خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۱۰؍ مارچ ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)

سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےقرآنی تعلیم کےکامل ہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت ﷺکی ایک اَور دلیل ہے اور انجام اَلْیوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ میں فرما دیا…گویا یہ بابِ نبوّت کی دوسری فصل ہے۔ اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اتار دیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی…وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقلمند اور بااخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنا دیا اور تطہیر نفس، تکمیل اور تہذیبِ نفس کے مدارج طے کرا دیئے…یہانتک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہو۔میں نے اگنی ہوتری کو بارہا کہاکہ کوئی ایسی سچائی بتاؤ جو قرآن شریف میں نہ ہو مگر وہ نہ بتا سکا۔ ایساہی ایک زمانہ مجھ پر گذرا ہے کہ میں نے بائبل کو سامنے رکھ کر دیکھا۔ جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں وہ تمام سچائیاں مستقل طو ر پر اور نہایت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہیں۔ وہ قرآن شریف پر تدبر ہی نہیں کرتے اور نہ ان کے دل میں کچھ عظمت ہے ورنہ یہ تو ایسا فخر کا مقام ہے کہ اس کی نظیر دوسروں میں ہے ہی نہیں۔‘‘فرمایا:’’غرض اَلْیوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ (المائدة:۴) کی آیت دو پہلو رکھتی ہے۔ ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا۔دوم کتاب مکمل کر چکا۔‘‘

سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کے اعجازی نشان کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ’’قرآن شریف … عبارت میں اس قدر فصاحت اور موزونیت اور لطافت اور نرمی اور آب و تاب رکھتا ہے کہ اگر کسی سرگرم نکتہ چین اور سخت مخالفِ اسلام کو کہ جو عربی کی املاء انشاء میں کامل دستگاہ رکھتا ہو حاکم باختیار کی طرف سے یہ پُرتہدید حکم سنایا جائے کہ اگر تم مثلاً بیس برس کے عرصے میں کہ گویا ایک عمر کی میعاد ہے۔ اس طور پر قرآن کی نظیر پیش کر کے نہ دکھلاؤ کہ قرآن کے کسی مقام میں سے صرف دو چار سطر کا کوئی مضمون لے کر اسی کے برابر یا اس سے بہتر کوئی نئی عبارت بنا لاؤ۔جس میں وہ سب مضمون معہ اپنے تمام دقائق حقائق کے آ جائے اور عبارت بھی ایسی بلیغ اور فصیح ہو جیسی قرآن کی تو تم کو اس عجز کی وجہ سے سزائے موت دی جاوے گی تو پھر بھی باوجود سخت عناد اور اندیشہ رسوائی اور خوف موت کی نظیر بنانے پر ہرگز قادر نہیں ہو سکتا اگرچہ دنیا کے صدہا زبان دانوں اور انشا پردازوں کو اپنے مددگار بنا لے۔‘‘اب ایک طرف خوف بھی ہے۔ فرمایا کہ حاکم کی طرف سے اس کو بیس سال کا عرصہ بھی دے دیا جائے کہ قرآن شریف جیسی کوئی نظیر بنا کر لاؤ، چند آیتیں ہی بنا کے لے آؤ، سطریں ہی بنا کے لے آؤ لیکن وہ اس کے باوجود نہیں لا سکتا۔ یہ ہے کمال قرآن کریم کا اور اس کی فصاحت کا…حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’فصاحت، بلاغت میں (اس کا مقابلہ ناممکن ہے) مثلاً سورۂ فاتحہ کی موجودہ ترتیب چھوڑ کر کوئی اور ترتیب استعمال کرو تو وہ مطالبِ عالیہ اور مقاصدِ عظمیٰ جو اس تر تیب میں موجود ہیں ممکن نہیں کہ کسی دوسری ترتیب میں بیان ہو سکیں۔ کوئی سی سورت لے لو۔ خواہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ (الاخلاص:۲)ہی کیوں نہ ہو۔ جس قدر نرمی اور ملاطفت کی رعایت کو ملحوظ رکھ کر اس میں معارف اور حقائق ہیں وہ کوئی دوسرا بیان نہ کر سکے گا۔ یہ بھی فقط اعجازِ قرآن ہی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب بعض نادان مقاماتِ حریری یا سبع معلقہ کو بے نظیر اور بے مثل کہتے ہیں۔اوراس طرح پرقرآن کریم کی بے مانندیت پرحملہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اوّل تو حریری کے مصنف نے کہیں اس کے بے نظیر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اوردوم یہ کہ مصنف حریری خود قرآن کریم کی اعجازی فصاحت کاقائل تھا۔ علاوہ ازیں معترضین راستی اورصداقت کو ذہن میں نہیں رکھتے بلکہ ا ن کو چھوڑ کر محض الفاظ کی طرف جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا کتابیں حق اورحکمت سے خالی ہیں۔ اعجاز کی خوبی اور وجہ تو یہی ہے کہ ہر ایک قسم کی رعایت کو زیرِ نظر رکھے۔ فصاحت اور بلاغت بھی ہاتھ سے جانے نہ دے۔ صداقت اور حکمت کو بھی نہ چھوڑے۔یہ معجزہ صرف قرآنِ شریف ہی کا ہےجو آفتاب کی طرح روشن ہے ا ور ہر پہلو سے اپنے اندر اعجازی طاقت رکھتا ہے۔

سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت کےحسن کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: (حضرت مسیح موعودؑنے)فرمایا کہ’’ایک اَور پہلو فصاحت بلاغت ایسی اعلیٰ درجہ کی اور مُسلَّم ہے کہ انصاف پسند دشمنوں کو بھی اسے ماننا پڑا ہے۔قرآنِ شریف نے فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (البقرة :۲۴) کا دعویٰ کیا لیکن آج تک کسی سے ممکن نہیں ہوا کہ اس کی مثل لا سکے۔‘‘عرب جو بڑے فصیح و بلیغ بولنے والے تھے اور خاص موقعوں پر بڑے بڑے مجمع کرتے اور ان میں اپنے قصائد سناتے تھے وہ بھی اس کے مقابلہ میں عاجز ہو گئے۔ اور پھر قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت ایسی نہیں ہے کہ اس میں صرف الفاظ کا تتبع کیا جاوےاور معانی اور مطالب کی پرواہ نہ کی جاوے بلکہ جیسا اعلیٰ درجہ کے الفاظ ایک عجیب ترتیب کے ساتھ رکھے گئے ہیں اسی طرح پر حقائق اور معارف کو ان میں بیان کیا گیا ہے اور یہ رعایت انسان کا کام نہیں کہ وہ حقائق اور معارف کو بیان کرے اور فصاحت و بلاغت کے مراتب کو بھی ملحوظ رکھے۔‘‘فرمایا کہ ’’ایک جگہ فرماتا ہے یتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَةً۔ فِیْھَا کُتُبٌ قَیّمَةٌ (البینہ:۳-۴) یعنی ان پر ایسے صحائف پڑھتا ہے کہ جن میں حقائق و معارف ہیں۔انشاء والے جانتے ہیں کہ انشاء پردازی میں پاکیزہ تعلیم اور اخلاقِ فاضلہ کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے اور پھر ایسی مؤثر اور جاذب تعلیم دینا جو صفاتِ رذیلہ کو دُور کرکے بھی دکھاوے اور ان کی جگہ اعلیٰ درجہ کی خوبیاں پیدا کر دے۔ عربوں کی جو حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ سارے عیبوں اور برائیوں کامجموعہ بنے ہوئے تھے اور صدیوں سے اُن کی یہ حالت بگڑی ہوئی تھی مگر کس قدر آپؐ کے فیوضات اور برکات میں قوت تھی کہ تیئس برس کے اندر کُل ملک کی کایا پلٹ دی۔یہ تعلیم ہی کا اثر تھا۔‘‘فرمایا کہ’’ایک چھوٹی سے چھوٹی سورة بھی اگر قرآن شریف کی لے کر دیکھی جاوے تو معلوم ہو گا کہ اس میں فصاحت و بلاغت کے مراتب کے علاوہ تعلیم کی ذاتی خوبیوں اور کمالات کوا س میں بھر دیا ہے۔ سورۂ اخلاص ہی کو دیکھو کہ توحید کے کُل مراتب کو بیان فرمایا ہے۔اور ہر قسم کے شرکوں کا رد کر دیا ہے۔ اسی طرح سورة فاتحہ کو دیکھو کس قدر اعجاز ہے۔ چھوٹی سی سورة جس کی سات آیتیں ہیں لیکن دراصل سارے قرآن شریف کا فن اور خلاصہ اور فہرست ہے اور پھر اس میں خدا تعالیٰ کی ہستی، اس کے صفات، دعا کی ضرورت، اس کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع،مفید اور سود مند دعاؤں کا طریق، نقصان رساں راہوں سے بچنے کی ہدایت سکھلائی ہے وہاں دنیا کے کل مذاہب باطلہ کا رد اس میں موجود ہے۔اکثر کتابوں اور اہل مذہب کو دیکھو گے کہ وہ دوسرے مذہب کی برائیاں اور نقص بیان کرتے ہیں اور دوسری تعلیموں پر نکتہ چینی کرتے ہیں مگر ان نکتہ چینیوں کو پیش کرتے ہوئے یہ کوئی اہل مذہب نہیں کرتا کہ اس کے بالمقابل کوئی عمدہ تعلیم بھی پیش کرے اور دکھائے کہ اگر میں فلاں بُری بات سے بچانا چاہتا ہوں تو اس کی بجائے یہ اچھی تعلیم دیتا ہوں یہ کسی مذہب میں نہیں، یہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رد کرتا ہے اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے۔‘‘

