الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ فریحہ خان صاحبہ کے قلم سے حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحبؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ حضرت امّاں جانؓ کے بھائی اور حضرت مسیح موعودؑ کے برادر نسبتی تھے۔ آپؓ اللہ تعالیٰ کی محبت میں فدا خلق اللہ کی ہمدردی میں سرشار، سادہ، صوفی مزاج بزرگ شاعرتھے۔ آپؓ کے والدحضرت میر ناصر نواب صاحبؓ دلّی کے معزز خاندان کے فرد تھے۔ آپؓ کے دادا سیّد محمد ناصر امیرؒ، حضرت خواجہ میردردؒ کے خاندان میں سے تھے۔ آپؓ کی والدہ حضرت سیّدہ سیّدبیگم صاحبہؓ، سیّد عبدالکریم صاحب کی بیٹی تھیں۔ دونوں خاندان معزز سادات گھرانے تھے۔ آپؓ کے والدین بہت ہی متقی اور عبادت گزاربزرگ تھے۔ نسب کے اعتبار سے آپؓ ’’حسینی سیّد‘‘ تھے یعنی آپؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسینؑ کی نسل میں سے تھے۔

آپؓ کے بزرگ خاندان نے برّصغیر کی تاریخ میں اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور مختلف ادوار میں مشہور فوجی سالار پیدا کیے جن میںخواجہ محمد عاصمؒ کاذکر تاریخ برّصغیر میں فوجی جرنیل کے طور پر آیاہے۔ انہیں ’’نواب خانہ دوراں‘‘ کا خطاب ملاتھا۔ خواجہ میر دردؒ کوتصوف اور اردو ادب میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اُن کے نزدیک اُن کے والد محترم اپنے زمانہ کے اولیاء میں سے تھے، بارھویں صدی کے مجدّد اور تصوّف کے سلسلہ میں ’’طریقۂ محمدیہؐ‘‘ کے بانی تھے۔ دہلی میں رواج تھا کہ سادات کو احترام سے ’’خواجہ‘‘ یا ’’میر‘‘ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے میر ناصر نواب صاحبؓ اور محترمہ سیّد بیگم صاحبہؓ کوتیرہ بچے عطا کیے لیکن اُن میں سے صرف تین بچوں نے ہی زندگی پائی۔ باقی کم سنی میں ہی فوت ہوگئے۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی ولادت جولائی۱۸۸۱ء بروز پیر دہلی میں ہوئی۔ آپؓ حضرت اماں جانؓ سے سولہ برس چھوٹے تھے۔ حضرت اماں جانؓ آپؓ کو دہلی کے رواج کے مطابق ’میاں‘ کہہ کر بلایا کرتیں اور آپؓ ا نہیں آپاجان کہتے تھے۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ آپؓ سے نو برس چھوٹے تھے۔ جو ۱۸۹۰ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔

۱۸۸۴ء میںحضرت مسیح موعودؑ کی حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ سے شادی کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ دہلی سے ہجر ت کر کے قادیان آگئے چنانچہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کابچپن اورسکول کا ابتدائی زمانہ قادیان میں گزرا اور یوںآپؓ کی تربیت حضرت مسیح موعودؑکی زیر نگرانی ہوئی۔ ۱۸۹۵ء میں جب آپؓ کی عمر چودہ برس تھی تو رمضان کا مہینہ حضورؑ کی معیت میں گزارنے کا موقع ملا اور تمام رمضان تہجد کی نماز حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ادا کی۔ آپؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ عموماً تہجد میں پہلی رکعت میں آیۃالکرسی اور دوسری میں سورت اخلاص پڑھا کرتے تھے۔

۱۹۰۰ء میں آپؓ نے ایف ایس سی کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ حضرت مسیح موعودؑاور حضرت اماں جانؓ کی خواہش تھی کہ آپؓ ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن آپؓ کے والد صاحب کے لیے خرچہ اٹھانا مشکل تھا۔ آپؓ کو اعلیٰ کامیابی کی وجہ سے وظیفہ مل گیا تھا لیکن وہ بھی ناکافی تھا۔ چنانچہ اس کمی کو حضرت امّاں جانؓ خود پورا فرماتی رہیں اور آپؓ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخل ہوگئے۔

