متفرق مضامین

تعدّد ازدواج اور معاملہ حضرت مفتی محمد صادقؓ کی ازواج کا

(آصف محمود باسط)

اسلام کی تعلیمات میں سے ایک تعدّد ازدواج بھی ہے جس پر جدید مغربی دنیا سوالات اٹھاتی ہے۔ اس تنقید کی بنیاد محض دور جدید کے وہ اخلاقی معیار ہیں جو اہل مغرب کےازخود مرتب کردہ ہیں۔

اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کے پس منظرپر نظر ڈالنے سے پہلے ظہور اسلام سے قبل کے عرب معاشرہ کی اخلاقی اقدار کو سمجھنا ضروری ہے۔کیونکہ اُس زمانہ میں جہاں مختلف مذاہب زوال اور پستی کا شکار تھے، وہاں ان کی دی ہوئی اخلاقی تعلیمات بھی اپنی حیثیت کھو چکی تھیں۔ بلکہ روحانی انحطاط کایہ عالم تھا کہ مذہب اور اخلاقیات دونوں مسترد کیے جاچکےتھے۔

جس معاشرے میں کوئی مرد بغیر کسی قانونی اورازدواجی معاہدے کے جتنی چاہے عورتوں کو بلا روک ٹوک اپنے ساتھ رکھ سکتا تھا۔ وہاں اسلام نے شادی بیاہ کے متعلق باضابطہ قوانین لاگو کئے اور ایک مرد کے ساتھ بیک وقت شادی کے بندھن میں بندھنے والی عورتوں کی غیر معینہ تعداد کو بھی معین کیا۔

اس امر سے مؤرخین بھی اتفاق کرتے ہیں کہ ظہور اسلام سے تب کی معاصر دنیا میں سماجی اور معاشرتی لحاظ سے ایک غیرمعمولی انقلاب برپا ہوا۔

ایک ایسے وقت میں جب باہمی امن صرف زوربازو اورعسکری مہمات کے ذریعے قائم ہواکرتا تھا،وہاں ایسی خونریز جنگوں کے بعد مفتوح اقوام کی زندہ بچ رہنے والی عورتیں جنگی قیدی کی حیثیت سے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کی نئی جہتوں کو جنم دیتی تھیں، کیونکہ ایسی بے آسرا عورتوں کے ساتھ افراد معاشرہ مال مفت والا معاملہ کرتے تھے۔ مزید برآں زمانہ قبل از اسلام کے ان معاشروں میں ایسی مصیبت زدہ عورتوں سے ناجائز بچوں کی پیدائش ہونا اورپھر ایسی ماؤں اور بچوں کی ذمہ داری اٹھانے کی بجائے انہیں یونہی چھوڑ دینے کا چلن تھا۔ وہاں اسلام نے مردوں کے لیے ایک باقاعدہ قانونی ڈھانچہ قائم کیا جس کے مطابق اگر کوئی مرد ایسی ایک یا زیادہ لونڈیوں کو اپنانے کا فیصلہ کرتا تو وہ ایسی عورتوں کے بعض بنیادی حقوق کاذمہ دار ٹھہرتے ہوئے ہی ان کی ملکیت حاصل کرسکتا تھا۔

لہٰذا یہ کہنا عین مبنی بر حقیقت ہےکہ اسلام نے تعدّد ازدواج کے ذریعے آزادروی پر گامزن اپنے دور کے معاشروں کی ایسی جنسی بے راہ رویوں پر پابندیاں عائد کیں، جو جدید معاشرے میں مزید گھناؤنی شکل میں نمودار ہوچکی تھیں۔ ایسے میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ عصرِ حاضر کی تعدّدازدواج سے بے زاری بے راہ روی پھیلانے کے الزام کی آڑ میں دراصل اس پابندی پر ہے جو اس تعلیم کے ذریعے لاگو کی گئی ہے۔

کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ معاشرے جہاں مرد اور عورت بغیر کسی قانونی معاہدے کےاکٹھے رہتے ہیں اوران کے ہاں بچوں کی پیدائش بھی ہوجاتی ہے، لیکن وہ جب چاہیں اپنی راہیں ایک دوسرے سے جدا کر لیتے ہیں، وہ بھی تعدّد ازدواج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جب کہ اسلام تو تعدّد ازدواج کے ذریعہ آزادیٔ مطلق پر ایک پابندی عائد کرتا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام ہی دین فطرت ہے اور اس نے تعدّد ازدواج کی اجازت دیتے ہوئے مردوں اور عورتوں کی نفسیات کو بھی مدنظر رکھا ہے۔ مردوں اور عورتوں میں جنسیاتی نفسیات کے رجحان اور میلان میں واضح فرق ایک ایسا عنصر ہے جسے تعدّد ازدواج پر بحث کرتے وقت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اوران جدید معاشروں میں بسنے والے اس واضح فرق سے بخوبی آگاہ ہیں۔

اسلام کے ابتدائی دور میں بھی معاشرےکے خدو خال کو متوازن رکھنے کے لیے حلت اور حکم کے فرق کا خاص خیال رکھا گیا، جیسا کہ متعہ عرب رواج کے مطابق ابتدائےاسلام میں برقرار رہا لیکن غزوہ خیبر کے زمانہ میں متعہ کی مناہی ہوگئی۔ اسی طرح، تعدّد ازدواج کبھی بھی مسلمان مردوں کے لیے ایک حکم کے طور پر نہیں تھا بلکہ یہ پر حکمت تعلیم اخلاقی برائیوں سے بچانے کے لیے ایک اجازت کے طور پرتھی اور بعض واضح اور ممکنہ سماجی برائیوں کے سدّباب کی سبیل تھی۔ قرآن کریم تعدّدازدواج کی اجازت دیتے ہوئے بھی اسے ازواج کے مابین انصاف سے مشروط کرتا ہے۔ پس تعدّد ازدواج بھی متعدّد کڑی شرائط پر مبنی ایک اجازت ہے۔اور بیویوں میں انصاف حاصل کرنا بھلا کہاں کا آسان کام ہے؟

جیسا کہ پہلے ذکرہوچکا کہ مسلمانوں کو ابتدائی دور میں اپنی بقا کےلیے عسکری مہمات اور غزوات درپیش رہے۔گو مسلمان عورتوں کو میدان جنگ میں باقاعدہ تصادم میں شامل ہونےکی اجازت نہیں تھی، لیکن مرد اپنی عسکری مہمات کے باعث گھر سے دور رہتے۔ اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ وہ اپنی بیویوں سے لمبے وقفوں کے لیے جدا اور گھروں سے دور وقت گزارتے۔ اوراسلام کی تعلیمات میں انسانی جسم کی فطری خواہشات کی تسکین کا کوئی دوسرا ذریعہ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کے ازدواجی معاہدے کے اعلان کے علاوہ جائز نہیں ہے۔

انہی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت عمربن خطابؓ کے زمانے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ شادی شدہ سپاہیوں کو چار ماہ سے زیادہ عرصہ کے لیے محاذ یا گھر سے دور کسی مفوضہ ڈیوٹی پر نہ رکھا جائے۔ اسی سلسلہ میں ایک روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کا وہ غمناک شعری کلام سنا جو محاذ پر گئے ہوئے اپنے شوہر کے لیے تڑپ رہی تھی۔ آپؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ کے پاس جانے اور پوچھنے میں تامل محسوس نہیں کیا کہ ایک عورت اپنے شوہر کے بغیر کتنی دیر تک رہ سکتی ہے۔ جواب پاکر آپؓ نے حکم دیا کہ مردسپاہیوں کو چار ماہ سے زیادہ گھر سے دور نہ رکھا جائے۔

تاہم اسلام میں کثرتِ ازدواج اور بالخصوص حضرت نبی کریم ﷺ کی شادیوں پر ناروا تنقید مغربی مستشرقین کا خاص مشغلہ بن چکا ہے۔ اس کی مثال حضرت خالد بن ولیدکی مالک بن نویرہ کی بیوہ کے ساتھ شادی بھی ہے۔جدید مؤرخین کو اعتراض ہے کہ آپؓ نے مالک کی بیوی سے شادی کرنے کے لیے اس کو قتل کیا تھا جو کہ اسلام کی تعلیم سے سراسر منافی امر ہے۔جبکہ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ حضرت خالدؓ پر یہ الزام حقیقت سے کوسوں دُور ہے۔مگر ہم جی ہی ایسے دور میں رہے ہیں جہاں افواہ اور سنسنی کو حقائق پر فوقیت حاصل ہو چکی ہے۔

