یادِ رفتگاں

مولانا بشیر الدین صاحب آف شالیمار ٹاؤن لاہور

(عثمان مسعود جاوید۔ سویڈن)

اس عاجز نے ۱۹۹۴ء میں بیعت کی۔اس وقت رہائش علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں تھی۔مشہود بٹ صاحب حال مقیم لندن ابتدائی دوستوں میں سے تھے۔ان سے پتا چلا کہ مولانا بشیر الدین صاحب آف شالیمار ٹاؤن لاہور نماز سنٹر علامہ اقبال ٹاؤن میں محفلِ سوال و جواب کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔وقت مقررہ پر مَیں بھی نماز سنٹر پہنچ گیا جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مولانا پر نظر پڑی تو مَیں پہلی نظر میں یہ سمجھا کہ یہ تو شیعوں کے علامہ طالب جوہری بیٹھے ہیں اور لب و لہجہ بھی علامہ سے ہی ملتا جلتا محسوس ہوا تھا۔

لوگوں میں غیر از جماعت احباب بھی تشریف فرما تھے۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ پہلا ہی سوال ایک معقول اور باریش غیراحمدی مسلمان صاحب نے کیا کہ ’’کیا آپ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں؟‘‘ مولانا نے اسی وقت بائیں جانب دیوار پر لگے وال کلاک کو دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ ’’کیا وقت ہو رہا ہے؟‘‘ ان صاحب نے کہا کہ ’’رات کے آٹھ بج رہے ہیں‘‘۔ مولانا نے جواب دیا ’’ابھی تک تو ہم مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں‘‘ اور محفل کشتِ زعفران ہو گئی۔ لہجہ بھی کوئی عام لہجہ نہ تھا۔بعد میں پتا چلا کہ مولانا کا تعلق شاہجہان پور سے ہے۔

پھر ایک دور ایسا آیا کہ ان کے ساتھ ہر مہینے ہی ملاقات ہو جاتی تھی۔مبشر احمد قریشی صاحب حال مقیم کینیڈا موٹرسائیکل پر مجھے گارڈن ٹاؤن سے شالیمار ٹاؤن لے جایا کرتے تھے۔ہم دو ہی کیا سب ہی ان کے بچوں کی طرح تھے۔مولانا بہت شفیق انسان تھے اور ہم نے بھی ان کی شفقت سے بہت حصہ پایا۔ ان سے راز و نیاز کی باتیں بھی کرتے تھے۔ وہ بہت انسان دوست آدمی تھے۔تعلق باللہ میں چھپے رُستم تھے۔ لوگ پیچھے پڑ پڑ کر دعائیں کراتے تھے۔اپنی ذات کے متعلق کوئی دعویٰ نہیں کرتے تھے اور نہ کبھی ان سے سنا کہ میری بہت زیادہ دینی معلومات ہیں اس لیے مجھ سے پوچھا کرو یا میرا اللہ تعالیٰ سے بہت تعلق ہے اس لیے مجھ سے آ کر دعا کراؤ۔

ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی خلافت سے کامل وفاداری اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا جذبہ تھا۔مَیں نے آج تک کوئی ایسا احمدی نہیں دیکھاجو تعلق باللہ میں غیر معمولی مقام رکھتا ہو اور خلافت کا عا شقِ صادق نہ ہو۔

مولانا سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جید عالمِ دین، ایک بلند پایہ صحافی، ادیب، شاعر اور مفکر الغرض ایک تاریخی اور باکمال شخصیت تھے۔ آپ نے ایک دَور میں اپنا رسالہ ’ہفت روزہ فرق‘ رائل پارک لاہور سے شروع کر رکھا تھا۔ نامور اور معروف صحافیوں اور شعراء سے آپ کا مستقل رابطہ تھا جن کو اکثر ربوہ بھی لے جایا کرتے تھے۔

آپ روایتی تعلیم کے لحاظ سے معلمِ سلسلہ وقف جدید تھے۔ آپ نے اپنی رہائش گاہ کی نچلی منزل یعنی گراؤنڈ فلور پر ایک عظیم الشان لائبریری بنائی ہوئی تھی۔ بہت سی کتابیں جو مَیں نے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی تھیں مولانا کی لائبریری میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ اصل کام تو ہمارے بزرگوں نے ہی کیا ہے۔ وہ وقت جب انٹرنیٹ بھی نہیں تھا سلسلے کے یہ عشاق لائبریریوں میں کھپتے رہے، کہیں سے کتب خریدی جا رہی ہیں کہیں سے فوٹو کاپیاں حاصل کی جارہی ہیں۔ پھر ورق گردانی کر کے حوالے نکالنا ۔آج تو سرچ انجن ہیں، لفظ داخل کریں حوالے نکل آتے ہیں۔