آپؓ میڈیکل کے آخری سال میں تھے کہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو کانگڑہ میں شدید زلزلہ آیا اور بہت جانی نقصان ہوا۔ آپؓ کی خیریت کی اطلاع تین دن تک قادیان میں موصول نہ ہوئی تو حضرت اماں جانؓ اور آپؓ کی والدہ صاحبہؓ سخت بے چین ہوئیں اور آپؓ کے متعلق اندیشے پیدا ہوگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کے لیے خصوصی طور پر دعاکی تو اللہ تعالیٰ نے الہاماً اطلاع دی ’’اسسٹنٹ سرجن‘‘۔ پھر آپؓ کی خیریت کی اطلاع بھی آگئی اور اس کے کچھ عرصہ کے بعدجب آپؓ کارزلٹ آیا تو پنجاب میںایم بی بی ایس کے امتحان میں اوّل قرار پائے اور آپؓ کا تقرر ’اسسٹنٹ سرجن‘ کے طور پر ہوگیا۔ ۱۹۲۹ء میں آپؓ کی ترقی سول سرجن کے طور پر ہوگئی۔ آپؓ ایک ماہر فزیشن اور سرجن تھے۔ آپؓ کی تشخیص اتنی درست ہوتی کہ اس وقت کے ماہر انگریز ڈاکٹر بھی اس پر اعتبار کر کے علاج کردیتے۔ ۱۹۳۶ء میں ریٹائرڈ ہوکر آپؓ نور ہسپتال قادیان میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔

آپؓ انتہائی خداترس انسان تھے۔ مریضوںسے فیس لینے میں سخت ہچکچاہٹ محسوس کرتے۔ مریض خود آپؓ کی جیب میں پیسے ڈال دیتے۔ کئی دفعہ تو سکّے کھوٹے بھی نکلے۔ غریب مریضوں کے گھر جاکر بھی مفت علاج کرتے۔ دل میں مخلوق کے لیے اتنا درد تھا کہ اتوار کے روز بھی چھٹی نہ کرتے۔

آپؓ اعلیٰ درجہ کے منتظم بھی تھے۔ دیانتداری کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کا ماتحت عملہ بھی رشوت لینے کی جرأت نہ کرسکتا تھا۔ ایک دفعہ آپؓ کو شکایت ملی کہ ایک مریض کو (جوکھرپہ وغیرہ بنانے کا کاریگر تھا) ہسپتال کا ایک کارکن تنگ کر رہا تھا۔ آپؓ نے مریض سے پوچھا کہ اچھا کھرپہ کتنے میں بنتا ہے؟ اس نے کہا چودہ روپے میں۔ آپؓ نے ہسپتال کے کارکن کو چودہ روپے جرمانہ کردیا اور مریض کو اُس کا حق دلوایا۔

اسی طرح اگر کسی نے بیماری کا جھوٹا سر ٹیفکیٹ بنوانا چاہا تو آپؓ نے سختی سے ردّ کر دیا اور یہی کہا کہ ’’میں کسی صورت جھوٹا سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتا۔ ‘‘

حضرت مسیح موعودؑ کو آپؓ پر بہت اعتماد تھا اورآپؓ کی بہت قدر کیا کرتے تھے۔ آپؓ ۳۱۳؍اصحاب میںشامل ہیں۔ ۱۹۰۶ء میں حضورؑ نے انجمن بنائی تو آپؓ کو اس کا ممبر بنانے کی وجہ یہ بیا ن فرمائی کہ ’’تاکہ اَور لوگ نقصان نہ پہنچاویں۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ جب۱۹۲۴ء میں یورپ تشریف لے گئے تو آپؓ کو ناظرِ اعلیٰ مقرر کیا اور فرمایا: ’’ان کے دل میں حضرت مسیح موعودؑکی محبت بلکہ عشق خاص طور پر پایا جاتا ہے۔ اس محبت کی وجہ سے روحانیت کا ایک خاص رنگ اُن میں پیدا ہوگیاہے۔‘‘

آپؓ ایک وجیہ انسان تھے۔ آپؓ کاچہرہ نورانی اور کشادہ تھا۔ قد درمیانہ اور جسم بھرا ہوا تھا۔ چلنے میں وقار تھا۔ گفتگو میں شگفتگی اور نرمی کاعنصر نمایاں تھا۔ دل موہ لینے والی شخصیت کے مالک تھے۔ جو آپؓ سے ملتا آپؓ کاگرویدہ ہوجاتا۔ آپؓ کے مزاج میں بہت صفائی، نفاست اور تنظیم تھی۔