مغربی نوآبادیاتی دور اور تعدّد ازدواج

آج کی مغربی دنیا مذہب سے انحراف کے باوجود اپنی ثقافت اورمعاشرت میں عیسائیت کے رنگ میں رنگین ہے۔ مثلاً اہل مغرب کے تمام تہوار یعنی کرسمس، ایسٹر، Harvest اور Thanksgiving وغیرہ کا خمیر عیسائی تاریخ و عقائد ہی سے اٹھا ہے۔

تعدّد ازدواج کے خلاف اہل مغرب کی شدید نفرت بھی مغربی عیسویت سے ہی اٹھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ مگر بے بنیاد ہے کیونکہ تعدّد ازدواج کے خلاف بھی وہی دلائل پیش کیے جاتے ہیں جو ایک آزاد معاشرے کے حق میں بھی دیے جاتے ہیں۔ یعنی وہ آزاد معاشرہ جہاں مرد اور عورت کو ایک ساتھ رہنے کے لیے کسی بھی قسم کے قانونی معاہدے کی ضرورت نہیں ہے۔ عیسائی تعلیمات سے متاثر ہوکر تیار ہونے والے اہل مغرب کے قانونی نظام میں تعدّد ازدواج کو اس بنیاد پر جرم کے طور پر دیکھا ہے کہ ’’یہ عدل اورمساوات سے متصادم ہے،اولاد کے لیے الجھنوں کا باعث بنتا ہے، اور مردو زن کی باہمی ازدواجی رضامندی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔‘‘

(For detail: John Witte Jr, The Western Case for Monogamy over Polygamy, Cambridge University Press, NY and Cambridge, 2015)

لیکن کیا یہ بات حقیقت نہیں ہے کہ مذکورہ بالا تینوں امور وہاں بھی ایسی ہی مشکل پیدا کررہے ہیں جہاں مرد اور عورتیں بغیر کسی باقاعدہ ازدواجی معاہدے کے اکٹھے رہتے ہیں اور بچے پیدا کرتے ہیں۔نیز اہل مغرب کی تعدّد ازدواج کی صورت میں بچوں کی ولدیت پر ممکنہ تشکیک اور خدشات اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ اہل مغرب نے تعدّد ازدواج کے اسلامی تصورکو سمجھا ہی نہیں۔

محقق John Witte Jr نے اپنی تفصیلی تحقیق The Western Case for Monogamy over Polygamy میں اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا ہے کہ کس طرح اہل مغرب میں تعدّدازدواج کی طرف رجحان زیادہ ہورہا ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ ’’مستقبل قریب میں بہت سے مغربی ممالک میں عوام الناس بھی اور قانون ساز بھی تعدّد ازدواج پر ہی متفق ہوجائیں گے۔‘‘

عوامی آراء اور رجحانات کے اعداد و شمار اور جائزے مرتب کرنے والا معروف ادارہ Gallup Survey بتاتا ہے کہ امریکہ میں تعدّد ازدواج کی اخلاقی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جواہل مغرب کے جدید رجحان کی موثر عکاسی کر رہا ہے۔ ۲۰۰۴ءمیں عوام میں تعدّد ازدواج کی اخلاقی مقبولیت سات فیصد تھی جو ۲۰۲۰ء میں بڑھتے بڑھتے بیس فیصد کو چھو رہی ہے، اور اس میں اضافہ کا رجحان نمایا ں ہے۔

امریکہ کا ذکر آہی گیا ہے تو حضرت مفتی محمد صادق ؓکے معاملے کو دیکھتے ہیں جو ۱۹۲۰ءمیں اس سرزمین پر اسلام احمدیت کا پیغام لیکر پہنچنے والے پہلے مبلغ احمدیت تھے۔

