اسلامی پردہ
(’م۔ ش‘)
’’یا د رکھنا چاہئے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکا ح جا ئز نہیں اَور جتنے مرد ہیں ان سے پر دہ کرنا ضروری ہے‘‘
انسان اپنی قیمتی چیزوں کو سنبھالنے اور ان کی حفاظت کے لیے بہت سے اقدامات کرتا ہے۔ قیمتی زیورات کو تجوریوں میں محفوظ رکھا جاتا ہے اور جب انہیں باہر لے جایا جائے تو ایسے محفوظ اور ملفوف طریق پر لے جایا جاتا ہے کہ کسی کی میلی نظر ان پر نہ پڑے۔ ایسا ہی اسلام نے عورت کو بھی قیمتی وجود قرار دیا ہے اور معاشرے میں اس کی حفاظت اور اس کے وقار کو قائم رکھنے کے لیے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے جس کی ایک مثال آج کے دور میں برقعہ یا عبایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر خواتین کو پردہ کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ ایک آیتِ کریمہ میں آنحضرتﷺ کو حکم ہوا کہ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ (الاحزاب: ۶۰) اے نبیﷺ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی بیو یوں سے کہہ دے کہ (جب وہ با ہر نکلیں تو) چادروں کو اپنے اوپر لپیٹ کر نکلیں۔
مندرجہ بالا آیت سے کس قدر پردہ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے کہ دور اوّل کی مسلمان خواتین کو پردے کا حکم دیا گیا اگرچہ وہ زمانہ صحابہ کا زمانہ تھا۔ وہ صحابہ جن کے متعلق آنحضورﷺ نے فرمایا تھا أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ۔ تو پھر دورِ حاضر میں ایک مسلمان عورت کے لیے پردہ کتنا ضروری ہے جہاں دنیا میں بےحیائی عروج پر ہے۔ ایک موقع پر آنحضرتﷺ نے حضرت اُمِ سلمہؓ اور حضرت میمونہؓ کو ایک نا بینا صحابی سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ جب انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہؐ! وہ تو نا بینا ہیں اور ہمیں دیکھ نہیں سکتےتو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی نا بینا ہو اور اسے دیکھ نہیں سکتیں۔ (مشکوٰۃ کتاب الادب)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’عورتوں کو چاہئے …اور نا محرم سے اپنے تئیں بچاویں۔ اور یا د رکھنا چاہئے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکا ح جا ئز نہیں اَور جتنے مرد ہیں ان سے پر دہ کرنا ضروری ہے۔جو عورتیں نا محرم لوگوں سے پر دہ نہیں کر تیں، شیطان ان کے ساتھ ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۶۹)
اب بعض لوگوں کو گمان ہوتا ہے کہ پردہ صرف عورتوں کے لیے ضروری ہے تو اس غلط فہمی کا ازالہ بھی اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ لِّـلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُـضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۗ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۗ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَـعُوْنَ (سورۃ نور آیت ۳۱)(اے نبیﷺ)مومنو ں کوکہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ بات ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہےیقیناً اللہ جو وہ کرتے ہیں اس سے ہمیشہ با خبر رہتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے فرمایا: ’’پردہ چھوڑنے والا قرآن کی ہتک کرتا ہے ایسے انسان سے ہمارا کیا تعلق۔ وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم اس کے دشمن اور ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے احمدی مردوں اور ایسی احمد ی عورتوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں‘‘۔ (الفضل ۲۷؍ جون ۱۹۵۸ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن نے پردے کا حکم دیا ہےانہیں (یعنی احمد ی مستورات کو)بہر حال پردہ کرنا پڑے گا یا وہ جماعت چھوڑ دیں کیونکہ ہماری جماعت کا یہ مؤقف ہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم سے تمسخر نہیں کرنے دیا جائے گا۔ نہ زبان سے اور نہ عمل سے۔ اسی پر دنیا کی ہدایت اور حفاظت کا انحصار ہے۔‘‘ (الفضل ۲۵؍نومبر۱۹۷۸ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الر ابعؒ نے بھی ایک مو قع پر فرمایا: ’’بڑی شدّت کے ساتھ اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ تحر یک ڈالی ہے کہ احمد ی مستورات بے پردگی کے خلاف جہاد کا اعلا ن کریں۔ کیونکہ اگر آپ نے بھی میدان چھوڑ دیا تو دنیا میں اور کو نسی عورتیں ہو ںگیں جو اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آئیں گی۔‘‘ (الفضل ۲۸؍فروری ۱۹۸۳ء)