آپؓ کی دو شادیاں ہوئیں۔ پہلی زوجہ محترمہ شوکت سلطان صاحبہ اور دوسری زوجہ محترمہ امۃ اللطیف صاحبہ تھیں۔ آپؓ کی حسن تربیت کا اثر تھا کہ ساری عمر دونوں میں ناچاقی نہ ہوئی۔ آپؓ کی وفات کے بعد بھی وہ اکٹھی رہیں۔ آپؓ کی ساری اولاد دوسری زوجہ سے ہوئی لیکن بچوں کو بڑے ہوکر ہی پتا چلا کہ ان کو کس ماں نے جنم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کوتین بیٹوں اور سات بیٹیوں سے نوازا جن میں سے ایک حضرت سیدہ مریم صدیقہ (چھوٹی آپا)صاحبہ تھیں۔

حضرت چھوٹی آپا صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپ کے پڑھانے کا طریقہ بہت دلنشین ہوتا تھا۔ پانچویں تک مجھے گھر ہی پڑھایااور فرمایاکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوںکو پڑھاؤ۔ آپؓ کہتے تھے کہ بڑے بچوں کی تربیت پر توجہ دو اس کا اثر چھوٹوں پر پڑے گا۔ زبان اور تلفّظ کا بہت خیال کرواتے تھے۔

آپؓ کی بیٹی محترمہ امۃاللہ صاحبہ بیان کرتی ہیںکہ آپؓ کوشکار کا بہت شوق تھا اور آپؓ ایک ماہر تیراک تھے اور اپنی تینوں بڑی بیٹیوں کو لے کر پرندوں کے شکار پر جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک علاقے میں آپؓ کی تعیناتی کے زمانہ میں ایک زبردست سیلابی ریلہ آیا۔ اِن دنوں حضرت اماں جانؓ بھی آپؓ کے پاس آئی ہوئی تھیں۔ پہلے تو آپؓ نے انہیں اور اہل خانہ کو محفوظ مقام پر پہنچایا۔ پھر تیر کر بہت سے لوگوں کی جانیں بچائیں۔ یہ کام اتنی چستی اور مہارت سے کیا کہ اس کا ذکر اُس وقت کے اخبار وں میں ہوا اور حکومت نے آپؓ کی اِس بے لوث انسانی خدمت کا باقاعدہ اعتراف کیا۔

آپؓ نے اپنی زندگی کے مختلف مگر دلچسپ اور ایمان افروز واقعات کتاب ’’آپ بیتی‘‘ میں یکجا کیے ہیں۔ یہ کتاب خصوصاً ڈاکٹروں کے لیے اور عموماً سب کے لیے قیمتی نصائح سے پُر ہے۔ اس تصنیف سے آپؓ کی ذہانت، لیاقت اور حس مزاح کی خدا داد صلاحیت کا پتا چلتا ہے۔

حضرت میر صاحبؓ کو اپنے مولا کے لیے بے پناہ غیرت تھی اور اس معاملے میں بہت زود حس تھے ۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۷ء میں مَیں لاہور میوہاسپٹل میں ہاؤس سرجن تھا کہ میری بڑی سالی ہمارے ہاں آئیں۔ وہ میری پھوپھی کی بیٹی بھی تھیں۔ اُن کی ایک لڑکی کچھ مہینے زندہ رہ کر مرگئی تو اس صدمے کو بھلانے کے لیے وہ اپنی چھوٹی بہن کے پاس آگئیں۔ وہ باربار ذکر کیا کرتی تھیں کہ اگر میرے بہنوئی ڈاکٹر صاحب (یعنی خاکسار)میرے پاس ہوتے تو میری لڑکی نہ مرتی۔ جب انہوں نے کئی دفعہ اس قسم کا ذکر کیا تو مجھے خدا تعالیٰ کے متعلق بڑی غیرت آئی اور میں نے کہا کہ ’’اب ان کے ہاں ضرور ایک لڑکا پیدا ہوگا اور وہ میرے زیر علاج رہ کر میرے ہی ہاتھوں میں مرے گا۔‘‘ بات آئی گئی ہوئی۔ ۱۹۱۳ء میں خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا چلّہ کرکے وہ اپنی بہن سے ملنے ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ لیکن سفر میں تھرموس میں رکھا خراب دودھ وہ بچے کو پلاتی رہیں۔ دوسرے دن سے لڑکے کو سبز دست آنے لگے، میں نے جو بھی ہوسکا اس بچہ کا علاج کیا اور دوسرے ڈاکٹروں سے بھی مشورہ لیا مگر بچہ کو نہ اچھا ہونا تھا نہ ہوا اور دو ہفتے بعد وفات پاگیا۔ اس وقت مجھے وہ بات یاد آئی جو میں نے چھ سات سال پہلے لاہور میں کہی تھی تاکہ ان کا شرک ٹوٹے۔

