خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت قدمی، جرأت اور بہادری کاتذکرہ۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۹؍دسمبر۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

آج بھی جنگ اُحدکی کچھ مزید تفصیلات بیان کروں گا۔جیسا کہ ذکر ہوا تھا درّہ خالی کرنے کی وجہ سے کفار نے پیچھے سے حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ پلٹا۔ دشمن کا حملہ انتہائی خوفناک تھا۔اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت قدمی، جرأت اور بہادری کے نمونے کے بارے میں لکھا ہے کہ جب لڑائی کا پانسا پلٹنےکےبعدصحابہ بدحواسی میں اپنےآپ کو سنبھال نہ سکے اور افرا تفری کا شکار ہو گئے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس افرا تفری اور اپنے چاروں طرف دشمنوں کےجمگھٹے کے باوجود اپنی جگہ ثابت قدم رہے۔صحابہ ؓکوگھبراہٹ میں ادھر اُدھر بھاگتے دیکھ کر اُنہیں پکارتے ہوئےفرماتے جاتے تھےاے فلاں! میری طرف آؤ،اے فلاں! میری طرف آؤ، میں خدا کا رسولؐ ہوں جبکہ ہر طرف سے آپؐ پر تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔

ایک روایت میں ہے کہ آپؐ بلند آواز میں فرما رہے تھےکہ

اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ اَنَا ابْنُ الْعَوَاتِکْ

میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں میں عواتک یعنی عاتکاؤں کا بیٹا ہوں۔

عام طور پر یہ ہے کہ یہ کلمات آپؐ نے غزوہ حنین میں فرمائے تھےلیکن بہرحال بعید نہیں کہ یہی کلمات آپؐ نے اُحد میں بھی فرمائے ہوں۔عواتک عاتکہ کی جمع ہے اور عاتکہ نام کی ایک سے زائد خواتین تھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نانیاں اور دادیاں تھیں۔

اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ جب عبداللہ بن جبیرؓ کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب توفتح ہو چکی ہے تو انہوں نے اپنے امیر عبداللہؓ سے کہا کہ ہم کو اجازت دیں کہ ہم بھی لشکر کےساتھ شامل ہو جائیں۔ عبداللہؓ نے انہیں روکا لیکن یہ لوگ یہ کہتے ہوئے نیچے اتر گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مطلب تھا کہ جب تک پورا اطمینان نہ ہو تودرّہ خالی نہ چھوڑا جاوے۔ خالد بن ولیدنےدرّہ کی طرف میدان صاف پایا جس پر اُس نے اپنے سواروں اور عکرمہ بن ابوجہل کے دستے کو ساتھ لے کر عبداللہ بن جبیرؓ اوراُن کے چند ساتھیوں کوآن کی آن میں شہید کر کے اسلامی لشکرکے عقب میں اچانک حملہ کردیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوایک بلند جگہ پر کھڑےیہ سب نظارہ دیکھ رہے تھے مسلمانوں کو آواز پر آواز دی مگر اس شور شرابے میں آپؐ کی آواز دب کر رہ جاتی تھی۔

مسلمان اس ناگہانی حملے سے گھبرا گئے حتیٰ کہ اس بدحواسی میں ایک دوسرے پر وار کرنے لگ گئے اور اپنے پرائے میں امتیاز نہ رہا۔

حذیفہؓ کے والدیمان کوبھی غلطی سے شہید کردیا۔ا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں مسلمانوں کی طرف سے یمان کا خون بہا ادا کرنا چاہا مگر حذیفہؓ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اپنے باپ کا خون مسلمانوں کو معاف کرتا ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسورۃ النور کی آیت ۶۴ کی تفسیر میں اس بابت فرماتے ہیں کہ

جو لوگ اس رسولؐ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اُنہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہیں اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے۔

چنانچہ دیکھ لو کہ جنگ اُحد میں اسی حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو کتنا نقصان پہنچا۔ کفار پرفتح کے بعد ایک عارضی شکست کا چرکہ اس لیے لگا کہ چند آدمیوں نے آپؐ کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی تھی اور آپؐ کی ہدایت کے برخلاف اپنے اجتہاد سے کام لینا شروع کر دیا تھا۔

اگر وہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکت قلب کے پیچھے چلتی ہے،اگر وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کے نتیجے میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں کہ وہ ایک بے حقیقت شے ہے، اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اس پہاڑی درّے کو نہ چھوڑتے تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع ملتا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کو کوئی نقصان پہنچتا۔

پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے حکم عدولی کی تو نقصان اُٹھایا یہ اُس کا نتیجہ تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے سورت کوثر کی تفسیر میں بھی اس واقعہ کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت قدمی کے بارے میں مقداد بن عمروؓ نے اُحد کے دن کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ کی قسم!مشرکین نے قتل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زخم پہنچائے۔

سن لو اُس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے !آپؐ ایک بالشت بھی پیچھے نہیں ہٹے اور وہ دشمن کے مد مقابل رہے۔