حضرت مفتی محمد صادق ؓکی تعدّد ازواج کا معاملہ

جیسے ہی حضرت مفتی صادق صاحبؓ نے امریکی سرزمین پر قدم رکھا، امیگریشن حکام نے انہیں اس خدشے پر حراست میں لے لیا کہ وہ ایک مسلمان تھے اور امریکہ میں تعدّد ازدواج کی پابندی کے خلاف تعلیم پھیلا سکتے تھے۔مفتی صاحبؓ نے حکام کو یقین دہانی کروائی کہ اسلام میں تعدّد ازدواج کی محض اجازت ہے، نہ کہ فرضیت۔ آپؓ اپنے درست موقف میں اس درجہ واضح تھے کہ آپ نے اخبارات میں بھی لکھا،مثلاً Evening Public Ledger کو بتایا :’’مجھے اس وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے کہ مجھے جماعت احمدیہ کے مبلغ کے طوراپنی حیثیت ثابت کرنی ہے… اور اس لیے بھی مجھے امریکہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہےکہ میراتعلق ایسے ملک اور قوم سے ہے جہاں تعدّد ازدواج کی اجازت ہے۔ میں اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کررہا ہوں۔ میں اس وقت تعدّد ازدواج پر عمل پیرا نہیں ہوں، میری صرف ایک بیوی ہے، جو ہمارے چار بچوں کے ساتھ ہندوستان میں ہے…‘‘

حضرت مفتی صاحبؓ کی یہ ایک بیوی امام بی بی صاحبہ تھیں جن سے آپؓ نے بھیرہ میں شادی کی تھی جیسا کہ مفتی صاحب کے حالات زندگی میں درج ہے۔ (ذکرِ حبیب، از مفتی محمد صادق، صفحہ ۱۷۳)

ایک آن لائن اخبار Ipswich Star نے حال ہی میں ایک مضمون میں حضرت مفتی صاحبؓ کے بعض نودریافت شدہ پوتے پوتیوں کا احوال شائع کیا، اور بتایا کہ مفتی صاحب نے ان بچوں کی دادی Ethel Maud Bassett سے اپنے قیام انگلستان (۱۹۱۷ء تا جنوری ۱۹۲۰ء) کے دوران شادی کی تھی جس سے ایک بیٹے Frederick A Bassett کی ولادت ہوئی، یہ بچہ مفتی صاحبؓ کے انگلستان سے امریکہ جانے کے تقریباً پانچ ماہ بعد یعنی مئی ۱۹۲۰ء میں پیدا ہوا تھا۔

(پیدائش کا سرٹیفیکیٹ۔ فریڈرک کا نام پہلے کالم میں، Bassett کے تحت چھٹے نمبر پر)
(فریڈرک کا Baptism Certificate)

اس مذکورہ بالا خاندان نے اپنے دادا کی کھوج میں متعدّد دستاویزات بھی جمع کررکھی ہیں، تاہم بہت سی معلومات ہنوز تشنہ ہیں۔ان کے پاس حضرت مفتی صادق صاحبؓ کی طرف سے اپنے بیٹے فریڈرک کے نام لکھے گئے کئی خطوط بھی ہیں جن میں وہ اپنے بیٹے کو مسلم نام ’’فرید ‘‘سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان خطوط سے معلوم ہوتا ہےکہ مفتی صاحب اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے کو بھلے بُرے کی تمیز سے آگاہ کرتے اور اچھی زندگی گزارنے کے طریق بھی بتاتےتھے۔ یعنی مفتی صاحب اپنے بیٹے کو بہت ہی شفقت اور فکر سے پندو نصائح کیا کرتے تھے۔

مثلاً فروری ۱۹۴۷ء میں مفتی صاحب نے اپنے ’’پیارے بیٹے فرید‘‘ کو اپنی تازہ تصنیف ’’لطائف صادق‘‘بھی بھیجی اور یہ بھی لکھا کہ چونکہ یہ کتاب اردو زبان میں ہے، اس لیے شاید تم اسے پڑھ نہ سکو گے۔ لیکن اگر مفتی صاحب کے اپنے اس بیٹے کے نام دیگر خطوط کو دیکھیں تو ملتا ہے کہ مفتی صاحب نے فرید کو لندن میں مسجدفضل جانے اور وہاں مبلغ سلسلہ مکرم مشتاق باجوہ صاحب سےرابطہ رکھنے کی تاکید فرمائی۔ باپ اور بیٹے کی باہمی خط و کتابت بتاتی ہے کہ مفتی صاحب کے اس بیٹے کا مسجدفضل سے رابطہ رہا۔ پس اگر فریڈرک اپنے والد کی نصیحت پر عمل کرکے مسجد سے رابطہ رکھتا تو اپنے والد کی بھیجی ہوئی کتاب کے مندرجات سے آگاہی حاصل کرسکتا تھا۔

