حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ پنجم)

حضور انور کی ایک نو بیاہتا جوڑے کو راہنمائی

میری ملاقات ایک نوجوان خادم سفیر لون صاحب اور ان کی اہلیہ شا زین مبشر صاحبہ سے ہوئی۔ حال ہی میں ان کی شادی ہوئی تھی۔ حضور انور سے زندگی میں پہلی مرتبہ ملنے پر شازین صاحبہ نے بتایا کہ جب میں حضور انور کے دفتر میں داخل ہوئی تومیں آنسوؤں کو روک نہ سکی ۔میں جذبات سے مغلوب تھی مگر ساتھ ساتھ وہ لمحات میری زندگی میں نہایت امن اور اطمینان بخش تھے ۔ جب ہم بیٹھ گئے تو حضور انور نے دیکھا کہ میں رو رہی ہوں تو آپ نے نہایت شفقت سے مجھے ایک ٹشو پیپر عنایت فرمایا تاکہ میں اپنے آنسو صاف کر سکوں۔ حضور انور نے وہ شہد بھی دیکھا جو میں آپ سے تبرک کروانےکے لیے لائی تھی اور تبسم کرتے ہوئے فرمایاکہ شہد کو ٹیبل پر رکھ دو قبل اس کے کہ تمہارے آنسو اس میں گر جائیں۔جونہی حضور انور نے یہ فرمایا تو میں ہنس پڑی اور اپنے جذبات پر قابو پانے کے قابل ہو گئی۔

ملاقات کے دوران سفیر صاحب نے حضور انور سے ایک خوشحال ازدواجی زندگی کے لیے نصیحت کی درخواست کی۔ جواب میں حضور انور نے فرمایاکہ یاد رکھو تم دونوں میں سے کوئی بھی perfectنہیں ہے۔دونوں میں کمزوریاں ہیں اس لیے تم دونوں کو ایک دوسرے کی کمزوریوں سے صَرفِ نظر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کی بجائے ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھو۔

اس جوڑے نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حضور انور سے اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست کی کہ آیا وہ فوراًہی بچہ پیدا کر لیں یا انتظار کریں کیونکہ شازین صاحبہ ابھی پڑھائی کررہی تھیں۔اس کےجواب میں حضور انور نے فرمایاکہ آپ کو صرف اس لیے انتظار نہیں کرنا چاہیےکہ آپ پڑھائی کر رہی ہیں۔اگر آپ حاملہ ہو جاتی ہیں تو پھر بھی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہیں۔جب بھی آپ کے ہاں اولاد ہو گی تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوگی اس لیے جان بوجھ کر اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

ایک مخالف کی خامی تلاش کرنے کی کوشش

اس دن مرکزی عربی ڈیسک میں خدمت کی توفیق پانے والے طاہر ندیم صاحب نے مجھے ایک شامی غیراحمدی مہمان کے تاثرات کے بارے میں بتایا جنہوں نے پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کی تھی۔اس شامی مہمان نے ندیم صاحب کو بتایا کہ میں اس جلسہ میں جماعت احمدیہ کے ایک مخالف کے طور پر شامل ہوا تاکہ ان کی خامیاں نکال سکوں اور بعد ازاں ان خامیوں کا چرچا بھی کر سکوں۔میں نے پوری کوشش کی کہ انتظامیہ سے غلطیاں کروا سکوں۔ مثال کے طور پر میں نے اپنا موبائل فون ایک میز پر رکھ دیا اور سارا دن اس کو وہیں رہنے دیا اس خیال سے کہ وہ چوری ہو جائے گا اورمیں کہہ سکوں گا کہ احمدی چور ہیں۔تاہم جب میں سارے دن کے بعد واپس آیا تو میں حیران رہ گیا کہ وہ فون وہیں پڑا تھا جہاں میں نے اسے چھوڑا تھا۔

اس مہمان نے مزید بتایا کہ دورانِ جلسہ میری بھرپور کوششوں کے باوجود مجھے کوئی ایک بھی خامی یا کوئی ایسی بات نہ مل سکی جسے میں آپ کی جماعت کے خلاف استعمال کر سکتا۔ بالآخر مجھے مجبور ہو کر اقرار کرنا پڑ رہا ہے کہ احمدی سچے اور مخلص لوگ ہیں۔

ایک خادم کے جذبات

۷؍ستمبر ۲۰۱۶ء کی صبح جس دوران حضور انور درجنوں احمدی فیملیز کو ملاقات کا شرف بخش رہے تھے، میں نے کچھ لمحات لقمان باجوہ صاحب (عمر۲۷؍سال) کے ساتھ گزارے جو جرمنی کی خدام کی حفاظتِ خاص ٹیم کے ایک ممبر ہیں۔ لقمان صاحب حضور انور کے جرمنی میں قیام کے دوران مسجد میں ہی رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ دسمبر۲۰۱۱ءمیں پاکستان سے جرمنی آئے تھے اور آغاز میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جرمن زبان نہیں جانتے تھے۔ اگرچہ اب وہ اچھی جرمن بول لیتے ہیں پھر بھی انہیں اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق نوکری نہیں مل سکی اس لیے مالی سہولت فراہم کرنے کے لیے وہ مزدوری کر رہے ہیں۔اس حوالے سے موصوف نے بتایا کہ میں اس وقت ہفتے میں چھ راتیں کام کرتا ہوں اور میری شفٹ رات دس یا گیارہ بجے شروع ہوتی ہے اور صبح نو یا دس بجے تک چلتی ہے، جس کے دوران کوئی وقفہ نہیں ہوتا۔ میرا کام بھاری وزن اٹھانے کا ہے جہاں بحری جہاز کے ذریعے ترسیل کیے جانے والے سامان کی کھیپ پہنچتی ہے اور میرا کام یہ ہے کہ جو کچھ آتا ہے اسے اتاروں اور ترتیب سے لگاؤں۔ بہت ساسامان کافی بھاری ہوتا ہے اور یوں یہ کمر توڑ دینے والا کام ہے اور اپنی شفٹ کے اختتام پر میں جسمانی طور پر چکنا چُور ہو جاتا ہوں ۔