سوال نمبر۴:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’قرآن کریم ایک آسان فہم کتاب ہے‘‘ کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ’’بعض نادان لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم قرآن شریف کو نہیں سمجھ سکتے اس واسطے اس کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے کہ یہ بہت مشکل ہے۔ یہ ان کی غلطی ہے۔‘‘قرآن شریف نے اعتقادی مسائل کو ایسی فصاحت کے ساتھ سمجھایا ہے جو بے مثل اور بے مانند ہے اور اس کے دلائل دلوں پر اثر ڈالتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ قرآن ایسا بلیغ اور فصیح ہے کہ عرب کے بادیہ نشینوں کو جو بالکل اَن پڑھ تھے سمجھا دیا تھا تو پھر اب کیونکر اس کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘وہ اَن پڑھ لوگ جو تھے،گاؤں میں رہنے والے تھے بالکل جاہل تھے بلکہ انسانوں سے بھی نیچے گرے ہوئے تھے جن کو باخدا انسان بنایا۔ ان کو اگر سمجھ آ گئی تو اب کیوں نہیں تم لوگوں کو سمجھ آ سکتی جن میں اکثریت کچھ نہ کچھ پڑھے لکھوں کی ہے۔ فرمایا کہ’’سیدھی اور سچی اور سادہ عام فہم منطق وہ ہے جو قرآن شریف میں ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ ایک سیدھی راہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ہم کو سکھلا دی ہے۔‘‘

سوال نمبر۵:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کو غور سے پڑھنے کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:(آپؑ فرماتے ہیں) چاہئے کہ آدمی قرآن شریف کو غور سے پڑھے۔ اس کے امر اور نہی کو جداجدا دیکھ رکھے۔اور ان پر عمل کرے اور اسی سے وہ اپنے خدا کو خوش کر لے گا۔’’بڑا سادہ طریقہ ہے، جو احکامات کرنے کے ہیں،جوظاہری احکام تمہیں نظر آ رہے ہیں ان پر عمل کرو، جن سے روکا گیا ہے ان سے رک جاؤاسی سے خدا خوش ہو جائے گا۔‘‘

سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کےحقیقی خداکوپیش کرنےکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خد ا تعالیٰ کا شکر ہے کہ قرآن شریف نے ایسا خدا پیش نہیں کیا جو ایسی نا قص صفات والا ہو کہ نہ وہ روحوں کا مالک ہے نہ ذرات کا مالک ہے نہ ان کو نجات دے سکتا ہے نہ کسی کی توبہ قبول کر سکتا ہے بلکہ ہم قرآن شریف کی رُو سے اس خدا کے بندے ہیں جو ہمارا خالق ہے ہمارا مالک ہے۔ ہمارا رازق ہے۔ رحمان ہے۔ رحیم ہے۔ مالک یوم الدین ہے۔ مومنوں کے واسطے یہ شکر کا مقام ہے کہ اس نے ہم کو ایسی کتاب عطا کی جو اس کی صحیح صفات کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔‘‘

سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کےآخرپربنگلہ دیش کےکس شہیداوردیگر مرحومین کاذکرخیرفرمایا؟