فریڈرک توشاید اردو نہیں جانتاتھا، لیکن اس کے مطالعہ کے بعد ہم عرض کرتے ہیں کہ مفتی صاحبؓ کے اس سوانح عمری میں فریڈرک کی والدہ ایتھل کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

اب اس کو امریکہ کے اخبار میں شائع کردہ بیان کی روشنی میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تب مفتی صاحب کی صرف ایک بیوی تھی جو ہندوستان میں تھی،نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ Ethel Bassett اور مفتی صاحبؓ کی شادی شاید کچھ عرصہ رہ کر ختم ہوگئی تھی۔

چونکہ آج لوگ کسی بھی شادی کے ثبوت کے طور پر متعلقہ سرکاری دفتر سے تصدیق شدہ دستاویزات کا مطالبہ کرتے ہیں، اس لیے واضح ہو کہ اسلام میں شادی کی واحد شرط نکاح ہے یعنی دو مردگواہوں کے سامنے ایک عوامی اعلان کہ ایک مرد اور عورت نے ازدواجی معاہدے کے تحت، شوہر اور بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ رہنے پر اتفاق کیا ہے۔

اور یہی اسلامی اصول علیحدگی کے موقع پر لاگو ہوتا ہے، خواہ میاں بیوی میں یہ علیحدگی طلاق کی صورت میں ہو یا خلع کی صورت میں۔ خواہ شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے یا بیوی اپنے شوہر سے خلع لے لے، دونوں صورتوں میں ان کو معاشرہ پر واضح کرنا ہوگا کہ دونوں نکاح سے آزاد ہو رہے ہیں اور اب شوہر اور بیوی کے طور پر ایک ساتھ نہیں رہیں گے۔

تاہم طلاق یا خلع کی صورت میں بعض قانونی تقاضے پورے کرنا ہوتے ہیں، مثلاً حق مہر کی ادائیگی۔ نیز عورت کے حاملہ ہونے کی صورت میں طلاق نہیں ہوسکتی تاہم خلع ہوسکتا ہے مگر ایسی صورت میں عدت کی مدت وضع حمل تک ہوتی ہے۔

فریڈرک کی پیدائش ۲۰؍ مئی ۱۹۲۰ء کو ہوئی جوحضرت مفتی صاحبؓ کی جنوری ۱۹۲۰ء میں امریکہ روانگی کے پانچ ماہ بعد کا وقت بنتا ہے۔ یعنی مفتی صاحبؓ کی امریکہ روانگی کے وقت ایتھل قریبا ًچار ماہ کی حاملہ تھیں۔

حضرت مفتی صاحبؓ کا امریکہ کے امیگریشن حکام کے سامنے بیان اور امریکی پریس کولکھے گئے کھلے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ مفتی صاحب کا ایتھل کے ساتھ نکاح بھی ختم ہوچکا تھا اور نہ ہی انہیں اس بات کا علم تھا کہ ایتھل حاملہ ہے۔یقیناً یہ حمل مفتی صاحب کے ایتھل سے اسلامی طریق پر کیے گئے نکاح کے عرصہ کے دوران ہوا ہوگا۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مفتی صاحب اور ایتھل کی علیحدگی روانگی سے قبل کے چار مہینوں میں ضرور ہوچکی تھی، جب اس حمل کا بالکل آغاز تھا اور دونوں اس سے لاعلم تھے۔

مذکورہ بالا میسر معلومات سے یہ قرینہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ اگر ایتھل حمل کے بارے میں جانتی بھی تھیں تو علیحدگی کےلیے خلع کااپنا اسلامی حق استعمال کیا ہو۔

اب معاملہ کچھ بھی ہو، حضرت مفتی صاحبؓ کے امریکہ پہنچتے ہی امیگریشن حکام کے سامنے بیان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس وقت ان کے نکاح میں صرف امام بی بی صاحبہ تھیں۔ اوراگر مفتی صاحب نے امریکہ پہنچ کر وہاں کی عورتوں سے شادیاں رچانے کا ارادہ کیا ہوا تھا تو انہیں حکام اور عوام کے سامنے ہندوستان میں اپنی شادی کا واضح اقرار اور اعلان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، بالخصوص ایسے زمانہ میں جب امریکی حکام کے پاس دُور افتادہ علاقوں سے انفرادی کوائف کی تصدیق کرنے کا کوئی خاص ذریعہ بھی نہیں تھا۔

