دولت مندی برائے نام نہ تھی، بلکہ کافی دولت رکھتے تھے۔ایک صحابی جن کے متعلق صحابہ کا خیال تھا کہ غریب ہیں۔جب فوت ہوئے، تو ان کے پاس ڈھائی کروڑ روپیہ کی جائیداد ثابت ہوئی۔رسول کریمﷺ کے وقت میں صحابہ کو تجارت کا بھی خاص ملکہ تھا، چنانچہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ اس فن میں کامل تھے۔انہوں نے ایک دفعہ دس ہزار اونٹ خریدے۔ اور اصل قیمت پر ہی فروخت کر دئیے۔ایک دوست نے کہا کہ اس میں آپ کو کیا نفع ہوا ۔انہوں نےجواب دیا کہ مجھے اسی وقت کھڑے کھڑے ڈھائی ہزار روپیہ کا نفع ان اونٹوں کی خریدو فروخت میں حاصل ہوا ہےاور وہ اس طرح کہ میں نے جب اونٹ خریدے تھے تو نکیل سمیت خریدے تھے اور فروخت بغیر نکیل کے کیے ہیں اس سودے میں دس ہزار نکیل مجھے نفع میں ملی۔اور اگر میں اس وقت فروخت نہ کرتا، تو خدا جانے کب گاہک پیدا ہوتا۔اور اتنے عرصہ میں کتنا کھا جاتے،لیکن اس وقت بغیر کسی خرچ کے ڈھائی ہزار کا نفع ہوا،چونکہ ان کو تجارت کا فن خوب آتا تھا اور اپنے کام میں بہت چُست تھے اس لیے وہ مال میں بڑھ گئے۔اب کس طرح ان کو کسی ایسے شخص کے برابر سمجھا جا سکتا تھاجو نہ ان کی طرح ہوشیار تھا اور نہ اس فن سے چُستی کے ساتھ کام لے سکتا تھا۔یہ مساوات نہیںکہ دولتمندی کے لحاظ سے سب کو مساوی سمجھا جائے،یہ تو ایک دھوکہ ہے اور غلطی ہے۔مساوات وہ ہے جو حضرت رسول کریم ﷺ کے وقت امراء نے دکھائی ۔اب لوگ جس چیز کو مساوات خیال کرتے ہیں یہ حسد ہوتا ہے۔متعدد احادیث میں آتا ہے کہ لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور کوئی بات کہنی چاہی۔آپ نے فرما دیا۔تمہارا امیر پیش ہو۔پس ان لوگوں کی مزعوم مساوات کہاں رہی۔اگر سب کی ایک ہی حیثیت تھی، تو رسول کریم ﷺ نے امیر کے پیش ہونے کا کیوں حکم فرمایا۔پھر فرمایا: نماز کے لیے وہ آگے کھڑا ہو جو تم میں زیادہ متقی اور اعلم ہو۔ اور اس طرح ایک کو خاص حیثیت دے دی۔ پس اس کا نام مساوات نہیں ہےکہ مختلف مدارج اور مختلف حیثیتوں کے آدمیوں کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک کیا جائے۔جو لوگ مختلف علمی اور عملی مدارج رکھتے ہیں۔یا ان کو بعض خاص رُسوخ حاصل ہیں ان کو کیسے ایک ہی طرح کا سمجھا جاسکتا ہے۔قرآن شریف میں آتا ہے کہ اگر تم کوئی بات سنو، تو اس کو ان لوگوں کے پاس لے جائو جن کو استنباط کرنا آتا ہو۔اب دیکھو استنباط والے الگ ہیں۔ مشورہ والے الگ۔اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہر ایک کام میں سب کو شریک ہونا چاہیے وہ دراصل مساوات کا مطلب نہیں جانتا۔ اور حسد کرتا ہے اور اپنے نفس کو دھوکہ دیتا ہےکہ حسد کو مساوات کے لباس میں چھپاتا ہے۔ ایک امیر کو عمدہ کھانا کھلایا گیا۔ دوسرا جلتا ہے کہ اسے بھی کیوں نہ ایسا کھانا ملا۔یہ مساوات نہیں بلکہ حسد ہے جس کو نیکی کا لباس پہنایا جاتا ہے جب اس کو مساوات کہا جاتا ہے۔ امام شعرانیؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ایک بیوی سے مزاحاً کہا کہ میں جب مرنے کے بعد بہشت میں جانے لگوں گاتو اپنی دوسری بیوی تیری سوکن کو ہمراہ لے جائوں گا۔بیوی نے کہا کہ خدا کی قسم میں اس بہشت میں ہرگز داخل نہ ہوں گی۔ اس بیوی نے جو یہ کہا یہ اس کےحسد کا نتیجہ تھا ۔یہی حسد ہے جو بڑھتے بڑھتے انسانوں کو ہلاک کر ڈالنا ہے۔ آج جو لوگ ہم سے جدا ہوئے ہیں وہ احمدی کہلاتے ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کی کچھ نہ کچھ محبت دل میں رکھتے ہیں اور حضرت اقدس کی کتب کو چھاپتے ہیں اور کچھ نہ کچھ تبلیغ بھی کردیتے ہیں۔ باوجود ان باتوں کے ان کو ہم سے حسد ہے۔ اس لیے جہاں ہمارے آدمی جاتے ہیں کہ لوگوں کو احمدی بنائیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگ احمدی نہ ہوں اور ان کو ورغلاتے ہیں اور ان کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس اسی خیال نے ان کو خراب کیا کہ وہ مساوات کے طالب تھے حالانکہ یہ مساوات نہ تھی۔ بلکہ حسد تھا۔ خوارج بھی یہی کہتے تھے کہ خلیفہ کون ہوتا ہے۔ اس کو کیا حق ہے کہ وہ ہم سے بڑا کہلائے۔ اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُشُورٰی بَیْنَنَا۔ یہ بات تو سچ تھی، مگر انہوں نے اس سے غلط نتیجہ نکالا۔
پس حسد ایک بُرا مرض ہے۔ اس سے بچو اور یاد رکھو کہ اسلام مساوات کا مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے، لیکن عام لوگ جس کو مساوات کہتے ہیں وہ حسد ہے اور اسلامی مساوات ایک پاک چیز ہےجس کا مقابلہ دنیا کی اور کوئی تعلیم نہیں کر سکتی۔
(الفضل ۳؍ ستمبر ۱۹۱۹ء)