میر عبدالرحیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت میر صاحبؓ ٹرین میں سفر کررہے تھے کہ اس ڈبے میں ایک پیر فقیر بھی سوار ہوگئے۔ جب ان کو یہ پتا چلا کہ آپؓ کا تعلق قادیان سے ہے تو انہوں نے ازراہ طنز کہا ’’اگر مرزا صاحب نبی تھے تو آپ لوگ ولی ہوں گے۔‘‘ میر صاحبؓ نے بڑے اطمینان اور اعتماد سے جواب دیا کہ ’’ہاں ہم ولی ہیں۔‘‘ اس پر پیر صاحب نے مزید کہا کہ ’’اگر ولی ہیں تو کوئی نشان دکھائیں۔‘‘ آپؓ نے پوچھا ’’کیسا نشان چاہتے ہو؟‘‘ اس وقت ریل گاڑی اپنی پوری رفتار سے دوڑرہی تھی۔ پیر صاحب نے مطالبہ کیا کہ گاڑی ابھی چلتے چلتے رک جائے۔ چنانچہ ان کے ’’یہ‘‘ کہتے ہی ریل گاڑی کو اچانک بریک لگی اور گاڑی رک گئی۔ گاڑی کا عملہ اترا لیکن کوئی ظاہری سبب (زنجیر وغیرہ کھینچنا )سامنے نہ آیا ۔ آپؓ نے بار بار پیر صاحب سے پوچھا: ’’آیا ان کی تسلی ہوگئی ہے؟‘‘ یہاں تک کہ وہ بول اٹھے کہ ہاں وہ مان گئے ہیں۔ جونہی انہوںنے ’’یہ‘‘ کہا گاڑی دوبارہ چل پڑی۔

آپؓ کو اپنی بہن حضرت اماں جانؓ اور چھوٹے بھائی حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ سے بہت پیار تھا۔ حضرت اماںجانؓ اگر کسی چیز کی تعریف کرتیں تو وہ آپؓ انہیں تحفۃً دے دیتے۔ وہ لاکھ منع کرتیں مگر آپؓ دے کر ہی رہتے۔ اسی طرح عید کے موقع پر ناشتہ اور عیدی آپؓ کی طرف سے ہی حضرت اماں جانؓ کوجاتی اور وہ بھی اسی ناشتہ کو تناول فرماتیں۔ آپؓ کی ایک ذاتی کار تھی جو آپؓ خود چلاتے تھے۔ آپؓ نے وہ حضرت اماں جانؓ کو تحفۃًدے دی جو کچھ عرصہ ان کے زیر استعمال رہی بعد ازاں انہوںنے جماعت کو دے دی۔

حضرت میر محمد اسحٰق ؓسے بھی انتہائی شفقت فرماتے۔ اُن کی بیماری میں اُن کے پاؤں سہلاتے۔ ان کی آخری بیماری میںبہت بے چین تھے۔ دعائیں کرتے کبھی کمرے کے اندر جاتے اور کبھی باہر آتے۔ ڈاکٹروں کو کہتے کہ کیوں ٹیکے پہ ٹیکہ لگارہے ہو، یہ ٹیکے میرے دل پہ لگتے ہیں۔ اُن کاانتقال آپؓ سے تین سال قبل ۱۹۴۴ء میں ہوا۔

حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ ایک صاحبِ کشف والہام بزرگ تھے لیکن اپنی فطری حیا کی وجہ سے اس تعلق کو چھپاتے تھے۔ اگر کچھ بیان بھی کیا تو مقصد صرف اصلاح و تربیت ہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بارہا آپؓ کو اپنی بخشش اور پیار کے نظارے دکھائے۔ آپؓ کا ایک مضمون بعنوان ’’خم خانۂ عشق میں ایک رات‘‘ ۱۹۳۶ء میں چھپا تھاجو کشفی اور الہامی کیفیات کا مجموعہ ہے، ہم اسے مکالمۂ الٰہیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