خاکسار کا مشہور چیٹ ویب سائٹ آئی سی کیو پر ایک ایسی شیعہ خاتون سے رابطہ ہوا جن کے خالو ایران سے امریکہ ذاکر بلا کر مجلسیں کراتے تھے۔ نیک فطرت تھیں اور اپنے مسلک کی ا چھی واقفیت بھی رکھتی تھیں۔ خاکسار نے شیعوں کے امام باڑوں اور مجلسوں کے بک سٹالز سے کتب خریدیں تاکہ پہلے پتا چلے کہ شیعہ کیا کہتے ہیں نہ کہ اینٹی شیعہ کتب سے کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ میرے گھر میں شور مچ گیا۔ ایک بھائی نے کہا ’’امی پہلے یہ قادیانی بن گیا ہے اب بہت جلد علی مولا کی آواز آنے والی ہے‘‘۔ مَیں نے وہ وہ کتب خریدیں جو آج بھی پاکستان میں ممنوعہ ہیں۔زیادہ تر کتب مَیں نے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیں۔ بحث جاری رہی جو آخرکار ان کی بیعت پر منتج ہوئی۔ افسوس کہ بعض وجوہات کی بنیاد پر وہ بیعت بعد میں قائم نہ رہ سکی لیکن مجھے شیعیت پر طالب علمانہ آگاہی حاصل ہو گئی۔اسی لیے مَیں نے جب شیعوں کی وہی کتب مولانا بشیر الدین صاحب کی لائبریری میں دیکھیں تو حیران رہ گیا۔شیعوں کی مناظرانہ کتب پڑھ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ باقی فرقے ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ شیعوں کا مقابلہ کیا ہی جماعت احمدیہ نے ہے۔ایک مرتبہ مولانا صاحب سے اس بات کا ذکر ہوا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔

جب طاہر القادری کی کئی جلدوں میں ’’سیرۃ الرسولﷺ‘‘ منصہ شہود پر آئی تو مَیں نے مولانا بشیر الدین صاحب سے پوچھا کہ سیرۃ النبیﷺ پر ہماری ابھی تک ایک ہی ضخیم کتاب ہے جو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ’’سیرت خاتم النبیینﷺ‘‘ اور وہ بھی ابھی مکمل نہیں ہے۔مولانا نے جواب مرحمت فرمایا کہ اگر صرف وہی مٹیریل جمع کرکے شائع کردیا جائے جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ہندوستان میں جلسہ سیرت النبیﷺ کا سلسلہ شروع کرایا تھا تو کئی جلدیں شائع ہوجائیں۔

مولانا نے ایک مرتبہ مولوی لال حسین اختر سے اپنی ملاقات کا احوال بتایا جس میں یہ ذکر بھی آیا کہ مولوی لال حسین اختر کے منہ سے تعفّن بھری سانس نکلتی تھی جس کی وجہ سے سامنے بیٹھے انسان کا سانس لینا دوبھر ہو جاتا تھا۔ ’’احتسابِ قادیانیت‘‘ کی پہلی جلد مولوی لال حسین اختر کے جماعت احمدیہ کے خلاف تصنیفی کام کا مجموعہ ہے۔مولوی صاحب کچھ عرصہ جماعت احمدیہ غیر مبائعین کے ممبر رہے پھر واپس سُنّی مسلک میں چلے گئے تھے۔ان کی انتہائی بیہودہ زبان اور فحش کلامی کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان سے گفتگو کرنے سے اجتناب ہی کیا جانے لگا۔ مولوی لال حسین اختر کے ’مایہ ناز‘ کتابچے ’’ختمِ نبوت اور بزرگانِ امت‘‘ کا ردّ جو حضرت قاضی محمد نذیرؒ نے لکھا تھا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ’’بزرگانِ امت کے نزدیک ختم ِنبوت کی حقیقت اور مولوی لال حسین اختر کی تنقید کا جواب‘‘۔

مولانا اچھی حسِ مزاح بھی رکھتے تھے۔ ایک جگہ شیعوں نے دودھ کی سبیل لگائی ہوئی تھی مولانا کو دیکھ کر ایک شیعہ سمجھا کہ علامہ طالب جوہری ہیں۔ اس نے یہ کہتے ہوئے جھومنا شروع کر دیا ’’ہمارے ذاکر ہمارے ذاکر‘‘ مولانا نے باقاعدہ جھوم کر دکھایا جس سے ہم سب بہت لطف اندوز ہوئے۔

ہم ایک شام انہی کی طرف تھے کہ ایک بڑے بارعب انداز کی ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ آپ تھے معروف علمی شخصیت پیام شاہجہانپوری۔ مولانا بڑی سعادت مندی سے اٹھے اور پیام شاہجہانپوری صاحب کا اکرام کیا۔یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ مولانا بشیر الدین صاحب کے بڑے بھائی تھے اور مولانا نے ان کی رات کھانے کی دعوت کی ہوئی تھی۔

مولانا نے اگست ۲۰۱۸ء میں برطانیہ میں وفات پائی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک تاریخی انسان ہم سے جدا ہوگیا۔آپ کی وفات اہلِ علم، اہل ِعشق اور اہل ِعقل سب کے لیے یکساں افسردگی کا باعث ہوئی۔مجھے ان کی وفات پر معلوم ہوا کہ ہمارے آغا یحییٰ خان صاحب مبلغ انچارج سویڈن مولانا بشیر الدین صاحب کے داماد ہیں۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند کرے آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button