ایک روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ ثابت قدم رہےاور دشمن کے دُو بدو مقابلہ کرتے رہے اور اپنی کمان سےاُن پر تِیر برساتے رہے یہاں تک کہ تِیر ختم ہو گئے تو کمان قتادہ بن نعمان ؓنے لے لی اور وہ کمان ہمیشہ ان کے پاس رہی۔

نافع بن جبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے مہاجرین میں سے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اُحد میں ہر جانب سے تِیر آ رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان میں ہیں سارے تِیر آپؐ سے دُور ہو جاتے تھے۔

عبداللہ بن شہاب زہری نے کہاکہ آپؐ ہم سے محفوظ کر دیے گئے۔اللہ کی قسم! ہم چار لوگ مکہ سے نکلے تھےاور اُن کے قتل پر عہد و پیمان کیے لیکن ہم اُن تک نہیں پہنچ سکے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ایک عجیب نمونہ ہے۔ایک پہلو سے ساری زندگی ہی تکلیفات میں گزری۔ جنگ اُحد میں آپ اکیلے ہی تھے۔ ایسے دشمن میں گھرے ہوئے تھے تب بھی آپ نے یہ نہیں چھپایا کہ مَیں نہیں ہوں بلکہ اعلان کر دیا،پتا لگ گیا لوگوں کو۔

جنگ اُحد میں آپؐ اکیلے رہ گئے اس میں یہی بھید تھا کہ آپؐ کی شجاعت لوگوں پر ظاہر ہوجبکہ آپؐ دس ہزار کے مقابلے میں اکیلے کھڑے ہوگئےکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ؐہوں۔ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقع نہیں ملا۔

حضور انور نے فرمایا کہ اُحد میں تو تین ہزار کی تعداد تھی کیونکہ لکھنے والے نے لکھا ہے ہوسکتا ہے کہ آپؑ نے دو جنگوں کا ذکر کیا ہو۔جنگ احزاب میں بھی دس ہزار کفار تھے اور دوسری جگہوں میں بھی دشمنوں کی کافی تعداد تھی تو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپؐ کی بہادری اور آپؐ کا نمونہ ثابت فرما رہے ہیں کہ کفار کے سامنے بھی آپؐ اکیلے کھڑے ہو گئے۔

پھرآپؑ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ قادر ہے کہ جس شے میں چاہے طاقت بھر دے۔پس اپنے دیدار والی طاقت اس نے اپنی گفتار میں بھر دی ہے۔ انبیاء نے اسی گفتار پر تو اپنی جانیں دے دیں۔ کیا کوئی مجازی عاشق اس طرح کر سکتا ہے ؟ اس گفتار کی وجہ سے کوئی نبی اس میدان میں قدم رکھ کر پھر پیچھے نہیں ہٹا اور نہ کوئی نبی کبھی بے وفا ہوا ہے یعنی جو دعویٰ کیا ہے تو دعوے پر قائم رہتے ہیں۔

جنگ اُحد کے واقعہ کی نسبت لوگوں نے تاویلیں کی ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی اُس وقت جلالی تجلّی تھی اور سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اَور کسی کو برداشت کی طاقت نہ تھی۔اس لیے آپؐ وہاں ہی کھڑے رہے اور باقی اصحاب کا قدم اکھڑ گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جیسے اس صدق و صفا کی نظیر نہیں ملتی جو آپ کو خدا سے تھا ایسا ہی اِن الٰہی تائیدات کی نظیر بھی کہیں نہیں ملتی جوآپؐ کے شامل حال تھیں۔

حضور انور نے خطبہ کے آخر میں بعض مرحومین کا ذکر خیر فرمایا۔

سب سے پہلے ایک دیرینہ خادم و مبلغ سلسلہ مکرم ڈاکٹر جلال شمس صاحب انچارج ٹرکش ڈیسک کی وفات پر ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا جنازہ کل پڑھادیا تھا آج ان کے بارے میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔یہ قابل، لائق،سادہ اور وفادار واقف زندگی تھے۔ جرمنی اور برطانیہ میں آپ کو خدمات کی توفیق ملی۔۲۰۰۲ء میں ترکی میں آ پ کو دو ساتھیوں کے ساتھ تبلیغ کے جرم میں ساڑھے چار ماہ کی اسیری کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔

حضور انور نے دیگر تین مرحومین کا ذکر خیر فرمایا اور ان کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ ان میں مکرم محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے ۱۰۶؍سال کی عمر پائی۔بڑے پیار اور محبت کرنے والے تھے۔مَیں بھی ان کا شاگرد رہا ہوں۔ان کی سختی میں ہمدردی اور اصلاح کی غرض ہوتی تھی۔

پھرگھانا کے یوسف اجارے صاحب کا ذکر فرمایا کہ بڑے مخلص احمدی دوست تھے۔ مختلف جماعتی عہدوں پر فائز رہے اور خدمات کی توفیق پائی۔

پھر الحاج عثمان بن آدم صاحب کا ذکر فرمایا۔مرحوم وصیت کے نظام سے منسلک تھےاور نہایت مخلص احمدی تھے۔ حج کی سعادت بھی پائی اور قرآن کریم کے فانٹی زبان کے ترجمہ میں بھی ان کا بڑا کردار ہے۔

حضور انور نے مرحومین کو مغفرت کی دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں کوبھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button