جواب: فرمایا:1۔مکرم زاہد حسن صاحب شہیدجو ابوبکر صدیق صاحب بنگلہ دیش کے بیٹے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔نیشنل امیر عبدالاوّل صاحب لکھتے ہیں کہ زاہد حسن صاحب 3؍مارچ کو احمدنگر پنجو گڑھ ضلع میں منعقد ہونے والے جلسہ کے موقع پر گیٹ اور احاطے کا پہرہ دیتے وقت مخالفین کے حملوں کے نتیجے میں پچیس سال کی عمر میں شہادت پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔مرحوم نے ۲۰۱۹ء میں بیعت کی تھی۔ تین ماہ بعد ہی وصیت کی درخواست جمع کروا دی تھی۔ ان کا خاندان اہلِ حدیث فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد شہید مرحوم نے اپنے والدین کو تبلیغ کرنی شروع کر دی جس کے نتیجے میں 2020ء میں ان کے والدین نے بھی بیعت کرنے کی سعادت پائی۔بیعت کے بعد شہید مرحوم باقاعدہ مجھے خط بھی لکھا کرتے تھے…اوّل صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے آغاز سے جلسہ گاہ کی چاروں اطراف سے ملاں لوگ اپنے ٹولوں کے ساتھ جلسہ گاہ کی دیوار اور مغربی حصے میں واقع گیٹ پر حملہ کرنے لگے۔ پتھراؤ کے علاوہ دیسی اسلحہ سے،کلہاڑوں سے،سریا وغیرہ سے یہ لوگ حملہ کر رہے تھے اور جہاں بھی موقع ملا وہ آگ لگاتے رہے۔ خدام بڑی دلیری سے اپنی ڈیوٹیاں بجا لاتے رہے۔ عمومی طور پر تو باہر جانے کا موقع نہیں تھا سوائے ان کو جن کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ سب لوگ، خدام اندر ہی تھے، اندر سے ہی حفاظت کر رہے تھے۔کہتے ہیں کہ جلسہ شروع ہونے کے پونے دو گھنٹے کے بعد جب حملہ آور لوگ دیوار کا ایک حصہ توڑنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر خدام کو ہر قیمت پر دیوار اور جلسہ گاہ کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے کہا گیا۔ اس وقت گیٹ نمبر ایک پر متعیّن زاہد حسن شہید اپنے ساتھیوں کے ساتھ گیٹ سے نکل کر جلسہ گاہ کی دیوار پر حملہ کرنے والوں کو ہٹانے کے لیے نہایت سرعت اور بہادری سے جا پہنچے۔ اسی اثنا میں ایک موقع ایسا آیا کہ مقابلہ کرتے کرتے یہ ساتھیوں سے بچھڑ گئے۔ سو موقع پا کر اس اکیلے کو حملہ آوروں نے جا لیا۔ اس کے سر کے پیچھے کلہاڑی یا کوئی اَور تیز اسلحہ سے حملہ کر دیا اور موصوف کو گھسیٹتے ہوئے کچھ فاصلے پر لے گئے۔ ان کے چہرے اور جسم کے دیگر حصوں پر نہایت بے دردی اور سفاکی سے وار کرتے ہوئے درندہ ہونے کا ثبوت دیا… پھر کہتے ہیں کہ عزیزم زاہد حسن شہید خدام الاحمدیہ کے فعال رکن تھے۔ بوقت شہادت موصوف ڈھاکہ اور بریسال کے علاقائی معتمد خدام الاحمدیہ کے طور پر خدمت بجا لا رہے تھے نیز ڈھاکے کے موتی جھیل حلقہ کے زعیم بھی تھے۔

2۔کمال بداح صاحب الجزائر ۔2؍فروری کو ستاون سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔

3۔ڈاکٹر شمیم ملک صاحبہ جو مکرم مقصود احمد ملک صاحب شہید لاہور کی اہلیہ تھیں جو 2010ء میں دارالذکر میں شہید ہوئے تھے۔اپنےخاوند کی شہادت کے کچھ عرصے بعد یہ کینیڈا چلی گئی تھیں اور وہاں ان کی وفات ہوئی ہے۔

4۔عزیزم فرہاد احمد جو ارشاد احمد امینی صاحب جرمنی کے بیٹے تھے۔ یہ چھبیس سال کی عمر میں گذشتہ دنوں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔ عزیزم فرینکفرٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل تھے۔ وفات سے قبل مجلس خدام الاحمدیہ میں لوکل اور ریجنل سطح پر خدمت کی توفیق پائی۔

5۔چودھری جاوید احمد بسمل صاحب جو آج کل کینیڈا میں تھے۔گذشتہ دنوں 72سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ۔ کافی لمبا عرصہ بیمار رہے۔تحریکِ جدید کی زمینوں پہ بڑا لمبا عرصہ ان کو مینیجر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ چوبیس پچیس سال۔ پھر خدام الاحمدیہ اور دوسری جماعتی خدمات کی بھی ان کو توفیق ملتی رہی۔ امیر ضلع عمر کوٹ کے طور پر بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button