امریکی حکام کو صرف اس یقین دہانی سے غرض تھی کہ مفتی صادق امریکہ میں رہتے ہوئے نہ تو لوگوں کو تعدّد ازدواج کی تبلیغ کریں گے اور نہ خود ایسا کریں گے۔ مفتی صاحب کی پہلے سے کتنی بیویاں ہیں، امریکی حکام کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

مزید برآں، اگر مفتی صاحب کا امریکہ میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا ارادہ ہوتا، تو امریکہ کے امیگریشن حکام کے سامنے ایتھل سے اپنی شادی کا ذکر کرنا، تعدّد ازدواج سے متعارف کروانے کا بہترین موقع تھاجبکہ اس شادی سے ایک بچے کی ولادت بھی متوقع تھی۔

واپس انگلستان کا رخ کریں تو ایک اور قرینہ بتاتا ہے کہ مفتی صاحب کی ایتھل کے ساتھ شادی طلاق پر ختم ہو گئی تھی کیونکہ فریڈرک کی ولادت پر انگلستان کے سرکاری کاغذات میں نومولود کی پیدائش اور نام کا اندراج کرواتے وقتsurname( کنیت/خاندانی نام/ ولدیت) کے خانہ میں “Bassett” لکھوایا گیا۔ اسی طرح نومولود کے عیسائی رسم و رواج کےمطابق بپتسمہ کے سرٹیفکیٹ میں بھی ’’والدین‘‘ کے کالم میں صرف ایک نام درج کروایا گیا “Ethel Maud Bassett”

اگر یہ شادی قائم تھی تو ایتھل نے کیوں مفتی صاحبؓ کا نام بچے کے والد کے طور پر نہیں لکھوایا۔ اوراگر مفتی صاحبؓ نے ایتھل کو طلاق بھی دے دی ہوئی تھی تو بچہ کے باپ کا نام مخفی رکھنے کی کوئی ظاہری وجہ نظر نہیں آتی۔

اب تک کے معلوم حقائق کے مطابق ایتھل نے فریڈرک کو Barnardo‘sنامی ادارہ میں داخل کروادیا تھا جہاں بےآسرا اور لا وارث بچوں کی دیکھ بھال کا انتظام تھا۔فریڈرک کے بچوں کے پاس موجود دستاویزات سے یہی پتا چلتا ہے اور Ipswich Star نے بھی فریڈرک کی اولاد کی مہیا کردہ معلومات و دستاویزات کی بنیاد پر یہی شائع کیا ہے۔

فریڈرک کی پیدائش کے وقت سے ہی، ایتھل نے مفتی صاحب کا نام اخفا میں رکھ کر بچہ کو اس کے حقیقی والد کی شناخت سے محروم کیا، نومولود کو بپتسمہ دلایا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایتھل نے اسلام قبول کر لیا تھاجس کی تصدیق حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ۱۰؍ جون ۱۹۱۹ء کے الفضل قادیان میں شائع ہونے والی رپورٹ سے ہوتی ہے:’’تازہ بشارت یہ ہے کہ اس ہفتہ میں دو معزز لیڈیاں بنام مس بسٹ اور مسز سلش حضرت مفتی محمد صادق صاحب مشنری اسلام کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئیں۔ ان کے اسلامی نام مجیداں اور فاطمہ رکھے گئے۔ الحمدللہ‘‘

اسی طرح جماعت کے رسالہ ریویو آف ریلجنز (انگریزی) نے اپنے مئی، جون، جولائی ۱۹۱۹ء کے شمارے میں یوں خبر دی: ’’مئی کے مہینے میں پانچ انگریز خواتین و حضرات نے اسلام قبول کیا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں:

Miss E Maud Bassett, Mrs Alice Sals, Mrs Gurr, Miss Bysouth, and Mr Scott.