دور حاضر میں بھی بہت ساری عورتوں نے پردے کا بہت خیال رکھا ہے جو ہمارے لیے اسوہ ہیں چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی والدہ محترمہ حضرت سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ(اہلیہ محترمہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب) کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ میں اُن کا تفصیلی ذکرخیر فرمایا: ’’ان کے ساتھ ایک کام کرنے والی پرانی صدر نے لکھا کہ لجنہ کی تربیت کا بہت خیال رہتا تھا۔ اس کے لئے نئے سے نئے طریق سوچتی تھیں۔نئی تدابیر اختیار کرتی تھیں، ہمیں بتاتی تھیں۔ یہ کوشش تھی کہ ربوہ کی ہر بچی اور ہر عورت تربیت کے لحاظ سے اعلیٰ معیارکی ہو۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اگر پردہ کے معیار کو گرا ہوا دیکھا تو سڑک پر چلنے والی کو،عورت ہو یا لڑکی یا لڑکیوں کو اس طرح چلتے دیکھا جو کہ احمدی لڑکی کے وقار کے خلاف ہے تو وہیں پیار سے اُ س کے پاس جا کر اُسے سمجھانے کی کوشش کرتیں۔ بتاتیں کہ ایک احمدی بچی کے وقار کا معیار کیا ہونا چاہئے۔
۱۹۸۲ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خلافت کا جو پہلا جلسہ تھا اس پر لجنہ کے جلسہ گاہ میں آپ نے جوتقریر فرمائی، اُس میں پردے کا بھی ذکر فرمایا۔ اُس ضمن میں ہماری والدہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہماری ایک باجی جان ہیں، اُن کا شروع سے ہی پردہ میں سختی کی طرف رجحان رہا ہےکیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تربیت میں جو پہلی نسل ہے اُن میں سے وہ ہیں۔ جو گھر میں مصلح موعوؓد کو اُنہوں نے کرتے دیکھا جس طرح بچیوں کو باہر نکالتے دیکھا ایسا اُن کی فطرت میں رَچ چکا ہےکہ وہ اس عادت سے ہٹ ہی نہیں سکتیں۔ ان کے متعلق بعض ہماری بچیوں کاخیال ہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو۔ پاگل ہو گئے ہیں، پُرانے وقتوں کے لوگ ہیں۔ ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں۔لیکن اگلے وقت کونسے؟ مَیں تو اُن اگلے وقتوں کو جانتا ہوں، (فرماتے ہیں کہ) مَیں تو اُن اگلے وقتوں کو جانتا ہوں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے وقت ہیں۔ اس لئے ان کو اگر اگلے وقتوں کا کہہ کر کسی نے کچھ کہنا ہے تو اُس کی مرضی ہے وہ جانے اور خدا کا معاملہ جانے،لیکن یہ جو میری بہن ہیں واقعتاًتقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس بات پر سختی کرتی ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍اگست ۲۰۱۱ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍اگست ۲۰۱۱ء)
مکرمہ ناصرہ سلیمہ رضا صاحبہ ایک افریقن امریکن احمدی تھیں جو ۱۸؍فروری ۲۰۱۳ء کو زائن(امریکہ) میں وفات پاگئیں۔ حضورانور نے اُن کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’1927ء میں سینٹ لوئس، امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بیپٹسٹ(Baptist) پادری تھے۔ …ان کو 1949ء میں ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر مرحوم کے ذریعہ احمدیت کے قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ 1951ء میں ان کی شادی محترم ناصر علی رضا صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی…۔(سالہاسال بطور مقامی صدر لجنہ اور ریجنل صدر لجنہ) کام کرتی رہیں۔ … آپ کے دل میں اسلام کی محبت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔اچھی استاد مانی جاتی تھیں۔ وہاں بھی احمدی خواتین ان کو ماں کی طرح سمجھتی تھیں۔ بڑے پیار سے لوگوں کو سمجھاتیں اور غلطیاں درست کیا کرتی تھیں۔بچیوں کو ہمیشہ پردے کی تعلیم دیتی رہیں اور اس طرح اسلامی اخلاق سکھلاتیں۔ نیز بتاتیں کہ مغربی معاشرے کی بدرسوم کا کیسے مقابلہ کرنا ہے۔وہیں پلی بڑھی تھیں ان کو سب کچھ پتہ تھا۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ ۲۰۱۳ء بمقا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۲؍مارچ۲۰۱۳ء)
حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں الجزائر کے نَواحمدیوں کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے اُن کی قربانیوں اور اسلام سے اُن کی محبت کے حوالے سے فرمایا: ’’الجزائر کے احمدیوں کے لئے آخر میں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ یہ نئی جماعت ہے۔ اکثریت ان میں سے نومبائعین کی ہے لیکن بڑے مضبوط ایمان والے ہیں۔آجکل حکومت کی طرف سے بڑی سختی ہو رہی ہے۔ بلا وجہ مقدمے قائم کئے جا رہے ہیں۔ بعض کو جیل میں بھیج دیا گیا ہے۔ … پولیس نے بعض دفعہ بعض گھروں میں گھس کر عورتوں کی بے پردگی کرنے کی کوشش کی۔مثلاً چند دن ہوئے ایک عورت سے کہا کہ اپنا دوپٹہ اتارو۔ اس نے کہا مجھے جان سے ماردو مَیں دوپٹہ نہیں اتاروں گی اور نہ میں احمدیت چھوڑوں گی۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۷ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍فروری ۲۰۱۷ء)
