متفرق مضامین

نیا سال اور دعائیں

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نئے سال کا آغاز دعاؤں سے کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آج اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ نئے سال کے پہلے ہی دن کو اِس طرح دعاؤں سے سجاؤکہ سارا سال قبولیت دعا کے نظارے نظر آتے چلے جائیں۔ اپنے لئے دعائیں ہیں۔ اپنے اہل و عیال کے لئے دعائیں ہیں۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے لئے قربانیاں کرنے والوں کے لئے دعائیں ہیں۔ جماعت کی ترقی کے لئے دعائیں ہیں۔ جن جگہوں پر ہیں اس ماحول اور معاشرے کے لئے دعائیں ہیں۔ ملک کے لئے دعائیں ہیں۔ ایک مومن تبھی حقیقی مومن بھی کہلاسکتا ہے جب جس ملک میں رہ رہا ہے، جس کا شہری ہے، اس کے لئے بھی دعا کررہا ہو۔ پس یہ سب فرائض ہیں جو ایک احمدی کے سپرد کئے گئے ہیں اور ان کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے۔ احمدیوں کی دعاوٴں سے ہی دنیا کی بقا ہے۔ انسانیت کی بقا ہے۔ جنت کے راستوں کی طرف راہنمائی ہے۔ اگر خود ہی ان راستوں کی طرف نہیں چل رہے تو دوسروں کو کیا راستہ دکھائیں گے۔ ہم احمدی تو اس زمانہ کے آدم کے ماننے والے بھی ہیں جو جنت سے نکلنے کے لئے نہیں آیا۔ جو نہ صرف دونوں جنتوں کا وارث بنا بلکہ جنت کی طرف لے جانے کے لئے اُس تعلیم کے ساتھ آیا جو آپؑ کے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہﷺ لائے تھے۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا الہام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خَلَقَ اٰدَمَ فَـاَ کْرَمَہٗ۔ جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ۔ بُشْرٰی لَکَ یَا اَحْمَدِیْ۔ اس نے اس آدم کو پیدا کیا اور پھر اُس کو عزت دی یہ رسولِ خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک نبی کی ایک خاص صفت اس میں موجود ہے۔ تجھے بشارت ہو اے میرے احمد۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۱-۸۲)

جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآء کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’اس وحی الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیھمُ السَّلام خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں۔ خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیراسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۶)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ سے عشق کی وجہ سے ہر ایک نبی کی فطرت کانقش میری فطرت میں ہے اور آنحضرتﷺ سے تو عشق صادق کی وجہ سے بروزی نبی کا اعزاز پاتے ہوئے آپ کو آنحضرتﷺ کے نور سے جو حصہ ملا ہے اس کی تو کوئی انتہاء نہیں ہے۔ یہ آدم جو اس زمانہ میں آیا یہ نور محمدیؐ سے پُر ہے۔ اس لئے روشنی کے نئے سے نئے راستے ہمیں دکھاتا ہے۔ دعاوٴں کے طریقے اور قرینے ہمیں سکھائے۔ دنیا و آخرت کی حسنات کے حصول کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی تاکہ ہم ہمیشہ دنیوی اور اخروی جنتوں کے وارث بنے رہیں۔

پس اِس نور سے فیض حاصل کرنے کے لئے اپنی زندگی کے سال کے پہلے دن کو ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر دن کو بابرکت بنانے کے لئے دعاوٴں اور اعمال صالحہ کی ضرورت ہے جس کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ آج اِس سال کے اِس بابرکت دن کو احمدیوں نے اس جذبے کے تحت ہی گزارا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد میں باجماعت تہجد کی نماز بھی ادا کی گئی ہے۔ اب یہ جذبہ اس پہلے دن میں ختم نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہر آنے والا دن اس کے اثرات کو ظاہر کرتے چلے جانے والا بنتا چلا جائے۔ ہمارا ہر قدم تقویٰ کی طرف بڑھنے والا ہو۔ رسول پر ایمان مضبوط تر کرنے والا ہو۔ پہلے دن کی اس سلسلہ میں کی گئی کوشش ۳۶۵ دنوں پر حاوی ہونے والی ہو۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے۔ جوآیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاوٴ۔ وہ تمہیں اپنی رحمت میں سے دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں ایک نور عطا کرے گاجس کے ساتھ تم چلو گے۔ اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری۲۰۱۰ء)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ایک احمدی کے نئے سال کے آغاز کے متعلق ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ انگلستان میں ایک دفعہNew year‘s day, new year eveningتھی یعنی اگلا دن نیا چڑھنا تھا رات کے ۱۲ بجے سارے لوگ ٹرافلگر اسکوائر میں اکٹھے ہوگئےلوگ نشے میں دھت ہو کر مصروف ہو جاتے ہیں اور جب رات کے ۱۲ بجتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تہذیبی روک نہیں کوئی مذہبی روک نہیں ہر قسم کی آزادی ہے۔ اس وقت اتفاق سے وہ رات میری Euston Station پرآئی۔ مجھے خیال آیا جیسا کہ ہر احمدی کرتا ہے۔ اکثر احمدی اللہ کے فضل سے نیادن اس طرح ہی شروع کرتے ہیں نئے سال کی رات کو ۱۲ بجے عبادت کرتے ہیں تو مجھے موقع ملا میں بھی وہاں کھڑے ہو کراسٹیشن پر اخبارتھی وہی بچھا کر دو نفل پڑھنے لگا۔کچھ دیر کے بعد مجھے محسوس ہوا کے کوئی شخص آکر کھڑا ہوگیا ہے اور پھر نماز ابھی ختم نہیں کی تھی کہ مجھے سسکیوں کی آواز آئی۔ ایک شخص رو رہا تھا۔ نماز سے فار غ ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا انگریز بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا میں گھبرا گیا کہ میں نے کہا پتہ نہیں سمجھا میں پاگل ہوگیا ہوں اس لیے رو رہا ہے بچارا میری ہمدردی میں۔ میں نے اس سے پوچھا کے تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تو اس نے کہا مجھے کچھ نہیں ہوا، میری قوم کو کچھ ہوگیا ہے۔ ساری قوم اس وقت نیا سال میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے رب کو یاد کر رہا ہے۔ اس چیز نے اس موازنے نے اس قدر میرے دل پہ اثر کیا کہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔ اور بار بار کہتا تھاGod Bless You, God Bless You۔ تو حقیقت یہ ہے کہ اگر ساری دنیا مذاق بھی اڑائے تب بھی کسی کی پرواہ نہیں ہونی چاہئے ایک احمدی نوجوان کو وہ آزاد انسان ہے خدا کے سوا اس کی گردن کسی کےہاتھ میں نہیں ہے۔(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ اگست ۱۹۸۶ء)

(مرسلہ :ارفع طلحہ۔ ملائیشیا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button