یہ دسمبر ۱۹۲۰ء کی بات ہے۔ حضرت میر صاحبؓ کی عمر اس وقت ۳۹برس تھی۔ ایک رات آپؓ مسجد مبارک قادیان میں عشاءکی نمازپڑھ کر فارغ ہوئے تو دیکھتے دیکھتے مسجد نمازیوں سے خالی ہوگئی اور آپؓ تنہا رہ گئے۔ آپؓ بھی مسجد کی سیڑھیاں اترنا شروع ہوگئے کہ عشق الٰہی کی ایک عجیب کیفیت نے از خود آپؓ کے دل میں جوش مارا۔ ساتھ ہی آپؓ کو مسجد کے اندر سے ایک غیبی آواز آئی کہ ’’میرا گھر چھوڑ کر اپنے گھر چلا ہے، اور پھر ایسے خلوت کے وقت میں جو آئندہ کبھی میسر نہیں آئے گا۔‘‘ یہ آواز سن کر آپؓ اُلٹے پیر واپس مسجد کی سیڑھیاں چڑھنے لگے کہ اللہ کی طرف سے پھر یہ حکم ہوا کہ حریم قدس کا رستہ بھول گیا! یہ سیڑھیاں تو خم خانۂ عشق میں نہیں آتیں، نہ یہ عاشقو ں کا راستہ ہے۔ پھر خدا تعالیٰ نے ا لہاماً فرمایا کہ آنا ہے تو پرانی سیڑھیوں کی طرف سے آ اور سر کے بل آ اور گریبان چاک کر کے آ۔ چنانچہ اس الٰہی حکم کی تعمیل میں آپؓ نے ان قدیم سیڑھیوں کا را ستہ اختیار کیا جو حضرت مسیح موعودؑ استعمال فرماتے تھے۔ آپؓ نے اس وقت بےاختیاری کی حالت میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنا گریبان چاک کیا۔ پرانی سیڑھیوں کی دہلیز پر پہنچے تو پھر حکم ہوا: ’’اے اَشْعَثْ اَغْبَرْ لے اُٹھ اور اوپر چل۔‘‘ (ا اَشْعَثْ اَغْبَرْ ے مراد بکھرے بال اور غبار آلودہ پیشانی والا شخص ہے۔) چنانچہ آپؓ نے سیڑھیوں کو اس طرح قدم بہ قدم طے کیا کہ ہر زینہ پر سجدہ کرتے اور پھر اپنی داڑھی سے اسے صاف کرتے اور پھر اگلے زینے کی طرف بڑھتے۔ یہ مختصر سا راستہ زینہ بہ زینہ ایک گھنٹے میںطے کیا۔ مسجد میں پہنچ کر آپؓ عبادت اور دعاؤں میں مشغول ہوگئے۔ اس راز ونیاز کے دوران آپؓ نے اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش طلب کی۔ جواب آیا کہ ’’مفت ؟‘‘ عرض کیا ’’میں کیا پیش کر سکتا ہوں؟ جو کچھ ہے وہ آپ کا ہی دیا ہوا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جان اور ایک چیز سب سے عزیز۔‘‘ اس دلنشین مکالمۂ الٰہیہ کے بعد آپؓ کی تہجد جاری رہی۔ تہجد اور فجر کے درمیانی وقت میں کوئی دبے پاؤں خاموشی سے آپؓ کے پیچھے سے گزرا۔ آپؓ نے سر اٹھا کر دیکھا تو بحالتِ بیداری آپؓ کوکشفاً اپنے سامنے ایک بہت بڑا آئینہ دکھائی دیا۔ آپؓ کو یہ احساس ہوا کہ جو ہستی آپؓ کے پیچھے تھی وہ اس آئینہ میں اپنا جلوہ آپؓ کودکھانا چاہتی ہے۔ پھر اچانک آنکھ کو چندھیا دینے والا ایک نور اس آئینہ میں ظاہر ہوا جسے نظر بھرکر دیکھنا ناممکن تھا لیکن آپؓ نے پھر بھی ہمت کرکے اس آئینہ میں جلوہ گر خداتعالیٰ کی تجلّی کو نظر بھر کر دیکھ ہی لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی وہ نورانی تجلّی اسی طرح آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ گئی۔ آپؓ کے اپنے الفاظ میں ’’یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس جان جاناں نے مجھے اپنا رُخ زیبا دکھانے کے لیے یہ شکل آفتاب نصف النہار کی اختیار کی ہے اور میںنے اس تمام نازوانداز کے اندر ایک ارادہ، ایک مذاق، ایک شوخی، ایک ترحم اور ایک محبت کی نظر کو بچشم خود ملاحظہ کیا۔‘‘