انہیں بالترتیب مجیداں، عالیہ، امینہ، مریم اور ابراہیم کے اسلامی نام دیے گئے ہیں اور جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کے لیے ان کی بیعت کی درخواستیں حضرت خلیفۃ المسیح کو بھیج دی گئی ہیں۔‘‘

الفضل کے مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۱۹ء کے شمارہ میں شائع ہونے والی مذکورہ بالا رپورٹ ۷ مئی ۱۹۱۹ء کی تحریر کردہ ہے۔ یوں ہم بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایتھل نے مئی کے اوائل میں کسی وقت اسلام قبول کیا تھا۔ اور شادی ۱۹۱۹ءکے موسم گرما میں ہوئی ہو گی۔ماہ ستمبر کے آس پاس ایتھل حاملہ ہوگئی کیونکہ بچے کی ولادت مئی ۱۹۲۰ء میں ہوئی تھی۔

معلوم ہوتا ہے کہ شادی کا یہ بندھن ابتدا ہی میں ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن یہ سب قیاس آرائی ہے کیونکہ میسر مواد کی قلّت کچھ بھی یقین سے کہنے میں مانع ہے۔ لیکن ہمارے پاس بعض ایسے مضبوط شواہد ہیں جو ہمارے اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں کہ ایتھل نے ترک اسلام کردیا تھاجس کے نتیجے میں یہ شادی بھی ٹوٹ گئی۔ یہ ایتھل ہی تھی جس نے نہ صرف اسلام چھوڑا بلکہ اپنے شوہر سے بھی ایسی روگردان ہو گئی کہ نومولود بیٹے کو اس کے باپ کے نام اور شناخت سے بھی محروم کردیا۔بطور ثبوت Frederick A Bassett کے بپتسمہ کا سرٹیفیکیٹ دیکھا جاسکتاہے، جس پر بپتسمہ لینے کی تاریخ ۲۴؍ اگست ۱۹۲۰ء درج ہے۔

اگر ایتھل اسلام پر قائم رہتی تو نومولود کو بپتسمہ دلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔نیز ایتھل نے بیٹے کا نام Frederick رکھا، جو کہ ایک عیسائی نام ہے نہ کہ مسلمان۔

یہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ہی تھے جنہوں نے بعد میں بھی اپنے بیٹے فریڈرک سے رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کی اور اسے پیار سے فرید کہہ کر خط لکھتے رہے،انہوں نے اپنے بچے کو نہیں چھوڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ بچے کی ماں اور پھر بعد کے حالات جب اسے care home میں منتقل کر دیا گیا،اسے باپ سے رابطہ کرنے میں مانع رہے۔

گوہمارے پاس مفتی صادق صاحبؓ اور Ethel Maud Bassett کی شادی کو قانونی طورپر ثابت کرنے کے لیے کوئی سرکاری دفتری ریکارڈیا دستاویز تو نہیں، لیکن ہم یقین سے کہہ سکتےہیں کہ ان کے مابین اسلامی طریق پر نکاح اور شادی ہوئی تھی۔علاوہ دیگر شواہد کےحضرت مفتی صادق صاحبؓ کی طرف سے فریڈرک کو لکھے گئے خطوط ہیں، جن میں فریڈرک کو نصیحت ہے کہ وہ ساؤتھ فیلڈز، لندن میں واقع فضل مسجد جایا کرے اوروہاں متعین احمدی مبلغ سے رابطہ رکھے۔یہ خطوط بتاتے ہیں کہ فریڈرک مسجدفضل میں قائم مشن ہاؤس سے رابطے میں رہا۔ اور پھر جب فریڈرک یا فرید کا مسجد فضل سے رابطہ ٹوٹا تو جماعت احمدیہ سے بھی تعلق منقطع ہوگیا۔

اگر مفتی صاحبؓ نے ایتھل سے قبول اسلام کے بعد نکاح نہ کیا ہوتا اور یہ بچہ بے نکاح کی پیدائش ہوتا تو مفتی صاحب کبھی اپنے اس بچے کو ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر نکاح کے بعد پیدا ہونے والا معاملہ نہ ہوتا تو مفتی صاحب کبھی بھی فریڈرک کو مسجدفضل جانے اور وہاں متعین مبلغ سے میل ملاقات رکھنے کی ہر گز تاکید نہ فرماتے۔یعنی وہ مسجد اور احمدی احباب جہاں مفتی محمد صادق صاحبؓ کو بطور ابتدائی مبلغ انگلستان و امریکہ نہایت عزت اور توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