موصوف نے مزید بتایا کہ جب میں نے یہ کام شروع کیا تو جن کے پاس میں کام کرتا ہوں ان سے صرف یہ مطالبہ کیا تھا کہ مجھے جلسہ سالانہ جرمنی پر چھٹی چاہیے یا کسی بھی ایسے وقت میں جب حضور انور جرمنی تشریف لائیں۔ ابتدا میں وہ خوش نہیں تھے اور انہوں نے اس وجہ سے مجھے دو دفعہ نوکری سے بھی نکال دیا۔تاہم وہ جانتے تھے کہ میں ایماندار اور محنتی ہوں اس لیے انہوں نے مجھے واپس (کام پر )بلا لیا اور اب میری شرائط مان لی ہیں۔ مجھے صرف اس ٹریننگ کی وجہ سے ایک ایماندار آدمی کے طور پر جانا جاتا ہے جو میں نے جماعتی خدمات اور خدام الاحمدیہ کی ڈیوٹیوں کے دوران حاصل کی ہے۔

ہماری گفتگو کے اختتام پر لقمان صاحب نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ میں وقفِ نو ہوں اس لیے یہ میرا خواب ہے کہ میں اپنے عہد کو پورا کروں اور ہر وقت جماعت کی خدمت کروں۔ میں جانتا ہوں کہ جماعت مجھے کہیں بھی بھجوا سکتی ہے لیکن یہ میری دلی خواہش ہے کہ حضور انور کی سیکیورٹی ٹیم کا مستقل ممبر بن سکوں ۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے وقف کے حوالے سے ایک فارم فِل کیا تھا اور جماعت نے مجھے انٹرویو کے لیے بھی بلایا تھا جس میں خاکسار کامیاب ہو گیا تھا۔ گذشتہ سال احمد صاحب نے جرمنی کے خدام کی سیکیورٹی ٹیم کی جسمانی حالت کا ایک ٹیسٹ بھی لیا تھا جس میں خاکسار اوّل رہا تھا۔میں نہیں جانتا کہ کب مجھے اس بابرکت ڈیوٹی کے لیے بلایا جائے گا لیکن ہر دن میں اس پیغام کے حصول کے لیے دعا کرتا ہوں۔ بہرحال میں جانتا ہوں کہ میرا پہلا امتحان یہ ہے کہ میں بے صبری نہ دکھاؤں۔

چند بابرکت لمحات

حضور انور نے خاکسار سے استفسار فرمایا کہ میں کیسا ہوں اور حال میں میری کس کس سے ملاقات ہوئی ہے؟

میں نے عرض کی کہ بعض احباب نے خاکسار سے پوچھا ہے کہ دورے کے ابتدا میں دورانِ سائیکلنگ محمود خان صاحب کے زخمی ہونے پر حضور انور کا کیا ردّ عمل تھا؟ ایک احمدی نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا اس حادثہ سے قافلہ میں کوئی پریشانی پھیلی ہے؟

یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے فرمایاکہ ہم پریشان کیوں ہوں گے ؟ ہاں! خان صاحب کو کچھ چوٹیں آئی ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک واقعہ پیش آ سکتا تھا اور پوری دنیا میں ہر روز اس سے زیادہ سنجیدہ نوعیت کے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ جب آپ دعا کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا پر مکمل بھروسا ہے۔

بعد ازاں حضورانور نے عمومی طور پر سائیکلنگ کے حوالے سے فرمایاکہ مجھے یاد ہے پاکستان میں لوگ ہائی وے پر سائیکلنگ کرتے تھے اور دیسی سٹائل میں بڑی گاڑیوں کے درمیان چلے جاتے تھے۔ مَیں بھی سائیکلنگ کرتا تھا ۔ہم نے گذشتہ سال ہالینڈ میں بھی سائیکلنگ کی تھی اور اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

خاکسار نے یہ بھی عرض کی کہ مجھے حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ ایک نوجوان جو پیدائشی احمدی تھااوراحمدی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن بعد میں جماعت سے علیحدگی اختیار کرگیا،اس کو کینسر ہو گیا ہے۔احمدیت چھوڑنے کے بعد اس نے جماعت کے خلاف بہت بولنا شروع کر دیا اس لیے بعض احمدیوں کا خیال ہے کہ ان کی بیماری شاید خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر ہو۔

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ہم کبھی بھی کسی کی بیماری پر خوش نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ہم اسے خدا تعالیٰ کا نشان قرار دے سکتےہیں۔ ایسا صرف باقاعدہ مباہلہ کے چیلنج کی صورت میں کیاجا سکتا ہے۔تاہم یہاں ایسا معاملہ نہیں تھا اس لیے اس کی بیماری کو اس کے لیے صرف ایک حادثہ قرار دیا جاسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کو شفائے کاملہ وعاجلہ عطا فرمائے۔

بعد ازاں حضورانور نے اپنے دورۂ جرمنی کے حوالے سے جو اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا ذکر فرمایا کہ الحمدللہ، اس دورے کے سارے بڑے پروگرام بخیر و خوبی منعقد ہو گئےہیں۔

(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت :مظفرہ ثروت)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button