صبح ہوتے ہی حضرت میر صاحبؓ نے اللہ تعالیٰ سے اشارہ پا کر، پہلے ایک سیاہ بکرا اور ایک سفید مینڈھاقربان کیے۔ پھر اپنی عزیز ترین جائیداد یعنی وہ ذاتی مکان ’’کنج عافیت‘‘ جو مسجد مبارک کے عین ساتھ تھا وہ جماعت کو دے دیا۔ گھر پہنچے تو اپنی عزیز بیٹی سیّدہ مریم صدیقہ پر نظر پڑی۔ آپؓ نے اس کو گود میں اٹھا کر دعا کی کہ ’’اس کا نام ہی شاہد ہے۔ میرا پہلے بھی یہی ارادہ تھا، اب اسے بھی قبول فرمائیے۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم‘‘

آپؓ نے اپنی بڑی بیٹی کا نام ’’مریم صدیقہ‘‘ اس نیت سے رکھا تھا کہ وہ حضرت مریمؑ کی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف ہو۔ اسی بیٹی کا دوسرا نام آپؓ نے ’’نذر الٰہی‘‘ بھی اسی خیال سے رکھا تھا۔ یہ فکر آپؓ کو بدستور لاحق رہی کہ یہ نذرانہ قبول ہوا ہے یا نہیں۔ تقریباًپندرہ سال بعد بالآخر خدا کی درگاہ میں اس نذرانے کی قبولیت کا نشان ظاہر ہوا کہ آپؓ کی اس بیٹی کا ہاتھ، حضرت امّ المومنینؓ نے حضرت خلیفۃ ا لمسیح الثانیؓ کے لیے مانگ لیا۔ ۱۹۳۵ء میں یہ بابرکت شادی ہوئی۔

آپؓ کی ’جان‘ کا نذرانہ بھی خوب انداز میں قبول ہوا۔ آپؓ کی بیٹی سیّدہ امۃاللہ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل آپؓ کو کشفاً ایک ہاتھ کا سایہ دکھایا گیا، پھر وہ ہاتھ کا عکس لفظ ’’اللہ‘‘ میں تبدیل ہوگیا، پھر آپؓ کی توجہ لفظ اللہ کے اعداد کی طرف پھیری گئی جو ۶۶ بنتے ہیں۔ آپؓ کو بتایاگیا کہ آپؓ کی وفات ’’اللہ‘‘ کے اعداد پر یعنی ۶۶ برس کی عمر میں ہوگی اور اس روز جمعہ کا دن ہوگا۔ چنانچہ آپؓ ۱۸؍جولائی۱۸۸۱ءکو پیدا ہوئے اور ۱۸؍جولائی ۱۹۴۷ء بروز جمعہ ٹھیک ۶۶ برس کی عمر میں وفات پائی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گویا اپنے بندے کے لیے محبت اور قبولیت کے اظہارکی ایک نادر نشانی تھی۔

آپؓ کی وفات سے چند روز پہلے حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ کوالہاماً یہ بشارت ملی کہ ’’میر محمد اسماعیلؓ ہمارے پیارے ہیں۔ اِن کے علاج کی طرف فکر کرنے کی چنداںضرورت نہیں ہم خود ہی ان کا علاج ہیں۔‘‘

حضرت میر صاحبؓ تصوف میں بلند شان رکھتے تھے اور بہت اعلیٰ پایہ کے صوفی شاعر تھے۔ آپؓ کامنظوم کلام ’’بخاردل‘‘ تصو ّف میںایک مثالی رنگ کا حامل ہے۔ محبتِ الٰہی میں ڈوبا ہوا آپؓ کا ایک شعر یوں ہے ؎

ہزار علم و عمل سے ہے بالیقیں بہتر
وہ ایک اشکِ محبت جو آنکھ سے ٹپکا

پھر آپؓ کی مشہور نعت ؎

عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَام

اس کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے کبھی ایسی نعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعتوں کے بعد نہ سنی، نہ دیکھی اور میرا خیال ہے کہ ہمیشہ کے لیے یہ نعت حضرت میر صاحبؓ کو خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔‘‘

آپؓ کے کتبہ پر حضرت مصلح موعودؓ کے یہ الفاظ درج ہیں: باوجود نہایت کامیاب ڈاکٹر ہونے کے اور بہت بڑی کمائی کے قابل ہونے کے زیادہ تر پریکٹس سے بچتے تھے اور غرباء کی خدمت کی طرف اپنی توجہ رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے ملازمت کے بعد کئی اچھے مواقع آپؓ نے کھوئے کیونکہ ان میں آمدن زیادہ تھی اور رتبہ بھی بڑا تھا لیکن ان میں خدمت خلق کا موقع کم تھا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button