حضرت مفتی صادق صاحبؓ اور ان کے بیٹے فریڈرک کی کہانی دردناک ہے۔ مگر یہ جان کر اور دکھ ہوتا ہے کہ جب سے Ipswich Star میں ان پر وہ مضمون شائع ہوا ہے، کچھ سوشل میڈیا صارفین اس بچے، اس کی ماں اور اس کے باپ کے بارے میں سخت نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ اس کہانی کے تینوں کردار ایک ایسے وقت میں رہتے تھے جب زندگی آج کے مقابلے میں بہت مختلف تھی۔اور یہ بھی کہ Ethel کوئی بری عورت نہیں تھی۔ریویو آف ریلیجنز(انگریزی)کے مذکورہ بالا شمارہ میں شائع ہونے والی حضرت مفتی صادق صاحبؓ کی مرسلہ رپورٹ میں ان کا تذکرہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں میں مددگار لوگوں کی فہرست میں ہے۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے لکھا :’’میں تاحال آنکھوں کے عارضہ میں مبتلا ہوں جس کی وجہ سے میں پڑھنے یا لکھنے کا کوئی کام کرنے سے قاصر ہوں۔ کچھ انگریز مسلمان دوستوں (جیسے مسز جمیلہ شاہ، مسز عباسی اور مس بیسیٹMiss Bassett اور نو مسلم نائجیرین عبدالرحیم خط و کتابت میں میری بہت مدد کررہے ہیں۔ خدا ان کو اجر دے۔‘‘(ریویو آف ریلجنز (انگریزی) شمارہ مئی جون جولائی ۱۹۱۹ء، صفحہ ۲۲۹)

آج قریباً ایک صدی گزرجانے کے بعد ہم صرف اندازہ ہی کرسکتے ہیں کہ Ethel (مجیداں) کو کن عوامل نے اسلام سے دُور کردیا ہو گا۔ یقیناً تب بطور ایک مسلمان ان مغربی ممالک میں رہنا ایک نہایت مشکل اور صبر آزما کام تھا۔

حضرت مفتی صادق صاحبؓ نے لندن میں اپنے بیٹے کو جو کتاب بھیجی تھی، اس میں آپ کا ایک نہایت دلچسپ واقعہ بھی درج ہے، جو کچھ یوں ہے:’’امریکہ میں ایک دفعہ ایک سخت واقعہ مفتی صاحب کے ساتھ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اور خدا نے محض اپنے فضل سے ان کو بال بال بچا لیا۔ قصہ یہ ہوا کہ ایک امریکن لڑکی مفتی صاحب کے زیر تبلیغ تھی۔ رفتہ رفتہ وہ اسلام قبول کرنے کے لئے بالکل تیار ہوگئی۔ اس کی ماں نہایت درجہ متعصب اور اکھڑ عورت تھی۔ اس نے اول تو ہر ممکن ذریعہ سے اپنی لڑکی کو مسلمان ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن جب کچھ نہ بنا تو اس نے یہ کام کیا کہ حضرت مفتی صاحب پر عدالت میں دعویٰ کردیا کہ ان کا مشن بڑا خطرناک ہے۔ یہ لوگ لڑکیوں کو بھگا کر لے جاتے ہیں۔ اور پھر ان کی شادیاں مسلمانوں سے کردیتےہیں۔ اور میری لڑکی کو بھی یہ لوگ بھگا کر لے جانا چاہتے ہیں۔ مقدمہ کی شکل بظاہر بڑی خوفناک تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ مقدمہ ابتدائی منزل میں ڈسمس ہوگیا۔ اور مفتی صاحب نے ایک بھاری فکر سے نجات پائی۔ الحمدللہ‘‘(لطائف صادق یعنی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی آپ بیتی۔ صفحہ ۱۳۶-۱۳۷۔ مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی۔پبلشر: حکیم عبداللطیف شہید۔ منشی فاضل ادیب فاضل۔ تاجر کتب قادیان۔ ایڈیشن ۱۹۴۶ء)

یہ ان شدید ناموافق حالات کی محض ایک ہلکی سی جھلک ہے، کیونکہ تب کسی کا اسلام قبول کرنا اہل مغرب کوایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ایسے حالات میں جہاں ہمارے ان احمدی مبلغین کا عزم صمیم مزید قابل ستائش ہو جاتا ہےوہاں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان ابتدائی مبلغین کے اہل خانہ کا بھی اس بے مثال قربانی میں غیر معمولی حصہ تھا اور انہیں بھی اللہ نے اس کا اجر ضرور دیا ہوگا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button