بعض اوقات یہ سوال سامنے آتا ہے کہ چہرے کا پردہ کیوں ضروری ہے تو اس کے متعلق بھی خلفائے کرام کے ارشادات سے راہنمائی ملتی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ماتھے سے لے کر ناک تک کا پردہ ہوپھر چادر سامنے گرد ن سے نیچے آرہی ہو۔ اسی طرح بال بھی نظر نہیں آنے چاہئیں۔سکارف یا چادر جو بھی چیز عورت اوڑھے وہ پیچھے سے بھی اتنی لمبی ہو کہ بال وغیرہ چُھپ جاتے ہوں۔ اِلَّامَاظَھَرَ مِنْھَا یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو۔ اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ تفسیرکبیر میںفرماتے ہیں کہ اِلَّامَاظَھَرَ مِنْھَا یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو۔یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہو شریعت نے صرف اس کوجائز رکھا ہے۔ یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے اس کا ظاہر کرنا اس کے لیے جائز ہو۔میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال۔ لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں۔ چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کردیا جائے۔
پھرفرمایاکہ اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کے لیے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا۔ اور پردہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لیے اور ضروریاتِ معیشت کے لیے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پردے کے حکم میں ہی شامل ہے۔ …لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اُس پر اس اجازت کا اطلاق نہ ہوگا۔ غرض اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے ننگا کیا جاسکتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ۲۹۸-۲۹۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ’’چہرے کا پردہ کیوں ضروری ہے‘‘ ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’زینت ظاہر نہ کرو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جیسا کہ عورتوں کوحکم ہے میک اَپ وغیرہ کرکے باہر نہ پھریں۔باقی قد کاٹھ، ہاتھ پیر، چلنا پھرنا، جب باہر نکلیں گے تو نظر آ ہی جائے گا۔ یہ زینت کے زمرے میں اس طرح نہیں آتے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے لئےا س طرح کی قید نہیں رکھی۔ تو فرمایا کہ جو خود بخود ظاہر ہوتی ہواس کے علاوہ باقی چہرے کا پردہ ہونا چاہئے اور یہی اسلام کا حکم ہے۔تو اس تفصیل سے پردے کی حد کی بھی کافی حد تک وضاحت ہوگئی کہ کیا حد ہے۔ چہرہ چھپانے کا بہرحال حکم ہے۔ اس حد تک چہر ہ چھپایا جائے کہ بےشک ناک ننگا ہو اور آنکھیں ننگی ہوں تاکہ دیکھ بھی سکے اور سانس بھی لے سکے۔‘‘
نیز فرمایا: ’’اس بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓ نے احادیث سے یہ دلیل دی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے ایک صحابی کواس لڑکی کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا جس کا رشتہ آیا تھا۔ اس کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا تاکہ دیکھ کر آئیں۔ اگر چہرہ کا پردہ نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ پھر تو ہر ایک نے شکل دیکھی ہوتی۔پھر دوسری مرتبہ یہ واقعہ حدیث میں بیان ہوتاہے کہ جب ایک لڑکے کو آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ تم فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ اگر نہیں دیکھا تو جا کر دیکھ آؤ۔ کیونکہ پردے کا حکم تھا بہرحال دیکھا نہیں ہوگا۔تو جب وہ اس کے گھرگیا اور لڑکی کو دیکھنے کی خواہش کی تو اس کے باپ نے کہا کہ نہیں اسلام میں پردے کا حکم ہے اور مَیں تمہیں لڑکی نہیں دکھا سکتا۔ پھر اس نے آنحضرتﷺ کا حوالہ دیا تب بھی وہ نہ مانا۔ بہرحال ہر ایک کی اپنی ایمان کی حالت ہوتی ہے۔اسلام کے اس حکم پر اس کی زیادہ سختی تھی بجائے اس کے کہ آنحضرتﷺ کے حکم کو موقعہ محل کے مطابق تسلیم کرتا اور مانتا۔ تو لڑکی جواندر بیٹھی یہ باتیں سن رہی تھی وہ باہر نکل آئی کہ اگر آنحضرتﷺ کا حکم ہے تو پھر ٹھیک ہے میرا چہرہ دیکھ لو۔
تو اگر چہرہ کے پردہ کا حکم نہیں تھاتو حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ پھرآنحضرتﷺ نے یہ کیوں فرمایا۔ ہر ایک کو پتہ ہوتاکہ فلاں لڑکی کی یہ شکل ہے اور فلاں کی فلاں شکل۔
اسی طرح ایک موقع پر آنحضرتﷺ اعتکاف میں تھے۔رات کو حضرت صفیہ ؓکو چھوڑنے جا رہے تھے تو سامنے سے دو آدمی آرہے تھے۔ ان کو دیکھ کر آنحضرتﷺ نے فرمایا گھونگھٹ اٹھا ؤ اور فرمایا دیکھ لو یہ میری بیوی صفیہ ہی ہے۔ کوئی شیطان تم پرحملہ نہ کرے اور غلط الزام لگانا نہ شروع کردو۔ تو چہرے کا پردہ بہرحال ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍جنوری۲۰۰۴ء)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اسلامی تعلیم کے مطابق پردہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی تو فیق دےتاکہ اپنے پیارے امام کے لیے باعثِ خوشی ثابت ہوں۔آمین یا رب العالمین